بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے

anisbaqar@hotmail.com

ISLAMABAD:
انسانی خیالات کوئی جامد شے نہیں جو یکساں رہیں گے۔ حالات و واقعات اقتصادی ترقی یا تنزلی کے علاوہ سماجی سائنسدانوں، رہبروں کے خیالات کے ساتھ بدلتے رہیں گے۔ آپ کو یاد ہو گا یا آپ نے تاریخ کے صفحات میں پڑھا ہو گا کہ برصغیر کی آزادی کے ساتھ رہبران ملت نے کسی فساد اور مارپیٹ کے بغیر پنڈت نہرو اور قائد اعظم نے تقسیم ہند کی دستاویزات پر دستخط کر دیے تا کہ برصغیر میں امن ہو جائے اور بہ یک جنبش قلم برصغیر تقسیم ہو گیا۔ تقسیم کے نگراں بھی ہمارے سابق حکمراں فرنگی تھے۔

پنڈت جواہر لعل نہرو نے بھارت کو سیکولر بنایا یعنی ریاست کا مذہبی معاملات میں دخل نہ ہو گا، جس کا دین اس کے ساتھ۔ زمینداری کا خاتمہ کر دیا۔ مگر جناح صاحب کی عمر نے وفا نہ کی ان کی ایک تقریر جو انھوں نے 11 اگست 1947ء میں دستور ساز اسمبلی میں کی تھی وہی رہنما رہی۔ جو اس تقریر کے رہنما اصول تھے وہ دستور کا حصہ نہ بن سکے اور قائد اعظم کے نظریات کی ترجمانی نہ ہو سکی۔ اس کے علاوہ وقت گزرنے کے ساتھ دستور میں تبدیلیاں ہوتی رہیں، یہاں تک کہ ذوالفقار علی بھٹو اور غوث بخش بزنجو کا تیار شدہ دستور بھی مختلف سیاسی عروج و زوال کا سفر طے کرتا رہا۔

بھارت جب آزاد ہوا تو اس کی داخلہ اور خارجہ پالیسی کا جھکاؤ روس کی جانب تھا کیونکہ کانگریس پر پنڈت جی کے نظریات کی چھاپ اور عمل تھا، مگر وقت گزرتا گیا پنڈت جی کو اور گاندھی جی کو وہاں کی مذہبی تنظیم نے غدار وطن قرار دیا کیونکہ وہ برصغیر کی تقسیم پر بہ آسانی راضی ہو گئے اور دو قومی نظریے کی بنیاد پر پاکستان وجود میں آ گیا، گاندھی جی کو آر ایس ایس کے ایک رکن گوڈسے نے آزادی کے چند ماہ بعد 30 جنوری 1948ء کو گولی کا نشانہ بنا دیا۔ گو کہ تقسیم کے وقت یہ جماعت عوام میں مقبول نہ تھی مگر مسلسل زہریلی سیاست اور گاندھی جی جیسے لیڈر کے خلاف بات کرتے کرتے اس تنظیم نے گجرات میں قدم جما لیے اور گاندھی جی کی رواداری کو خاک میں ملا دیا۔ ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ اثاثوں کی تقسیم پر گاندھی جی نے پاکستان کی حمایت میں مرن برت (تادم مرگ بھوک ہڑتال) رکھا تھا۔ گاندھی جی کا خطاب ہی مہان آتما (بلند ترین روح) ان کے کردار کا آئینہ دار رہا ہے۔

رفتہ رفتہ ملاپ کا جذبہ سرد پڑتا گیا اور خصوصاً مسلمانوں نے دو قومی نظریے کی حمایت کی مگر پھر بھی انھوں نے 100 فیصد ہجرت نہ کی جو بھارت میں غدار کے نظریے سے دیکھے جاتے رہے۔ مگر بھارت کی مذہبی جماعتوں نے مسلمانوں کے خلاف نفرت پھیلانے کا عمل جاری رکھا اور اپنی معیشت کا دھارا جو کبھی سوویت یونین کی سمت تھا، کانگریس کے ہارنے کا موجب بنا اور آج وہاں بی جے پی ایک بڑی جماعت کے طور پر ابھری۔ کمیونسٹ پارٹی جو بنگال، کیرالہ اور بہت سے علاقوں پر برسر اقتدار رہی وہ بھی اپنی قوت کھو چکی ہے۔

