یقینی ترقی کا ’’آزمودہ‘‘ نسخہ
ترقی کے لیے دنیا اکیسویں صدی کے بدلتے حالات میں رنگنے کی کوشش کررہے ہیں اور ہم انیسویں صدی کی جانب جارہے ہیں۔
میری ایک عادت ہے کہ مجھے جب بھی فارغ وقت ملتا ہے، میں نیٹ سرفنگ ضرور کرتا ہوں۔ اِس کا ایک فائدہ تو یہ ہوتا ہے کہ میں دنیا بھر میں ہونے والی نئی تبدیلیوں سے باخبر رہتا ہوں اور دوسرا میرے دماغ میں آنے والے کئی سوالات کے جواب مل جاتے ہیں۔ ایسے ہی ایک روز نیٹ سرفنگ کے دوران مجھے دنیا کے چند اہم اور نمایاں کاروباری حضرات کی لسٹ نظر آئی۔ اپنی دلچسپی کے لئے جب میں نے اس لسٹ کو پڑھا تو مجھ پر انکشاف ہوا کہ انیسویں صدی کے چند بڑے کاروباری شخصیات وہ تھیں جنہوں نے پراپرٹی میں سرمایہ کاری کی تھی، اسی طرح بیسویں صدی کے بیشتر بڑے کاروباری حضرات وہ تھے جنہوں نے مختلف صنعتوں میں پیسہ لگایا، جن میں سرِ فہرست ٹیلی کمیونیکشن، کمپیوٹر ہارڈ ویئر اور ایویشن کے شعبے نمایاں تھے، لیکن میری حیرت میں تو اُس اضافہ ہوا جب میرے علم میں اضافہ ہوا کہ اکیسویں صدی کے سب سے نمایاں ملٹی ملین بزنس مین کا تعلق نہ تو پراپرٹی سے اور اور نہ تجارت سے بلکہ اُن میں سے 70 فیصد کا تعلق تو انٹرنیٹ اور سوفٹ وئیرز سے ہے۔
پھر اِس میں بھی حیرت کی بات یہ تھی کے ان تمام ملٹی ملین کمپنیوں کے مالکان کی عمریں 18 سے 30 سال کے درمیان تھیں اور بیشتر کالج سے آگے تعلیم حاصل نہ کرسکے اور اسکی وجہ یہ نہیں تھی کے وہ کُند ذہن تھے یا انہیں تعلیم حاصل کرنے کا کوئی شوق نہیں تھا بلکہ وجہ تو یہ تھی کہ اِس قدر چھوٹی عمر میں اُن کا کاروبار اِس قدر بڑھ چکا تھا کہ مزید تعلیم حاصل کرنے کا وقت ہی نہیں ملا۔ اِن میں سے کوئی ایک بھی ایسا نہیں ہے جن کو یہ کمپنیاں وراثت میں ملیں، بلکہ یہ سب کمپنیاں محض ان کے ایک چھوٹے سے آئیڈیا سے وجود میں آئیں اور پھر انٹرنیٹ کی مقبولیت کی وجہ سے دیکھتے ہی دیکھتے بلین ڈالر کمپنیاں بن گئیں اور ہماری زندگی کا حصہ بن گئیں، جن میں قابلِ ذکر فیس بک، یوٹیوب، ٹوئیٹر، انسٹا گرام اور ایسی ہی ای کامرس سے متعلق ہزاورں کمپنیاں اس وقت پوری دنیا میں کام کررہی ہیں۔
آن لائن شاپنگ ہمارے ہاں ابھی اتنی مقبول نہیں ہوئی، لیکن یورپ، امریکہ اور مشرق وسطٰی میں صارفین کی ایک بہت بڑی تعداد ان ویب سائیٹس کے ذریعہ خریداری کرتی ہے۔ یوں پیسے کی گردش بڑے بڑے بینک مالکان، صنعتکاروں اور پراپرٹی کے شہسواروں کے ہاتھوں سے نکل کر نوعمر نوجوانوں کے ہاتھوں میں آگئی جنہوں نے یہ سب محض ایک کمپیوٹر، ایک انٹرنیٹ کنیکشن اور ایک آئیڈیا کی بدولت حاصل کرلیا اور اس سب کی بڑی وجہ انٹرنیٹ کی بے پناہ مقبولیت ہے۔ کروڑوں لوگ روزانہ انٹرنیٹ کے ذریعے رابطے میں آتے ہیں جس سے ان کمپنیوں کو موقع ملتا ہے کہ وہ اپنی مصنوعات انٹرنیٹ کے ذریعے کروڑوں صارفین تک پہنچاسکیں، یوں پوری دنیا انٹرنیٹ اور سافٹ وئیر کے کاروبار میں پیسہ لگا کر ترقی کر رہی ہے لیکن ہم آج بھی وہیں کھڑے ہیں۔
