ڈاکٹر پیکیوڈ ہمارے محلے کا عجیب سا بوڑھا ھے، وہ ڈاکٹر اس لئے کہلاتا ہے کیونکہ اس کے پاس ہر مسئلے اور پیچیدگی کا علاج ہوتا ہے۔ ضروری نہیں کہ اسکا علاج قابلِ قبول اور پُر اثر بھی ہو کیونکہ اس کے خیال میں صرف علاج کرنا یا بتانا ہی قابلِ فخر بات ہے اور اس کے اچھے یا بُرے اثرات بلکل الگ معاملہ ہیں، جو مریض کے ذاتی احساسات، خیالات اور نیت وغیرہ سے مشروط ہوتے ہیں، یہ تو اسکی فلا سفی تھی سراسر اسکی ذاتی۔۔۔۔۔
جبکہ اسکا نام سراسر میری ذاتی اختراع تھی۔ اِس کے پوچھنے پر میں نے جو لمبی سی توجیہہ پیش کی تھی وہ سنتے سنتے اسکا ایک مدقوق سا مریض اپنے بے دانت کے منھ سے ہاہا کرکے ہنس دیا اور ڈاکٹر کو لگا یہ نام بھی تو ایک علاج ہی ہے جو اس پوپلے بوڑھے کو ہنسا رہا ہے، سو اسے کوئی اعتراض نہ سوجھا، سوجھا بھی ہو تو اس نے کیا نہیں کیونکہ وہ واقعی پیکیوڈ کی طرح تھا، ہرمن میلو کے ناول
''موبی ڈک کا پیکیوڈ''، پرانا، عجیب، اہم اور زندگی کے سمندر میں بھٹکتا ہوا۔ اُس کے ذہن کے تہہ خانے میں بھی قیمتی تیل کے پیپے (کنستر) تھے جو جانے کہاں کہاں سے جمع کئے گئے تھے، انہیں وہ مریض کی ذہنی اور جسمانی مرھم پٹی کے لئے بے دریغ بہاتا ہے۔
وہ ایک گرگٹ نما ڈاکٹر ہے جو مریض کی نوعیت دیکھ کر خود کو اس کی ضرورت کےمعالج میں ڈھال لیتا ہے۔ میں اُسے specify نہیں کرسکتا، وہ ایلو پیتھک، ھومیوپیتھک، سائیکاٹرسٹ وغیرہ وغیرہ سب کچھ ہے۔ باقی آپ اُس سے ملیں تو بخوبی علم ہوجائے گا کہ میں کس حد تک درست ہوں۔
''یار ڈاکٹر عجیب یاسیت سی ہے، ایک سے شب و روز، لگی بندھی روٹین، ذمہ داریاں، مسائل، ناسٹالجیا، کبھی کبھار کچھ اچھا ہو بھی جائے تو خوشی نہیں ملتی ۔۔۔۔ مُردنی سی چھائی ہے، کیا ہے زندگی؟''۔
ہونہہ ۔۔۔۔ تو خوشی نہیں ملتی، ہونہہ (اُس نے پر سوچ انداز میں ہنکارہ بھرا)
ہاں،
کتنی چاہیئے؟
ہیں!
اوہ بھئی خوشی کتنی چاہیئے؟
ڈاکٹر، تم تو ایسے پوچھ رہے ہو جیسے بوتل میں ڈال دو گے۔
نہیں، میں پڑیاں بنا دوں گا،
کیا؟
ہاں،
دماغ ٹھیک ہے ڈاکٹر (میں نے اچنبھے سے اسے دیکھا) اب ایسا کرو کہ باقی بڈھوں کی طرح بیٹھ کر خدا کا نام لیا کیا کرو۔۔۔
اوہ! بات سنیے، آپ میرے پاس آئے، خود اپنا مسئلہ لے کر یا میں نے بلایا ؟؟؟
ہاں میں خود آیا پر اس کا یہ مطلب نہیں تم مجھے الو ہی سمجھ بیٹھو ڈاکٹر،
میں صرف آپ کا علاج کروں گا اور میرے کلینک میں گدھے، گھوڑے، الو کی کوئی تخصیص نہیں اور ہاں فیس علاج کے بعد،
میں اس فضول لالچ میں آنے والا نہیں لیکن خیر تمہیں موقع دیتا ہوں، جھاڑ لو اپنی حکمت، میں نے تمسخرانہ انداز میں کہا۔
ایک دن کی پڑیاں ہیں، صبح دوپہر شام کی، افاقہ ہوا تو مجھے خوشی ہوگی۔ اُس نے مسکرا کر سفید پڑیوں کا شاپر تھماتے ہوئے کہا۔
اور میں نے باقی اعتراضات کل پر اٹھاتے ہوئے، شاپر جیب میں ڈال لیا، گولیوں دواؤں سے بھی بھلا خوشی آسکتی ہے؟ ہونہہ !!
اگلے دن ناشتے کی بعد بہو نے سودے کی لسٹ تھمائی، پینشن بھی لینے جانا تھا۔ لمبی لائن کے سبب گرمی میں دل پریشان سا ہوگیا، اچانک یاد آیا پیکیوڈ کی پڑیا لینی ہے، لفافہ نکالا، 3 پڑیاں تھیں۔ صبح، دوپہر، شام لکھا تھا۔ صبح والی کھولتے ہوئے، پوتے کو پا نی لانے کے لئے آواز دی۔ ارے یہ کیا؟ اس پر تو کچھ لکھا ہوا تھا،
''ایک نئی اور خوبصورت صبح میں خوش آمدید۔ تم پُرسکون نیند سے بیدار ہوئے ہو، صحت مند ہو، کسی قسم کا جسمانی درد نہیں اور تم بغیر دقّت کے سانس لے رہے ہو بہت مبارک ہو''۔
میں ساکت سا بیٹھا رہ گیا، پھر میں نے گہرا سانس لیا اور اسے محسوس کیا، میں نے دونوں ہاتھ سامنے کئے اور اپنی مٹھیاں بند کیں اور کھولیں پھر میں نے اپنا سر گھمایا اور ارد گرد دیکھا۔ اپنی تندرستی کے ایک ایک لمحے کو محسوس کرنا بہت مسرت انگیز اور طمانیت بھرا تجربہ تھا، میں نے رکوع کی حالت میں اپنے گھٹنوں کو سہلایا جن میں اب اکثر درد رہتا ہے، پر ہیں تو میرے ساتھ ہی ناں، خدا نے یہ تحفے ابھی تک دے رکھے ہیں،
شُکر الحمد اللہ ۔۔۔ میں اندر تک سر شار تھا،
دوپہر کے کھانے کے بعد میں فوراً پڑیا نکال کر بیٹھ گیا،
''بہت خوب صبح سے اب تک نظام ہضم میں گڑ بڑ نہیں ہوئی، بھوکے پیٹ بھی نہیں ہو، دوپہر کا کھانا خود چبایا اور نگلا اور کیا چاہیئے ۔۔۔ گدھے''۔
میں مسکرا دیا۔۔۔الحمد اللہ،
رات کی ڈوز یہ تھی،
''تو تم ابھی تک زندہ ہو اور خیریت سے ہو، اللہ تعالی کو بتاؤ کے آج تم نے اچھا کام کونسا کیا۔ آج جو بُرے کام کئے ان کے لئے معافی مانگو، دل سے، لو جی یقیناً توبہ قبول ہوگی، تم پر کوئی بوجھ نہیں، پرسکون نیند مبارک ہو''۔