فیض اور … صبح ہونے تک
نت نئی کتابوں کے خوبصورت ودیدہ زیب سرورق بھی قاری کو متاثرکیے بنا نہیں رہتے ہیں،
GWADAR:
نت نئی کتابوں کے خوبصورت ودیدہ زیب سرورق بھی قاری کو متاثرکیے بنا نہیں رہتے ہیں، ایسی ہی کئی کتابیں اور رسائل میرے سامنے ہیں، پہلی کتاب جس کے ٹائٹل پیج پرصبح کا منظر نمایاں ہے، سورج کی ہلکی ہلکی روشنی سرسبز پودے اور درخت اور خوش رنگ پھول، اگر ان کی مہک سونگھنے کا دل چاہے تو نگارشات اپنی خوشبو سے پڑھنے والے کومہکادیتی ہیں۔
اس کا مطلب یہ ہوا کہ تن بھی اچھا اور من بھی اچھا، یقیناً نہ کہ کتاب کا ظاہر وباطن متاثرکن ہے بلکہ اس کے نام میں بھی معنویت اور دلکشی پنہاں ہے ''صبح ہونے تک'' سلیم آغا قزلباش کے افسانوں کا مجموعہ ہے، سلیم آغا قز لباش ادبی دنیا کا بے حد معروف اور معتبر نام ہے اس کی یہ وجہ ہرگز نہیں ہے کہ وہ قد آور قلم کار بڑے نقاد، بڑے شاعر جن کا علم و ادب کے ایوانوں میں طوطی بولتا تھا (اور بولتا ہے) جناب ڈاکٹر وزیرآغا کے صاحبزادے ہیں۔
ڈاکٹر سلیم آغاز قز لباش اپنی محنت اور صلاحیتوں کی بنا پر اپنا لوہا منواچکے ہیں ان کی کئی کتابیں اشاعت کے مرحلے سے گزر چکی ہیں اور وہ عرصہ دراز سے لکھ رہے ہیں۔ ''صبح ہونے تک سے قبل'' ان کا افسانوی مجموعہ ''انگورکی بیل'' انشائیوں کا مجموعہ 'آمنا سامنا' اور'سرگوشیاں' مغربی انشائیوں کے تراجم پر مشتمل ایک اور کتاب ''مغرب کے انشایئے'' اپنے قارئین و ناقدین سے داد تحسین وصول کرچکے ہیں،اس کے علاوہ بھی تنقید وتحقیق کے میدان میں سرگرم عمل رہتے ہیں۔ اسی جستجو کے نتیجے میں ان کے مضامین مختلف ادبی پرچوں کی زینت میں اضافے کا باعث ہیں۔
سلیم آغا قزلباش کی تحریرکی خوبی یہ بھی ہے کہ خاص طور پر تنقیدی تحریروں کے حوالے سے کہ وہ اچھی طرح چھان پھٹک لیتے ہیں،کتاب کے وزن کی بجائے تحریرکے وزن پر تو زور دیتے ہیں اور بہت توجہ سے مطالعہ کرتے ہیں، شاید یہی وجہ ہے کہ جناب سلیم آغا قزلباش کے مضامین سند کا درجہ رکھتے ہیں۔ ان کے افسانوی مجموعہ ''صبح ہونے تک'' میں 15 افسانے شامل ہیں اور تقریباً تمام ہی افسانے اپنی نسبت اور پیشکش کے اعتبار سے قابل مطالعہ ہیں۔
جناب محمد منشا یاد کی رائے کے مطابق ''سلیم آغا قزلباش کے افسانے آج کی دنیا اور معاشرے سے جڑے ہوئے ہیں اور آج کے انسان کی داخلی اور خارجی زندگی کی نہایت متنوع تصویریں اور تعبیریں پیش کرتے ہیں، یقینا سلیم آغا قز لباش نئی نسل کے چند اہم ترین افسانہ نگاروں میں سے ہیں۔ ''صبح ہونے تک'' کے افسانے پڑھ کر مجھے اندازہ ہوا کہ سلیم آغا قزلباش کے افسانوں میں ایسا جادو ہے جو سرچڑھ کر بولتا ہے اور قاری کی مکمل توجہ اپنی طرف مبذول کرالیتا ہے۔
