دفتر خارجہ کی بریفنگ

یورپی ممالک کو سوچنا چاہیے کہ تمام مسلمان دہشت گرد نہیں بلکہ سوائے محدود اقلیت کے مسلم اکثریت دہشت گردوں کے خلاف ہے


Editorial November 28, 2015
روس سے تناؤ پیدا ہونے پر ترکی کو اقتصادی طور پر بھی نقصان کا سامنا کرنا پڑے گا۔ فوٹو:فائل

ترجمان دفتر خارجہ قاضی خلیل اللہ نے جمعرات کو ہفتہ وار بریفنگ کے دوران کہا کہ بھارت کی نیوکلیئر سپلائر گروپ میں شمولیت سے خطے کی طاقت کا توازن خراب ہوگا اس حوالے سے امتیازی سلوک نہیں ہونا چاہیے، بھارت کے ساتھ تمام تصفیہ مسائل کے حل کے لیے مذاکرات کرنے کو تیار ہیں تاہم یہ مذاکرات بھارت کی شرائط پر قبول نہیں ہیں، ترکی اور روس کے تنازع پر پاکستان کو تشویش ہے، پاکستان چاہتا ہے کہ ترکی اور روس میں جاری کشیدگی کا حل مذاکرات کے ذریعے نکالا جائے، روسی طیارہ مار گرائے جانے کے بعد کی صورتحال پر نظر رکھے ہوئے ہیں۔

انھوں نے کہاکہ پیرس حملوں کے بعد مسلمانوں کے خلاف نفرت میںاضافہ ہواہے جو کہ افسوسناک ہے،دہشت گردوں کاکوئی مذہب نہیں ہے اسلام پرامن دین ہے جو امن و آشتی کی دعوت دیتا ہے تاہم دہشت گردی کو اسلام سے جوڑنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ بنگلہ دیش میں اپوزیشن رہنماؤںکو پھانسیوں کے حوالے سے ترجمان دفتر خارجہ کا کہنا تھا کہ بنگلہ دیش کو1974کے پاکستان ہندوستان اور بنگلہ دیش کے درمیان ہونیوالے سہ فریقی معاہدے کا احترام کرنا چاہیے جب کہ پاکستانی ہائی کمشنر کی طلبی پر بنگلہ دیشی ہائی کمشنر کو بلاکر احتجاج کریں گے۔ دوسری جانب روسی صدر ولادی میر پیوٹن نے طیارہ گرانے پر ترکی سے معافی مانگنے کا مطالبہ کیا ہے مگر ترکی نے اس مطالبے کو مسترد کردیا ہے، ادھر ترک فوج نے طیارے کو دی جانیوالی وارننگ کی آڈیو جاری کردی مگر روسی پائلٹ نے کوئی بھی وارننگ وصول کرنے کی نفی کی ہے۔

بھارت ایک عرصے سے نیوکلیئر سپلائر گروپ میں شمولیت کے علاوہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا مستقل رکن بننے کے لیے پر تول رہا ہے' امریکا اور بھارت کے تعلقات بھی مضبوط ہو رہے ہیں جس کے باعث بھارت کو یہ امید بندھی ہے کہ عالمی سطح پر معاملات کے حوالے سے امریکا اس کی حمایت کرے گا۔ پاکستان اس حوالے سے متعدد بار اپنی تشویش کا اظہار کر چکا ہے کہ اگر بھارت نیوکلیئر سپلائر گروپ یا سلامتی کونسل کا مستقل رکن بنتا ہے تو خطے میں طاقت کا توازن بگڑ جائے گا اور پاکستان کے لیے نئی مشکلات پیدا ہو جائیں گی۔ اس امر میں کوئی شبہ نہیں کہ پیرس حملوں کے بعد پورے یورپ میں مسلمانوں کے خلاف نفرت میں جہاں اضافہ ہوا ہے وہاں ان کو بعض گروپس کی جانب سے دھمکی آمیز رویے کا بھی سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

حیرت انگیز امر ہے کہ جب پاکستان میں دہشت گردی کی کوئی واردات ہوتی ہے تو یورپی ممالک اس موقف کی حمایت کرتے ہیں کہ دہشت گردوں کا کوئی مذہب نہیں اور اسلام ایک پرامن دین ہے لیکن پیرس حملوں کے بعد ان کے رویے میں تبدیلی آئی ہے اور چند دہشت گردوں کے بجائے انھوں نے تمام مسلمانوں کے خلاف نفرت آمیز رویہ اپنا لیا ہے، یورپی ممالک کو سوچنا چاہیے کہ تمام مسلمان دہشت گرد نہیں بلکہ سوائے محدود اقلیت کے مسلم اکثریت دہشت گردوں کے خلاف ہے اور ہر ممکن طور پر ان کا خاتمہ چاہتی ہے' مسلمانوں کی اکثریت امن پسند ہے اس لیے یورپی اقوام کو دہشت گردی کی کسی بھی کارروائی کو اسلام سے نتھی کرنے کی کوشش نہیں کرنا چاہیے۔ جہاں تک ترکی اور روس کے درمیان پیدا ہونے والے تنازع کا تعلق ہے تو پاکستان کا یہ موقف بالکل صائب ہے کہ دونوں ممالک کشیدگی کا حل مذاکرات کے ذریعے نکالیں' مذاکرات ہی وہ واحد راستہ ہیں جن سے باہمی غلط فہمیاں دور ہو جاتی ہیں۔

بعض مبصرین کا یہ کہنا ہے کہ امریکا اور اس کی اتحادی قوتیں ایک خاص منصوبہ بندی کے تحت مسلم ممالک کو تباہ کر رہی ہیں جس کی واضح مثال عراق' شام اور افغانستان ہیں اب وہ ترکی کے حالات بھی خراب کرنا چاہتی ہیں۔ ترکی کو اس سازش کا ادراک کر لینا چاہیے اور اپنی سرحدوں پر پیدا ہونے والی کشیدگی سے خود کو دور رکھنا چاہیے۔ روس سے تناؤ پیدا ہونے پر ترکی کو اقتصادی طور پر بھی نقصان کا سامنا کرنا پڑے گا اور وہ روسی منڈی کھو دے گا۔ اپریل 1974ء میں پاکستان' بھارت اور بنگلہ دیش کے درمیان سہ فریقی معاہدہ طے پایا تھا اس معاہدے میں 1971ء کے سانحہ کو بھلا کر آگے بڑھنے کی سوچ کو اپنانے پر زور دیا گیا تھا لیکن بنگلہ دیشی حکومت پاکستان کی حمایت کرنے والے کو مجرم قرار دے کر انھیں پھانسیاں دے رہی ہے جو کسی بھی طور پر درست عمل نہیں۔ دفتر خارجہ نے عالمی ایشو پر جو موقف پیش کیا ہے' وہ درست اور صائب ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ خارجہ امور پر ایک متوازن اور منطقی پوزیشن لی جائے کیونکہ اس وقت عالمی سطح پر بڑی تیزی سے تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں' ان تبدیلیوں کو سامنے رکھ کر ایک ٹھوس اور حقائق پر مبنی خارجہ پالیسی تشکیل دی جانی چاہیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں