مادر جمہوریت بیگم نصرت بھٹو آخری حصہ
وہ کہتی تھیں کہ بھٹو انھیں جیل کی کوٹھڑی سے خط لکھتے تھے،
LYTHAM:
وہ کہتی تھیں کہ بھٹو انھیں جیل کی کوٹھڑی سے خط لکھتے تھے، جو انھیں بڑی رازداری سے پہنچائے جاتے تھے، جس میں بہت ساری باتیں ہوتی تھیں، مگر ایک خط ایسا بھی تھا جس میں بھٹو نے لکھا تھا کہ اگر اس کی شادی نصرت سے نہ ہوتی تو وہ ایک جاگیردار ہوتا مگر نصرت کے عوام سے پیار نے مجھے ایک عوامی لیڈر بنا دیا، جس کے جواب میں اس نے بھی اپنی زندگی عوام، ملک اور اسلام کے لیے قربان کردی مگر سر نہیں جھکایا۔ نصرت چاہتی تھیں کہ ان خطوط پر ایک کتاب شایع ہو، مگر اب وہ خطوط کہاں ہیں اوران کا کیا ہوا میرے علم میں نہیں ہے۔ وہ ایک مکمل سیاسی لیڈر بن گئی تھیں، انھوں نے ایم آر ڈی بنوائی اور اپنی پارٹی کے ورکرز کا حوصلہ بلند رکھنے کے لیے خود جلسے اور جلوس کی قیادت کرتی تھیں اور ایک مرتبہ جب انھیں 70 کلفٹن میں نظربند رکھا گیا تو وہ وہاں سے برقعہ پہن کر ٹرین کے ذریعے لاہور پہنچیں۔
ان کی سیاسی بصیرت دیکھیں کہ جن 9 ستاروں والوں نے ان کے شوہر کی حکومت ختم کروانے میں رول ادا کیا انھی کے ساتھ بیٹھ کر ایم آر ڈی کی تحریک میں اجلاس کیے اور جدوجہد میں آگے آگے رہیں۔ ایک مرتبہ ضیا الحق نے جب بھٹوکی حکومت ختم کر کے اقتدار پر قبضہ کیا تو نصرت نے قذافی اسٹیڈیم لاہور میں جہاں کرکٹ میچ چل رہا تھا، اپنے ورکرز کوکہا کہ وہ وہاں پہنچیں اور خود بھی آئیں اور جب احتجاج کے دوران پولیس والوں نے ورکرز پہ لاٹھی چارج کیا تو انھوں نے کہا کہ وہ ان کے بچوں کو نہ ماریں مجھ پر لاٹھیاں برسائیں اور پھر پولیس نے ان پر لاٹھیوں کے وار کیے جس سے وہ خون میں نہا گئیں۔ اس لاٹھی چارج سے انھیں سر پر اتنے گہرے زخم پڑے کہ ان میں بھولنے والی بیماری الزائمر پیدا ہوگئی۔ وہ عام انسانوں کی طرح رکشے، ٹانگے، ٹیکسی، بس اور ٹرین میں سفر کرکے جلسے جلوسوں میں پہنچ جاتی تھیں۔ ایک مرتبہ جب انھیں ملک سے باہر علاج کروانے کے لیے اجازت دی گئی تو وہ فرانس بھی گئیں اور جب وہاں پر ایفل ٹاور کے قریب سے گزریں تو انھیں ایک ہوٹل نظر آیا جہاں پر انھوں نے بھٹو کے ساتھ ہنی مون منایا تھا۔ ان کی آنکھیں اتنی آب دیدہ ہوگئیں کہ انھیں صاف دکھائی نہیں دے رہا تھا۔
نصرت بھٹو نے اپنے سیاسی کیریئرکا آغاز تو 1968 میں کیا تھا جب جنرل ایوب خان نے بھٹو کو جیل میں ڈالا تھا اور نصرت نے اس کی رہائی کے لیے جلسے اور جلوس کیے اور لوگوں کو حوصلہ دیتی رہی۔مگر ان کی کڑی آزمائش بھٹوکی پھانسی کے بعد شروع ہوئی۔ بھٹو نے پھانسی سے پہلے اپنی لیڈرشپ کوکہا کہ وہ وائس چیئرمین پیپلز پارٹی کو چیئرمین کے عہدے پر بٹھا دیں مگر شیخ رشید نے بھٹوکو مشورہ دیا تھا کہ وہ نصرت بھٹو کو اپنے بعد چیئرمین بنانے کی اجازت دیں کیونکہ پارٹی میں شامل فیوڈلز آمر ضیا الحق کے دباؤ میں آسکتے ہیں جس سے پارٹی کو نقصان ہوگا۔ وہ فیصلہ کتنا مضبوط اور صحیح تھا جسے نصرت بھٹو نے اپنی دلیری، جانفشانی، خون اور قربانی سے صحیح اور سچ ثابت کیا۔ وہ کھلم کھلا آمر سے ٹکرانے کے لیے میدان میں آگئیں اور ذہنی اور جسمانی ٹارچر اسے زیر نہیں کرسکے۔ وہ عورت ہوکر مردوں سے زیادہ مضبوط اور حوصلہ مند ثابت ہوئیں۔
نصرت نے جب مارشل لا کے ظلم، ناانصافی اور زیادتیوں کے خلاف آواز بلند کی تو اس کا ساتھ دینے کے لیے ہر طبقہ فکر سے لوگ نکل کر آئے جس میں عورتیں بھی شامل تھیں۔ نصرت بھٹو نے ثابت کر دکھایا کہ عورت اگر چاہے تو پہاڑوں کو ریزہ ریزہ کرسکتی ہے۔ وہ عورتوں کے لیے مشعل راہ ہیں اور آنے والی نسلوں کے لیے جدوجہد کا سمبل ہیں جن کی قربانی کو دیکھ کر عورتوں کا حوصلہ بڑھ جائے گا۔ راولپنڈی،کراچی، اور سکھر جیل کی اونچی دیواریں اور قید تنہائی بھی اسے مرعوب نہ کرسکیں بلکہ ان کا اور حوصلہ بڑھتا گیا۔ مگر جب اس نے اپنی پیاری بیٹی بے نظیر بھٹو کی جیل میں حالت دیکھی تو اس کا دل بیٹھ گیا ۔ پھر اسے کہا کہ اسے ابھی ایک آمر سے ٹکرانا ہے، جمہوریت بحال کروانی ہے اور عوام کو آمر ضیا الحق سے نجات دلوانی ہے۔ نصرت نے چاہا تھا کہ وہ بے نظیر بھٹو اور مرتضیٰ بھٹو کے درمیان حائل فاصلے کم کروائیں مگر کچھ طاقتیں ایسا نہیں چاہتی تھیں اور انھوں نے سازش کے ذریعے خلیج کو اور بڑھا دیا اور مرتضیٰ کے بہیمانہ قتل سے بھٹو خاندان میں ہمیشہ کے لیے دوری کے آثار نظر آنے لگے جس نے آخر بے نظیر بھٹو کی بھی زندگی لے لی۔ اچھا ہوا کہ نصرت نے اپنی پنکی کی جدائی نہیں دیکھی ورنہ وہ اس کے لیے قیامت سے بھی زیادہ بھیانک لمحہ ہوتا۔
نصرت بھٹو نے اپنی گھریلو زندگی کو بھی کافی خوش گوار رکھا تھا۔ اس نے بچوں کی پرورش اس انداز میں کی کہ وہ زندگی کے ہر نشیب و فراز کا سامنا کرسکیں۔ بھٹو جب ملک سے باہر جاتے تو وہ گھرکو زیادہ دیکھتیں ۔ جب بھٹو جیل چلے گئے تو وہ عوام کے ساتھ ہوتی تھیں۔ وہ روزانہ چار سے پانچ گھنٹے بھی پارٹی کے آفس میں پارٹی کے لیڈران اور ورکرز سے ملتیں، ان کے مسائل پوچھتیں اور انھیں حل کرتی تھیں۔ وہ خاص طور پر ورکرزکے گھریلو مسائل کا بھی پوچھتیں اور ان کی مالی مدد بھی کرتیں ۔موت پانے والے ورکرز اور رہنماؤں کے گھر تعزیت کے لیے جاتیں، سارے لوگ جانتے تھے کہ انھیں گھرکے نوکروں اور پارٹی ورکرز سے بڑی محبت ہوتی تھی اور وہ انھیں ان کے نام سے پکارتی تھیں جس سے وہ بڑے خوش ہوتے تھے۔ ایک مرتبہ ان کے پاس پیسے کم تھے تو انھوں نے اپنے ایک ورکر کو سونے کی انگوٹھی دی کہ وہ جاکر اپنا مالی مسئلہ حل کرے مگر اس ورکر نے احتراماً واپس کر کے شکریہ ادا کیا اور کہا کہ وہ اپنی ماں کی انگوٹھی نہیں بیچے گا۔ وہ چھوٹے عملداروں کو کچھ نہیں کہتی تھیں اور بڑے افسروں کو ورکرز کو مارنے پر جلسوں اور جلوسوں میں تھپڑ بھی مار دیتی تھیں۔