ان کی کہانیاں پڑھتے چلے جایے اور معاشرے کے دل سوز واقعات، سماج کی تلخیاں، غریب کا استحصال، انسان کی ناقدری، غربت کی گود اور افلاس کی وادی میں حشرات الارض کی طرح جینے والے انسان، جہاں کھانے کو روٹی نہیں، تن ڈھانپنے کوکپڑا نہیں، خواہشات تو دورکی بات ہے ان جھگی نشینوں اور غلاظت میں رہنے والوں کے دلوں میں دھوئیں کے سوا کچھ نہیں ہے۔ سلیم آغا قزلباش کا ایسا ہی افسانہ ''لال سینڈل'' ہے جوکہ پہلے نمبر پر ہے، یہ افسانہ تڑپتے، سسکتے، روتے، پیٹتے انسانوں کی فہرست کی کتھا ہے۔
اس کے کرداروں نے اسے حرارت بخش دی ہے لکھنے کا انداز بے حد موثر اور رواں ہے، پڑھنے والا خط غربت کے نیچے زندگی بسرکرنے والوں کے نوحوں کو پڑھتے پڑھتے خود بھی نوحہ خواں بن جاتا ہے ایک ایسی کیفیت سے گزرتا ہے جہاں وہ اپنے آپ کو دم بخود پاتا ہے، دکھ کی لہر دل ودماغ سے اٹھتی ہے اور پورے وجود کو ہلاکر رکھ دیتی ہے۔سلیم آغا کا اندازِ بیاں میرے اپنے خیال کے مطابق منشی پریم چند اور منٹو کے افسانوں سے ہم آہنگ نظر آتا ہے یہ ان کی شعوری کوشش تو ہرگز نہیں ہے، ہر ادیب اپنے ہی طرز، سوچ، ماحول اور افکار کیمطابق لکھتا ہے کہ اپنے طرز تحریر کے اعتبار سے بلند ہوتی ہی چلی جاتی ہے۔
افسانہ ''لال سینڈل'' کی اٹھان ایسی ہے۔ کہیں بھی پست ہوتی نظر نہیں آتی ہے۔ جھگیوں کے مکینوں کی زندگیوں پر ہاشو، کاکی کی ماں، کاکی اور نالے کی غلاظت کے ذریعے بے حد عمدہ طریقے سے روشنی ڈالی گئی ہے کہ سماج کے دھتکارے ہوئے لوگوں کی زندگیوں کے المیے کو فنی باریکیوں اور چابک دستی کے ساتھ اجاگرکیا ہے جس قدر ابتدائی سطور نے طلسماتی فضا پیدا کرکے اپنے قارئین کو اپنے مضبوط حصار میں قید رکھا، اسی طرح افسانے کے اختتام نے بھی قاری کو مسحورکردیا ہے ''لال سینڈل'' کئی دنوں تک دل ودماغ میں زندہ رہنے والا افسانہ ہے، اسے شاہکار افسانوں کی صف میں رکھا جاسکتا ہے، کتاب کے تمام افسانے معاشرتی سچائی اور سماجی مسائل کے گرد گھومتے ہیں اور اپنے اسلوب بیان کے اعتبار سے بلندیوں کو چھوتے ہیں۔
میری نگاہیں جن کتابوں کا احاطہ کررہی ہیں ان ہی میں ایک اہم کتاب جناب شفیق احمد شفیق کی ہے۔ عنوان ہے ''فیض ایک، عہد ساز شخصیت'' شفیق احمد شفیق کی ادبی کاوشوں سے اہل نظر و اہل ہنر اچھی طرح واقف ہیں، شفیق احمد شفیق میری معلومات کیمطابق سات کتابوں کے مصنف ہیں اور مزید کتب اشاعت کی منتظر ہیں وہ افسانہ نگار ہیں، بہت اچھے شاعر اور تنقید نگار ہیں ان کے بارے میں موجودہ دور کے اہم نقاد سید مظہر جمیل کی رائے کیمطابق کہ شفیق صاحب ایک ناقد کی حیثیت سے کبھی ادبی تحقیق اور مسئلے سے نہ تو سرسری گزرنے کے قائل ہیں اور نہ سخن فہمی کی جگہ غالب کی طرفداری کا شعار اختیار کرتے ہیں۔
وہ نہ تو تخلیق کی ظاہری سج دہج سطح چمک دمک اور نہ صاحب تخلیق کے نام و نمود سے مرعوب ہونا جانتے ہیں، وہ تنقید نگاری کو ادبی و سیاسی گروہ بندی اور صف آرائی کی ہتھیار کی طرح استعمال نہیں کرتے کہ ان کے نزدیک نقد ادب کا عمل قرار واقعی سنجیدگی، متانت اور غیر جانب دارانہ سلوک کا متقاضی ہے۔ زیر نظر کتاب ''فیض ایک عہد ساز شخصیت'' ایک تجزیاتی مطالعہ ہے ۔
شفیق احمد شفیق نے فیض احمد فیض کی زندگی کے مختلف ادوار اور ان کی تخلیقی جہت، ترجمہ نگاری، تنقید، صحافیانہ کردار کے حوالے سے اپنی اس کوشش میں وہ ایک حد تک کامیاب بھی ہوئے ہیں۔وہ لکھتے ہیں کہ وہ علم وعمل کے آدمی تھے، فوج میں بھی وہ مستعد اور فعال رہے اور غیر فوجی زندگی میں بھی فکروفن کی روشنی انہماک اورسرگرمی سے بکھیرتے رہے،ان کی زندگی ایک محب وطن، ایک سپاہی، ایک شاعر، ایک نقاد، ایک صحافی، ایک استاد اور ایک بشر دوست کی حیثیت سے مثالی تھی اور آج بھی مثالی ہے۔''
فیض احمد فیض کی تنقید کے حوالے سے شفیق احمد کا نقطہ نظر یہ ہے کہ ''فیض احمد کی تنقید میں محاسن اور خوبیاں ان کی شاعری کی طرح بہت ہیں مگر انسان ہونے کے ناتے ان سے بھی کہیں کہیں فروگزاشتیں ہوئی ہیں ان ہی فروگزاشتوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ پریم چند کے حوالے سے وہ تضاد کا شکار بھی ہوئے ہیں، یعنی ان کو حقیقت نگار تسلیم نہیں کیا ہے مگر ''ہم کہ ٹھہرے ڈاکٹر ایوب مرزا کے سوال کا جواب دیتے ہوئے ان کی حقیقت نگاری کا نہایت فراخدلی کے ساتھ اعتراف کیا ہے۔
اس سوال پر کہ انجمن ترقی پسند مصنفین کی پہلی کانفرنس کب ہوئی'' کے جواب میں وہ فرماتے ہیں ''پہلی کانفرنس 1936 میں لکھنؤ میں منشی پریم چند کی صدارت میں ہوئی، انھوں نے ایک عمدہ اور پر مغز تاریخی خطبہ پڑھا، اصل بات یہ ہے کہ منشی پریم چند کی تحریریں پہلے ہی سے Realism میں ڈوبی ہوئی ہوتی تھیں۔''''فیض کی وطن دوستی'' اس باب میں مصنف اس طرح رقمطراز ہیں کہ ان پر وطن دشمنی کا جو الزام ہے اس کی حیثیت بھی سانپ کے تلوے کی سی ہے، جو انسان پاکستان کے قیام اور برصغیر کے مسلمانوں کی آزادی کو جزو ایمان تصورکرتا ہو وہ اس ملک کے قیام میں رکاوٹ اور اس کے قائم ہوجانے کے بعد ختم کرنے کے درپہ کیسے ہوسکتا ہے؟ ایک ملک دشمن شاعر اپنے وطن پاکستان کے بارے میں ایسے اشعارکیسے کہہ سکتا ہے؟۔
چاہا ہے اسی رنگ میں لیلائے وطن کو
تڑپاہے اسی طور سے دل اس کی لگن میں
