’’ماموں یا اونٹ کی دُم‘‘
’’ماموں بنا دیا‘‘ یہ خریداری اصطلاح آج کل خاصی مقبول ہے یا یوں کہہ لیجیے کہ اس کا فیشن بن چکا ہے
''ماموں بنا دیا'' یہ خریداری اصطلاح آج کل خاصی مقبول ہے یا یوں کہہ لیجیے کہ اس کا فیشن بن چکا ہے، یہ اکثر ہمیں اس وقت سننے کو ملتی ہے جب کہ وزیر نے کسی متاثرہ علاقے کا دورہ کرنا ہوتا ہے تو ان کے لیے خاص طور پر متاثرہ کن سیٹ لگایا جاتا ہے، مثلاً ریڈی میڈ اسپتال،کیمپ یا دوا خانہ وغیرہ وغیرہ، بیڈ، ڈاکٹرز، اسٹریٹچرز، دوائیاں، نرسز یہاں تک کہ مریض حضرات تک بیڈ پر پڑے گلوکوزکی نلکیاں بازو میں گھسائے مسکین سی صورت بنائے پڑے ہوتے ہیں، وزیر صاحبان آتے ہیں، ان کے ہیلی کاپٹرز شان کے ساتھ اترتے ہیں، ہیلی پیڈز تو یوں تیار کیے جاتے ہیں بس پلکوں کو بچھانے کی دیر ہوتی ہے جنگل میں منگل کردیا جاتا ہے، تیتر و بٹیر فرائی کیے جاتے ہیں اور اگر ہیلی پیڈز بنانے کے لیے تیار فصلوں کو بھی پار لگانا پڑے تو ماموں بنانے کے لیے سب کچھ کرگزرتے ہیں، متحرک میڈیا کھٹاکھٹ تصاویر گلے میں ہار پھول مسکراہٹیں، متاثرین کے پاس جاجا کر ان کا حال پوچھنا، چیک تقسیم کرنا، اب ان کا کیا سسٹم ہے خدا جانے، بہرحال چند گھنٹوں یا گھنٹے بھر کی تقریب اور یوں کیمرے کا منہ بند ہوا فضاؤں میں ہیلی کاپٹرز کی گڑگڑاہٹیں ختم ہوئی، میدان صاف نظر آیا کدھر کیمپ، کدھر ٹینٹ، کہاں کے مریض اورکہاں کے ڈاکٹرز، ہمارے یہاں کے بڑے بڑے وزیر اس طرح ماموں بن چکے ہیں۔
برطانیہ ایک فلاحی مملکت ہے جو اپنے ملک میں رہنے والوں کی فلاح و بہبود پر پاؤنڈ خرچ کرتی ہے ابھی چند برسوں پہلے آنیوالے سیلاب سے ملک میں بڑی تباہی مچائی، کھڑی فصلیں تباہ ہوئیں، ہزاروں گھر برباد ہوئے، عوام بے چارے امداد کی منتظر رہے، لیکن عوام کو ماموں بنادیا، برطانیہ سے سیلاب کے متاثرین کے لیے بڑی امداد آئی اور جیسا کہ برطانیہ والوں کو تو اپنے لوگوں کی فلاح و بہبود کا خیال تو رہتا ہی ہے انھوں نے ہمدردی میں آکر اچھے اعلیٰ کمبل (متاثرین کے لیے) بھیجے لیکن عوام کے پاس سے میوزیکل چیئر والے کھیل کی طرح یہ کمبل گزرگئے اور چیئر پر اور لوگ سمیٹتے گئے یہ کمبل اندر ہی اندر بٹ گئے جن کے لیے تھے انھیں صرف تسلی ہی ملی۔ماموں کی اصطلاح غالباً ایک فلم سے چلی تھی اس میں تو ماموں پیار محبت سے ادا ہوتا تھا لیکن ماموں اصل میں نہایت بے ہودگی سے بنایا جاتا ہے، ایسا ہرگز نہیں ہے کہ جدید زمانے میں ہی ماموں بنایا جاتا ہے یہ تو جب سے بناتے چلے جارہے ہیں جب سے شاید دنیا میں انسان نے پہلی بار کھانے پینے کی چیزوں میں ملاوٹ کی تھی۔ والدین کی بے ادبی کی گئی تھی۔ یہ تو خاصی پانی ریت ہے۔
