عالی جی اک کوی رسیلے

پچاس کی دہائی کی ابتدا تھی، ایک دن راغب مراد آبادی، جالب بھائی کو عالی جی سے ملوانے لے گئے۔

QUETTA:
سبھی کہہ رہے ہیں ''عالی صاحب بہت بڑے شاعر تھے، کالم نگار تھے، اردو کے لیے گراں قدر خدمات انجام دیں''، مگر مجھے کچھ اور طرح سے اپنے غم کا اظہار کرنا ہے۔ اور یہ فقط مجھی کا غم ہے اور مجھی کو بیان کرنا ہے۔ جمیل الدین عالیؔ صاحب سے ہمارے گھریلو تعلقات تھے۔ یہ تعلق اس وقت قائم ہوا جب عالیؔ جی اینگلو عربک کالج دہلی میں نویں یا دسویں درجے میں ہوںگے۔ حبیب جالب بھی اسی درسگاہ میں پڑھتے تھے، عالیؔ جی نے بھی اسکول کے زمانے میں ایک دو شعر کہہ لیے تھے ادھر جالب صاحب نے بھی پہلا شعر ساتویں جماعت اور دوسرا نویں جماعت میں کہہ لیا تھا۔

یہ دونوں لڑکے آنے والے زمانے سے یکسر بے خبر تھے۔ ابھی کھل کر کچھ بھی سامنے نہیںآیا تھا، بٹوارہ ہوا تو دونوں خاندان آگ و خون کے دریا عبور کرکے دہلی سے کراچی آگئے، عالی جی محکمہ تجارت میں کلرک ہوگئے اور ہمارے سب سے بڑے بھائی مشتاق مبارک مرکزی محکمہ اطلاعات میں کلرک ہوگئے، عالی جی کا کراچی میں پہلا ٹھکانہ اے بی سینیا لائنز بنا اور بھائی مشتاق مبارک کا جٹ لینڈ لائنز۔ یہاں سرکاری بیرکس تھیں جن میں آٹھ، آٹھ، دس، دس کوارٹر بنے ہوئے تھے۔ عالی جی کی ہمارے دونوں بڑے بھائیوں سے دوستی تھی اور دوستی کی وجہ شاعری تھی۔ مشتاق مبارک کا شمار بھی ممتاز شعرا میں ہوتا تھا۔

پچاس کی دہائی کی ابتدا تھی، ایک دن راغب مراد آبادی، جالب بھائی کو عالی جی سے ملوانے لے گئے۔ سندھ ہائی کورٹ کے پچھواڑے سرکاری دفاتر کی بیرکس ہوتی تھیں جو آج بھی ہیں۔ وہیں کہیں عالی جی بیٹھتے تھے۔ عالی جی ملے، راغب صاحب نے تعاف کروایا ''یہ حبیب جالب ہیں، بہت اچھی غزل کہتے ہیں''۔

عالی جی نواب تو تھے ہی، ان کا لہجہ بھی خاندانی تھا۔ کہنے لگے ''تو پھر کچھ سناؤ میاں!'' جالب صاحب نے ایک مطلع سنایا:

اس شہر خرابی میں غم عشق کے مارے
زندہ ہیں یہی بات بڑی بات ہے پیارے

میں بتاتا چلوں کہ جالب اور عالی جی کی یہ پہلی ملاقات، سرکاری دفاتر کے احاطے میں بنی ہوئی کینٹین میں ہوئی تھی، جو آج بھی موجود ہے، اس جگہ آج کل نذرل اکیڈمی کا دفتر بھی ہے، خیر عالی جی مطلع سن کر نوجوان جالب کو دیکھتے رہ گئے، اور بولے ''آج شام برنس گارڈن میں ملیںگے، اور تمہیں خوب سنیںگے'' یہ برنس گارڈن (بنس گارڈن) عین اس جگہ تھا جہاں آج کل محکمہ انکم ٹیکس کی بارہ منزلہ عمارت کھڑی ہے۔

عالی جی نے تعلیمی سلسلہ بھی جاری رکھا اور مختلف ترقیاتی امتحانات بھی دیتے رہے، کامیاب ہوتے رہے، حتیٰ کہ سی ایس ایس (اس زمانے میں سی ایس پی کہا جاتا تھا) کا اعلیٰ امتحان بھی پاس کرلیا اور محکمہ انکم ٹیکس میں افسر ہوگئے، بھائی مشتاق مبارک بھی اطلاعات و نشریات میں ترقی کرتے کرتے ڈائریکٹر ہوگئے اور جالب بھی حبیب جالب ہوگئے۔

مگر کسی نہ کسی طور عالی جی اور ہمارے گھر کا تعلق قائم رہا۔ عالی جی انکم ٹیکس افسر بنے تو انھوں نے جالب کو کسی انکم ٹیکس وکیل کے دفتر میں ملازم کروا دیا۔ یہ الگ بات ہے کہ جالب صاحب نے زندگی بھر جتنی بھی ملازمتیں کیں، بس دو ایک مہینے چلیں اور پھر جالب آج اس شہر میں، کل نئے شہر میں بس اسی لہر میں اڑتے پتوں کے پیچھے اڑاتا رہا شوق آوارگی''۔

عالی جی اور جالب کے راستے بالکل جدا جدا تھے مگر محبت اور احترام کے رشتے تادم مرگ قائم رہے۔ عالی جی نیشنل بینک میں آئے تو جالب بھائی کے بڑے بیٹے کو نیشنل بینک میں ملازم کروایا۔

