دعائوں کا ٹارگٹ بدلنا ہوگا
ڈرون حملے پاکستان کی بہت ساری مصیبتوں کی جڑ ہیں۔
جب جونیئر بش پہلی بار صدر منتخب ہوئے تو ان کا مقابلہ الگور سے ہوا تھا۔ دنیا بھر کے میڈیا میں یہ خبریں چھپی تھیں کہ وہ یہودی ہے۔
باقی مسلمان ملکوں کا تو پتہ نہیں لیکن پاکستان میں تو گویا بش کی انتخابی مہم چل پڑی۔ ہر شخص دعا مانگتا نظر آتا تھا کہ بش جیت جائے، الگور ہار جائے۔ صرف اکثریت نہیں، شاید ساری پاکستانی قوم کا خیال تھا کہ بش مسلمانوں کا دوست ہے۔ الگور تو یہودی ہے، وہ آگیا تو مسلمانوں کا بڑا نقصان کرے گا اور پاکستان کے لیے بھی مشکلات پیدا کرے گا۔ ہماری دعائیں قبول ہوئیں اور بش جیت گیا۔ مسلمانوں کے اس دوست نے برسر اقتدار آکر پہلے افغانستان اور عراق کا جو حشر کیا اورپھر پاکستان کی جو درگت بنائی، وہ کبھی نہ بھولنے والی المناک کہانی ہے۔ یہ کہانی ابھی ختم کہاں ہوئی، اس کی قسطوں پر قسطیں آرہی ہیں لیکن ختم شد کا منظر کہیں دور دور تک نظر نہیں آرہا۔
پتہ نہیں بش ہماری ہی دعائوں سے جیتا یا اس نے جیتنا تھا یا ایک تھیوری یہ بھی ہے کہ الگور یہودی ہونے کے باوجود اتنا تنگ نظر اور انتہا پسند نہیں تھا جتنا کہ بعد میں جارج بش نکلا اور چونکہ یہودیوں کو اس بات کا علم تھا اس لیے انھوں نے بش کو جتوانے کے لیے الگور کے یہودی ہونے کی خبر چلوا دی۔ یہودیوں کو علم تھا کہ امریکا کے مسلمان ووٹر الگور کو ووٹ نہیں دیں گے ان کی چال کامیاب رہی اور مسلمانوں نے ڈر کے مارے بھی اسی کو ہی ووٹ دے دیا جسے یہودی جتوانا چاہتے تھے۔ پتہ نہیں یہ تھیوری بھی درست ہے یا نہیں لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ اگر امریکا کے مسلمانوں نے بش کو ووٹ دیا تھا تو وہی فیصلہ کن ثابت ہوا۔
اس لیے کہ بش کے ووٹ الگور سے خاصے کم تھے۔ فلوریڈا کی سپریم کورٹ اگر بش کو نہ جتواتی تو بش مسلمانوں کے ووٹوں کے باوجود ہار گیا تھا اور اگر مسلمان بش کو ووٹ نہ دیتے تو وہ فلوریڈا کی سپریم کورٹ کے فیصلے کے باوجود ہار جاتا۔ یہ ساری تھیوریاں اپنی جگہ لیکن ایک ٹھوس حقیقت یہ ہے کہ امریکا میں کوئی بھی صدر ہو وہ مسلمانوں اور بالخصوص پاکستانیوں سے ''محبت'' کے معاملے میں ایک ہی جذبہ رکھتا ہوگا۔ ہم یہ جائزہ لیتے رہتے ہیں کہ آنے والا امریکی صدر پروٹسٹنٹ ہے یا کیتھولک، سیاہ فام ہے کہ سفید فام، یہودی ہے کہ عیسائی لیکن یہ سارے جائزے بے معنی ہیں۔ مشرق وسطیٰ، چین، بھارت، اسرائیل، عراق، افغانستان اور پاکستان کے بارے میں ہر امریکی صدر کی ایک ہی پالیسی ہے۔ وہ مشرق وسطیٰ میں اسرائیل کے لیے کوئی مشکل پیدا نہیں ہونے دیتا۔
وہ چین کی اقتصادی پھیلائو کی پالیسی پر نظر رکھتا ہے اور تائیوان کو چین کے میزائلوں سے بچانا فرض سمجھتا ہے۔ بھارت کی مارکیٹ ہاتھ سے جانے نہیں دیتا اور اس حوالے سے بھارت کے زیر قبضہ کشمیر کو ''پاکستانی در اندازوں'' سے بچائے رکھنا اس کی پالیسی کا حصہ ہوتا ہے۔ وہ عراق میں کردوں، شیعوں اور سُنیوں کو اکٹھے نہیں ہونے دیتا۔ افغانستان میں طالبان یا ایسے عناصر کو، جو طالبان تو نہیں لیکن گیس پائپ لائن وغیرہ کے معاملے میں ان کا جھکائو چین یا روس کی طرف ہو سر نہیں اٹھانے دیتا اور پاکستان کو نہ تو ٹوٹنے دیتا ہے نہ پوری طرح جڑا رہنے میں مدد کرتا ہے۔
ہر امریکی صدر کی یہی پالیسی پہلے سے طے شدہ ہوتی ہے اور ہر بار ہمارے یہ مفروضے کہ فلاں آگیا تو اسرائیل پر دبائو بڑھائے گا، فلسطینیوں کو کچھ حقوق دلوائے گا اور کشمیر کے مسئلے پر بھارت کے مقابلے میں پاکستان کا ساتھ دے گا، خاک میں مل جاتے ہیں۔ یہ سارا قصہ مجھے صدر اوباما اور صدارتی امیدوار مٹ رومنی کے درمیان ہونے والے تیسرے مباحثے کی خبر پڑھ کر یاد آیا۔ مختلف عالمی معاملات پر ان کی رائے میں اختلاف تھا لیکن پاکستان پر اتفاق رائے پایا گیا۔ اور وہ اتفاق رائے یہ تھا کہ اس کی سر زمین پر ڈرون حملے جاری رہیں گے۔
ڈرون حملے پاکستان کی بہت ساری مصیبتوں کی جڑ ہیں۔ صرف دہشت گردی کا فروغ ہی نہیں، پاکستان کے سیاسی عدم استحکام اور نئی نظریاتی تقسیم جو ملالہ یوسف زئی پر حملے کے بعد سے اور بڑھ گئی ہے، کے پیچھے بھی ڈرون حملے ہیں۔ ''ضد'' نے پاکستان کے سیاسی اور نظریاتی دھڑوں کو اس حد تک انتہا پسند بنا دیا ہے کہ امریکا کی مخالفت کرنے والے ملالہ پر حملے کو درست تک قرار دینے لگے ہیں اور مذہبی انتہا پسندوں کے مخالف خود اتنے انتہا پسند ہوگئے ہیں کہ انھیں ڈرون حملوں میں کوئی برائی نظر نہیں آتی۔ خود امریکی اخبارات کی رپورٹیں ہیں کہ ان ڈرون حملوں میں مرنے والے 98 فیصد بے گناہ اور غیر متعلق عام شہری تھے، صرف دو فیصد افراد ایسے تھے جن کو امریکا ٹارگٹ کرنا چاہتا تھا۔
خیر، یہ الگ بحث ہے، کہنے کی بات یہ ہے کہ اوباما دوسری بار صدر بن جائے یا رومنی جیت جائے، پاکستانیوں کو ابھی سے پتہ چل گیا ہے کہ امریکا کی ''دوستانہ'' پالیسی نہیں بدلے گی۔ اس کا ایک فائدہ یہ ہوگا کہ پاکستانیوں کی ایک خاصی بڑی تعداد دعا کرنے کی زحمت سے بچ جائے گی۔ اگر اس مباحثے میں یہ اتفاق رائے سامنے نہ آتا تو ممکن تھا اس الیکشن پر بھی ہم اپنے اپنے تجزیے کے مطابق دعائوں میں مصروف ہو جاتے کہ یا اللہ فلاں ہار جائے، فلاں جیت جائے۔ اب اس مشقت کی ضرورت نہیں رہی۔ امید کرنی چاہئے کہ اوباما جیتے یا رومنی، ڈرون حملے نہ صرف جاری رہیں گے بلکہ ان میں اضافہ بھی ہوگا۔
اس لیے کہ تجربہ یہ بتاتا ہے کہ جب بھی امریکی محکمہ دفاع یا وزیر خارجہ بلکہ خود صدر کا یہ بیان آتا ہے کہ ہم نے القاعدہ کا صفایا کر دیا ہے یا اسے تتر بتر کردیا ہے تو ساتھ ہی ڈرون حملے بڑھ جاتے ہیں۔ امریکا کو ڈرون حملوں سے ایک اور فائدہ بھی ہوتا ہے۔ ان حملوں سے پاکستان کی حکومت دفاعی پوزیشن میں آجاتی ہے اور اس پر سیاسی دبائو بڑھتا ہے ۔ جس کے نتیجے میں امریکا کی ''ڈو مور'' کہنے کی پوزیشن زیادہ مضبوط ہو جاتی ہے او دوسری طرف کمزور پاکستانی حکومت کے منہ سے یہ فقرہ ٹوٹ ٹوٹ کر نکلتا ہے بلکہ اکثر اوقات تو نکلتا ہی نہیں کہ ''نو مور ڈو مور''۔ ڈرون حملوں کا مقصد القاعدہ کی ٹارگٹ کلنگ ہے ہی نہیں، اس کا ٹارگٹ پاکستان کی حکومت کو دبائو میں رکھ کر اپنا الو سیدھا کرنا ہے اور آج پیپلز پارٹی کی حکومت کے ساتھ یہ مسئلہ ہے تو کل کسی اور کی حکومت کے ساتھ کیوں نہیں ہوسکتا۔
چنانچہ کوئی دوسری حکومت بن گئی تو ڈرون حملے اسی طرح جاری رہیں گے۔ عمران خان کے مداح بہت حساس ہیں۔ اس کے باوجود میں یہ کہنے میں کوئی ہرج نہیں سمجھتا کہ صرف عمران ہی ڈرون حملے بند کراسکتا ہے۔ عمران خان کی دہشت ہی اتنی زیادہ ہے کہ ان کے برسر اقتدار آتے ہی امریکا اپنے ڈرون طیارے گرائونڈ کر دے گا ۔ گویا ہمیں اس مرتبہ اپنی دعائوں کا ٹارگٹ تبدیل کرنا پڑے گا اور امریکا میں کسی امیدوارکے جیتنے کے بجائے یہ دعا کرنی ہوگی کہ پاکستان میں کوئی ایسا لیڈر جیت جائے جو پھونک مار کر ڈرون گراسکتا ہو ۔ وہ کون ہوسکتا ہے... ہم سب کو معلوم ہے۔