بات ہورہی تھی برطانیہ والوں کی امداد کی جس کے بارے میں سننے میں آیا تھا کہ اس وقت ایک اعلیٰ عہدیدار خاتون جن کی زیبائی بڑی مشہور تھی اس خرد برد میں خاصی ان تھی لیکن کسی نے نہ پوچھا نہ کچھ بتایاگیا۔2005ء کے زلزلے نے پورے ملک کو ہلاکر رکھ دیا تھا، سب مدد کرنے کے جذبے سے آگے بڑھے اور اپنے اپنے لحاظ سے سب نے حصہ ڈالا کوٹ، ٹائی اورساڑھیاں تک ڈالنے والوں نے ڈالی کہ شاید متاثرین زلزلہ کو کسی فنکشن میں جانا ہو توکوٹ ٹائی پینٹ یا ساڑھی کی ضرورت پڑے نجانے اورکیا کیا نت نئے فیشن کے کپڑے دے ڈالے ہوںگے لیکن جذبہ مدد کا تھا، سننے میں یہ بھی آیا تھا کہ امداد کے ڈھیر لگے تھے، منرل واٹرکی بوتلیں، انبار لگی تھیں لیکن ٹی وی پر یہی دکھایا جاتا کہ امداد اتنی نہیں ہے، متاثرین کی تعداد خاصی ہے، وجہ پوچھی گئی کہ یہ سلسلہ کیا ہے۔ بس ماموں بنادیا، کیسے مجھے اورآپ کو، پرکیوں؟ہمارے ایک سابق گورنر مغربی پاکستان دوسری جنگ عظیم کے دوران کی بات ہے اس وقت وہ ایک بڑے سرکاری افسر تھے فوجی سازو سامان کی سپلائی ان کی نگرانی میں ہوتی تھی یہ علاقہ بہاولپور اور جیسلمیر کا ریگستانی علاقہ تھا۔ سپلائی اونٹوں کے ذریعے ہوتی تھی کیوں کہ ریگستان میں اونٹ کے علاوہ کوئی اور ذریعہ کارگر نہ تھا۔
موسم کی سختی کے باعث اکثر اونٹ راستے میں مرجاتے تھے، حکومت ان کا معاوضہ ادا کرتی تھی لیکن وہ صاحب معاوضہ زیادہ اونٹوں کا وصول کرتے تھے، حکومت سے یہ بدعنوانی زیادہ عرصے چھپی نہ رہی، ظاہر ہے کہ حکومت بھی اس دور کی طرح نہ تھی جھٹ کان پکڑلیے اور حکم ہوا کہ معاوضہ وصول کرنے کے لیے مرے ہوئے اونٹوں کی دُمیں بھی کاٹ کر بھیجی جائیں ورنہ معاوضوں کی ادائیگی نہیں ہوگی، لہٰذا ایسا ہی ہوا لیکن ماموں بنانے کی عادت تو پڑ چکی تھی لہٰذا طریقہ نکال لیا گیا جو دُمیں معاوضے کے لیے بھیجی جاتیں مال خانے کے انچارج کو رشوت دے کر چوری چھپے وہی دُمیں واپس لے لی جاتیں اور ان کو نئے مرنیوالے اونٹوں کی دُموں کے ساتھ دوبارہ بھیج دیا جاتا یوں لاکھوں اربوں کی ہیرا پھیری ہوئی لیکن پھر راز کھل گیا لیکن جنگ کا زمانہ تھا گوروں کی حکومت ٹینشن میں تھی لہٰذا بدنامی کے ڈر سے یہ کیس دبا دیا گیا۔ یہ اسکینڈل اونٹوں کی دُموں کے حوالے سے خاصا مشہور تھا، پاکستان بننے کے بعد بھارت کے مشہور اخبار ٹائمز آف انڈیا نے اس حوالے سے ایک دلچسپ خبر چھاپی تھی، گو جب یہ خبر لگی تھی موصوف اونچی کرسی پر بیٹھ چکے تھے لیکن وجہ خبر دراصل اسی کرسی کا کھیل تھا، خیر اب جانے بھی دیں، لیاقت علی خان شہید اس وقت زندہ تھے لیکن ماموں بنانے کے کھیل کو کوئی نہ روک سکا۔
