بھارتی ہندو کسی نئے پاکستان سے بچیں

یوں تو اور بھی بہت کچھ ہے مگر بطور نمونہ اتنا ہی کافی ہے کہ ہندو قوم کی اصل کیا ہے


Abdul Qadir Hassan November 29, 2015
[email protected]

ہمارے پڑوسی اور پیدائشی حریف بھارت کو پہلی بار ایک کھلا مسلم دشمن حکمران ملا ہے جس نے اعلان کر رکھا ہے کہ بھارت صرف ہندوؤں کا ہے اور مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ اپنے پاکستان چلے جائیں، یہاں اب ان کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے۔ بھارت کے ہندو اب اپنے حکمران کی خواہش کے مطابق اپنے ہاں نامور مسلمانوں پر زندگی تنگ کر رہے ہیں خصوصاً فلمی شعبے کے نامور مسلمان ان کے نشانے پر ہیں جن پر انھوں نے زندگی تنگ کر رکھی ہے اور انھیں کھلم کھلا کہہ رہے ہیں کہ وہ ان کے ملک سے چلے جائیں۔

یہ خبر تو بہت پرانی ہے کہ ایک معروف اداکارہ کو بمبئی میں کرایہ کا مکان نہیں ملتا تھا مگر اب تو مسلمان اداکاروں کو بھارت کی سرزمین پر قدم رکھنے کی اجازت بھی نہیں دی جا رہی۔ فلم اسٹار عامر خان سے کہا گیا ہے کہ ہندو بن جاؤ یا پاکستان چلے جاؤ۔ کمینے پن کی انتہا یہ ہے کہ عامر خان کو ایک تھپڑ مارنے کا ایک لاکھ روپے انعام مقرر کر دیا گیا ہے۔ یہ خبر بھی ہے کہ بھارت کی شیوسینا نے عامر خان کے خاندان کے لیے 30 نومبر کو باہر جانے کی ٹکٹ بھی حاصل کر لی ہے۔

یوں تو اور بھی بہت کچھ ہے مگر بطور نمونہ اتنا ہی کافی ہے کہ ہندو قوم کی اصل کیا ہے اور مسلمانوں نے ہندوستان میں پاکستان کی تحریک کیوں شروع کی تھی۔ میں اپنے قائد کی اس تقریر کا بار بار حوالہ دیتا ہوں جو انھوں نے برطانیہ سے وطن واپسی پر راستے میں مصر رک کر کی تھی۔ قاہرہ میں انھوں نے تقریر کرتے ہوئے کہا تھا کہ میں آپ کو صاف صاف بتاتا ہوں کہ اگر پاکستان نہ بنا، اگر بھارت کی سرزمین پر مسلمانوں کی پناہ نہ بنائی گئی تو بھارت کے ہندو مسلمانوں کا قتل عام کر دیں گے۔

اپنے وقت کی جدید ترین دنیا کا یہ شہری مجبور تھا کہ دنیا پر برصغیر کے مسلمانوں کے مستقبل کی تصویر واضح کر دیتا۔ وہ کوئی متعصب اور کٹھ ملا نہیں تھا، انگریزی بولنے والا نئی دنیا کا ایک روشن خیال شہری تھا لیکن یہ بات اس پر بالکل واضح ہو گئی تھی کہ اگر وہ پاکستان بنانے میں کامیاب نہ ہوا تو اس کے مسلمان ہموطنوں کا کیا حال ہو گا۔ ہمارے قائد کی پیش گوئی کے مطابق آج بالکل یہی ہو رہا ہے اور مجھے یاد پڑتا ہے کہ تحریک پاکستان کے زمانے میں جب یہ سوال کیا جاتا تھا کہ پاکستان بن گیا تو باہر رہ جانے والے مسلمانوں کا کیا بنے گا تو اس کا ایک بڑا واضح جواب تھا کہ آزاد پاکستان ان کی حفاظت کرے گا۔

آج وہ وقت آ گیا ہے کہ بھارتی مسلمانوں کی حفاظت کون کرے گا کیونکہ ہندوؤں نے ہمارے قائد کے بقول مسلمانوں کی جان و مال کو ضبط کرنا شروع کر دیا ہے لیکن یہ مسئلہ دو ملکوں کے عوام کے مزاج اور مقامی سیاست کا نہیں دو آزاد ایٹمی ملکوں کا ہے جن کا ٹاکرہ برداشت نہیں کیا جا سکتا اور ان کے تصادم کی تباہی کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔

بھارت کے عوام کے حالات جو ان کے رویوں سے سامنے آ رہے ہیں کچھ ایسے ہی ہیں جو قیام پاکستان یا تقسیم ہندوستان کے وقت تھے۔ نقل مکانی نے دونوں ملکوں میں ہزارہا انسانوں کی زندگیاں لے لیں۔ اسے دنیا کی سب سے بڑی انسانی ہجرت کہا گیا اور پاکستان انسانی کی قربانی کی ایک مثال بن گیا۔

بھارت تو اپنی جگہ قائم رہا لیکن اس کے ایک حصے میں پاکستان کے قیام نے لاتعداد انسانوں کو آزمائش میں ڈال دیا مگر مسلمانوں کی مجبوری تھی کہ وہ پاکستان کے لیے کوئی بھی قربانی دے سکتے تھے کیونکہ یہ ان کی بقاء کا معاملہ تھا۔ اگر پاکستان نہ بنتا تو آج کے حالات صاف صاف بتاتے ہیں کہ برصغیر میں مسلمانوں کی زندگی پر بن جاتی اور مسلمان چونکہ کوئی کمزور قوم نہیں ہے اس لیے ایسے کسی تصادم کا نتیجہ خدا جانے کیا نکلتا۔ آج اگر کہیں سے پاکستان کے قیام کے خلاف اشارتاً بھی کوئی آواز اٹھتی ہے تو وہ دشمنی کی آواز ہے۔

حیرت ہے کہ آج کے کسی اخبار میں کسی کانفرنس کا ذکر چھپا ہے جس میں محترم مفتی محمود نے کہا کہ شکر ہے ہم اس گناہ میں شریک نہیں تھے۔ مفتی صاحب اور ان کے معتقدین تو شاید کسی مسجد یا حجرے میں پناہ لے لیتے لیکن برصغیر کے لاکھوں کروڑوں مسلمان کہاں جاتے۔ کون سا دیوبند انھیں پناہ دے سکتا تھا۔ انھیں تو شاید قبر بھی نہ ملتی۔ بہرکیف علماء کے اس طبقے کو چھوڑ کر ہمارے علماء تحریک پاکستان کے ساتھ تھے اور پاکستان میں وہ ایک باعزت اور محترم زندگی بسر کر رہے ہیں۔ آج اگر بھارت کے لوگ پاکستان سے تنگ ہیں تو وہ ایسا ماحول پیدا نہ کریں جس میں ایک نہیں کئی پاکستان بنانے پڑیں۔ کیونکہ مسلمانوں کو پناہ کا ایک ذریعہ مل گیا ہے اور وہ اپنی کسی پناہ گاہ کو ترک نہیں کر سکتے۔

بھارت کے ہندوؤں پر واضح ہونا چاہیے کہ وہ صرف کسی ایک یا زیادہ ''پاکستان'' کا سامنا نہیں کریں گے، سکھستان ان کے لیے تیار ہے اور ان کے ہاں آزادی کی جو بے شمار تحریکیں چل رہی ہیں وہ آخر کب تک بے نتیجہ رہیں گی۔ بھارت اپنی تاریخ میں پہلی بار اشوک کے زمانے میں متحد ہوا تھا لیکن ایک جنگ کا خوفناک منظر دیکھ کر اس انسان دوست حکمران نے جنگ سے توبہ کر لی اور وہ بدھ مت کا پیروکار بن گیا جس میں جنگ اور خون ریزی نہیں تھی۔ بدھ مت کے پیروکار اشوک کی تاریخی یادگاریں پاکستان میں موجود ہیں۔

اشوک نے بدھ مت اختیار کرنے کے بعد اس کی تبلیغ اور ترویج کی بہت کوشش کی تھی کیونکہ وہ اس پر اس مذہب کو برحق سمجھتا تھا۔ شمالی پاکستان میں بدھ مت یا اشوک کی بے شمار یادگاریں موجود ہیں اور پاکستان نے ایک عجائب گھر میں ان یادگاروں کو محفوظ کر دیا ہے۔ اب سوال یہ نہیں کہ ہندو کیا چاہتے ہیں۔ ان کا اولین لیڈر اشوک تو گیا اس کے بعد ہندوستان مسلمان حکمرانوں نے متحد کیا یا پھر انگریزوں نے اگر بھارت میں آباد مسلمانوں کے خلاف ان کا رویہ یہی رہا تو اس مسئلے کا ایک حل مسلمانوں نے تلاش کر رکھا ہے۔

ایک اور پاکستان کا قیام۔ یہ درست کہ آج بھارت مغرب کے طاقتور ملکوں کا پسندیدہ ملک ہے لیکن جب اس کے اندر کوئی تحریک چلے گی تو اس کو روکنا ممکن نہیں ہو گا اس لیے لازم ہے کہ بھارت کے ہندو ہوش سے کام لیں اور مسلمانوں کو تنگ نہ کریں۔ اس کا نتیجہ مسلمانوں اور ہندوؤں دونوں کے لیے اچھا نہیں ہو گا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں