مرد ایسی گفتگو کرتے ہیں
میں یہ سمجھتا تھا کہ وہ لوگ جاہل ہیں جو یہ کہتے ہیں کہ ہمارے ملک کا سب سے بڑا مسئلہ دہشت گردی ہے
MUMBAI:
میں یہ سمجھتا تھا کہ وہ لوگ جاہل ہیں جو یہ کہتے ہیں کہ ہمارے ملک کا سب سے بڑا مسئلہ دہشت گردی ہے ۔ مگر جس طریقے سے ہمارے میڈیا نے خواتین کے جھگڑے کی فوٹیج کو چلایا ہے اُس سے میرا بھی ایمان پختہ ہو گیا ہے ۔ اب یہ بات واضح ہو گئی ہے کہ اس ملک کا سب سے بڑا مسئلہ دہشتگردی ہے اور عدم برداشت ہے ۔ آپ نے دیکھا نہیں کہ کس طریقے سے خواتین ایک دوسرے کو مار رہی تھی۔ اور ہمارے ٹی وی چینلز پر یہ چلایا جارہا تھا کہ جلد آپ دیکھ سکیں گے اس کا دوسرا پارٹ ۔ خواتین کے اس طرح لڑنے سے قوم کا شدید نقصان ہوا ہے ۔
ہمارا دوسرا سب سے بڑا مسئلہ کسی طور پر بھی تعلیم نہیں ہے ۔بلکہ وہ خواتین ہیں جو مظفر گڑھ میں میلہ سجائی ہوئی تھی۔ ان کا صرف مسئلہ یہ تھا کہ یہ خواتین خود بھی غریب تھیں اور جن لوگوں کو وہ تفریح فراہم کر رہی تھی وہ بھی غریب لوگ 10 روپے کا ٹکٹ لے کر اندر آئے تھے ۔ ہاں جہاں ٹکٹ 10 ہزار سے شروع ہوتا ہے وہاں پر ہم سب کے پر جلنا شروع ہو جاتے ہیں ۔ غریب کو تفریح کا کوئی موقع ہاتھ نہیں لگنا چاہیے ۔غریب کو اس قسم کی کسی چیز کی آزادی نہیں ہو نی چاہیے ۔ وہ تفریح کرے ۔
اگر اُسے مہذب انداز میں شرفا کی طرح کام کرنا ہے تو جیب میں پیسے رکھا کرے ۔ کیونکہ یہ غیر اخلاقی سرگرمیاں ہیں اور اس سے فحاشی پھیلنے کا ڈر ہوتا ہے ۔اس لیے انھیں قانونی طور پر اجازت لینی چاہیے تھی ۔ ایک اندازے کیمطابق پاکستان میں روزانہ کی بنیاد پر اس قسم کی پارٹیوں کا انعقاد ہوتا ہے ۔ مگر کیونکہ وہاں فیس بہت زیادہ ہوتی ہے اس لیے وہ فحاشی دکھائی نہیں جاسکتی ۔ ہمارا تیسرا سب سے بڑا مسئلہ صحت نہیں ہے ۔ کیونکہ پاکستان میں ہزاروں بنیادی صحت کے مراکز ، دیہی مراکز ، تحصیل اسپتال اور ڈسٹرکٹ اسپتال زبردست کام کر رہے ہیں اس لیے وہ ہمارے لیے بڑا مسئلہ نہیںہیں۔ہمارا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ قتالۂ عالم ایان علی کو پاسپورٹ ملے گا یا نہیں ۔