13 مارچ 1993 کو حبیب جالب کا انتقال ہوا۔ عالی جی نے طویل مضمون لکھا۔ یہاں میں مختصر سا اقتباس نقل کررہاہوں ''جالب میٹرک پاس بھی نہ تھے آخر ایک نہیں کئی کئی یونیورسٹیوں کے کام کر گئے۔ میں انھیں سوبورن یونی ورسٹی (پیرس) کی انقلابی روح کہا کرتا تھا، ان کی غزلیں بھی بڑا مقام رکھتی ہیں، مگر ان کا احتجاجی کلام پاکستانی تاریخ ادب میں اعلیٰ ترین جگہ لے چکا ہے'' اسی طرح عالی جی نے جالب کے انتقال پر ایک طویل نظم لکھی جس میں خود کا احتساب اور جالب کا اعتراف کیا ہے، ایسا کرنا بڑے ہی ظرف کی بات ہوتی ہے، عالی جی نے مجھ سے کہا تھا ''اسلام آبادیے شاعر میری اس نظم سے خوش نہیں ہوئے اور اظہار ناراضگی کیا، یہ نظم عالی جی کے مجموعے ''اے مرے دشتِ سخن'' میں شامل ہے، اس نظم سے بھی اقتباس پیش خدمت ہے۔ جی تو چاہتاہے پوری نظم نقل کردوں مگر نہیں، جسے پوری نظم پڑھنی ہو کتاب سے پڑھ لے۔

ہم ایک ساتھ چلے
اور اسی آغوش فن پہ ساتھ پلے


جو ہم کو شعر و ادب کے رموز ودرد بتائے
جو ہم کو شہرت و توقیر کے طریق دکھائے

ہم ایک ساتھ چلے
اور ایک ساتھ پلے

اگرچہ اس کے بھی کچھ سیال حسن و عشق ومئے وانگبیں میں خوب گئے
مگر ہم ان کی ہی اُتھلی تہوں میں ڈوب گئے

جب آئے وقت پردگیٔ بے ظہور ہی میں رہے
نگار خانہ بین السطور میں ہی رہے

جب آئے وقت تو وہ شیر کی طرح گرجا
کہاکہ راجہ! تجھے مانتی نہیں پرجا

نہ تھا مسیح، مگر وہ عظیم بے چارہ
ہے اور صدیوں رہے گا، ہماری بے سخنی اور سخن کا کفارہ

جمیل الدین عالی کی ہمارے گھرانے سے محبت کا سلسلہ مجھ تک بھی پہنچا۔ جب کبھی کسی تقریب میں مجھے بیٹھا دیکھتے تو اسٹیج سے مجھے مخاطب کرکے مشتاق مبارک اور حبیب جالب کا محبت و احترام سے ذکر کرتے۔ دیکھا گیا ہے کہ عموماً لوگ ایسا نہیں کرتے۔ جب کبھی میں انھیں اپنی کتابیں پیش کرنے ان کے گھر جاتا تھا تو وہ دیر تک گفتگو کرتے۔ ''جالب کے بچے کیا کررہے ہیں؟ مشتاق بھائی کے بچے خیریت سے ہیں؟ حمید ریٹائرمنٹ کے بعد کیا کررہا ہے (حمید بھائی مجھ سے بڑے، بینک سے اسسٹنٹ وائس پریذیڈنٹ ریٹائر ہوئے تھے)۔عالی جی نے بہت لکھا، نثر و شاعری ہزاروں صفحات بنتے ہیں۔ ان کے کام کا تعین نقاد حضرات کرینگے مگر دوہے کے میدان میں ان کی منفرد حیثیت ان کی زندگی ہی میں تسلیم کرلی گئی اور بات بھی بڑی بات ہے، جب وہ شاعروں میں دوہے سناتے تھے تو ان کا انگ انگ لحن میں ڈوبا نظر آتا تھا، سننے والوں پر سحر طاری ہوجاتا، دلکش سادہ لحن، کہاں آواز دھیمی کرنی ہے کہاں لمبی تان کھینچنی ہے، کہاں لفظوں کو لہرانا ہے، عالی جی خوب جانتے تھے۔

میں جب ان کے دوہے سنتا تو کچھ ایسا منظر بنتا ایک چوڑے پاٹ کی ندیا کا پرسکون بہتا پانی، ڈھل چکی شام کے سرمئی رنگ میں ایک مانجھی اپنی کشتی میں بیٹھا گارہا ہے۔ عالی جی کے لحن کے سر بھی اسی ''حسیں آنکھوں، مدھر گیتوں کے سندر دیش'' کے سُر ہیں جسے ہم کھوچکے ہیں۔عالی جی نے لمبی عمر پائی اور عزت کے ساتھ وقت گزار کرگئے۔ خوش لباس، خوش گفتار، خوش اخلاق عالی جی کا یہ بھی ایک ریکارڈ ہے کہ اتنی بڑی تعداد میں سپر ڈپر ملی نغمے کسی اور شاعر کے نہیں ہیں۔ اے وطن کے سجیلے جوانو! (نورجہاں) جیوے جیوے جیوے پاکستان (شہناز بیگم)، اتنے بڑے جیون ساگر میں تو نے پاکستان دیا (الن فقیر)، میرا ایمان پاکستان (نصرت فتح علی)

عالی جی کی فکر اور عمل سے زمانے کو اختلاف بھی رہا اور عالی جی نے خندہ پیشانی سے برداشت کیا، آج جب وہ نہیں رہے، ان کی زندگی کے کھاتے کی بیلنس شیٹ میں کلوزنگ بیلنس اچھے اور مثبت کام زیادہ ہیں، حق مغفرت کرے (آمین)
Load Next Story