غلامی کی تین زنجیروں میں قیدی عوام دوسرا حصہ
جولائی 1972 میں ’’مردہ ٹیکس‘‘ کا منفی اثر ملکی تمام اشیا پر پڑا تھا۔
لاہور:
جولائی 1972 میں ''مردہ ٹیکس'' کا منفی اثر ملکی تمام اشیا پر پڑا تھا۔ کتاب Ten Years of Pakistan Statistics 1972-82 کے صفحے 472 پر اشیا کی قیمتوں کو دکھایا گیا ہے۔ کراچی میں Cotton AC-134-RC کی 40 کلو گرام کی قیمت 1970-71 میں 118.95 روپے تھی۔ 1971-72 میں اس کی قیمت 133.84 روپے ہوگئی اور پھر مزید بڑھ کر 1974-75 میں 263.48 روپے ہوگئی۔ سرمایہ دارانہ سسٹم میں اگر ایک شے مہنگی ہوتی ہے تو اس کے ساتھ جوں جوں معاشی پہیہ گھومتا ہے توں توں ایک دوسرے کے بعد اشیا مہنگی ہوتی چلی جاتی ہیں۔ اس Chain Reaction Prices سے تمام اشیا جو عوام کی ضرورتوں سے جڑی ہوتی ہیں بتدریج مہنگی ہوتی جاتی ہیں۔ اگر عالمی مارکیٹ میں تیل مہنگا ہوتا ہے تو اس کی مہنگائی کا اثر مہنگائی کی شکل میں بتدریج تمام اشیا پر ظاہر ہوتا ہے۔
یاد رہے کہ امریکا اور اس کے اتحادیوں نے دسمبر 1945 کو آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کی بنیاد رکھی اور ستمبر 1949 کو امریکا نے آئی ایم ایف کے پلیٹ فارم سے تمام دنیا کے ملکوں کی کرنسیوں کی قیمتوں کو ڈالر کے مقابلے میں کم کردیا تھا۔ اس کے پیچھے یہ جواز بنایا گیا کہ ان ملکوں کی ایکسپورٹ کو بڑھانا ہے اور ساتھ ہی یہ کہا گیا آئی ایم ایف جن ملکوں کی تجارت خسارے میں جائے گی آئی ایم ایف ان ملکوں کو ڈالر قرضوں کی شکل میں دیے جائیں گے۔ اگر آپ عالمی منظرنامے میں ہر ملک کے بجٹوں کے اعداد و شمار کو دیکھیں گے تو جس سال ان ملکوں کی کرنسیوں کی قیمتوں کو سڈمڈ CDMED لگا کر کم کیا تو اس دوران ان ملکوں کے ایکسپورٹرز نے بیرونی منڈی مقابلے میں سستے ڈالروں پر اشیا کو فروخت کرکے ان ڈالروں پر اپنے اپنے ملکوں میں ڈالر ٹریڈنگ پر مقامی کرنسی کی قیمت ڈالر کے مقابلے میں کمی کی نسبت سے مقامی کرنسی زیادہ حاصل کرکے زیادہ نفع اپنے ملک سے حاصل کرلیا لیکن دوسرے سال سڈمڈ کا منفی اثر ملکی تمام معیشت پر نمایاں ہوا تھا۔
جیسے International Financial Statistics IMF کی شایع کردہ کتابوں اور ان ملکوں کی حکومتی شایع کردہ کتابوں کے مطابق انڈیا کی کرنسی 3.308 روپے کا فی ڈالر تھا، ستمبر 1949 کو 4.762 روپے ڈالر کردیا گیا۔ 1949 میں انڈیا کی تجارت 1378.00 ملین روپے سے خسارے میں تھی۔ سڈمڈ لگنے کے بعد 1950 میں انڈین ایکسپورٹرز نے بیرونی منڈی مقابلے میں کم ڈالر ریٹ پر اشیا فروخت کرکے ان ڈالروں پر اپنے ملک میں ڈالر کا نفع انڈین روپے کی شکل لیا تھا۔ اور تجارت 6.0 ملین (60 ملین) روپے سے سرپلس کرلی تھی اور 1951منفی اثر نمایاں ہونے پر تجارت کا خسارہ پچھلے تمام سال سے بڑھ کر سامنے آیا جو 2127.00 ملین روپے تھا۔ اسی طرح ارجنٹینا کا خسارہ 1951 میں 3779.00 ملین Pesas ہوگیا۔ فرانس کا خسارہ 1951 میں130646.00 ملین Franc ہوگیا۔ میکسیکو کا 1951 میں خسارہ 1369.00 ملین Pesas ہوگیا۔ دیگر تمام ملکوں کا یہی حشر ہوا تھا۔
جب امریکا 15 اگست 1971 کو ڈیفالٹر ہوگیا تو جی سیون گروپ نے ''مردہ ڈالر'' کو کندھا دے کر اٹھالیا اور پھر 1999 میں تمام یورپی ملکوں نے ڈالر کے مقابلے میں اپنی کرنسی یورو بنالی تھی۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ امریکا اور یورپی ملکوں نے اندرون خانہ گٹھ جوڑ کرکے 1971 کے بعد ''مردہ ڈالر'' کے ذریعے معاشی غلام ملکوں میں سرمایہ کاری ملٹی نیشنل کمپنیوں کی شکل میں شروع کردی تھی۔ تیسری دنیا کے ممالک جو براہ راست دونوں عالمی جنگوں میں شریک نہیں تھے بلکہ آقاؤں، برطانیہ، فرانس، جرمنی، جاپان ودیگر کی کمان میں لڑے تھے۔ دونوں جنگوں کے بعد تمام معاشی غلام ملکوں کو سامراجی ملکوں نے توڑ پھوڑ کر امریکی سامراج کو عالمی مالیاتی ہتھیار مردہ ڈالر کو استعمال کرنے میں تعاون کیا۔ سامراجی امریکا نے آج کرہ ارض پر پاکستان سمیت 115 ممالک کی کرنسیوں کو ڈالر کے مقابلے میں کم کیا ہوا ہے۔
کتاب International Debt Statistics by World Bank 2015 کے صفحے 15 پر دیے گئے اعداد و شمار کے مطابق جی سیون ممالک کی ''قرض سرمایہ کاری'' ، ''مردہ ڈالر'' کی شکل میں 128 ملکوں کو آئی ایم ایف، ورلڈ بینک ودیگر سامراجی مالیاتی اداروں کے ذریعے امریکا نے 2013 میں 16 کھرب 48 ارب 80 کروڑ ڈالر، برطانیہ نے 9 کھرب 36 ارب50 کروڑ ڈالر، جاپان نے 2 کھرب 80 ارب 30 کروڑ ڈالر، اٹلی نے 2 کھرب 62 ارب 90 کروڑ ڈالر، جرمنی نے 5 کھرب 50 ارب 30 کروڑ ڈالر، فرانس نے 5 کھرب 54 ارب 90 کروڑ ڈالر، کینیڈا نے ایک کھرب 39 ارب ڈالر کا قرض دیا جس کا ٹوٹل 43 کھرب 72 ارب 70 کروڑ ڈالر بنتا ہے۔ اسی کتاب کے صفحے 21 پر سال 2013 میں جی سیون گروپ سمیت دیگر سامراجی اداروں کا مجموعی قرض 55 کھرب6 ارب 40 کروڑ (5506400.0 ملین ڈالر) ڈالر بنتا ہے۔
پاکستانی معیشت کی تباہی و سامراجی ملکوں کی طرف سرمائے کی منتقلی ملک اور عوام کی غدار اشرافیہ سامراجیوں کو کس طرح معاونت کر رہی ہے۔ اسے دیکھ کر 128 ملکوں کی منفی معیشت کے اسباب سامنے آجاتے ہیں۔ سڈمڈ Currencyy Devaluation Minus Economic Development" کا مالیاتی ہتھکنڈا امریکی سامراجی ادارے نے پاکستانی معیشت پر جولائی 1955 استعمال کرکے روپے کی قیمت ڈالر کے مقابلے میں 43 فیصد کمی سے صنعتی کلچر اسی نسبت سے پیچھے دھکیل دیا گیا، حکومتی ٹیکس مہنگائی پیدا کردہ کے بوجھ اور مردہ ''ڈالر ٹیکس'' 43 فیصد عوام کی قوت خرید پر ڈال گیا، پھر مئی 1972میں مردہ ڈالر ٹیکس لگایا گیا جو 132 فیصد تھا۔ یاد رہے کہ 1971.72 سے مالی سال 2013-14 تک تمام بجٹ خسارے میں جارہے ہیں۔ صرف 1988-98 کا بجٹ سرپلس ہوا تھا۔ تجارت سڈمڈ لگنے کے بعد 1956-57 سے خسارے میں گئی۔ مئی 1972 میں 132 فیصد مردہ ڈالر ٹیکس لگنے کا فائدہ ایکسپورٹرز نے 1972-73 پاکستان میں ڈالر ٹریڈنگ کا نفع روپے کی شکل میں لیا اور 1956-57 سے 2013-14 تک تجارت مسلسل خسارے میں جارہی ہے۔
جنرل ایوب خان امریکا پرست تھا، اس کے دور میں سڈمڈ نہیں لگا، بڈابیر کا ہوائی اڈا 1959 میں امریکا کو دے چکا تھا۔ اس کے دور میں سامراجی قرضوں میں اضافہ ہوا۔ اس کے بعد بننے والی ہر حکومت نے مردہ ڈالر ٹیکس یعنی سڈمڈ لگایا۔ 10 دسمبر 2013 کو 108.22 روپے کا ڈالر کردیا گیا۔ راقم کا آرٹیکل ایکسپریس میں عنوان ''معاشی آزادی مگر کیسے؟'' سے 11 اور12 مارچ 2014 کو شایع ہوا۔ حکومت 12 مارچ 2014 کو ڈالر 98.00 تک لے آئی، روپے کی قیمت میں 10 فیصد اضافہ ہونے سے ملکی معیشت نے تھوڑی سی آزادی کا سانس لیا۔ لیکن اس کے بعد ڈالر بتدریج مہنگا کردیا گیا۔ اس کا منفی Impact اثر 6 نومبر 2015 کو چیئرمین اپٹما کا بیان میڈیا میں آیا کہ ساڑھے تین ماہ میں 10 لاکھ اسپنڈلز ہوگئی ہیں۔ کیونکہ سڈمڈ لگنے سے روپے کی قیمت میں کمی سے صنعتی لاگتیں بڑھتی ہیں۔
یاد رہے کہ سیکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان کے پاس رجسٹرڈ منی ایکسچینج کمپنیوں کی تعداد مئی 2015 تک 3588 تک تھی۔ اس میں غیر ملکی کمپنیاں بھی شامل ہیں۔ فاریکس ایسوسی ایشن آف پاکستان کی طرف سے 13 مئی 2015 کو میڈیا میں بیان آیا۔ پاکستان بھر میں ایکسچینج کمپنیوں میں 30 ہزار سے زائد افراد کام کرتے ہیں۔ یاد رہے کہ جب سے امریکی ڈالر نے جنس اور عالمی کرنسی کا درجہ اختیار کیا تب سے ہی اس کی ''ذخیرہ اندوزی'' کا کاروبار عروج پر ہے ایک طرف امریکی ادارہ آئی ایم ایف معاشی غلام ملکوں کی کرنسیوں کی قیمتوں میں کمی کرتا ہے۔ دوسری طرف ''مردہ ڈالر ٹریڈنگ'' کرنے والی کمپنیاں ڈالر کی قیمت بڑھا کر روپے میں نفع لے کر ملکی معیشت تباہ کر رہی ہیں۔ (جاری ہے)