بالآخر ایک دور یہ آیا کہ بھارت میں ایک بھارتیہ جنتا پارٹی جس میں بھانت بھانت کے انتہا پسند گھسے ہوئے تھے، انھوں نے 2011ء میں گجرات کی حکومت بنا لی اور پھر بھارتی سرمایہ داروں نے پارٹی کی گرفت مضبوط کی اور ان کو اپنا ساتھی بنانے کا عمل شروع کیا نتیجہ یہ ہوا کہ جھاڑکھنڈ مہارشٹرا، یوپی اور بہار تک یہ پارٹی پہنچ گئی (RSS) آر ایس ایس اور دیگر کٹر پنتھی جماعتوں نے آخرکار اپنی روش میں بتدریج مذہبی رنگ ڈالنا شروع کر دیا اور مسلمانوں کا ہوا کھڑا کر کے ہندوؤں کو قریب لانا شروع کر دیا۔ گجرات کے مسلم کش فسادات کے بعد جو اپوزیشن بحال ہونی شروع ہوئی تھی آر ایس ایس کی کارکردگی نے اس کو مجروح کرنا شروع کر دیا۔ مسلمانوں کے خلاف آر ایس ایس اور ایسی پارٹیوں کی تقریر کا متن سنیے ''ہماری دیواریں عامر خان، سلمان خان، کالے خان، لولے خان، لنگڑے خان سے ڈھکی ہوئی ہیں ان کا بھی کچھ کرنا ہو گا۔'' واضح رہے 30 فیصد زرمبادلہ کمانیوالی انڈسٹری کے متعلق ایسی باتیں عام لوگوں کو پسند نہ آئیں تو بھارت میں بھی ری ایکشن ہونا شروع ہو گیا۔


دانشور، آرٹسٹ، صحافی اور اہل قلم اب رفتہ رفتہ اٹھ کھڑے ہوئے اور خاص طور سے جب مودی حالیہ برطانیہ دورے پر نکلے تو ان کے خلاف مظاہروں سے بڑی جگ ہنسائی ہوئی تو کچھ سمجھ میں آیا۔ اور اب یہ قدم آہستہ آہستہ اٹھا رہے ہیں۔ ہمارے یہاں بھی کچھ ناسمجھ ہیں جو آر ایس ایس کی باتوں کا ردعمل کرتے ہوئے عملی اقدامات کا بگل بجاتے ہیں جس سے تصادم کی فضا تیار ہوتی ہے۔ پاکستان نے بھی انھی حکومتوں کو اپنا آقا بنا رکھا ہے جو مودی کی بھی آقا ہیں۔ مودی چونکہ ایک بڑے ملک کے نمایندے ہیں اس لیے ان کی پذیرائی اسی انداز میں ہوتی ہے۔ امریکا اور برطانیہ بھارتی حکومت سے تعاون کا جو رویہ رکھتے ہیں پاکستان جس قدر بھی ان کے سیاسی احکامات کو مان لے ڈو مورDo More مزید کرو کا نعرہ وہاں سے لگتا رہے گا۔

لہٰذا وقت آ گیا ہے کہ پاکستان اپنی داخلہ اور خارجہ پالیسی میں تبدیلی پیدا کرے کیونکہ بھارت کے غیر مسلموں کے لیے سیکولر پالیسی وہاں کی بڑی اقلیتوں کے حق میں جاتی ہے، اسی لیے وہاں کے مسلمان بھارت میں سیکولرازم کی حمایت کرتے ہیں۔ سیکولرازم کا معنی تمام مذاہب کا احترام اور یکساں عمل کے ہیں، لہٰذا سیکولرازم کے معنی ہمہ دینیت کے ہیں جب کہ انگریزی زبان میں ملحد کافر کے لیے اے تھیسٹ (Atheist) کا لفظ ہے جب کہ گزشتہ نصف صدی سے Secular سیکولر لفظ کا غلط ترجمہ متعارف کرا دیا گیا ہے جس کے سیاسی مقاصد ہیں۔ مودی سرکار اسی غلط معنی کو ہی تقویت پہنچا رہی ہے، اگر بھارت نے اپنی روش نہ بدلی تو بھارت کو شدید نقصان پہنچے گا اور سیاسی طور پر بھی بھارتی حکومت اپنا وقار کھو بیٹھے گی۔ یہ تو ہوئی بھارتی سیاسی ناپختگی کی بات جس کو رہنمائی وہی دے رہے ہیں، جو ہماری سیاسی تربیت کر رہے ہیں کیونکہ حالیہ دنوں میں روس کے صدر پوتن نے داعش کے 500 پٹرول ٹینکروں کو بمباری سے تباہ کیا اور کئی کنویں تباہ کیے جس کی کسی کو خبر نہ دی اس کے علاوہ بحیرہ کیسپین سے اس نے داعش کے ٹھکانوں کو اپنی 1000 گز پانی کے اندر سے آبدوز سے نشانہ بنایا، اس کی اس ٹیکنالوجی کا تذکرہ بھی نہیں ہے۔