ہمارے حکمران آج بھی لوہے کی صنعتیں لگانے اور زراعت سے معاشی انقلاب لانے کے لئے کوشاں ہیں۔ دنیا بیسویں صدی سے اکیسویں صدی میں داخل ہوگئی ہے اور ہم واپس انیسویں صدی میں جانے کا سوچ رہے ہیں۔ مشرف دور میں جب ڈاکٹر عطاالرحمان سائنس و ٹیکنالوجی کے وزیر بنے تو پاکستان میں واضح طور پر انفارمیشن ٹیکنالوجی (آئی ٹی) کے شعبے میں کام ہوتا نظر آیا، ان کی پالیسیوں کی بدولت آئی ٹی کی تعلیم عام ہوئی اور بہت سے سافٹ وئیر ہاؤس وجود میں آئے۔ اس شعبے کی ترقی کے لئے بہت سی سرمایہ کاری باہر سے بھی آئی، گویا یوں لگ رہا تھا کہ بہت جلد ہی پاکستان آئی ٹی کے شعبے میں ایک اہم مقام حاصل کرلے گا، لیکن صد افسوس اُن کے وزارت سے سبکدوشی کے فوراً بعد وہ ساری پالیسیاں، وہ ساری محنت ہماری بیورو کریسی نے ردی کی ٹوکری میں ڈال دی۔
وہ طلبہ جو اُس دور کی ترقی دیکھ کر آس لگائے آئی ٹی کی تعلیم حاصل کرکے مارکیٹ میں آئے وہ ڈاکٹر صاحب کے جانے کے بعد بے آسرا ہوگئے۔ اِن آئی ٹی گریجویٹس کو کھپانے کے لئے حکومت کے پاس کوئی واضح پلان نہ تھا اور یہ وہ وقت تھا جب پوری دنیا بشمول بھارت اس شعبے میں ترقی کے لئے پوری طاقت سے جتی ہوئی تھی اور اِدھر ہمارا آئی ٹی گریجویٹ در در کے دھکے کھانے کے بعد دیگر شعبوں میں چلا گیا۔ جن میں سہرفرست بینکنگ تھا اور دوسری طرف بھارت نے ہماری اس مجرمانہ غفلت اور بیوقوفیوں کا خوب فائدہ اٹھایا اور یورپ اور امریکہ کی بڑی کمپنیوں سے معاہدے کئے اور اپنے آئی ٹی گریجویٹس کو نوکریاں دلوائیں اور یوں بھارت ایک آئی ٹی انقلاب لانے میں کامیاب ہوگیا۔ دنیا کو بھارت کی صورت میں آئی ٹی ایکسپرٹ کی ایک بہت بڑی منڈی مل گئی، بڑی بڑی کمپنیوں نے دھڑا دھڑ اپنے دفاتر قائم کرنا شروع کردئیے اور یوں بھارت نے اِس شعبے میں ایک خاص مقام حاصل کرلیا۔
دوسری طرف پاکستان میں آئی ٹی کی تعلیم ایک طعنہ بن کر رہ گئی اور والدین نے اس شعبے میں بچوں کو تعلیم دلوانا ہی بند کردیا اور یوں ہماری ترقی کا باب بند ہوگیا۔ حالانکہ آئی ٹی وہ شعبہ ہے جس میں ذاتی مہارت ہی کامیابی کی دلیل ہے۔ آپ کی تعلیم کچھ بھی کیوں نہ ہو، اگر آپ کو اِس شعبے سے دلچسپی ہے تو آپ کم تعلیم کے بغیر بھی اس شعبے میں ترقی کرسکتے ہیں۔ آپ کو اگر نوکری نہیں بھی ملتی تو آپ آن لائن پراجیکٹ لے کر بھی لاکھوں کماسکتے ہیں، لیکن شرط یہی ہے کہ آپ اس کام کا شوق اور مہارت رکھتے ہوں اور ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت اس شعبے میں غیر معمولی دلچسپی لے اور ایسی پالیسیاں مرتب کی جائیں کے زیادہ سے زیادہ لوگ اس شعبے میں آئیں اور اس شعبے میں سرمایہ کاری کریں۔
