باعث عبرت
یہ اس کی اپنی سوچ تھی مگر قدرت کے اپنے فیصلے ہوتے ہیں اور پھر قدرت نے ایک فیصلہ کیا
جنگل میں بیٹھے خاک نشین اس ضعیف العمر شخص کی کل ملکیت فقط گھاس و تنکوں سے تیارکردہ جھونپڑی اور ایک پالتو ہرن تھا، بیان کیا جاتا ہے کہ ایک روز وہ بزرگ اپنی جھونپڑی میں بیٹھے تھے کہ باہر سے چند لوگوں کے قہقہے، اس بزرگ کی سماعتوں سے ٹکرائے، ذرا قریب جاکر صورت حال کی کیفیت دیکھی تو وہ یہ شخص کہ اس بزرگ کا پالتو ہرن زمین پر پڑا تڑپ رہا تھا اور اس ہرن کے چاروں جانب چند نوجوان قہقہے لگارہے تھے اور ان کے منہ سے یہی الفاظ نکل رہے تھے ''واہ شہزادے واہ کیا نشانہ لگایا ہے۔''
تمام صورتحال کا اس بزرگ کو جلد ہی ادراک ہوگیا، اس بزرگ کے سامنے ایک مغل شہزادہ کھڑا تھا جوکہ اپنے دوستوں کے ساتھ جنگل میں شکار کی نیت سے آیا تھا اوراس خاک نشین بزرگ کے ہرن پر اپنا نشانہ آزماچکا تھا۔ جہاندیدہ بزرگ جانتا تھا کہ شکوہ کرنا بیکار ہے ،کیوں کہ سامنے کھڑا شہزادہ اس نسل سے یعنی مغل نسل سے تعلق رکھتا تھا ، جس نسل نے دو سو برس سے ہندوستان کے تمام وسائل پر قبضہ کر رکھا تھا اور نسل در نسل حکومت کررہی تھی ۔ اب بھلا اسی نسل سے تعلق رکھنے والا شہزادہ ہو اور غرور تکبر و رعونت سے گردن میں خم آجائے یہ تو ناممکن سی بات ہے پھر بھی اس بزرگ نے اپنے اندر تھوڑی ہمت پیدا کی اور شہزادے سے مخاطب ہوا۔ ''شہزادے! یہ تم نے کیا کردیا؟ تم نے جس ہرن کو نشانہ بنایا ہے میری تو وہ کل متاع تھی۔ تم نے تو گویا مجھے میری تمام متاع سے محروم کردیا۔'' اس بزرگ کی یہ بات سن کر دولت و اقتدار کے نشے میں چور اس مغل شہزادے نے جواب دیا۔'' سن بڈھے اپنے ہرن کا افسوس کرنے کی بجائے میرے نشانے کی داد دے کہ میں نے کتنا ٹھیک نشانہ لگایا ہے۔'' یہ کہہ کر وہ شہزادہ اپنے خوشامدی دوستوں کے ساتھ وہاں سے چلتا بنا۔ چنانچہ وہ بزرگ بھی واپس اپنی جھونپڑی میں آکر بیٹھ گئے۔
سمے بیتا حالات بدل گئے دو سو سالہ مغل سلطنت اپنی عیش پرستی و زر پرستی و عام ہندوستانیوں سے اپنے ناروا سلوک کے باعث زمین بوس ہوگئی۔ یہ بھی مغل حکمرانوں اور ان کی بگڑی اولاد ہی کا دوش تھا کہ سات سمندر پار سے تجارت کے بہانے آنے والے ایسٹ انڈیا کے لوگ ہندوستان پر مسلط ہوگئے اور بعد ازاں تاج برطانیہ ہمارا حکمران بن بیٹھا۔ بہرکیف ایک روز وہ بزرگ کسی باعث قریبی شہر تشریف لے گئے۔ بازار میں دیکھا کہ جہاں لوگ اپنی اپنی تجارتی سرگرمیوں میں مصروف ہیں وہیں پر ایک نوجوان جوکہ دونوں ٹانگوں سے محروم تھا اپنے ہاتھوں میں ایک ڈبہ تھامے آنے جانے والوں سے خیرات مانگ رہا تھا۔ اس بزرگ نے ذرا غور کیا تو یہ وہی نوجوان تھا جس نے اس بزرگ کے ہرن کا شکار کیا۔ اس بزرگ کی آنکھوں سے اشک ٹپ ٹپ گرنے لگے۔ وہ بزرگ قدرت کے فیصلوں پر غورکر ہی رہے تھے کہ ایک رہ گیر نے اس بزرگ کے کان میں سرگوشی کی کہ بابا عبرت کا مقام ہے کیوں کہ سامنے جو بھکاری نوجوان ہے یہ کوئی عام انسان نہیں ہے بلکہ مغل شہزادہ تیمور ہے، میں نے اس واقعے کو باعث عبرت جاکر بیان کردیا ہے جیسے کہ میں نے سنا تھا ممکن ہے کہ اس داستان عبرت میں شک و شبہات کی گنجائش ہو البتہ اس بات کا امکان تھا کہ اگر مغلیہ سلطنت کی عمارت منہدم نہ ہوتی تو یہی شہزادہ تیمور ہندوستان کا فرماں رواں بن جاتا۔
یہ بھی حقیقت ہے کہ مغلیہ خاندان کے 8 حکمرانوں نے جو دو سو برس تک ہندوستان پر حکومت کی اور جو تاریخی غلطیاں کیں اس کا خمیازہ عام ہندوستانیوں نے انگریز کی غلامی کی شکل میں بھگتا۔ باعث عبرت کے سلسلے میں ایک اور واقعہ عرض کرتا ہوں۔ یہ ہے ہمارا پڑوسی برادر اسلامی ملک ایران۔ شہنشاہ رضا شاہ پہلوی کے دورکا ایران وہ ہی رضا شاہ پہلوی جس کا تعلق اس خاندان سے تھا جوکہ ڈھائی ہزار برس سے ایران پر نسل در نسل حکومت کررہا تھا۔خود رضا شاہ پہلوی اس گمان کا شکار تھا کہ وہ اپنی یہ بادشاہت نہ صرف قائم رکھے گا بلکہ اس کا پختہ یقین تھا کہ سامراجی سرپرستی میں یہ بادشاہت اس کے بعد اس کی آنے والی نسلوں کو منتقل ہوتی رہے گی۔
یہ اس کی اپنی سوچ تھی مگر قدرت کے اپنے فیصلے ہوتے ہیں اور پھر قدرت نے ایک فیصلہ کیا مگر رضا شاہ پہلوی قدرت کے اس فیصلے کا ادراک نہ کرسکا اور اپنی سلطنت بچانے کے لیے اپنے ہی لوگوں کوگاجر مولی کی طرح کاٹنے لگا مگر کب تک ایرانی عوام رضا شاہ پہلوی کا ہر قسم کا جبرو ستم برداشت کرتے رہے مگر وہ رضا شاہ پہلوی کو برداشت کرنے کو تیار نہ تھے، عوامی احتجاج کے باعث رضا شاہ پہلوی ایران سے فرار ہونا چاہتا تھا مگر اسے اس کے سامراجی آقا سمیت کوئی ملک قبول کرنے کو تیار نہ تھا۔ان حالات میں رضا شاہ پہلوی کے لیے مصرکے صدر انورسادات کے دل میں نرم گوشہ پیدا ہوا اور وہ امورمملکت ایرانی وزیراعظم شاہ پور بختیارکے حوالے کر کے مصر روانہ ہوگیا اور سیاسی پناہ حاصل کرنے میں کامیاب ہوگیا ۔ جلا وطنی کے دوران ہی رضا شاہ پہلوی کینسر جیسے موذی مرض میں مبتلا ہوکر فوت ہوگیا اور مصر ہی میں دفن ہوا۔ یہ انجام تھا ایران پر ڈھائی ہزار برس سے نسل در نسل حکومت کرنے والے شاہی خاندانوں کے آخری چشم و چراغ کا۔
