سامراجی عزائم

داعش کے پیرس حملے نے دنیا کو ہلا کر رکھ دیا ہے

www.facebook.com/shah Naqvi

HANGU:
داعش کے پیرس حملے نے دنیا کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ بظاہر عالمی طاقتیں بڑی تیزی سے دہشت گردوں کے خلاف متحد ہوتی نظر آ رہی ہیں۔ اس پس منظر میں سلامتی کونسل نے داعش کے خلاف اعلان جنگ کر دیا ہے۔

امریکی صدر اوباما نے بھی کہا ہے کہ وہ داعش کا ہر صورت خاتمہ کر کے رہیں گے لیکن کیا وہ اپنے کہے پر اسی طرح عمل کر سکیں گے ۔انھوں نے اب داعش کے خلاف جو لب و لہجہ اختیار کیا' یہ بھی اس وقت ممکن ہو سکا جب ان کے اپنے دمن میں آگ لگی ورنہ اس سے پہلے تو داعش امریکا اور اس کے اتحادیوں کا خفیہ ہتھیار تھی۔ اس راز کا پردہ روس کے صدر نے ترکی کے شہر اناطولیہ میں جی 20 کے سربراہی اجلاس میں یہ کہہ کر فاش کیا کہ داعش کو جی 20سمیت 40ممالک مالی امداد کرتے ہیں۔ ایک طرف داعش کی مالی امداد اور ہر طرح کی حمایت کی جا رہی ہے تو دوسری طرف صرف لفظی مذمت' یہ ممالک کون ہیں؟ ظاہر ہے امریکا برطانیہ فرانس وغیرہ کے سوا کون ہو سکتے ہیں۔ یہ تاریخی حقیقت ہے کہ روس نے مشرق وسطی کے مسلم ملکوں کی اس وقت بھی ہمیشہ مدد کی جب وہ سوویت یونین تھا اور اس نے مسلمان ملکوں کو ہمیشہ امریکا اور اسرائیل کے ظلم سے بچانے کے لیے ڈھال کا کام کیا۔

یہ المناک حقیقت ہے کہ سوویت یونین کے خاتمے کے بعد مسلمانوں پر ظلم کے پہاڑ ٹوٹ پڑے۔ وہ دن اور آج کا دن کئی دہائیاں گزر گئیں، کئی ملین مسلمان پاکستان افغانستان عراق ایران شام میں امریکی سامراج کے ہاتھوں قتل اور کروڑوں تباہ برباد ہو چکے ہیں۔ مسلمانوں کی نسلوں کی نسلیں تباہ برباد ہو چکی ہیں لیکن تباہی و بربادی کا یہ سلسلہ تھمنے کو نہیں آ رہا ۔مسلمانوں کو شکر ادا کرنا چاہیے کہ روس دوبارہ سے عالمی منظرنامہ میں امریکا کے مقابلے کی ایک موثر طاقت بن کر ابھر رہا ہے۔ امید کرنی چاہیے کہ مسلمانوں پر چھائی ظلم کی سیاہ رات کا جلد خاتمہ ہو گا۔ روس کا مشرقی وسطیٰ میں یہ نیا طاقتور کردار بالا آخر اس خطے میں امن قائم کرنے میں فیصلہ کن کردار ادا کرے گا۔ اس پس منظر میں روسی صدر ولادی میر پیوتن کا حالیہ دورہ ایران بڑی اہمیت رکھتا ہے جس میں انھوں نے اپنے ایرانی ہم منصب ڈاکٹر حسن روحانی اور سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای سے ملاقاتیں کیں۔ روسی صدر نے ایرانی سپریم لیڈر کو قرآن پاک کا ایک نادر نسخہ بھی تحفہ کے طور پر پیش کیا۔ روسی صدر نے کہا کہ شام کے معاملے پر ماسکو اور تہران حکومتوں کے موقف میں کوئی فرق نہیں ہے۔

عالمی طاقتوں کو شامی عوام کی رائے کو اہمیت دینی چاہیے۔ روسی صدر نے ایران پر عائد ایٹمی پابندیاں ختم کرنے کا بھی اعلان کر دیا۔ دونوں رہنماؤں نے کہا کہ شام میں قیادت کی تبدیلی الیکشن کے ذریعے عمل میں آنی چاہیے 'اس کا فیصلہ شامی عوام نے کرنا ہے نا کہ امریکا برطانیہ فرانس اور سعودی عرب کو۔ روسی ترجمان نے کہا کہ روس اور ایران کے دونوں رہنماؤں نے اتفاق کیا ہے کہ شام کے تنازع کے ''اپنی مرضی کے سیاسی حل کے لیے باہر سے کی جانے والی کوششوں اور دباؤ'' کو کسی صورت قبول نہیں کیا جائے گا۔ ماسکو اور تہران ایسی کسی بھی کوشش کا مل کر مقابلہ کریں گے۔ سوال یہ ہے کہ امریکا بشارالاسد کو کیوں ہٹانا چاہتا ہے؟ اس لیے بشار الاسد اسرائیل کے لیے خطرہ ہے۔ اور امریکا کی جان اسرائیل میں ہے کیونکہ شام پچھلی کئی دہائیوں سے اسرائیل کے ظلم کا مقابلہ کرنے کے لیے فلسطینی مسلمانوں کی مسلسل مدد کر رہا ہے۔ ورنہ تو اپنے عوام کے حقوق کو سلب کرنے اور انھیں ہر طرح کی آزادی سے محروم کرنے کا نیک کام تو عرب بادشاہتیں اور آمریتیں کئی نسلوں سے کر رہی ہیں۔ اس تمام صورت حال کا سب سے بڑا بینیفشری اسرائیل ہے۔