ہماری بلا سے روس اور امریکا کے درمیان کیا چل رہا ہے ۔ ہمیں اس بات کی کیا فکر کہ ترکی اور روس کے تعلقات کہاں تک جائینگے ۔ ہمیں اس بات کی ٹینشن نہیں لینی چاہیے کہ کیا باقاعدہ جنگ ہو سکتی ہے ۔ ترکی ہمارا بھائی ہو گا لیکن صرف میٹرو پراوجیکٹ تک۔ امریکا کے خلاف ہم روز نعرے لگاتے ہیں آج نہیں تو کل غرق ہو ہی جائے گا ۔ ہمیں اگر فکر ہونی چاہیے تو اس بات کی کہ ریحام خان جھوٹ بول رہی ہے یا پھر عمران اُس کی جھوٹی تعریف کر رہے ہیں ۔ دنیا میں تیل کا نیا بحران سر اٹھانیوالا ہے یا نہیں اس سے ہمیں کوئی فرق نہیں پڑتا ۔ ہمیں اس بات میں زیادہ دلچسپی ہے کہ ریحام کا اگلا انٹرویو کب آنیوالا ہے۔
کتنے برے لوگ ہیں جنھوں نے عامر خان کو ملک چھوڑنے کا کہہ دیا ۔ اور یہ بھارتی اداکار جو عامر کے خلاف بول رہے ہیں وہ تو سارے دوزخ میں جائینگے ۔ کانگریس عامر کے ساتھ کھڑی ہو گئی ۔ واہ واہ کیا بات ہے اب تو مودی سرکار گر کر رہے گئی ۔ انڈیا پر ہماری اتنی نظر ہے کہ ہمیں اپنی گلی میں پڑی لاشوں کی بدبو محسوس ہی نہیں ہو رہی۔ ہماری ترقی اسی میں ہے کہ انڈیا تباہ ہو جائے یا پھر اس میں ہے کہ ہم اپنی شناخت خود بنائیں ۔
خیر بہت زیادہ شکوے ہو گئے ۔ تھوڑی سی کام کی بات بھی کر لیتے ۔ جب سے عمران خان کراچی آئے ہیں ۔ دنیا کو پتہ چل گیا ہے کہ کراچی میں بھی الیکشن ہونے والے ہیں ۔ عمران کو یہ تو کریڈٹ جاتا ہے کہ وہ جہاں جاتے ہیں کیمرے اُس کی طرف لگ جاتے ہیں۔ کاش عمران کسی اسکول کا دورہ بھی کر لیتے ۔ کسی اسپتال کا معائنہ بھی کر لیتے۔ کسی سڑک کی حالت پر ماتم بھی کر لیتے ۔ کراچی کے واٹر ٹینکر پر ایک دھواں دار تقریر کر لیتے ۔ مگر وہ ہی رونا اور وہ ہی دھونا ۔ سیاست کا سب سے بڑا ہنر عوام کے مزاج کو سمجھنا ہے ۔
ہر خطے کی سیاست الگ ہوتی ہے اور جب معاملہ بلدیاتی الیکشن تک آجاتا ہے تو ہر شہر اور گلی کی سیاست مختلف ہوتی ہے ۔ انھیں اس بات سے کوئی غرض نہیں ہوتی کہ وزیر اعظم نے کون سے کپڑے پہنے ہوئے ہیں۔ مگر انھیں فکر ہوتی ہے کہ ہمارے گھر پانی آئیگا یا نہیں آئیگا۔ مقامی جذبات اور خیالات بہت زیادہ معنی رکھتے ہیں ۔ سیاسی سوچ بچپن سے ذہنوں میں بیٹھی ہوتی ہے ۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ کراچی میں رینجرز کی کارروائیوں کے بعد کافی حد تک ٹارگٹ کلنگ اور بھتے میں کمی آئی ہے ۔ مگر ہمارا کہنا یہ ہی تھا کہ اس آپریشن کو سیاسی رنگ نہ دیا جائے ۔ دو سالوں میں کراچی کی سیاست میں بہت بڑی تبدیلیاں آئی ہیں ۔