سافٹ وئیر ہاؤس کھولنے والوں کی بے حد حوصلہ افزائی کی جائے، اِس شعبے میں ماہر لوگوں کو تیار کیا جائے، بیرون ممالک کی کمپنیوں سے معاہدے کرکے انہیں پاکستان لایا جائے کیونکہ پاکستان میں ٹیلنٹ کی کوئی کمی نہیں، ہمارے ملک میں اب بھی بہت سے ارفع کریم کے نقش قدم پر چلنے والے افراد موجود ہیں جو حکومتی سرپرستی کے منتظر ہیں۔ ہوشمندی سے کام لیتے ہوئے پاکستان کے اس قیمتی ٹیلنٹ کو تباہ ہونے سے بچائیے اور یقین مانیے کہ اگر حکومتِ وقت صرف اس ایک شعبے میں سنجیدگی اور دلچسی کا مظاہرہ کرے تو میں پورے وثوق سے کہتا ہوں کہ نہ صرف اس ملک سے بیروزگاری کا خاتمہ ہوجائے گا بلکہ ہمارا معیار زندگی بھی بلند ہوگا اور ہم ترقی کی شاہراہ پر گامزن ہوجائیں گے-
[poll id="796"]
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس۔
پھر اِس میں بھی حیرت کی بات یہ تھی کے ان تمام ملٹی ملین کمپنیوں کے مالکان کی عمریں 18 سے 30 سال کے درمیان تھیں اور بیشتر کالج سے آگے تعلیم حاصل نہ کرسکے اور اسکی وجہ یہ نہیں تھی کے وہ کُند ذہن تھے یا انہیں تعلیم حاصل کرنے کا کوئی شوق نہیں تھا بلکہ وجہ تو یہ تھی کہ اِس قدر چھوٹی عمر میں اُن کا کاروبار اِس قدر بڑھ چکا تھا کہ مزید تعلیم حاصل کرنے کا وقت ہی نہیں ملا۔ اِن میں سے کوئی ایک بھی ایسا نہیں ہے جن کو یہ کمپنیاں وراثت میں ملیں، بلکہ یہ سب کمپنیاں محض ان کے ایک چھوٹے سے آئیڈیا سے وجود میں آئیں اور پھر انٹرنیٹ کی مقبولیت کی وجہ سے دیکھتے ہی دیکھتے بلین ڈالر کمپنیاں بن گئیں اور ہماری زندگی کا حصہ بن گئیں، جن میں قابلِ ذکر فیس بک، یوٹیوب، ٹوئیٹر، انسٹا گرام اور ایسی ہی ای کامرس سے متعلق ہزاورں کمپنیاں اس وقت پوری دنیا میں کام کررہی ہیں۔
آن لائن شاپنگ ہمارے ہاں ابھی اتنی مقبول نہیں ہوئی، لیکن یورپ، امریکہ اور مشرق وسطٰی میں صارفین کی ایک بہت بڑی تعداد ان ویب سائیٹس کے ذریعہ خریداری کرتی ہے۔ یوں پیسے کی گردش بڑے بڑے بینک مالکان، صنعتکاروں اور پراپرٹی کے شہسواروں کے ہاتھوں سے نکل کر نوعمر نوجوانوں کے ہاتھوں میں آگئی جنہوں نے یہ سب محض ایک کمپیوٹر، ایک انٹرنیٹ کنیکشن اور ایک آئیڈیا کی بدولت حاصل کرلیا اور اس سب کی بڑی وجہ انٹرنیٹ کی بے پناہ مقبولیت ہے۔ کروڑوں لوگ روزانہ انٹرنیٹ کے ذریعے رابطے میں آتے ہیں جس سے ان کمپنیوں کو موقع ملتا ہے کہ وہ اپنی مصنوعات انٹرنیٹ کے ذریعے کروڑوں صارفین تک پہنچاسکیں، یوں پوری دنیا انٹرنیٹ اور سافٹ وئیر کے کاروبار میں پیسہ لگا کر ترقی کر رہی ہے لیکن ہم آج بھی وہیں کھڑے ہیں۔
ہمارے حکمران آج بھی لوہے کی صنعتیں لگانے اور زراعت سے معاشی انقلاب لانے کے لئے کوشاں ہیں۔ دنیا بیسویں صدی سے اکیسویں صدی میں داخل ہوگئی ہے اور ہم واپس انیسویں صدی میں جانے کا سوچ رہے ہیں۔ مشرف دور میں جب ڈاکٹر عطاالرحمان سائنس و ٹیکنالوجی کے وزیر بنے تو پاکستان میں واضح طور پر انفارمیشن ٹیکنالوجی (آئی ٹی) کے شعبے میں کام ہوتا نظر آیا، ان کی پالیسیوں کی بدولت آئی ٹی کی تعلیم عام ہوئی اور بہت سے سافٹ وئیر ہاؤس وجود میں آئے۔ اس شعبے کی ترقی کے لئے بہت سی سرمایہ کاری باہر سے بھی آئی، گویا یوں لگ رہا تھا کہ بہت جلد ہی پاکستان آئی ٹی کے شعبے میں ایک اہم مقام حاصل کرلے گا، لیکن صد افسوس اُن کے وزارت سے سبکدوشی کے فوراً بعد وہ ساری پالیسیاں، وہ ساری محنت ہماری بیورو کریسی نے ردی کی ٹوکری میں ڈال دی۔
وہ طلبہ جو اُس دور کی ترقی دیکھ کر آس لگائے آئی ٹی کی تعلیم حاصل کرکے مارکیٹ میں آئے وہ ڈاکٹر صاحب کے جانے کے بعد بے آسرا ہوگئے۔ اِن آئی ٹی گریجویٹس کو کھپانے کے لئے حکومت کے پاس کوئی واضح پلان نہ تھا اور یہ وہ وقت تھا جب پوری دنیا بشمول بھارت اس شعبے میں ترقی کے لئے پوری طاقت سے جتی ہوئی تھی اور اِدھر ہمارا آئی ٹی گریجویٹ در در کے دھکے کھانے کے بعد دیگر شعبوں میں چلا گیا۔ جن میں سہرفرست بینکنگ تھا اور دوسری طرف بھارت نے ہماری اس مجرمانہ غفلت اور بیوقوفیوں کا خوب فائدہ اٹھایا اور یورپ اور امریکہ کی بڑی کمپنیوں سے معاہدے کئے اور اپنے آئی ٹی گریجویٹس کو نوکریاں دلوائیں اور یوں بھارت ایک آئی ٹی انقلاب لانے میں کامیاب ہوگیا۔ دنیا کو بھارت کی صورت میں آئی ٹی ایکسپرٹ کی ایک بہت بڑی منڈی مل گئی، بڑی بڑی کمپنیوں نے دھڑا دھڑ اپنے دفاتر قائم کرنا شروع کردئیے اور یوں بھارت نے اِس شعبے میں ایک خاص مقام حاصل کرلیا۔
دوسری طرف پاکستان میں آئی ٹی کی تعلیم ایک طعنہ بن کر رہ گئی اور والدین نے اس شعبے میں بچوں کو تعلیم دلوانا ہی بند کردیا اور یوں ہماری ترقی کا باب بند ہوگیا۔ حالانکہ آئی ٹی وہ شعبہ ہے جس میں ذاتی مہارت ہی کامیابی کی دلیل ہے۔ آپ کی تعلیم کچھ بھی کیوں نہ ہو، اگر آپ کو اِس شعبے سے دلچسپی ہے تو آپ کم تعلیم کے بغیر بھی اس شعبے میں ترقی کرسکتے ہیں۔ آپ کو اگر نوکری نہیں بھی ملتی تو آپ آن لائن پراجیکٹ لے کر بھی لاکھوں کماسکتے ہیں، لیکن شرط یہی ہے کہ آپ اس کام کا شوق اور مہارت رکھتے ہوں اور ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت اس شعبے میں غیر معمولی دلچسپی لے اور ایسی پالیسیاں مرتب کی جائیں کے زیادہ سے زیادہ لوگ اس شعبے میں آئیں اور اس شعبے میں سرمایہ کاری کریں۔
سافٹ وئیر ہاؤس کھولنے والوں کی بے حد حوصلہ افزائی کی جائے، اِس شعبے میں ماہر لوگوں کو تیار کیا جائے، بیرون ممالک کی کمپنیوں سے معاہدے کرکے انہیں پاکستان لایا جائے کیونکہ پاکستان میں ٹیلنٹ کی کوئی کمی نہیں، ہمارے ملک میں اب بھی بہت سے ارفع کریم کے نقش قدم پر چلنے والے افراد موجود ہیں جو حکومتی سرپرستی کے منتظر ہیں۔ ہوشمندی سے کام لیتے ہوئے پاکستان کے اس قیمتی ٹیلنٹ کو تباہ ہونے سے بچائیے اور یقین مانیے کہ اگر حکومتِ وقت صرف اس ایک شعبے میں سنجیدگی اور دلچسی کا مظاہرہ کرے تو میں پورے وثوق سے کہتا ہوں کہ نہ صرف اس ملک سے بیروزگاری کا خاتمہ ہوجائے گا بلکہ ہمارا معیار زندگی بھی بلند ہوگا اور ہم ترقی کی شاہراہ پر گامزن ہوجائیں گے-
[poll id="796"]
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس۔