اسرائیل کو محفوظ کرنے کے لیے پہلے مشرق وسطیٰ کی سب سے بڑی طاقت عراقی فوج کا خاتمہ کیا گیا۔ اب شام نشانے پر ہے۔ یہ ایک طویل المیعاد حکمت عملی تھی جس پر عمل درآمد پچھلی کئی دہائیوں سے کیا جا رہا ہے۔ بیشتر مقاصد حاصل ہو چکے ہیں۔ صرف بشار الاسد کا کانٹا نکالنا رہ گیا ہے تا کہ اسرائیل اور عرب بادشاہتیں مشرق وسطیٰ میں امریکی مفادات کی حفاظت بغیر کسی رکاوٹ کے کر سکیں۔ پاکستانی قوم کی بدقسمتی ہے کہ دہشت گرد اور ان کے سرپرست آزاد ہیں اور انھیں کوئی ہاتھ بھی نہیں لگا سکتا۔ یہ وہ لوگ ہیں جو سامراجی خفیہ جنگی ہتھیار داعش کی مدد کر کے امریکی ایجنڈے پر عمل کرنا چاہتے ہیں تا کہ پاکستان قتل و غارت کا وہ نقشہ پیش کرے جو اس وقت عراق و شام میں نظر آ رہا ہے۔ پاکستانی قوم نے بھی کیا قسمت پائی ہے اسے ایسے لوگ ملے جو سامراجی ایجنٹوں کا کردار ادا کر رہے ہیں اور سادہ لوح پاکستانی عوام ان کی حقیقت سے واقف نہیں۔ لیکن تسلی کی بات یہ ہے کہ ہمارے آرمی چیف تو ان کی حقیقت سے واقف ہیں تبھی تو انھوں نے کہا کہ وہ داعش کا سایہ بھی پاکستان پر پڑنے نہیں دیں گے۔

اب قارئین کے ذہن میں یہ سوال اٹھے گا کہ آخر یہ لوگ کون ہیں؟ ان کو پہچاننا کوئی مشکل کام نہیں۔ یہ بہت آسان ہے۔ پاکستانی قوم تھوڑا سا ماضی میں جائے تو ان کو یاد آ جائے گا کہ وہ کون لوگ تھے جو دہشت گردوں سے مذاکرات کی حمایت کرتے رہے۔ دہشت گردوں کے ایک بڑے لیڈر کی موت ان کے لیے بہت بڑا صدمہ تھی۔ دہشت گرد جب دھماکے کر کے بے گناہ پاکستانی شہریوں کو موت کے گھاٹ اتارتے تھے تو دہشت گردوں کے ہمدرد مدد گار اور سہولت کار فوراً اس کی توجیہہ یہ پیش کرتے تھے کہ یہ دھماکے ان کے پسندیدہ گروہ نے نہیں بلکہ یہود ہنود نے کیے ہیں جب کہ دہشت گرد فخر سے اس کا کریڈٹ لے رہے ہوتے تھے۔

دنیا تیسری عالمی جنگ کا انتظار کر رہی ہے لیکن یہ جنگ تو مشرق وسطیٰ سے پاکستان تک کے علاقے میں سوویت یونین کے خاتمے کے نام پر کئی دہائیاں پہلے شروع ہو چکی ۔ صرف یہ اپنی جگہیں بدلتی رہی پہلے افغانستان پاکستان پھر عراق ایران اور اب شام۔ داعش کا نقاب اوڑھے ہوئے امریکی سامراج۔ اسلام کے نام پر مسلمانوں کا قتل عام کر رہا ہے۔

امریکی برطانوی تھنک ٹینک کو داد دیں کہ کس قدر کمال عیاری سے مسلمانوں کے تضادات کو اس مہارت سے استعمال کیا گیا کہ مسلم ممالک مذہب کے نام پر ایک ایسی نہ ختم ہونے والی جنگ سے گزر رہے ہیں جس کے خاتمے کا دور دور تک کوئی امکان نظر نہیں آتا۔ یہ مذہب کا ہتھیار بڑا خوفناک ہے۔ تاریخ انسانی میں اس کی ہولناکیاں بکھری پڑی ہیں۔

اگلے دو سے تین سالوں میں روس امریکا کی ہم پلہ طاقت بن جائے گا۔
Load Next Story