رضا شاہ پہلوی کی وفات کو ایک عرصہ ہوچکا تھا کہ مصر کے بازار میں ایک خاتون اپنے گھر کا سودا سلف خرید رہی تھی وہ خاتون ایک ایک چیز خریدتی اور اپنے ہاتھ میں تھامی ایک ٹوکری میں ڈالتی جاتی کسی نے غور سے اس خاتون کو دیکھا اور شناخت کرلیا اور اپنے برابر کھڑے شخص کے کان میں سرگوشی کی کہ دیکھو مقام عبرت ہے یہ خاتون فرح دیبا ہے، شہنشاہ ایران رضا شاہ پہلوی کی بیگم، سابقہ ملکہ ایران اس خاتون کے ایک اشارے پر ہزاروں ملازمین حاضر ہوجاتے تھے مگر آج کیفیت یہ ہے کہ یہ خاتون اپنے گھرمیں استعمال ہونے والی ہر ایک چیز خود خریدنے بازار آتی ہے اور اشیائے ضروری خریدتی ہے۔ چنانچہ ایک موقع پر کسی صحافی نے جب فرح دیبا سے سوال کیا کہ ''آپ کی زندگی کا اذیت ناک لمحہ کون سا ہے؟'' توسابقہ ملکہ نے اس سوال کے جواب میں کہا ''میرے لیے سب سے اذیت ناک وہ لمحہ تھا جب میرے شوہرکینسر جیسے موذی مرض میں مبتلا ہوکر اسپتال میں داخل تھے اور اسپتال کے باہر ہزاروں لوگ میرے شوہر کے مرنے کی دعائیں مانگ رہے تھے'' اور بالآخر ایک روز رضا شاہ پہلوی وفات پاگیا جب کہ ایران سے رخصت ہوتے وقت اس نے اپنے جس وزیراعظم شاہ پور بختیار کے حوالے امور مملکت کیے تھے ایرانی انقلاب کے بعد کیفیت یہ تھی کہ سزائے موت پانے کے بعد شاہ پور بختیار کی میت تین یوم تک شہر کے چوراہے پر پڑی رہی مگر کوئی اسے دفنانے کو تیار نہ تھا اسے کہتے ہیں مقام عبرت۔ آج ہمارے سماج میں کیا ہو رہا ہے۔
ایک جانب اگر سرمایہ داروں و جاگیرداروں کی نمایندگی کرنے والے حکومتی ایوانوں، فقط اپنے طبقے کے مفادات کے لیے قانون سازی کررہے ہیں حالانکہ وہ عوام کے نمایندے ہونے کے دعوے دار ہیں۔ چنانچہ سطور بالا میں دو تاریخی واقعات بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ مخلوق خدا پر جبر کرکے قہر خداوندی کو نہ آواز دیں کیوں کہ جب قدرت کا انصاف کرنے کا وقت آتا ہے جب یہ پھٹے ہوئے جوتے پاؤں میں پہنے ہوئے پھٹی ہوئی پوشاک زیب تن کیے ہوئے غذائی قلت کے باعث پیلے چہرے والے حصول انصاف کے لیے اور حصول حقوق کے لیے اعلیٰ ایوانوں کا رخ کرتے ہیں تو ایسا طوفان آتا ہے کہ سب کچھ اپنے ساتھ بہاکر لے جاتا ہے۔لہٰذا ابھی وقت ہے کیوں کہ ابھی توبہ کا دروازہ بند نہیں ہوا کل کس نے دیکھا ہے اگر توبہ کا دروازہ بند ہوگیا تو؟