2015 میں زلزلے نے پاکستان میں ایک بار پھر سے حالات میں غم و دکھ کی کیفیت پیدا کردی ہے امید ہے کہ زلزلے کے متاثرین کو اچھی طرح امداد دی جا رہی ہوگی ، ورنہ ماموں بنانے کے اس چکر میں کہیں ہم سب ایسے ماموں بنیں کہ کوئی تدبیر ہی کارگر نہ رہے، ہم سب کو آسمان کی جانب دیکھتے رہنا چاہیے تاکہ ہمیں یاد رہے کہ اوپر بھی کوئی ہے جو ہمیں دیکھ رہا ہے اور ان کے دیکھنے میں نہ تو شک ہے نہ شبہ وہ کیمروں کی کھٹاکھٹ، چینلز کے شور شرابے سے متاثر نہیں ہوتے وہ تو دلوں کے بھید جان لیتے ہیں آخر ہم کب تک ماموں بننے کے عمل میں اپنے آپ کو دھوکے دیتے رہیںگے ابھی ہمیں بہت آگے جانا ہے۔
برطانیہ ایک فلاحی مملکت ہے جو اپنے ملک میں رہنے والوں کی فلاح و بہبود پر پاؤنڈ خرچ کرتی ہے ابھی چند برسوں پہلے آنیوالے سیلاب سے ملک میں بڑی تباہی مچائی، کھڑی فصلیں تباہ ہوئیں، ہزاروں گھر برباد ہوئے، عوام بے چارے امداد کی منتظر رہے، لیکن عوام کو ماموں بنادیا، برطانیہ سے سیلاب کے متاثرین کے لیے بڑی امداد آئی اور جیسا کہ برطانیہ والوں کو تو اپنے لوگوں کی فلاح و بہبود کا خیال تو رہتا ہی ہے انھوں نے ہمدردی میں آکر اچھے اعلیٰ کمبل (متاثرین کے لیے) بھیجے لیکن عوام کے پاس سے میوزیکل چیئر والے کھیل کی طرح یہ کمبل گزرگئے اور چیئر پر اور لوگ سمیٹتے گئے یہ کمبل اندر ہی اندر بٹ گئے جن کے لیے تھے انھیں صرف تسلی ہی ملی۔ماموں کی اصطلاح غالباً ایک فلم سے چلی تھی اس میں تو ماموں پیار محبت سے ادا ہوتا تھا لیکن ماموں اصل میں نہایت بے ہودگی سے بنایا جاتا ہے، ایسا ہرگز نہیں ہے کہ جدید زمانے میں ہی ماموں بنایا جاتا ہے یہ تو جب سے بناتے چلے جارہے ہیں جب سے شاید دنیا میں انسان نے پہلی بار کھانے پینے کی چیزوں میں ملاوٹ کی تھی۔ والدین کی بے ادبی کی گئی تھی۔ یہ تو خاصی پانی ریت ہے۔
بات ہورہی تھی برطانیہ والوں کی امداد کی جس کے بارے میں سننے میں آیا تھا کہ اس وقت ایک اعلیٰ عہدیدار خاتون جن کی زیبائی بڑی مشہور تھی اس خرد برد میں خاصی ان تھی لیکن کسی نے نہ پوچھا نہ کچھ بتایاگیا۔2005ء کے زلزلے نے پورے ملک کو ہلاکر رکھ دیا تھا، سب مدد کرنے کے جذبے سے آگے بڑھے اور اپنے اپنے لحاظ سے سب نے حصہ ڈالا کوٹ، ٹائی اورساڑھیاں تک ڈالنے والوں نے ڈالی کہ شاید متاثرین زلزلہ کو کسی فنکشن میں جانا ہو توکوٹ ٹائی پینٹ یا ساڑھی کی ضرورت پڑے نجانے اورکیا کیا نت نئے فیشن کے کپڑے دے ڈالے ہوںگے لیکن جذبہ مدد کا تھا، سننے میں یہ بھی آیا تھا کہ امداد کے ڈھیر لگے تھے، منرل واٹرکی بوتلیں، انبار لگی تھیں لیکن ٹی وی پر یہی دکھایا جاتا کہ امداد اتنی نہیں ہے، متاثرین کی تعداد خاصی ہے، وجہ پوچھی گئی کہ یہ سلسلہ کیا ہے۔ بس ماموں بنادیا، کیسے مجھے اورآپ کو، پرکیوں؟ہمارے ایک سابق گورنر مغربی پاکستان دوسری جنگ عظیم کے دوران کی بات ہے اس وقت وہ ایک بڑے سرکاری افسر تھے فوجی سازو سامان کی سپلائی ان کی نگرانی میں ہوتی تھی یہ علاقہ بہاولپور اور جیسلمیر کا ریگستانی علاقہ تھا۔ سپلائی اونٹوں کے ذریعے ہوتی تھی کیوں کہ ریگستان میں اونٹ کے علاوہ کوئی اور ذریعہ کارگر نہ تھا۔
موسم کی سختی کے باعث اکثر اونٹ راستے میں مرجاتے تھے، حکومت ان کا معاوضہ ادا کرتی تھی لیکن وہ صاحب معاوضہ زیادہ اونٹوں کا وصول کرتے تھے، حکومت سے یہ بدعنوانی زیادہ عرصے چھپی نہ رہی، ظاہر ہے کہ حکومت بھی اس دور کی طرح نہ تھی جھٹ کان پکڑلیے اور حکم ہوا کہ معاوضہ وصول کرنے کے لیے مرے ہوئے اونٹوں کی دُمیں بھی کاٹ کر بھیجی جائیں ورنہ معاوضوں کی ادائیگی نہیں ہوگی، لہٰذا ایسا ہی ہوا لیکن ماموں بنانے کی عادت تو پڑ چکی تھی لہٰذا طریقہ نکال لیا گیا جو دُمیں معاوضے کے لیے بھیجی جاتیں مال خانے کے انچارج کو رشوت دے کر چوری چھپے وہی دُمیں واپس لے لی جاتیں اور ان کو نئے مرنیوالے اونٹوں کی دُموں کے ساتھ دوبارہ بھیج دیا جاتا یوں لاکھوں اربوں کی ہیرا پھیری ہوئی لیکن پھر راز کھل گیا لیکن جنگ کا زمانہ تھا گوروں کی حکومت ٹینشن میں تھی لہٰذا بدنامی کے ڈر سے یہ کیس دبا دیا گیا۔ یہ اسکینڈل اونٹوں کی دُموں کے حوالے سے خاصا مشہور تھا، پاکستان بننے کے بعد بھارت کے مشہور اخبار ٹائمز آف انڈیا نے اس حوالے سے ایک دلچسپ خبر چھاپی تھی، گو جب یہ خبر لگی تھی موصوف اونچی کرسی پر بیٹھ چکے تھے لیکن وجہ خبر دراصل اسی کرسی کا کھیل تھا، خیر اب جانے بھی دیں، لیاقت علی خان شہید اس وقت زندہ تھے لیکن ماموں بنانے کے کھیل کو کوئی نہ روک سکا۔
2015 میں زلزلے نے پاکستان میں ایک بار پھر سے حالات میں غم و دکھ کی کیفیت پیدا کردی ہے امید ہے کہ زلزلے کے متاثرین کو اچھی طرح امداد دی جا رہی ہوگی ، ورنہ ماموں بنانے کے اس چکر میں کہیں ہم سب ایسے ماموں بنیں کہ کوئی تدبیر ہی کارگر نہ رہے، ہم سب کو آسمان کی جانب دیکھتے رہنا چاہیے تاکہ ہمیں یاد رہے کہ اوپر بھی کوئی ہے جو ہمیں دیکھ رہا ہے اور ان کے دیکھنے میں نہ تو شک ہے نہ شبہ وہ کیمروں کی کھٹاکھٹ، چینلز کے شور شرابے سے متاثر نہیں ہوتے وہ تو دلوں کے بھید جان لیتے ہیں آخر ہم کب تک ماموں بننے کے عمل میں اپنے آپ کو دھوکے دیتے رہیںگے ابھی ہمیں بہت آگے جانا ہے۔