پہلے یہ تھا کہ عمران خود سے آگے بڑھ رہے ہیں اور اب یہ خیال پروان چڑھ چکا ہے کہ عمران خان کو لایا جارہا ہے۔ ہو سکتا ہے ایسا نہ ہو لیکن ان کے اپنے کچھ مقامی رہنماؤں نے یہ تاثر دینے کی کوشش کی ہے کہ وہ کسی کے آشیرباد سے آرہے ہیں ۔جس سے صورتحال بہت بدل گئی ہے ۔ عمران خان کو کراچی میں آکر کراچی کے لوگوں کے مسائل پر بات کرنا ہو گی ۔ مگر اُن کی تقریر کنٹینر سے باہر نہیں آپا رہی۔ کچھ سیاسی رہنماؤں کا خیال ہے کہ اگر کراچی آپریشن کی پریس ریلیز آخری دن تک جاری رہی تو اس کا براہ راست نقصان عمران خان کی جماعت کو ہوگا۔جو چیزیں وقت کے ساتھ اپنی مدت پوری کر رہی تھی ۔کچھ لوگوں کی عقل مندی کی وجہ سے وہ دوبارہ جوان ہو چکی ہے۔
مجھے تو سمجھ نہیں آتا کہ ان کم عقل لوگوں کو کس طرح سے داد دوں ۔بات کہاں سے کہاں چلی جاتی ہے ۔ نہ تو آج کراچی پر بات کرنی تھی اور نہ ہی عمران خان کی سیاست پر ۔ موضوع تو صرف اتنا سا تھا کہ آخر ہمارے مسائل کیا ہیں اور ہم کس طرح اس کو حل کر رہے ہیں ۔ ایان علی ، مظفر گڑھ کے رنگین میلے ، عمران خان کی شادی اور انڈیا کی جہالت کے بعد اگر ہمارا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ذوالفقار مرزا صاحب کس طرح کی آزاد شاعری کرتے ہیں ۔ اور اُن کی گفتگو کی''شائستگی''کس طرح ہمارے بچوں کو تربیت دے رہی ہے ۔
ہمارا یہ روز کا کام ہے کہ انھیں ڈھونڈھ ڈھونڈھ کر بلایا جائے اور کہا جائے کہ روز کی بنیاد پر وہ ہمیں یہ بتائیں کہ باتوں سے پھول کس طرح کھلائے جاتے ہیں ۔ وہ ہماری گھر کی خواتین کو یہ بتائیں کہ کس طرح سیاست دان زبان کا خیال رکھتے ہیں ۔ ہمارا ٹی وی دیکھ کر بس نہیں چلتا اس لیے اُن کی دی گئی اعلی تعلیمات کو ہم سوشل میڈیا پر بھی شئیر کرتے ہیں ۔
جب ایک ٹی وی کے پروگرام میں ان کی بیگم اور قومی اسمبلی کی سابق اسپیکر فہمیدہ مرزا سے پوچھا گیا کہ آپ کے شوہر جو زبان استعمال کرتے ہیں وہ آپ نے سُنی ہے ۔؟ تو انھوں نے کہا کہ نہیں میں نہیں سُنی ہے ۔ میرا یہاں ایک چھوٹا سا سوال ہے کہ جو زبان مرزا صاحب کی اہلیہ نے نہیں سُنی ہے وہ زبان ہمارے گھروں میں کیوں سُنائی جاتی ہے ؟ دوسرا یہ کہ جب اُس شو میں فہمیدہ مرزا کو کچھ کلپ سُنائے گئے تو خاتون نے فخر سے کہا کہ اس میں کیا ہے کہ مرد تو ایسی باتیں کرتے ہیں ۔ مجھے نہیں معلوم کہ محترمہ نے کون سے مردوں کی باتیں سُنی ہے۔ ایسی باتیں میرے ابا نے کبھی نہیںکی ہیں اور نا ہی میرے دادا نے۔ محترمہ کو کیسے پتہ چلا کہ مرد ایسی گفتگو کرتے ہیں۔