مادر جمہوریت بیگم نصرت بھٹو پہلا حصہ

بھٹو خاندان نے اپنی جانوں کا نذرانہ دے کر جمہوریت اور قوم کو سراٹھانے کا سبق دیا


لیاقت راجپر November 27, 2015

KARACHI: بھٹو خاندان نے اپنی جانوں کا نذرانہ دے کر جمہوریت اور قوم کو سراٹھانے کا سبق دیا۔ اس قربانی میں ذوالفقارعلی بھٹو، شاہنواز اور مرتضیٰ بھٹو، بے نظیر بھٹو اور نصرت بھٹو شامل ہیں۔ نصرت بھٹو نے کبھی سوچا بھی نہیں ہوگا کہ انھیں کرب وجدائی کی ایسی کیفیت سے گزرنا ہوگا کہ جس میں اس کے خاندان کا ایک، ایک فرد داغ مفارقت دیتا جائے گا اور آخر میں ایک طویل عرصہ بستر علالت پر کوما کی حالات میں گزارنا ہوگا۔

نصرت بھٹو کا تعلق ایران کے شہر اصفہان سے تھا، والد بیوپار کے سلسلے میں ہندوستان چلے آئے اورایک صابن کا کارخانہ لگایا۔ نصرت اپنی بہنوں میں تیسرے نمبر پر تھیں اور 14برس کے طویل وقفے کے بعد پیدا ہوئی، یوں نصرت کی دوسری بہنیں ان سے عمر میں کافی بڑی تھیں ۔ نصرت کے بعد گھر میں ایک بیٹا پیدا ہوا جس کی وجہ سے نصرت کو بڑی بھاگ والی کہا جاتا تھا۔ وہ 23 مارچ 1929 کو پیدا ہوئی تھیں۔ کہتے ہیں کہ جوڑے آسمان پر بنتے ہیں جس کی کئی مثالیں موجود ہیں جس میں نصرت اور بھٹو کی شادی بھی ایک ہے۔ بھٹوکے والد شاہنواز بھٹو جوناگڑھ کے وزیر اعظم تھے۔فیملی اس لیے وہاں آتی جاتی رہتی تھی۔ ایک مرتبہ کھنڈالا کے ایک تفریحی مقام پر نصرت اور بھٹو کی فیملی کی ملاقات ہوئی جہاں پر بھٹو بھی آئے ہوئے تھے۔ اس طرح سے نصرت کی دوستی بھٹوکی بہن منور اسلام سے ہوگئی، دونوں خاندانوں کی ملاقاتیں جاری رہیں۔ کئی مرتبہ بھٹو نے نصرت کو دیکھا اور پھر اسے پسند کیا۔

نصرت کا کہنا تھا کہ ویسے توکئی لڑکے اس نے دیکھے تھے مگر جو شائستگی اور اخلاق بھٹو میں انھیں نظر آیا ایسا کسی میں نہیں دیکھا۔ بھٹو بڑے پرکشش، جاذب نظر تھے۔ بھٹو کی انھیں ایک اور خوبی اچھی لگی وہ یہ تھی کہ انھوں نے شادی کے لیے ان سے اظہار خود نہیں کیا بلکہ خاندان کے ذریعے شادی کا پیغام بھجوایا۔ بمبئی میں حالات سازگار نہ ہونے کی وجہ سے ان کے والد نے اپنا بزنس کراچی شفٹ کرلیا۔ شادی میں ایک رکاوٹ یہ تھی کہ اصفہان کی کرد فیملی کے لوگ سندھی بھٹو خاندان سے رشتہ کیسے جوڑیں لیکن آخرکار نصرت اور زلفی کی شادی کراچی میں 8 ستمبر 1951 میں ہوگئی ۔ جب نصرت کو یہ معلوم ہوا کہ بھٹو پہلے سے شادی شدہ ہیں تو وہ کافی ناراض اور غمگین ہوئیں۔ مگر بھٹو نے خود پہلے نصرت کو اور اس کے خاندان کو یہ کہہ کر مطمئن کردیا کہ ان کی پہلی شادی ایک سمجھوتہ تھی جس سے خاندان جڑا رہے گا۔

نصرت بھٹو اور اس کے خاندان کے لیے ایک بات سرپرائزنگ یہ بھی تھی کہ بھٹو کی پہلی بیوی شیریں امیر بیگم کے والد احمد خان بھٹو نیجو ذوالفقارعلی بھٹوکے چچا بھی تھے، نصرت اور بھٹو کی شادی کے بعد کراچی کے ایک بڑے ہوٹل میں شاندار دعوت کا اہتمام کیا تھا۔

نصرت کے خاندان کے لوگ مذہبی تھے اس لیے جب نصرت صاحبہ بڑی ہوگئی تو اسے کہا گیا کہ وہ برقعہ پہن کر کالج جائیں۔ نصرت نے برقعے کی وجہ سے مزید تعلیم حاصل نہیں کی اور صرف سینئر کیمبرج کا امتحان پاس کیا ، پاکستان گارڈز میں کیپٹن کے عہدے کے برابر جاب کی تھی جو شادی کے بعد انھیں چھوڑنی پڑی۔ بھٹو سے شادی کے بعد بھی شاہنواز بھٹو نے انھیں کہا کہ جب وہ لاڑکانہ جائیں تو برقعہ ضرور پہنیں۔ جب شاہنواز بھٹو کا انتقال ہوگیا اور بھٹو اسکندر مرزا کی کیبنٹ میں وزیر بنے تو انھوں نے نصرت کا برقعہ پہننا بندکرا دیا۔ نصرت اپنی سہیلی شیریں امیر بیگم کو اپنی بہن کہتی تھیں اور جب بھی ملک سے باہر جاتیں تو واپسی پر امیربیگم کے لیے اچھے اچھے تحفے لاتی تھیں۔ دونوں سہیلیوں میں بڑی انڈراسٹینڈنگ تھی جس کی وجہ سے کبھی کوئی گھریلو مسئلہ پیدا نہیں ہوا۔

نصرت بھٹو کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ اس کے سسر وزیراعظم تھے، پھر شوہر وزیر اعظم بنے اور آخر میں ان کی صاحبزادی محترمہ بے نظیر بھٹو بھی وزیر اعظم بن گئی تھیں۔ اس کے علاوہ نصرت چار مرتبہ لاڑکانہ سے ایم این اے منتخب ہوئیں۔ انھوں نے 1993, 1990, 1988, 1977 کے الیکشنز میں یہ اعزاز پایا۔وہ بے نظیر بھٹو کے پہلے دور اقتدار میں ڈپٹی پرائم منسٹر رہیں۔ انھیں یہ بھی تاریخی اعزازات حاصل ہیں کہ وہ پاکستان کی فرسٹ لیڈی رہیں، انھیں مادر جمہوریت، زندہ شہید، شہیدوں کی ماں کے خطاب ملے۔ انھیں ستارہ ہلال سے بھی نوازا گیا جس کی وہ اہل تھیں۔

1973 میں انھوں نے پاکستان پیپلز پارٹی میں لیبر ونگ قائم کرنے میں بڑا کردار ادا کیا اور عورتوں میں سیاسی شعور پیدا کرنے کے لیے ٹرین مارچ کیا اور پاکستان کے کونے کونے میں جاکر عورتوں سے ملاقات کی اور انھیں ان کے حقوق کے بارے میں بتایا۔اس کے علاوہ UNO کے ایک اجلاس میں جو عورتوں کے حقوق اور تحفظ کے لیے بلایا گیا تھا اس میں پاکستان کی نہ صرف نمایندگی کی بلکہ دنیا کو بتایا کہ اسلام اور پاکستان میں عورتوں کے لیے سارے حقوق موجود ہیں جن پر عمل کروانے کے لیے ان کی حکومت کوشش کررہی ہے۔ انھوں نے لاڑکانہ سے مشرق وسطیٰ کی طرف سے پی آئی اے کی فلائٹس کا افتتاح کیا اورکمپیوٹرائزڈ ٹکٹ سسٹم کا بھی افتتاح کیا تھا جو لاڑکانہ کے شہریوں کے لیے بڑی سہولت تھی۔

انھوں نے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ ایک واقعہ نہایت عجیب تھا وہ یہ کہ بھٹو شادی کے بعد اپنی پڑھائی امریکا میں جاری رکھنے کے لیے جب وہاں گئے تو انھیں بھی ساتھ لے گئے۔ اب مسئلہ یہ تھا کہ بھٹو نصرت کو ہاسٹل میں نہیں رکھ سکتے تھے، اس لیے انھوں نے انھیں ایک ہوٹل میں ٹھہرایا۔ بھٹو شام کو نصرت کے پاس ہوٹل میں آتے پھر وہ کہیں نہ کہیں گھومنے جاتے تھے۔ایک مرتبہ رات کافی ہوگئی اور بھٹو ہاسٹل نہیں جاسکے۔ رات کو ہاسٹل سے باہر رہنا ممنوع بھی تھا اور جرم بھی جس کی سزا ہوتی تھی۔ اب دوسرے دن جب بھٹو نے ہاسٹل کے ڈین کو بتایا کہ ان کی شادی ہوچکی ہے اور وہ اپنی بیوی کو امریکا لے آئے ہیں اور انھیں ہوٹل میں رکھا ہے۔ دیر ہونے کی وجہ سے وہ ہاسٹل نہیں آسکے۔ ڈین کو یقین نہیں آیا کہ اتنی چھوٹی عمر میں انھوں نے شادی کی ہے۔ جب بھٹو نصرت کو ڈین سے ملوانے گئے تو انھوں نے بھٹوکی سزا معاف کردی۔

ا ن کی زندگی کی بہت ساری تلخ اور شیریں یادیں ہیں، جو انھوں نے کئی مرتبہ لوگوں سے شیئر کی ہیں، جس میں ایک تو یہ ہے کہ شادی کی 25 ویں سالگرہ کے موقعے پر ایک ہیرے کی انگوٹھی دی تھی جو ان کے خاندان کی خاص نشانی تھی۔ دوسری جب اسے بے نظیر بھٹو پیدا ہوئی تھیں جس کے چہرے کو وہ پوری رات تکتی رہی تھیں۔ ان کا کہنا تھا جب انھوں نے بے بی کو اپنی بانہوں میں اٹھایا تو اس کی خوشی کا کوئی اندازہ نہیں تھا۔ بے بی کے گھنگھریالے بال، چھوٹی لمبی انگلیاں، گورا گلابی رنگ جسے وہ کئی دن تک دیکھتی رہتی تھیں۔ خود بھٹو نے جب بے نظیر کو اپنے ہاتھوں میں اٹھایا تو وہ خوشی سے کانپ بھی رہے تھے اور شرما بھی رہے تھے اور اس کی آنکھوں میں سمندر جیسی گہری خوشی چمک رہی تھی۔

بھٹو کی فیملی کراچی میں پہلے کلفٹن برج کے برابر میک نیل روڈ پر رہتے تھے اور بعد میں پھر وہ 70 کلفٹن شفٹ ہوگئے۔زندگی کی تلخیوں میں بہت اور بے انداز واقعات اور حادثے ہیں جس نے نصرت بھٹوکی زندگی کو چلتی پھرتی لاش بنا دیا۔سب سے پہلے بھٹوکی شہادت، پھر انھیں اور بے نظیر بھٹو کو جیلوں میں تنہا قید میں رکھا گیا، اس کے ساتھ کبھی ہاؤس اریسٹ، کبھی لاٹھی چارج اور کبھی اس کے بیٹے شاہنواز کو زہر دے کر مارا گیا جس کی لاش کو اسے دیکھنا پڑا، اس کے بعد مرتضیٰ بھٹو کو گھر کے سامنے قتل کیا گیا۔ میں نے خود نصرت بھٹو کو دیکھا کہ وہ دوپٹے اور پاؤں میں جوتی کے بغیر لاڑکانہ کی گلیوں میں اپنے بیٹے مرتضیٰ بھٹو کو لاڑکانہ سے ایم پی اے بنانے کے لیے گھر گھر جاکر ووٹ مانگ رہی تھیں۔

(جاری ہے)

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں