ہم سب اداکار ہیں
دنیا ایک اسٹیج ہے اورہم سب اداکار ہیں ایک آدمی کو اپنی پیدائش سے لے کر آخری سانس تک لاتعداد کردار ادا کرنے پڑتے ہیں
دنیا ایک اسٹیج ہے اورہم سب اداکار ہیں ایک آدمی کو اپنی پیدائش سے لے کر آخری سانس تک لاتعداد کردار ادا کرنے پڑتے ہیں اور وہ بھی ایک ہی وقت میں اور یہ سب کے سب کردار لازمی ہوتے ہیں ۔ ان میں سے کوئی بھی کردار اختیاری نہیں ہوتا یعنی جب آپ پیدا ہوتے ہیں تو اسی لمحے آپ کو تمام کے تمام کردار سونپ دیے گئے ہوتے ہیں۔ ان کرداروں میں سے آپ کوکسی بھی کردار کو چننے یا منع کرنے کا اختیار حاصل نہیں ہوتا ہے یعنی ایک ہی وقت میں آپ بیٹے بھی ہوتے ہیں باپ بھی بھائی بھی بہنوئی بھی سالے بھی داماد بھی پڑوسی بھی شہری بھی دوست بھی دشمن بھی اوریہ سب کے سب کردار ایک ہی وقت میں آپ نے ادا کرنے ہوتے ہیں اور ان کے ساتھ ہی ساتھ آپ کو فقیر سے لے کربادشاہ تک کاکوئی بھی کردار نصیب ہو سکتا ہے یعنی آدمی سے بڑا کوئی اداکار ممکن ہی نہیں ہے ۔آپ ساری زندگی صرف کردار ادا کرتے رہتے ہیں لیکن زندگی کی کہانی ہدایتکار کی مرضی کے عین مطابق آگے بڑھتی ہے۔
یاد رہے ہم صرف اداکار ہیں جب کہ ہدایتکار اوپر بیٹھا ہوا ہے اسی لیے ہماری کہانیوں کا انجام ہمارے ہاتھ میں نہیں ہوتا ہے بلکہ اوپر بیٹھے ہوئے ہدایتکار کے ہاتھ میں ہوتا ہے اور وہ ہمیں کردار ادا کرتے ہوئے ہروقت دیکھ رہا ہوتا ہے کہ ہم اپنے کرداروں کے ساتھ انصاف کررہے ہیں یاناانصافی، اپنے کردار مثبت ادا کررہے ہیں یا منفی ۔ کردار تو ہمیں لازمی ادا کرنے ہیں لیکن ایک اختیار چونکہ ہمارے پاس ہروقت موجود ہوتا ہے کہ ہم اپنے کرداروں کو مثبت بھی ادا کرسکتے ہیں اور منفی بھی۔ یہ اختیار ہمارے پاس ہمیشہ موجود رہتا ہے آپ اپنی زندگی کی فلم میں اپنے لیے ہیروکا کردار چن سکتے ہیں یا پھر ولن کا یا پھر ایکسٹرا کا ۔یہ اختیار اور مرضی ساری کی ساری آپ کی خود کی ہوتی ہے اسی لیے جب آپ کی زندگی کی فلم کا پردہ گر جاتا ہے تو باقی دیکھنے والے یا تو آپ کو داد دے رہے ہوتے ہیں یا پھر برا بھلا کہہ رہے ہوتے ہیں۔
ان کرداروں کو ادا کرنے کی بہت سی صلاحیتیں آپ کو قدرتی طورپر عطا ہوتی ہیںاور بہت سی صلاحیتیں آپ اپنے گردو پیش میں بکھر ے کرداروں سے سیکھتے ہیں وہ سب کردار ہمار ے لیے چراغ ہوتے ہیں جن کی روشنی میں ہم آگے بڑھتے رہتے ہیں اور ہماری غلطیاں بھی ہمارے استاد ہوتے ہیں جن سے ہم سیکھتے رہتے ہیں کامیابی ہمارے قدم اس وقت تک چومتی رہتی ہے جب تک ہم سیکھنے کے عمل کو جاری رکھتے ہیں لیکن جیسے ہی ہم اپنے آپ کو کامیاب ادا کار سمجھنا شروع کردیتے ہیں اور جیسے ہی ہم میں یہ سوچ پیدا ہو جاتی ہے کہ اب ہمیں اور سیکھنے کی کوئی ضرورت باقی نہیں رہی ہے تو اسی وقت سے کامیابی کے روٹھنے کا عمل شروع ہو جاتا ہے اور آپ اسے منانے کی جتنی بھی دیر کرتے جاتے ہیں پھر وہ وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ آپ سے پھرکبھی نہیں مانتی اور آپ کا سفر واپس اندھیروں کی سمت شروع ہوجاتاہے اب تک کھربوں اور اس سے زیادہ اداکار اپنا اپنا کردار ادا کرکے جا چکے ہیں جن کے ناموں سے آج کوئی بھی واقف نہیں ہے کیونکہ انھوں نے اپنے کردار اتنی خوبیوں اور شاندار طریقے سے ادا نہیں کیے اور ساتھ ہی انھوں نے اپنے لیے ہیرو کا کردار نہیں چنا تھا اس لیے وہ آج ہم میں زندہ نہیں ہیں لیکن ان کے ساتھ ہی بہت سے ایسے اداکار بھی گذر ے ہیں کہ جنہوں نے اپنے کردار اتنے شاندار طریقے سے ادا کیے کہ وہ سب کے سب آج بھی زندہ ہیں۔
ان میں سقراط، سولن، ہومر، اسکائی لسی، سو فیکلیز، پلو ٹارک، یوری پیڈیز، ورجل، ہوریس، شیکسپیئر، کولرج، بائرن، ٹالسٹائی، گورکی، چیخوف، گوئٹے اور دیگر شامل ہیں ۔کردار کردار کی وجہ سے زندہ رہتے ہیں اور کردار ،کردار کی وجہ سے مر جاتے ہیں، کامیاب اداکار ہونے کے لیے آپ کو ایماندار ی، دیانت ، سچائی کے ساتھ ساتھ کرداروں کی باریکیوں سے واقف ہونا ضروری ہوتاہے اورکردار کی نازیکیوں سے بھی ذرا سی بے احتیاطی کی وجہ سے آپ کی کارکردگی فوراً متاثر ہونے لگتی ہے اور اگر آپ سنبھلتے نہیں ہیں تو پھر آپ کا شمار خود بخود ناکام و فلاپ اداکاروں کی فہرست میں ہوجاتا ہے کیونکہ اوپر بیٹھا ہدایتکار ہمیں ہروقت اپنے اپنے کردار ادا کرتے ہوئے دیکھ رہا ہوتا ہے کہ ہم اپنے اپنے کرداروں کے ساتھ انصاف کررہے ہیں یا ناانصافی کررہے ہیں اور دونوں ہی صورتوں میں لمحے لمحے کا فیصلہ ہورہا ہوتا ہے اگر ہم اپنی ملکی تاریخ کے کوڑا دان میں جھانک کر دیکھیں توہمیں بہت ہی دلچسپ تصویر نظر آتی ہے کہ ہمارے ملک کے اداکاروں کی اکثریت نے اپنے لیے ہمیشہ ولن کا کردار ہی چنا ہے انھیں ہمیشہ ہی ظالم، لٹیرے، غاصب کے کردار ہی پسند آئے ہیں اور انھوں نے یہ کردار اتنی خوبصورتی کے ساتھ ادا کیے ہیں کہ ان کے ہر سین پر داد دیے بغیر رہا نہیں جاتا۔
یہ بھی یاد رہے کہ انھوں نے یہ کردار ہمیشہ لائن توڑ کر لڑائی اور جھگڑا کر کے اورکھڑکی توڑ کر اس لیے حاصل کیے کہ کہیں ان سے پہلے یہ کردار کوئی اور حاصل نہ کرلیں، نجانے کیوں ہمارے اداکاروں کو پلاٹ ، پر مٹ ، روپو ں پیسوں ، ہیرے جواہرات ، محلوں ، ملوں سے کیوں اس قدر محبت رہی ہے نجانے کیوں انھیں ہیروکا کردار ادا کرنے سے چڑ سی ہوگئی ہے اور وہ سب کے سب ولن کا کردار حاصل کرنیوالی لائن میں لگے نظر آتے ہیں اور ہیرو کا کردار حاصل کرنیوالی لائن ہمیشہ ہی اجڑی ہوئی، بیوہ کی طرح نظر آئی ہے ۔ ہمارے اداکا روں کو دیکھ کر سسرو کی کہی گئی بات باربار یادآتی ہے اس نے کہا تھا '' کسی دوسرے کے نقصان سے فائدہ اٹھانا مو ت ، مفلسی اور دکھ سے زیادہ المناک اور غیر فطری فعل ہے ہمیں ہرکلیس کی طرح دکھ درد اور مصائب و تکالیف، برداشت کر کے دوسروں کی خدمت اور حفاظت کرنی چاہیے نہ کہ ایک گوشے میں بیٹھ کر لطف و راحت کی زندگی گذارنی چاہیے اعلیٰ اور عظیم کردار کے لوگ اپنی زندگی خدمت کے لیے وقف کردیتے ہیں اور ذاتی مفاد اور آرام کو بالکل ترک کردیتے ہیں یہ ہی لوگ فطرت کے ساتھ مکمل طور پر ہم آہنگ ہوتے ہیں وہ کبھی کسی کے ساتھ بدی نہیں کرسکتے دوسروں کو نقصان پہنچا کر ذاتی فائدہ اٹھانا ظلم وطغیان کے مترادف ہے اور یہ ایک غیر فطری چیز ہے۔
ایسا آدمی اس بات کو فراموش کردیتا ہے کہ جان اور مال کو لاحق تمام خطرات کے مقابلے میں اخلاقی غلطی سب سے زیادہ خطرناک ہے، اخلاقی کوتاہی روحانی طور پر موت ، مفلسی ، دکھ درد اور عزیزوں، دوستوں اور بچوں سے محرومی سے زیادہ خطرناک ہے جو شخص ذاتی فائد ے کی تلاش میں اسے حق سے جدا کردیتا ہے وہ غلط کار ہی نہیں بلکہ ایک اخلاقی مجرم ہے کیونکہ اسی سرچشمے سے تمام دوسرے جرائم یعنی قتل وزہرخوانی، جعل وفریب ، سرقہ وغبن استحصال وانتقاع ظہور میں آتے ہیں، اس بات کا امکان ہے کہ ایسا مجرم قانونی سزا سے بچ جائے لیکن اخلاقی سزا سے وہ کبھی نہیں بچ سکتا کیونکہ اخلاقی سزا عبارت ہے۔ ذہنی ذلالت اور روحانی انحطاط جوہر اخلاقی مجرم کو فطرت کی طرف سے خود بخود پہنچ جاتی ہے اور جس سے اس کے ذہن اور روح میں ایسا نا سو ر پیدا ہوجاتا ہے جو ہمیشہ رستا رہتا ہے اور اس کی زندگی میں زہر گھولتا رہتا ہے۔'' ہمارے اداکاروں کو اگرکبھی ذرا سی بھی فرصت مل جائے تو ان سے گذارش ہے کہ وہ اپنے جسموں کو اچھی طرح سے دیکھ لیں اور وہ جب ایسا کرینگے تو انھیں اپنے ناسور فوراً نظر آجائینگے جو ہر وقت رس رہے ہیں ۔
یاد رہے ہم صرف اداکار ہیں جب کہ ہدایتکار اوپر بیٹھا ہوا ہے اسی لیے ہماری کہانیوں کا انجام ہمارے ہاتھ میں نہیں ہوتا ہے بلکہ اوپر بیٹھے ہوئے ہدایتکار کے ہاتھ میں ہوتا ہے اور وہ ہمیں کردار ادا کرتے ہوئے ہروقت دیکھ رہا ہوتا ہے کہ ہم اپنے کرداروں کے ساتھ انصاف کررہے ہیں یاناانصافی، اپنے کردار مثبت ادا کررہے ہیں یا منفی ۔ کردار تو ہمیں لازمی ادا کرنے ہیں لیکن ایک اختیار چونکہ ہمارے پاس ہروقت موجود ہوتا ہے کہ ہم اپنے کرداروں کو مثبت بھی ادا کرسکتے ہیں اور منفی بھی۔ یہ اختیار ہمارے پاس ہمیشہ موجود رہتا ہے آپ اپنی زندگی کی فلم میں اپنے لیے ہیروکا کردار چن سکتے ہیں یا پھر ولن کا یا پھر ایکسٹرا کا ۔یہ اختیار اور مرضی ساری کی ساری آپ کی خود کی ہوتی ہے اسی لیے جب آپ کی زندگی کی فلم کا پردہ گر جاتا ہے تو باقی دیکھنے والے یا تو آپ کو داد دے رہے ہوتے ہیں یا پھر برا بھلا کہہ رہے ہوتے ہیں۔
ان کرداروں کو ادا کرنے کی بہت سی صلاحیتیں آپ کو قدرتی طورپر عطا ہوتی ہیںاور بہت سی صلاحیتیں آپ اپنے گردو پیش میں بکھر ے کرداروں سے سیکھتے ہیں وہ سب کردار ہمار ے لیے چراغ ہوتے ہیں جن کی روشنی میں ہم آگے بڑھتے رہتے ہیں اور ہماری غلطیاں بھی ہمارے استاد ہوتے ہیں جن سے ہم سیکھتے رہتے ہیں کامیابی ہمارے قدم اس وقت تک چومتی رہتی ہے جب تک ہم سیکھنے کے عمل کو جاری رکھتے ہیں لیکن جیسے ہی ہم اپنے آپ کو کامیاب ادا کار سمجھنا شروع کردیتے ہیں اور جیسے ہی ہم میں یہ سوچ پیدا ہو جاتی ہے کہ اب ہمیں اور سیکھنے کی کوئی ضرورت باقی نہیں رہی ہے تو اسی وقت سے کامیابی کے روٹھنے کا عمل شروع ہو جاتا ہے اور آپ اسے منانے کی جتنی بھی دیر کرتے جاتے ہیں پھر وہ وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ آپ سے پھرکبھی نہیں مانتی اور آپ کا سفر واپس اندھیروں کی سمت شروع ہوجاتاہے اب تک کھربوں اور اس سے زیادہ اداکار اپنا اپنا کردار ادا کرکے جا چکے ہیں جن کے ناموں سے آج کوئی بھی واقف نہیں ہے کیونکہ انھوں نے اپنے کردار اتنی خوبیوں اور شاندار طریقے سے ادا نہیں کیے اور ساتھ ہی انھوں نے اپنے لیے ہیرو کا کردار نہیں چنا تھا اس لیے وہ آج ہم میں زندہ نہیں ہیں لیکن ان کے ساتھ ہی بہت سے ایسے اداکار بھی گذر ے ہیں کہ جنہوں نے اپنے کردار اتنے شاندار طریقے سے ادا کیے کہ وہ سب کے سب آج بھی زندہ ہیں۔
ان میں سقراط، سولن، ہومر، اسکائی لسی، سو فیکلیز، پلو ٹارک، یوری پیڈیز، ورجل، ہوریس، شیکسپیئر، کولرج، بائرن، ٹالسٹائی، گورکی، چیخوف، گوئٹے اور دیگر شامل ہیں ۔کردار کردار کی وجہ سے زندہ رہتے ہیں اور کردار ،کردار کی وجہ سے مر جاتے ہیں، کامیاب اداکار ہونے کے لیے آپ کو ایماندار ی، دیانت ، سچائی کے ساتھ ساتھ کرداروں کی باریکیوں سے واقف ہونا ضروری ہوتاہے اورکردار کی نازیکیوں سے بھی ذرا سی بے احتیاطی کی وجہ سے آپ کی کارکردگی فوراً متاثر ہونے لگتی ہے اور اگر آپ سنبھلتے نہیں ہیں تو پھر آپ کا شمار خود بخود ناکام و فلاپ اداکاروں کی فہرست میں ہوجاتا ہے کیونکہ اوپر بیٹھا ہدایتکار ہمیں ہروقت اپنے اپنے کردار ادا کرتے ہوئے دیکھ رہا ہوتا ہے کہ ہم اپنے اپنے کرداروں کے ساتھ انصاف کررہے ہیں یا ناانصافی کررہے ہیں اور دونوں ہی صورتوں میں لمحے لمحے کا فیصلہ ہورہا ہوتا ہے اگر ہم اپنی ملکی تاریخ کے کوڑا دان میں جھانک کر دیکھیں توہمیں بہت ہی دلچسپ تصویر نظر آتی ہے کہ ہمارے ملک کے اداکاروں کی اکثریت نے اپنے لیے ہمیشہ ولن کا کردار ہی چنا ہے انھیں ہمیشہ ہی ظالم، لٹیرے، غاصب کے کردار ہی پسند آئے ہیں اور انھوں نے یہ کردار اتنی خوبصورتی کے ساتھ ادا کیے ہیں کہ ان کے ہر سین پر داد دیے بغیر رہا نہیں جاتا۔
یہ بھی یاد رہے کہ انھوں نے یہ کردار ہمیشہ لائن توڑ کر لڑائی اور جھگڑا کر کے اورکھڑکی توڑ کر اس لیے حاصل کیے کہ کہیں ان سے پہلے یہ کردار کوئی اور حاصل نہ کرلیں، نجانے کیوں ہمارے اداکاروں کو پلاٹ ، پر مٹ ، روپو ں پیسوں ، ہیرے جواہرات ، محلوں ، ملوں سے کیوں اس قدر محبت رہی ہے نجانے کیوں انھیں ہیروکا کردار ادا کرنے سے چڑ سی ہوگئی ہے اور وہ سب کے سب ولن کا کردار حاصل کرنیوالی لائن میں لگے نظر آتے ہیں اور ہیرو کا کردار حاصل کرنیوالی لائن ہمیشہ ہی اجڑی ہوئی، بیوہ کی طرح نظر آئی ہے ۔ ہمارے اداکا روں کو دیکھ کر سسرو کی کہی گئی بات باربار یادآتی ہے اس نے کہا تھا '' کسی دوسرے کے نقصان سے فائدہ اٹھانا مو ت ، مفلسی اور دکھ سے زیادہ المناک اور غیر فطری فعل ہے ہمیں ہرکلیس کی طرح دکھ درد اور مصائب و تکالیف، برداشت کر کے دوسروں کی خدمت اور حفاظت کرنی چاہیے نہ کہ ایک گوشے میں بیٹھ کر لطف و راحت کی زندگی گذارنی چاہیے اعلیٰ اور عظیم کردار کے لوگ اپنی زندگی خدمت کے لیے وقف کردیتے ہیں اور ذاتی مفاد اور آرام کو بالکل ترک کردیتے ہیں یہ ہی لوگ فطرت کے ساتھ مکمل طور پر ہم آہنگ ہوتے ہیں وہ کبھی کسی کے ساتھ بدی نہیں کرسکتے دوسروں کو نقصان پہنچا کر ذاتی فائدہ اٹھانا ظلم وطغیان کے مترادف ہے اور یہ ایک غیر فطری چیز ہے۔
ایسا آدمی اس بات کو فراموش کردیتا ہے کہ جان اور مال کو لاحق تمام خطرات کے مقابلے میں اخلاقی غلطی سب سے زیادہ خطرناک ہے، اخلاقی کوتاہی روحانی طور پر موت ، مفلسی ، دکھ درد اور عزیزوں، دوستوں اور بچوں سے محرومی سے زیادہ خطرناک ہے جو شخص ذاتی فائد ے کی تلاش میں اسے حق سے جدا کردیتا ہے وہ غلط کار ہی نہیں بلکہ ایک اخلاقی مجرم ہے کیونکہ اسی سرچشمے سے تمام دوسرے جرائم یعنی قتل وزہرخوانی، جعل وفریب ، سرقہ وغبن استحصال وانتقاع ظہور میں آتے ہیں، اس بات کا امکان ہے کہ ایسا مجرم قانونی سزا سے بچ جائے لیکن اخلاقی سزا سے وہ کبھی نہیں بچ سکتا کیونکہ اخلاقی سزا عبارت ہے۔ ذہنی ذلالت اور روحانی انحطاط جوہر اخلاقی مجرم کو فطرت کی طرف سے خود بخود پہنچ جاتی ہے اور جس سے اس کے ذہن اور روح میں ایسا نا سو ر پیدا ہوجاتا ہے جو ہمیشہ رستا رہتا ہے اور اس کی زندگی میں زہر گھولتا رہتا ہے۔'' ہمارے اداکاروں کو اگرکبھی ذرا سی بھی فرصت مل جائے تو ان سے گذارش ہے کہ وہ اپنے جسموں کو اچھی طرح سے دیکھ لیں اور وہ جب ایسا کرینگے تو انھیں اپنے ناسور فوراً نظر آجائینگے جو ہر وقت رس رہے ہیں ۔