یہ داغ داغ اجالا یہ شب گزیدہ سحر
وہ انتظار تھا جس کا یہ وہ سحر تو نہیں
نت نئی کتابوں کے خوبصورت ودیدہ زیب سرورق بھی قاری کو متاثرکیے بنا نہیں رہتے ہیں، ایسی ہی کئی کتابیں اور رسائل میرے سامنے ہیں، پہلی کتاب جس کے ٹائٹل پیج پرصبح کا منظر نمایاں ہے، سورج کی ہلکی ہلکی روشنی سرسبز پودے اور درخت اور خوش رنگ پھول، اگر ان کی مہک سونگھنے کا دل چاہے تو نگارشات اپنی خوشبو سے پڑھنے والے کومہکادیتی ہیں۔
اس کا مطلب یہ ہوا کہ تن بھی اچھا اور من بھی اچھا، یقیناً نہ کہ کتاب کا ظاہر وباطن متاثرکن ہے بلکہ اس کے نام میں بھی معنویت اور دلکشی پنہاں ہے ''صبح ہونے تک'' سلیم آغا قزلباش کے افسانوں کا مجموعہ ہے، سلیم آغا قز لباش ادبی دنیا کا بے حد معروف اور معتبر نام ہے اس کی یہ وجہ ہرگز نہیں ہے کہ وہ قد آور قلم کار بڑے نقاد، بڑے شاعر جن کا علم و ادب کے ایوانوں میں طوطی بولتا تھا (اور بولتا ہے) جناب ڈاکٹر وزیرآغا کے صاحبزادے ہیں۔
ڈاکٹر سلیم آغاز قز لباش اپنی محنت اور صلاحیتوں کی بنا پر اپنا لوہا منواچکے ہیں ان کی کئی کتابیں اشاعت کے مرحلے سے گزر چکی ہیں اور وہ عرصہ دراز سے لکھ رہے ہیں۔ ''صبح ہونے تک سے قبل'' ان کا افسانوی مجموعہ ''انگورکی بیل'' انشائیوں کا مجموعہ 'آمنا سامنا' اور'سرگوشیاں' مغربی انشائیوں کے تراجم پر مشتمل ایک اور کتاب ''مغرب کے انشایئے'' اپنے قارئین و ناقدین سے داد تحسین وصول کرچکے ہیں،اس کے علاوہ بھی تنقید وتحقیق کے میدان میں سرگرم عمل رہتے ہیں۔ اسی جستجو کے نتیجے میں ان کے مضامین مختلف ادبی پرچوں کی زینت میں اضافے کا باعث ہیں۔
سلیم آغا قزلباش کی تحریرکی خوبی یہ بھی ہے کہ خاص طور پر تنقیدی تحریروں کے حوالے سے کہ وہ اچھی طرح چھان پھٹک لیتے ہیں،کتاب کے وزن کی بجائے تحریرکے وزن پر تو زور دیتے ہیں اور بہت توجہ سے مطالعہ کرتے ہیں، شاید یہی وجہ ہے کہ جناب سلیم آغا قزلباش کے مضامین سند کا درجہ رکھتے ہیں۔ ان کے افسانوی مجموعہ ''صبح ہونے تک'' میں 15 افسانے شامل ہیں اور تقریباً تمام ہی افسانے اپنی نسبت اور پیشکش کے اعتبار سے قابل مطالعہ ہیں۔
جناب محمد منشا یاد کی رائے کے مطابق ''سلیم آغا قزلباش کے افسانے آج کی دنیا اور معاشرے سے جڑے ہوئے ہیں اور آج کے انسان کی داخلی اور خارجی زندگی کی نہایت متنوع تصویریں اور تعبیریں پیش کرتے ہیں، یقینا سلیم آغا قز لباش نئی نسل کے چند اہم ترین افسانہ نگاروں میں سے ہیں۔ ''صبح ہونے تک'' کے افسانے پڑھ کر مجھے اندازہ ہوا کہ سلیم آغا قزلباش کے افسانوں میں ایسا جادو ہے جو سرچڑھ کر بولتا ہے اور قاری کی مکمل توجہ اپنی طرف مبذول کرالیتا ہے۔
ان کی کہانیاں پڑھتے چلے جایے اور معاشرے کے دل سوز واقعات، سماج کی تلخیاں، غریب کا استحصال، انسان کی ناقدری، غربت کی گود اور افلاس کی وادی میں حشرات الارض کی طرح جینے والے انسان، جہاں کھانے کو روٹی نہیں، تن ڈھانپنے کوکپڑا نہیں، خواہشات تو دورکی بات ہے ان جھگی نشینوں اور غلاظت میں رہنے والوں کے دلوں میں دھوئیں کے سوا کچھ نہیں ہے۔ سلیم آغا قزلباش کا ایسا ہی افسانہ ''لال سینڈل'' ہے جوکہ پہلے نمبر پر ہے، یہ افسانہ تڑپتے، سسکتے، روتے، پیٹتے انسانوں کی فہرست کی کتھا ہے۔
اس کے کرداروں نے اسے حرارت بخش دی ہے لکھنے کا انداز بے حد موثر اور رواں ہے، پڑھنے والا خط غربت کے نیچے زندگی بسرکرنے والوں کے نوحوں کو پڑھتے پڑھتے خود بھی نوحہ خواں بن جاتا ہے ایک ایسی کیفیت سے گزرتا ہے جہاں وہ اپنے آپ کو دم بخود پاتا ہے، دکھ کی لہر دل ودماغ سے اٹھتی ہے اور پورے وجود کو ہلاکر رکھ دیتی ہے۔سلیم آغا کا اندازِ بیاں میرے اپنے خیال کے مطابق منشی پریم چند اور منٹو کے افسانوں سے ہم آہنگ نظر آتا ہے یہ ان کی شعوری کوشش تو ہرگز نہیں ہے، ہر ادیب اپنے ہی طرز، سوچ، ماحول اور افکار کیمطابق لکھتا ہے کہ اپنے طرز تحریر کے اعتبار سے بلند ہوتی ہی چلی جاتی ہے۔
افسانہ ''لال سینڈل'' کی اٹھان ایسی ہے۔ کہیں بھی پست ہوتی نظر نہیں آتی ہے۔ جھگیوں کے مکینوں کی زندگیوں پر ہاشو، کاکی کی ماں، کاکی اور نالے کی غلاظت کے ذریعے بے حد عمدہ طریقے سے روشنی ڈالی گئی ہے کہ سماج کے دھتکارے ہوئے لوگوں کی زندگیوں کے المیے کو فنی باریکیوں اور چابک دستی کے ساتھ اجاگرکیا ہے جس قدر ابتدائی سطور نے طلسماتی فضا پیدا کرکے اپنے قارئین کو اپنے مضبوط حصار میں قید رکھا، اسی طرح افسانے کے اختتام نے بھی قاری کو مسحورکردیا ہے ''لال سینڈل'' کئی دنوں تک دل ودماغ میں زندہ رہنے والا افسانہ ہے، اسے شاہکار افسانوں کی صف میں رکھا جاسکتا ہے، کتاب کے تمام افسانے معاشرتی سچائی اور سماجی مسائل کے گرد گھومتے ہیں اور اپنے اسلوب بیان کے اعتبار سے بلندیوں کو چھوتے ہیں۔
میری نگاہیں جن کتابوں کا احاطہ کررہی ہیں ان ہی میں ایک اہم کتاب جناب شفیق احمد شفیق کی ہے۔ عنوان ہے ''فیض ایک، عہد ساز شخصیت'' شفیق احمد شفیق کی ادبی کاوشوں سے اہل نظر و اہل ہنر اچھی طرح واقف ہیں، شفیق احمد شفیق میری معلومات کیمطابق سات کتابوں کے مصنف ہیں اور مزید کتب اشاعت کی منتظر ہیں وہ افسانہ نگار ہیں، بہت اچھے شاعر اور تنقید نگار ہیں ان کے بارے میں موجودہ دور کے اہم نقاد سید مظہر جمیل کی رائے کیمطابق کہ شفیق صاحب ایک ناقد کی حیثیت سے کبھی ادبی تحقیق اور مسئلے سے نہ تو سرسری گزرنے کے قائل ہیں اور نہ سخن فہمی کی جگہ غالب کی طرفداری کا شعار اختیار کرتے ہیں۔
وہ نہ تو تخلیق کی ظاہری سج دہج سطح چمک دمک اور نہ صاحب تخلیق کے نام و نمود سے مرعوب ہونا جانتے ہیں، وہ تنقید نگاری کو ادبی و سیاسی گروہ بندی اور صف آرائی کی ہتھیار کی طرح استعمال نہیں کرتے کہ ان کے نزدیک نقد ادب کا عمل قرار واقعی سنجیدگی، متانت اور غیر جانب دارانہ سلوک کا متقاضی ہے۔ زیر نظر کتاب ''فیض ایک عہد ساز شخصیت'' ایک تجزیاتی مطالعہ ہے ۔
شفیق احمد شفیق نے فیض احمد فیض کی زندگی کے مختلف ادوار اور ان کی تخلیقی جہت، ترجمہ نگاری، تنقید، صحافیانہ کردار کے حوالے سے اپنی اس کوشش میں وہ ایک حد تک کامیاب بھی ہوئے ہیں۔وہ لکھتے ہیں کہ وہ علم وعمل کے آدمی تھے، فوج میں بھی وہ مستعد اور فعال رہے اور غیر فوجی زندگی میں بھی فکروفن کی روشنی انہماک اورسرگرمی سے بکھیرتے رہے،ان کی زندگی ایک محب وطن، ایک سپاہی، ایک شاعر، ایک نقاد، ایک صحافی، ایک استاد اور ایک بشر دوست کی حیثیت سے مثالی تھی اور آج بھی مثالی ہے۔''
فیض احمد فیض کی تنقید کے حوالے سے شفیق احمد کا نقطہ نظر یہ ہے کہ ''فیض احمد کی تنقید میں محاسن اور خوبیاں ان کی شاعری کی طرح بہت ہیں مگر انسان ہونے کے ناتے ان سے بھی کہیں کہیں فروگزاشتیں ہوئی ہیں ان ہی فروگزاشتوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ پریم چند کے حوالے سے وہ تضاد کا شکار بھی ہوئے ہیں، یعنی ان کو حقیقت نگار تسلیم نہیں کیا ہے مگر ''ہم کہ ٹھہرے ڈاکٹر ایوب مرزا کے سوال کا جواب دیتے ہوئے ان کی حقیقت نگاری کا نہایت فراخدلی کے ساتھ اعتراف کیا ہے۔
اس سوال پر کہ انجمن ترقی پسند مصنفین کی پہلی کانفرنس کب ہوئی'' کے جواب میں وہ فرماتے ہیں ''پہلی کانفرنس 1936 میں لکھنؤ میں منشی پریم چند کی صدارت میں ہوئی، انھوں نے ایک عمدہ اور پر مغز تاریخی خطبہ پڑھا، اصل بات یہ ہے کہ منشی پریم چند کی تحریریں پہلے ہی سے Realism میں ڈوبی ہوئی ہوتی تھیں۔''''فیض کی وطن دوستی'' اس باب میں مصنف اس طرح رقمطراز ہیں کہ ان پر وطن دشمنی کا جو الزام ہے اس کی حیثیت بھی سانپ کے تلوے کی سی ہے، جو انسان پاکستان کے قیام اور برصغیر کے مسلمانوں کی آزادی کو جزو ایمان تصورکرتا ہو وہ اس ملک کے قیام میں رکاوٹ اور اس کے قائم ہوجانے کے بعد ختم کرنے کے درپہ کیسے ہوسکتا ہے؟ ایک ملک دشمن شاعر اپنے وطن پاکستان کے بارے میں ایسے اشعارکیسے کہہ سکتا ہے؟۔
چاہا ہے اسی رنگ میں لیلائے وطن کو
تڑپاہے اسی طور سے دل اس کی لگن میں
یہ داغ داغ اجالا یہ شب گزیدہ سحر
وہ انتظار تھا جس کا یہ وہ سحر تو نہیں