سنہرے مستقبل کی نوید پاکستان میں شیل گیس و تیل کی دریافت
اللہ تعالی کے عطا کردہ یہ بیش قیمت قدرتی وسائل وطن عزیز کو خوشحال اور ترقی یافتہ بنانے کی صلاحیت رکھتے ہیں
میرے ایک قریبی عزیز پچھلے 20 برس سے کینیڈا میں مقیم ہیں۔گاہے بگاہے وطن آتے رہتے ہیں۔جب بھی ملاقات ہو، تو وہ یہی کہتے ہیں کہ خدا تعالی نے پاکستان کو جس وافر مقدار میں قدرتی وسائل کے خزانوں سے نوازا ہے، اسے دیکھتے ہوئے پاک وطن کو خوشحال اور ترقی یافتہ ملک ہونا چاہیے تھا مگر...ان کا مزید کہنا ہے کہ پاکستان اس لیے ترقی نہیں کر سکا کہ اسے قابل،اہل اور محب وطن حکمران نصیب نہ ہو سکے۔
اب ہمارے شعبہ توانائی ہی کو لیجیے۔اللہ تعالی کے فضل سے ہمیں وہ تمام قدرتی وسائل...پانی ،ہوا اور دھوپ میّسر ہیں جن سے بجلی بن سکتی ہے۔ مگر پاکستان پچھلے ایک عشرے سے لوڈشیڈنگ کے عذاب تلے دبا ہوا ہے۔ حکمرانوںنے نئے ڈیم تو نہ بنائے'الٹا مہنگے تیل سے چلنے والے بجلی گھر قوم پر تھونپ دیئے۔ آج پاکستان یہ مہنگا تیل درآمد کرنے کے لیے سالانہ اربوں روپے خرچ کرتا ہے۔
قدرت نے پاکستان کو قدرتی گیس کی دولت سے نوازا ۔ ہماری زمین سے تیل بھی نکلتا ہے اور اب خبر آئی ہے کہ اللہ پاک نے سرزمین پاکستان میں شیل گیس اور تیل کی بھی وافر مقدار چھپا رکھی ہے۔شیل (Shale) ایک قسم کی رسوبی (Sedimentary)چٹان ہے۔ پاکستان میں پنجاب' بلوچستان اور سندھ کے زیر زمین واقع رقبے پر دور دور تک شیل چٹانیں پھیلی ہوئی ہیں۔ ان چٹانوں میں 1500تا 3000 ہزار میٹر گہرائی میں قدرتی گیس اور تیل کے ذخائر پائے گئے ہیں۔ چونکہ شیل چٹانیں دنیا کے دیگر ممالک میں واقع ہیں لہٰذا وہاں بھی گیس و تیل دریافت ہو چکا ۔
امریکا پہلا ملک ہے جہاں شیل چٹانوں سے تیل و گیس نکالنے کا کام شروع ہوا۔ پچھلے سات برس سے وہاں روزانہ لاکھوں بیرل شیل تیل نکالا جا رہاتھا۔ ماہرین کاکہنا ہے کہ اس شیل تیل کی وجہ سے بھی تیل کی عالمی قیمت گر گئی ۔ مارکیٹ میں بکثرت شیل تیل آنے سے تیل وافر ملنے لگا۔ اسی امر نے تیل کی قیمت گرا دی۔
عام رسوبی چٹانوں میں تیل و گیس کے ذخائر عموماً ان کے نیچے تہ میں جمع ہو جاتے ہیں۔ مگر شیل چٹانوں میں پتھروں کے اندر چھوٹے چھوٹے مقامات میں گیس اور تیل موجود ہوتے ہیں۔ اسی واسطے شیل چٹانوں سے یہ ایندھن نکالنے کے لیے خاص طریقہ کار ''ہائیڈرولک فریکچرنگ''(Hydraulic fracturing) استعمال ہوتا ہے۔ یہ طریقہ کار تیل نکالنے کے عام طریقے سے مختلف اور زیادہ مہنگا ہے۔
ہائیڈرولک فریکچرنگ کے عمل میں کثیر اخراجات اٹھتے ہیں۔ اسی واسطے اب امریکا میں شیل تیل کے کنوئیں بند ہو رہے ہیں۔ تیل کی قیمت گرنے سے اب ان کنوؤں سے ایندھن نکالنا منافع بخش سودا نہیں رہا۔ گویا یہ خطرہ موجود ہے کہ جیسے ہی عالمی منڈی میں تیل کم ہوا' تو اس کی قیمت پھر چڑھ جا ئے گی۔