پارٹی کے لیے انھوں نے کبھی بھی کوئی سستی نہیں برتی اور جب بھی اس کی ضرورت محسوس ہوئی وہ پہنچ جاتی تھیں۔وہ 1979 سے 1983 تک پارٹی کی چیئرمین رہیں۔ لیکن طبیعت کی خرابی کی وجہ سے دبئی چلی گئیں جس کے بعد بے نظیر بھٹو پارٹی چیئرمین بنیں۔ وہ بے نظیر کو ہمیشہ کہتی تھیں کہ وہ عوام سے گہرے ناتے جوڑیں اور ان کے فلاح و بہبود کے لیے نئے نئے پروجیکٹس شروع کروائیں جس سے لوگوں کو نوکریاں اور روزگار ملے، ملک میں ترقی ہو اور قوم خوشحال رہے۔ وہ بے نظیر کے لیے جیل میں اچھی کتابیں اور اپنے ہاتھوں سے تیار کردہ کھانا بھیجتی تھیں۔ بھٹوکی پھانسی کے بعد وہ کبھی بھی ایک پل کے لیے سکون کی نیند نہیں سوئیں اور ہر رات یہ سوچتی تھیں کہ وہ آمر ضیا الحق کو کیفر کردار تک کیسے پہنچائے۔ لوگوں کو اس کے ظلم، بربریت اور خوف سے کیسے نجات دلوائیں۔
مجھے افسوس ہوتا ہے جب میں پارٹی کی طرف سے مختلف مواقعے پر خبریں تصاویراور فیچر اخباروں میں چھاپے جاتے ہیں یا پھر الیکٹرانک چینلز پر دکھائے جاتے ہیں ان میں سب کی تصویریں اور نام ہوتے ہیں مگر نصرت بھٹو کا نام اور تصویر نہیں ہوتی جس نے بھٹو کی پھانسی کے بعد پارٹی کو اپنا خون دے کر، بیٹوں اور بیٹیوں کی جان کی قربانی دے کر، لاٹھیاں کھا کر، در در بغیر دوپٹے اور جوتی کے روڈوں پر دوڑتے دوڑتے اپنے آپ کو کوما میں ڈال دیا جہاں سے وہ 23 اکتوبر 2011 کو دوسری دنیا کی طرف روانہ ہوگئیں ۔ ان کی جدوجہد نے کارکنوں کو یہ سکھایا کہ ظلم اور جبر کے آگے سر نہ جھکاؤ، جمہوریت کی آب کاری کے لیے ایمانداری سے عوام کی خدمت کرو، اس نے سچائی کا پرچم بلند کر کے ایک نئی تاریخ مرتب کی جس سے عورتوں کو ایک رول ماڈل ملا ہے، آمریت کی جڑیں کھوکھلی کرنے کے لیے ہمت، بہادری، جرأت کا مظاہرہ کیا۔ نصرت بھٹو نے بھٹو کے پروگرام اور پارٹی کو مضبوط کرنے کے لیے ہمالیہ جیسا بلند اور مضبوط حوصلہ دکھا کر آنے والی نئی نسل کے لیے دلیرانہ راستہ دکھایا ہے۔
اگر موجودہ پارٹی لیڈر چاہتے ہیں کہ وہ عوام کی خدمت کریں تو اپنی صفوں سے کرپٹ لوگوں کا قلع قمع کریں اور ملک کے اندر اصلی، سچے اور ایماندار لوگوں کو آگے لائیں تاکہ بھٹو اور نصرت بھٹو کے ساتھ بے نظیر بھٹو کی روح بھی خوش ہوجائے ورنہ وہ دن دور نہیں جب یوم حساب ہوگا اور عام آدمی کا ہاتھ سیاسی لیڈروں کے گریبانوں تک پہنچ جائے گا اور انھیں چھپنے کی جگہ بھی نہیں ملے گی۔