اس کے علاوہ تقریباً 3 ماہ قبل ایک بہت بڑی مسجد کا ماسکو میں افتتاح کیا وہ خبر بھی کسی مغربی خبر رساں ایجنسی نے نہ دی۔ اس مسجد کے افتتاح پر فلسطین، لبنان، ایران، شام اور دیگر ممالک کے علما کو بلایا تھا اس کا مطلب یہ ہے کہ دنیا میں پھر صف بندی ہو چکی ہے۔ بظاہر امریکا روس میں خلائی معاہدے اور تعاون ہیں مگر راہیں جدا جدا ہیں اور مقاصد بھی الگ الگ ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ پیرس واقعے کے بعد کچھ اور بھی ہونے کو ہے بقول وکی لیک سنوڈین فرانس کا واقعہ ایک طے شدہ منصوبے کا حصہ گزشتہ تین ماہ قبل ہی ایک چھوٹے 9/11 کی ایک طبقے میں افواہ تھی۔ پھر دیکھیے ایک چھوٹے سے مغربی یورپ کے ملک بیلجیم اس کے دارالسلطنت برسلز کی داستان اس ملک سے سب سے زیادہ مجاہدین شام بھیجے گئے یہ ملک خود کیا ہے نیٹو کا ہیڈ کوارٹر جس کی آبادی ایک کروڑ بیس لاکھ افراد پر مشتمل ہے، یہاں 10 روز تک خوف کا راج رہا کہ ایک شخص صالح عبدالسلام فرانس کے مقتل کا فراری یہاں نہ آیا ہو، خود فرانس کا احوال خودکش بمبار کا پاسپورٹ ملا جب کہ خودکش بمبار کے انجن نمبر بھی بمشکل پڑھے جا سکتے ہیں مگر کاغذ محفوظ رہا۔ 31 ہزار مربع کلو میٹر کے جدید ترین ملک کاروبار اب کھلا ہے لوگوں میں خوف پھیلایا گیا۔

ترکی کو اس جنگ میں ملوث کرنے کے لیے روس کا طیارہ شام کے سرحدی علاقے میں شام کے باغی علاقے میں مار گرایا گیا یہ سب کیا ہے، چھوٹے ممالک کو استعمال کرنا اپنے پیدل مہرے آگے بڑھانا اور پراکسی وار کے نتائج پہ نظر اس کے بعد روس نے اپنا کمزور میزائل مار کرنیوالا جنگی جہاز شام کے بحری حدود میں کھڑا کر دیا۔ سرمایہ دارانہ نظام کی جنگی مشنری کو مضبوط کرنا ایسا لگتا ہے کہ تیسری جنگ عظیم کی صف بندی ہو رہی ہے روس، چین، شمالی کوریا، ایران، شام اور نیٹو کے ممالک اور شطرنج کے پیدل مسلم ممالک کے حکمران تا کہ نقصان انھی ممالک کا ہو زیادہ۔ جہاز کا معاملہ اتنا پیچیدہ ہو گیا کہ صدر اوباما کی اور پوتن کی ملاقات جلد ہو گی۔ عالمی سیاست کا رنگ تیزی سے بدل رہا ہے دوسری جنگ عظیم تو مغرب میں لڑی گئی مگر اب مشرق میں آسمان پر سرخی غالب آتی جا رہی ہے۔

ایسے میں بھارت اور پاکستان کی کشیدگی دنیا کا منہ موڑ نہ سکے گی اور دونوں ممالک کے مذہبی لیڈروں کو دانش سے کام لینا ہو گا کیونکہ دونوں ممالک امریکا کے طرفدار اور ان کی بتائی ہوئی باتوں پر عمل کرتے ہیں ابھی راہداری کا کام شروع نہیں ہوا، اس لیے چین کا سیاسی اثر و رسوخ پاکستان پر بہت کم ہے ویسے بھی چین گزشتہ 3 دہایوں سے سیاسی راستوں کے بجائے اقتصادی راہوں پہ تھا اب وہ روس کے ساتھ عالمی افق پر نظر آ رہا ہے۔ بہرصورت مغرب میں تشدد کی لہر سے فوری فائدہ تو یہ ہے کہ عرب مہاجرین کو روکا جا سکے اور ان کے لیے ان ممالک میں جو ہمدردی کی لہر دوڑی تھی اس کو ختم کیا جائے، مقامی اور غیر مقامی میں تفریق پیدا ہو اور خود کو اس دوش سے الگ کیا جا سکے کہ اسلام کو بدنام کرنے کے لیے جو انتہا پسند جماعتیں بنائی تھیں دنیا کو بتایا جائے کہ ہمارا تعلق ان سے نہیں ہے۔
Load Next Story