پاکستان دنیا کے ان چند ممالک میں شامل ہے جہاں شیل چٹانیں بکثرت موجود ہیں۔ شعبہ توانائی سے متعلق مشہور امریکی تحقیقی اداے'یو ایس انرجی انفارمیشن ایڈمنسٹریشن (U.S. Energy Information Administration) کے ماہرین ارضیات نے 2011ء میں تحقیق کے بعد اندازہ لگایا تھا کہ پنجاب' سندھ اور بلوچستان کی شیل چٹانوںمیں 206 ٹریلین معکب فٹ شیل گیس موجود ہے۔ 2013ء کی تحقیق کے بعد یہ عدد586ٹرلین تا جا پہنچا ۔ نیز انکشاف ہوا کہ ان چٹانوںمیں 9ارب بیرل شیل تیل بھی موجود ہے۔
جنوری 2014ء میں یو ایس انرجی انفارمیشن ایڈمنسٹریشن کے ماہرین ارضیات پاکستانی شیل چٹانوں میں پوشیدہ معدنی خزانوں کا نئے سرے سے کھوج لگانے لگے۔ اس جدید تحقیق پر مبنی رپورٹ پچھلے دنوں سامنے آ ئی۔ اس تحقیقی رپورٹ سے افشا ہوا کہ پاکستان کی شیل چٹانیں 10,159ٹرلین معکب فٹ گیس اور 2323ارب بیرل تیل کی دولت سے چھپائے ہوئے ہیں۔ گویا ثابت ہو گیا کہ رب کریم نے وطن عزیز کو رکازی ایندھن(Fossil fuels) کی بیش بہا دولت سے بھی نوازا ہے۔ اس قدرتی دولت کی وسعت کا اندازہ یوں لگائیے کہ پاکستان میں عام قدرتی گیس کے ذخائر سات ارب معکب فٹ رہ گئے ہیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان کھدائی کی ہائیڈرولک فریکچرنگ تکنیک بروئے کار لاتے ہوئے اپنی شیل چٹانوں سے کم ازکم 200 ٹرلین معکب فٹگیس اور 58 ارب بیرل تیل حاصل کر سکتا ہے۔ گویا پاکستان مستقبل میں تیل و گیس پیدا کرنے والا دنیا کا بڑا ملک بن سکتا ہے۔
تاہم ہائیڈرولک فریکچرنگ تکنیک اپنے دامن میں کچھ خامیاں بھی رکھتی ہے۔ سب سے بڑی خامی یہ کہ تکنیک بروئے کار لاتے ہوئے پانی بہت زیادہ استعمال ہوتاہے۔ دراصل عام رکازی چٹانوں میں ان کی تہ میں تیل وگیس جمع ہو جاتا ہے۔ مگر شیل چٹانوں میں تیل و گیس پتھروں کے اندر پھنسی ہوتی ہے۔ چناں چہ کنواں کھودنے کے بعد چٹانوں پر نہایت دباؤ سے پانی پھینکا جاتا ہے تاکہ وہ شکست و ریخت کا شکار ہو جائیں۔ چٹانوں میں درزیں یا دراڑیں پیدا کرنے کی خاطر پانی میں کیمیائی مادے بھی ڈالے جاتے ہیں۔
پاکستان ان ممالک میں شامل ہے جہاں پانی کی کمی جنم لے رہی ہے۔ لہٰذا شیل چٹانوں میں کنوئیں کھودنے سے پانی کی مزید کمی پیدا ہو گی اور خصوصاً زراعت کو پانی کم ملے گا۔ یہ مسئلہ کنوئیںکھودنے میں اہم رکاوٹ بن سکتا ہے۔
دوسری خامی یہ کہ بعض ماہرین کا دعویٰ ہے، کیمیائی مادوں سے آلودہ پانی شیل چٹانوں سے رس کر پینے والے پانی کے ذخائر میں داخل ہو کے اسے آلودہ کر سکتا ہے۔ یوں وہ ذخیرہ آب ناکارہ ہو جائے گا۔ لیکن دیگر ماہرین کہتے ہیں' پینے کا پانی 300فٹ کی گہرائی میں ملتا ہے۔ لہذا اس کے آلودہ ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
تیسری خامی یہ کہ شیل چٹانوںکی توڑ پھوڑسے ان میں دیو ہیکل دراڑیں یا فالٹ لائنیں پڑ سکتی ہیں۔ یہ دراڑیں مستقبل میں چھوٹے (دو تین میگنا ٹیوڈ والے) زلزلے پیدا کر سکتی ہیں۔ چونکہ پاکستان متحرک ارضی پلیٹوں پر واقع ہے لہٰذا شیل چٹانوںکی شکست و ریخت خطرناک ثابت ہو سکتی ہے۔
درج بالا منفی عوامل کی وجہ سے دنیا بھر کے ماحولیات داں ہائڈرولک فریکچرنگ تکنیک کو پسند نہیں کرتے۔ لہٰذا بعض ممالک نے اس پر پابندی لگا رکھی ہے۔ کچھ ملکوں میں خاص شرائط پوری کرنے کے بعد ہی یہ تکینک استعمال کی جاتی ہے۔
امریکی ماہرین نے پانی استعمال کیے بغیر فریکچرنگ کی جدید تکنیک دریافت کر لی ہے مگر ابھی وہ ابتدائی حالت میں ہے اور خاصی مہنگی بھی۔
بہرحال امریکی و یورپی سائنس دان شیل چٹانوں سے تیل و گیس نکالنے والی ایسی تکنیک ایجاد کرنے کی کوشش کر رہے ہیں جو کم سے کم ماحولیاتی خامیوں کی حامل ہو۔ جب بھی خدائی کا ماحول دوست طریقہ دریافت ہوا ، پاکستان اس سے خوب مستفید ہو گا۔
فی الوقت حکومت پاکستان تجرباتی طور پر صوبہ سندھ میں دریائے سند ھ کے قریب واقع شیل چٹانوں میں ایک تجرباتی کنواں کھود رہی ہے۔ اس سے گیس اور تیل نکل آیا تو لوڈشیڈنگ کی صورتحال مد نظر رکھ کر اسے خوش خبری ہی کہا جائے گا۔ نیز یہ امر بھی خوش آئند ہے کہ وطن عزیز تیل و گیس کے وسیع ذخائر رکھتا ہے۔ مستقبل کے عاقل و فہیم حکمران اس ایندھنی دولت کی مدد سے پاکستان کو خوشحال اور طاقتور ملک بنا سکتے ہیں۔
اب ہمارے شعبہ توانائی ہی کو لیجیے۔اللہ تعالی کے فضل سے ہمیں وہ تمام قدرتی وسائل...پانی ،ہوا اور دھوپ میّسر ہیں جن سے بجلی بن سکتی ہے۔ مگر پاکستان پچھلے ایک عشرے سے لوڈشیڈنگ کے عذاب تلے دبا ہوا ہے۔ حکمرانوںنے نئے ڈیم تو نہ بنائے'الٹا مہنگے تیل سے چلنے والے بجلی گھر قوم پر تھونپ دیئے۔ آج پاکستان یہ مہنگا تیل درآمد کرنے کے لیے سالانہ اربوں روپے خرچ کرتا ہے۔
قدرت نے پاکستان کو قدرتی گیس کی دولت سے نوازا ۔ ہماری زمین سے تیل بھی نکلتا ہے اور اب خبر آئی ہے کہ اللہ پاک نے سرزمین پاکستان میں شیل گیس اور تیل کی بھی وافر مقدار چھپا رکھی ہے۔شیل (Shale) ایک قسم کی رسوبی (Sedimentary)چٹان ہے۔ پاکستان میں پنجاب' بلوچستان اور سندھ کے زیر زمین واقع رقبے پر دور دور تک شیل چٹانیں پھیلی ہوئی ہیں۔ ان چٹانوں میں 1500تا 3000 ہزار میٹر گہرائی میں قدرتی گیس اور تیل کے ذخائر پائے گئے ہیں۔ چونکہ شیل چٹانیں دنیا کے دیگر ممالک میں واقع ہیں لہٰذا وہاں بھی گیس و تیل دریافت ہو چکا ۔
امریکا پہلا ملک ہے جہاں شیل چٹانوں سے تیل و گیس نکالنے کا کام شروع ہوا۔ پچھلے سات برس سے وہاں روزانہ لاکھوں بیرل شیل تیل نکالا جا رہاتھا۔ ماہرین کاکہنا ہے کہ اس شیل تیل کی وجہ سے بھی تیل کی عالمی قیمت گر گئی ۔ مارکیٹ میں بکثرت شیل تیل آنے سے تیل وافر ملنے لگا۔ اسی امر نے تیل کی قیمت گرا دی۔
عام رسوبی چٹانوں میں تیل و گیس کے ذخائر عموماً ان کے نیچے تہ میں جمع ہو جاتے ہیں۔ مگر شیل چٹانوں میں پتھروں کے اندر چھوٹے چھوٹے مقامات میں گیس اور تیل موجود ہوتے ہیں۔ اسی واسطے شیل چٹانوں سے یہ ایندھن نکالنے کے لیے خاص طریقہ کار ''ہائیڈرولک فریکچرنگ''(Hydraulic fracturing) استعمال ہوتا ہے۔ یہ طریقہ کار تیل نکالنے کے عام طریقے سے مختلف اور زیادہ مہنگا ہے۔
ہائیڈرولک فریکچرنگ کے عمل میں کثیر اخراجات اٹھتے ہیں۔ اسی واسطے اب امریکا میں شیل تیل کے کنوئیں بند ہو رہے ہیں۔ تیل کی قیمت گرنے سے اب ان کنوؤں سے ایندھن نکالنا منافع بخش سودا نہیں رہا۔ گویا یہ خطرہ موجود ہے کہ جیسے ہی عالمی منڈی میں تیل کم ہوا' تو اس کی قیمت پھر چڑھ جا ئے گی۔
پاکستان دنیا کے ان چند ممالک میں شامل ہے جہاں شیل چٹانیں بکثرت موجود ہیں۔ شعبہ توانائی سے متعلق مشہور امریکی تحقیقی اداے'یو ایس انرجی انفارمیشن ایڈمنسٹریشن (U.S. Energy Information Administration) کے ماہرین ارضیات نے 2011ء میں تحقیق کے بعد اندازہ لگایا تھا کہ پنجاب' سندھ اور بلوچستان کی شیل چٹانوںمیں 206 ٹریلین معکب فٹ شیل گیس موجود ہے۔ 2013ء کی تحقیق کے بعد یہ عدد586ٹرلین تا جا پہنچا ۔ نیز انکشاف ہوا کہ ان چٹانوںمیں 9ارب بیرل شیل تیل بھی موجود ہے۔
جنوری 2014ء میں یو ایس انرجی انفارمیشن ایڈمنسٹریشن کے ماہرین ارضیات پاکستانی شیل چٹانوں میں پوشیدہ معدنی خزانوں کا نئے سرے سے کھوج لگانے لگے۔ اس جدید تحقیق پر مبنی رپورٹ پچھلے دنوں سامنے آ ئی۔ اس تحقیقی رپورٹ سے افشا ہوا کہ پاکستان کی شیل چٹانیں 10,159ٹرلین معکب فٹ گیس اور 2323ارب بیرل تیل کی دولت سے چھپائے ہوئے ہیں۔ گویا ثابت ہو گیا کہ رب کریم نے وطن عزیز کو رکازی ایندھن(Fossil fuels) کی بیش بہا دولت سے بھی نوازا ہے۔ اس قدرتی دولت کی وسعت کا اندازہ یوں لگائیے کہ پاکستان میں عام قدرتی گیس کے ذخائر سات ارب معکب فٹ رہ گئے ہیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان کھدائی کی ہائیڈرولک فریکچرنگ تکنیک بروئے کار لاتے ہوئے اپنی شیل چٹانوں سے کم ازکم 200 ٹرلین معکب فٹگیس اور 58 ارب بیرل تیل حاصل کر سکتا ہے۔ گویا پاکستان مستقبل میں تیل و گیس پیدا کرنے والا دنیا کا بڑا ملک بن سکتا ہے۔