وہ کہتی تھیں کہ بھٹو انھیں جیل کی کوٹھڑی سے خط لکھتے تھے، جو انھیں بڑی رازداری سے پہنچائے جاتے تھے، جس میں بہت ساری باتیں ہوتی تھیں، مگر ایک خط ایسا بھی تھا جس میں بھٹو نے لکھا تھا کہ اگر اس کی شادی نصرت سے نہ ہوتی تو وہ ایک جاگیردار ہوتا مگر نصرت کے عوام سے پیار نے مجھے ایک عوامی لیڈر بنا دیا، جس کے جواب میں اس نے بھی اپنی زندگی عوام، ملک اور اسلام کے لیے قربان کردی مگر سر نہیں جھکایا۔ نصرت چاہتی تھیں کہ ان خطوط پر ایک کتاب شایع ہو، مگر اب وہ خطوط کہاں ہیں اوران کا کیا ہوا میرے علم میں نہیں ہے۔ وہ ایک مکمل سیاسی لیڈر بن گئی تھیں، انھوں نے ایم آر ڈی بنوائی اور اپنی پارٹی کے ورکرز کا حوصلہ بلند رکھنے کے لیے خود جلسے اور جلوس کی قیادت کرتی تھیں اور ایک مرتبہ جب انھیں 70 کلفٹن میں نظربند رکھا گیا تو وہ وہاں سے برقعہ پہن کر ٹرین کے ذریعے لاہور پہنچیں۔
ان کی سیاسی بصیرت دیکھیں کہ جن 9 ستاروں والوں نے ان کے شوہر کی حکومت ختم کروانے میں رول ادا کیا انھی کے ساتھ بیٹھ کر ایم آر ڈی کی تحریک میں اجلاس کیے اور جدوجہد میں آگے آگے رہیں۔ ایک مرتبہ ضیا الحق نے جب بھٹوکی حکومت ختم کر کے اقتدار پر قبضہ کیا تو نصرت نے قذافی اسٹیڈیم لاہور میں جہاں کرکٹ میچ چل رہا تھا، اپنے ورکرز کوکہا کہ وہ وہاں پہنچیں اور خود بھی آئیں اور جب احتجاج کے دوران پولیس والوں نے ورکرز پہ لاٹھی چارج کیا تو انھوں نے کہا کہ وہ ان کے بچوں کو نہ ماریں مجھ پر لاٹھیاں برسائیں اور پھر پولیس نے ان پر لاٹھیوں کے وار کیے جس سے وہ خون میں نہا گئیں۔ اس لاٹھی چارج سے انھیں سر پر اتنے گہرے زخم پڑے کہ ان میں بھولنے والی بیماری الزائمر پیدا ہوگئی۔ وہ عام انسانوں کی طرح رکشے، ٹانگے، ٹیکسی، بس اور ٹرین میں سفر کرکے جلسے جلوسوں میں پہنچ جاتی تھیں۔ ایک مرتبہ جب انھیں ملک سے باہر علاج کروانے کے لیے اجازت دی گئی تو وہ فرانس بھی گئیں اور جب وہاں پر ایفل ٹاور کے قریب سے گزریں تو انھیں ایک ہوٹل نظر آیا جہاں پر انھوں نے بھٹو کے ساتھ ہنی مون منایا تھا۔ ان کی آنکھیں اتنی آب دیدہ ہوگئیں کہ انھیں صاف دکھائی نہیں دے رہا تھا۔
نصرت بھٹو نے اپنے سیاسی کیریئرکا آغاز تو 1968 میں کیا تھا جب جنرل ایوب خان نے بھٹو کو جیل میں ڈالا تھا اور نصرت نے اس کی رہائی کے لیے جلسے اور جلوس کیے اور لوگوں کو حوصلہ دیتی رہی۔مگر ان کی کڑی آزمائش بھٹوکی پھانسی کے بعد شروع ہوئی۔ بھٹو نے پھانسی سے پہلے اپنی لیڈرشپ کوکہا کہ وہ وائس چیئرمین پیپلز پارٹی کو چیئرمین کے عہدے پر بٹھا دیں مگر شیخ رشید نے بھٹوکو مشورہ دیا تھا کہ وہ نصرت بھٹو کو اپنے بعد چیئرمین بنانے کی اجازت دیں کیونکہ پارٹی میں شامل فیوڈلز آمر ضیا الحق کے دباؤ میں آسکتے ہیں جس سے پارٹی کو نقصان ہوگا۔ وہ فیصلہ کتنا مضبوط اور صحیح تھا جسے نصرت بھٹو نے اپنی دلیری، جانفشانی، خون اور قربانی سے صحیح اور سچ ثابت کیا۔ وہ کھلم کھلا آمر سے ٹکرانے کے لیے میدان میں آگئیں اور ذہنی اور جسمانی ٹارچر اسے زیر نہیں کرسکے۔ وہ عورت ہوکر مردوں سے زیادہ مضبوط اور حوصلہ مند ثابت ہوئیں۔
نصرت نے جب مارشل لا کے ظلم، ناانصافی اور زیادتیوں کے خلاف آواز بلند کی تو اس کا ساتھ دینے کے لیے ہر طبقہ فکر سے لوگ نکل کر آئے جس میں عورتیں بھی شامل تھیں۔ نصرت بھٹو نے ثابت کر دکھایا کہ عورت اگر چاہے تو پہاڑوں کو ریزہ ریزہ کرسکتی ہے۔ وہ عورتوں کے لیے مشعل راہ ہیں اور آنے والی نسلوں کے لیے جدوجہد کا سمبل ہیں جن کی قربانی کو دیکھ کر عورتوں کا حوصلہ بڑھ جائے گا۔ راولپنڈی،کراچی، اور سکھر جیل کی اونچی دیواریں اور قید تنہائی بھی اسے مرعوب نہ کرسکیں بلکہ ان کا اور حوصلہ بڑھتا گیا۔ مگر جب اس نے اپنی پیاری بیٹی بے نظیر بھٹو کی جیل میں حالت دیکھی تو اس کا دل بیٹھ گیا ۔ پھر اسے کہا کہ اسے ابھی ایک آمر سے ٹکرانا ہے، جمہوریت بحال کروانی ہے اور عوام کو آمر ضیا الحق سے نجات دلوانی ہے۔ نصرت نے چاہا تھا کہ وہ بے نظیر بھٹو اور مرتضیٰ بھٹو کے درمیان حائل فاصلے کم کروائیں مگر کچھ طاقتیں ایسا نہیں چاہتی تھیں اور انھوں نے سازش کے ذریعے خلیج کو اور بڑھا دیا اور مرتضیٰ کے بہیمانہ قتل سے بھٹو خاندان میں ہمیشہ کے لیے دوری کے آثار نظر آنے لگے جس نے آخر بے نظیر بھٹو کی بھی زندگی لے لی۔ اچھا ہوا کہ نصرت نے اپنی پنکی کی جدائی نہیں دیکھی ورنہ وہ اس کے لیے قیامت سے بھی زیادہ بھیانک لمحہ ہوتا۔
نصرت بھٹو نے اپنی گھریلو زندگی کو بھی کافی خوش گوار رکھا تھا۔ اس نے بچوں کی پرورش اس انداز میں کی کہ وہ زندگی کے ہر نشیب و فراز کا سامنا کرسکیں۔ بھٹو جب ملک سے باہر جاتے تو وہ گھرکو زیادہ دیکھتیں ۔ جب بھٹو جیل چلے گئے تو وہ عوام کے ساتھ ہوتی تھیں۔ وہ روزانہ چار سے پانچ گھنٹے بھی پارٹی کے آفس میں پارٹی کے لیڈران اور ورکرز سے ملتیں، ان کے مسائل پوچھتیں اور انھیں حل کرتی تھیں۔ وہ خاص طور پر ورکرزکے گھریلو مسائل کا بھی پوچھتیں اور ان کی مالی مدد بھی کرتیں ۔موت پانے والے ورکرز اور رہنماؤں کے گھر تعزیت کے لیے جاتیں، سارے لوگ جانتے تھے کہ انھیں گھرکے نوکروں اور پارٹی ورکرز سے بڑی محبت ہوتی تھی اور وہ انھیں ان کے نام سے پکارتی تھیں جس سے وہ بڑے خوش ہوتے تھے۔ ایک مرتبہ ان کے پاس پیسے کم تھے تو انھوں نے اپنے ایک ورکر کو سونے کی انگوٹھی دی کہ وہ جاکر اپنا مالی مسئلہ حل کرے مگر اس ورکر نے احتراماً واپس کر کے شکریہ ادا کیا اور کہا کہ وہ اپنی ماں کی انگوٹھی نہیں بیچے گا۔ وہ چھوٹے عملداروں کو کچھ نہیں کہتی تھیں اور بڑے افسروں کو ورکرز کو مارنے پر جلسوں اور جلوسوں میں تھپڑ بھی مار دیتی تھیں۔
پارٹی کے لیے انھوں نے کبھی بھی کوئی سستی نہیں برتی اور جب بھی اس کی ضرورت محسوس ہوئی وہ پہنچ جاتی تھیں۔وہ 1979 سے 1983 تک پارٹی کی چیئرمین رہیں۔ لیکن طبیعت کی خرابی کی وجہ سے دبئی چلی گئیں جس کے بعد بے نظیر بھٹو پارٹی چیئرمین بنیں۔ وہ بے نظیر کو ہمیشہ کہتی تھیں کہ وہ عوام سے گہرے ناتے جوڑیں اور ان کے فلاح و بہبود کے لیے نئے نئے پروجیکٹس شروع کروائیں جس سے لوگوں کو نوکریاں اور روزگار ملے، ملک میں ترقی ہو اور قوم خوشحال رہے۔ وہ بے نظیر کے لیے جیل میں اچھی کتابیں اور اپنے ہاتھوں سے تیار کردہ کھانا بھیجتی تھیں۔ بھٹوکی پھانسی کے بعد وہ کبھی بھی ایک پل کے لیے سکون کی نیند نہیں سوئیں اور ہر رات یہ سوچتی تھیں کہ وہ آمر ضیا الحق کو کیفر کردار تک کیسے پہنچائے۔ لوگوں کو اس کے ظلم، بربریت اور خوف سے کیسے نجات دلوائیں۔
مجھے افسوس ہوتا ہے جب میں پارٹی کی طرف سے مختلف مواقعے پر خبریں تصاویراور فیچر اخباروں میں چھاپے جاتے ہیں یا پھر الیکٹرانک چینلز پر دکھائے جاتے ہیں ان میں سب کی تصویریں اور نام ہوتے ہیں مگر نصرت بھٹو کا نام اور تصویر نہیں ہوتی جس نے بھٹو کی پھانسی کے بعد پارٹی کو اپنا خون دے کر، بیٹوں اور بیٹیوں کی جان کی قربانی دے کر، لاٹھیاں کھا کر، در در بغیر دوپٹے اور جوتی کے روڈوں پر دوڑتے دوڑتے اپنے آپ کو کوما میں ڈال دیا جہاں سے وہ 23 اکتوبر 2011 کو دوسری دنیا کی طرف روانہ ہوگئیں ۔ ان کی جدوجہد نے کارکنوں کو یہ سکھایا کہ ظلم اور جبر کے آگے سر نہ جھکاؤ، جمہوریت کی آب کاری کے لیے ایمانداری سے عوام کی خدمت کرو، اس نے سچائی کا پرچم بلند کر کے ایک نئی تاریخ مرتب کی جس سے عورتوں کو ایک رول ماڈل ملا ہے، آمریت کی جڑیں کھوکھلی کرنے کے لیے ہمت، بہادری، جرأت کا مظاہرہ کیا۔ نصرت بھٹو نے بھٹو کے پروگرام اور پارٹی کو مضبوط کرنے کے لیے ہمالیہ جیسا بلند اور مضبوط حوصلہ دکھا کر آنے والی نئی نسل کے لیے دلیرانہ راستہ دکھایا ہے۔
اگر موجودہ پارٹی لیڈر چاہتے ہیں کہ وہ عوام کی خدمت کریں تو اپنی صفوں سے کرپٹ لوگوں کا قلع قمع کریں اور ملک کے اندر اصلی، سچے اور ایماندار لوگوں کو آگے لائیں تاکہ بھٹو اور نصرت بھٹو کے ساتھ بے نظیر بھٹو کی روح بھی خوش ہوجائے ورنہ وہ دن دور نہیں جب یوم حساب ہوگا اور عام آدمی کا ہاتھ سیاسی لیڈروں کے گریبانوں تک پہنچ جائے گا اور انھیں چھپنے کی جگہ بھی نہیں ملے گی۔