روس اور ترکی میں آویزش در گزر کی ضرورت
ترکی کی جانب سے روس کا جنگی طیارہ مار گرائے جانے کے بعد دونوں ملکوں میں کشیدگی میں اضافہ ہو گیا ہے
ترکی کی جانب سے روس کا جنگی طیارہ مار گرائے جانے کے بعد دونوں ملکوں میں کشیدگی میں اضافہ ہو گیا ہے جب کہ روس نے ترک سرحد کے قریب زمین سے فضا میں مار کرنے والے میزائل نصب کر دیے ہیں اور ایئر ڈیفنس نظام سے لیس اپنے بحری جنگی جہاز بھی ترکی کی ساحل کے قریب لے آیا ہے نیز روسی صدر پیوٹن نے ترکی کے خلاف پابندیاں لگانے کے حکمنامے پر بھی دستخط کر دیے ہیں۔ ادھر ترک صدر رجب طیب اردگان نے کہا ہے کہ ترکی کو روسی طیارے کے گرائے جانے پر افسوس ہے اور امید ظاہر کی ہے کہ آیندہ ایسا واقعہ نہیں ہو گا تاہم انھوں نے روس سے معافی نہیں مانگی۔ واضح رہے روس نے ترکی کے ساتھ فوجی رابطے پہلے ہی ختم کر دیے ہیں۔
ترک صدر نے روسی صدر سے ملاقات کی پیش کش کی ہے مگر روسی صدر نے کہا ہے کہ پہلے معافی مانگی جائے۔ اس کے ساتھ ہی ترکی نے اپنے شہریوں کو ہدایت کی ہے کہ وہ بلا ضرورت روس کے سفر سے گریز کریں۔ یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ ترکی ایک زمینی پٹی ایک چونچ کی شکل میں شام کے علاقے کے اندر تک چلی گئی ہے اور روسی طیارہ اسی علاقے میں گرایا گیا۔ دریں اثناء امریکی حکام کا کہنا ہے کہ روس نے اپنے طیارے کی پرواز کے پلان سے امریکا کو آگاہ نہیں کیا تھا جسے ترک فضائیہ نے گرا لیا۔ غالباً اس حوالے سے امریکا کا موقف یہ ہو گا کہ اطلاع ہونے کی صورت میں امریکا روسی طیارہ گرائے جانے سے ترکی کو باز رکھ سکتا تھا۔ یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ روس کے جنگی طیاروں کی شام اور ترکی کی سرحدی راہداریوں پر بمباری کا سلسلہ جاری ہے جس کے نتیجے میں گزر گاہ پر کھڑی بڑی تعداد میں گاڑیاں تباہ ہو گئیں۔
شام میں پہلے ہی شدید قسم کے بحران کی کیفیت جاری ہے لہٰذا موجودہ صورت میں روس اور ترکی کے مابین آویزش حالات کو اور زیادہ خراب کر دے گی۔ اس لیے دونوں ملکوں کو چاہیے کہ وہ علاقے کے وسیع تر مفاد کی خاطر کسی قسم کی اشتعال انگیزی سے گریز کریں۔ اور اگر روس کا مطالبہ صرف اتنا ہے کہ ترکی رسمی معذرت کر لے تو تعلقات دوبارہ معمول پر آ سکتے ہیں تو ترکی کو چاہیے کہ اس چھوٹی سی بات کو اپنی انا کا مسئلہ بنانے سے اجتناب کرے کیونکہ روس اور ترکی کے درمیان آویزش بڑھی تو اس کے نتائج دونوں ملکوں ہی نہیں بلکہ عالمی امن کے لیے بھی خطرناک ہوں گے۔ امریکا اور مغربی یورپ کی پالیسی تماشا دیکھنے تک محدود ہے لہٰذا حالات کا تقاضا یہ ہے کہ روس اور ترکی کی لیڈر شپ اپنے اختلافات کو آگے بڑھ کر خود حل کریں۔ امریکا اور مغربی یورپ کی خواہش ہو گی کہ یہ اختلافات بڑھیں تا کہ نیٹو کو حرکت میں آنے کا موقع مل سکے۔
ترک صدر نے روسی صدر سے ملاقات کی پیش کش کی ہے مگر روسی صدر نے کہا ہے کہ پہلے معافی مانگی جائے۔ اس کے ساتھ ہی ترکی نے اپنے شہریوں کو ہدایت کی ہے کہ وہ بلا ضرورت روس کے سفر سے گریز کریں۔ یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ ترکی ایک زمینی پٹی ایک چونچ کی شکل میں شام کے علاقے کے اندر تک چلی گئی ہے اور روسی طیارہ اسی علاقے میں گرایا گیا۔ دریں اثناء امریکی حکام کا کہنا ہے کہ روس نے اپنے طیارے کی پرواز کے پلان سے امریکا کو آگاہ نہیں کیا تھا جسے ترک فضائیہ نے گرا لیا۔ غالباً اس حوالے سے امریکا کا موقف یہ ہو گا کہ اطلاع ہونے کی صورت میں امریکا روسی طیارہ گرائے جانے سے ترکی کو باز رکھ سکتا تھا۔ یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ روس کے جنگی طیاروں کی شام اور ترکی کی سرحدی راہداریوں پر بمباری کا سلسلہ جاری ہے جس کے نتیجے میں گزر گاہ پر کھڑی بڑی تعداد میں گاڑیاں تباہ ہو گئیں۔
شام میں پہلے ہی شدید قسم کے بحران کی کیفیت جاری ہے لہٰذا موجودہ صورت میں روس اور ترکی کے مابین آویزش حالات کو اور زیادہ خراب کر دے گی۔ اس لیے دونوں ملکوں کو چاہیے کہ وہ علاقے کے وسیع تر مفاد کی خاطر کسی قسم کی اشتعال انگیزی سے گریز کریں۔ اور اگر روس کا مطالبہ صرف اتنا ہے کہ ترکی رسمی معذرت کر لے تو تعلقات دوبارہ معمول پر آ سکتے ہیں تو ترکی کو چاہیے کہ اس چھوٹی سی بات کو اپنی انا کا مسئلہ بنانے سے اجتناب کرے کیونکہ روس اور ترکی کے درمیان آویزش بڑھی تو اس کے نتائج دونوں ملکوں ہی نہیں بلکہ عالمی امن کے لیے بھی خطرناک ہوں گے۔ امریکا اور مغربی یورپ کی پالیسی تماشا دیکھنے تک محدود ہے لہٰذا حالات کا تقاضا یہ ہے کہ روس اور ترکی کی لیڈر شپ اپنے اختلافات کو آگے بڑھ کر خود حل کریں۔ امریکا اور مغربی یورپ کی خواہش ہو گی کہ یہ اختلافات بڑھیں تا کہ نیٹو کو حرکت میں آنے کا موقع مل سکے۔