تاہم ہائیڈرولک فریکچرنگ تکنیک اپنے دامن میں کچھ خامیاں بھی رکھتی ہے۔ سب سے بڑی خامی یہ کہ تکنیک بروئے کار لاتے ہوئے پانی بہت زیادہ استعمال ہوتاہے۔ دراصل عام رکازی چٹانوں میں ان کی تہ میں تیل وگیس جمع ہو جاتا ہے۔ مگر شیل چٹانوں میں تیل و گیس پتھروں کے اندر پھنسی ہوتی ہے۔ چناں چہ کنواں کھودنے کے بعد چٹانوں پر نہایت دباؤ سے پانی پھینکا جاتا ہے تاکہ وہ شکست و ریخت کا شکار ہو جائیں۔ چٹانوں میں درزیں یا دراڑیں پیدا کرنے کی خاطر پانی میں کیمیائی مادے بھی ڈالے جاتے ہیں۔
پاکستان ان ممالک میں شامل ہے جہاں پانی کی کمی جنم لے رہی ہے۔ لہٰذا شیل چٹانوں میں کنوئیں کھودنے سے پانی کی مزید کمی پیدا ہو گی اور خصوصاً زراعت کو پانی کم ملے گا۔ یہ مسئلہ کنوئیںکھودنے میں اہم رکاوٹ بن سکتا ہے۔
دوسری خامی یہ کہ بعض ماہرین کا دعویٰ ہے، کیمیائی مادوں سے آلودہ پانی شیل چٹانوں سے رس کر پینے والے پانی کے ذخائر میں داخل ہو کے اسے آلودہ کر سکتا ہے۔ یوں وہ ذخیرہ آب ناکارہ ہو جائے گا۔ لیکن دیگر ماہرین کہتے ہیں' پینے کا پانی 300فٹ کی گہرائی میں ملتا ہے۔ لہذا اس کے آلودہ ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
تیسری خامی یہ کہ شیل چٹانوںکی توڑ پھوڑسے ان میں دیو ہیکل دراڑیں یا فالٹ لائنیں پڑ سکتی ہیں۔ یہ دراڑیں مستقبل میں چھوٹے (دو تین میگنا ٹیوڈ والے) زلزلے پیدا کر سکتی ہیں۔ چونکہ پاکستان متحرک ارضی پلیٹوں پر واقع ہے لہٰذا شیل چٹانوںکی شکست و ریخت خطرناک ثابت ہو سکتی ہے۔
درج بالا منفی عوامل کی وجہ سے دنیا بھر کے ماحولیات داں ہائڈرولک فریکچرنگ تکنیک کو پسند نہیں کرتے۔ لہٰذا بعض ممالک نے اس پر پابندی لگا رکھی ہے۔ کچھ ملکوں میں خاص شرائط پوری کرنے کے بعد ہی یہ تکینک استعمال کی جاتی ہے۔
امریکی ماہرین نے پانی استعمال کیے بغیر فریکچرنگ کی جدید تکنیک دریافت کر لی ہے مگر ابھی وہ ابتدائی حالت میں ہے اور خاصی مہنگی بھی۔
بہرحال امریکی و یورپی سائنس دان شیل چٹانوں سے تیل و گیس نکالنے والی ایسی تکنیک ایجاد کرنے کی کوشش کر رہے ہیں جو کم سے کم ماحولیاتی خامیوں کی حامل ہو۔ جب بھی خدائی کا ماحول دوست طریقہ دریافت ہوا ، پاکستان اس سے خوب مستفید ہو گا۔
فی الوقت حکومت پاکستان تجرباتی طور پر صوبہ سندھ میں دریائے سند ھ کے قریب واقع شیل چٹانوں میں ایک تجرباتی کنواں کھود رہی ہے۔ اس سے گیس اور تیل نکل آیا تو لوڈشیڈنگ کی صورتحال مد نظر رکھ کر اسے خوش خبری ہی کہا جائے گا۔ نیز یہ امر بھی خوش آئند ہے کہ وطن عزیز تیل و گیس کے وسیع ذخائر رکھتا ہے۔ مستقبل کے عاقل و فہیم حکمران اس ایندھنی دولت کی مدد سے پاکستان کو خوشحال اور طاقتور ملک بنا سکتے ہیں۔