لاہور میں مزدور مرگئے
جی ہاں! مزدور ڈھاکا میں عمارت کے انہدام سے مریں یا کراچی میں جلائے جائیں
ISLAMABAD:
حبیب جالب نے درست کہا تھا کہ 'اوجھڑی میں لوگ مرے تو مرگئے، جتنے ہلاکو مرے، چنگیز مرے، ڈاکو مرے شہید ہوئے'۔
جی ہاں! مزدور ڈھاکا میں عمارت کے انہدام سے مریں یا کراچی میں جلائے جائیں یا لاہور میں ناقص عمارت کے انہدام سے مریں، وہ مرگئے۔ شہید تو وہ ہوتے ہیں جو اعلیٰ طبقات اور نامور لوگ ہوتے ہیں۔ اس قسم کی عمارتوں کے انہدام کی کئی وجوہات ہوتی ہیں۔ مالکان کی غفلت، مزدوروں کی بے روزگاری یا پھر ذمے داروں کی نااہلیت اور مالی مفادات۔ مالکان کی غفلت یوں ہوتی ہے کہ انھیں پتہ تھا کہ عمارت میں دراڑیں پڑی ہوئی ہیں اور یہ کسی بھی وقت گر سکتی ہے، مگر دوسری عمارت میں اپنا کاروبار اس لیے نہیں منتقل کرتے کہ خریدنے میں یا کرایے پر لینے میں پیسے خرچ ہوں گے، جس کے نتیجے میں ان کے منافعے میں کمی ہوجائے گی۔ مزدور اگر اس خوف سے کام کرنا چھوڑدیں کہ کسی بھی وقت وہ عمارت کے انہدام سے مرسکتے ہیں تو پھر بے روزگاری کے شکار ہو کر بھوک سے مرجائیں گے، اس سے بہتر ہے کہ روٹی تو ملتی رہے گی، مرنا تو ہر صورت میں ہے۔ اب رہا ذمے داروں کی ذمے داری۔ وہ کون ہے؟
عمارتوں کی تعمیرات اور خطرات کی ذمے دار پاکستان انجینئرنگ کونسل ہے۔ جائز ناجائز طریقوں سے کمپنیوں کو تعمیرات کی اجازت دینے کی وجہ سے آج عمارتوں، روڈوں اور گٹروں کی خستہ حالی ہے۔ جس کی وجہ سے عمارتوں کا انہدام، گٹروں سے سیوریج کے پانی کا ابلنا، روڈوں کی آئے روز ٹوٹ پھوٹ وغیرہ معمول کے واقعات بن چکے ہیں۔ باقی کمپنیوں کو چھوڑ دیں، صرف دو کمپنیوں کی مثال دینا کافی ہے۔ ان دو کمپنیوں نے پاکستان انجینئرنگ کونسل میں رجسٹر یشن کے لیے درخواست دی۔ ان میں ایک کمپنی کئی محکموں میں لامحدود ٹھیکہ لینے کی مجاز رکھتی ہے اور اسے انجینئرنگ کونسل نے پچاس لاکھ روپے میں رجسٹرڈ کیا اور دوسری کمپنی جس نے رجسٹریشن کے لیے درخواست دی تھی وہ انجینئرنگ کونسل میں کسی محکمے میں رجسٹرڈ کمپنی نہیں تھی، جسے پانچ کروڑ کی لمٹ میں انجینئرنگ کونسل میں رجسٹرڈ کیا گیا۔ ان دو کمپنیوں سے ہر کوئی اندازہ لگا سکتا ہے کہ پاکستان انجینئرنگ کونسل کا کیا حال ہے، یعنی کہ یہ کرپشن میں ڈوبا ہوا محکمہ ہے اور آج سی ڈی اے تباہ و برباد ہے، اس کے ہاتھوں آج نیشنل ہائی وے اتھارٹی برباد ہے۔ پورٹ قاسم، سول ایوی ایشن اتھارٹی، بلڈنگ ڈپارٹمنٹ، روڈ ڈپارٹمنٹ، واپڈا، کراچی پورٹ ٹرسٹ اور ملک کے دیگر انجینئرنگ ڈپارٹمنٹس اور پورے ملک کے بلدیات کے محکموں میں راشی افسروں کی وجہ سے ملک کو تباہ و برباد کر رکھا ہے۔
پاکستان سمیت دنیا بھر میں اس قسم کی بدعنوانی کی پکڑ کے لیے کوئی تحقیق کی ضرورت نہیں۔ معظم خان کی 'ازخود نوٹس نمبر تین' نامی کتاب میں ان حقائق پر تفصیلی روشنی ڈالی ہے۔ انھوں نے ایک جگہ بڑا خوبصورت جملہ لکھا ہے، جس میں وہ کہتے ہیں کہ 'کرپٹ آدمی کو پہچاننے کے لیے الہ دین کے چراغ کی ضرورت نہیں، اس کا بڑا آسان سا طریقہ ہے کہ یہ شخص پہلے کہاں رہتا تھا، اس کے بچے پہلے کہاں پڑھتے تھے اور اب کہاں پڑھتے ہیں، یہ کل بسوں میں سفر کرتا تھا اور اب لینڈ کروزر کہاں سے آگئی، اس کے کچن کے اخراجات پہلے کیا تھے اور اب کیا ہیں؟ پہلے سوات کا چکر نہیں لگا پاتا تھا، اب دبئی اور لندن کا چکر کیسے لگاتا ہے؟ جواب سامنے آجائے گا۔ اس لیے کہ بدعنوانی سرمایہ دارانہ نظام کی برائی نہیں بلکہ اس نظام کا ناگزیر نتیجہ ہے۔ اسی کو کارل مارکس نے قدر زائد کہا تھا۔
مزدوروں کے خون پسینے کی محنت کو لوٹ کر ہی ایک لکھ پتی کروڑ پتی اور ارب پتی بن جاتا ہے اور دوسری جانب نیم فاقہ کش، بے روزگار اور گداگر بن جاتا ہے۔ ہاں مگر ترقی یافتہ ممالک کے مقابلے میں ہمیں پسماندہ ملکوں میں کرپشن زیادہ نظر آتی ہے، اس لیے کہ سامراجی ممالک پسماندہ ملکوں کے معدنی، زرعی اور آبی وسائل کو لوٹ کر ہی ترقی یافتہ بنے ہیں۔ اب ہمیں وہ مہذب، تعلیم یافتہ اور ایماندار نظر آنے لگے ہیں، جب کہ انھوں نے ہی افریقہ، ایشیا اور لاطینی امریکا کے بے بہا وسائل کو لوٹا۔ پہلے لوٹ کے مال میں سے مزدوروں کو کچھ دے دیا کرتے تھے، اب تو اس کے بھی قابل نہ رہے۔ اس وقت امریکا میں تین کروڑ، جاپان میں پینسٹھ لاکھ، جرمنی میں ساٹھ لاکھ، برطانیہ میں تیس لاکھ، فرانس میں پچیس لاکھ اور چین میں ستائیس کروڑ لوگ بے روزگار ہیں۔ چین کی پیپلز کانگریس میں تراسی ارب پتی (ڈا لروں میں) ہیں۔ ہاں آپ سوچتے ہوں گے کہ وہاں کچھ تو عوام کے لیے کرتے ہیں، یہاں سب ہی ہڑپ کرجاتے ہیں۔ جی ہاں زیادہ عرصے کی بات نہیں، سولہویں صدی کی بات ہے کہ آئرلینڈ میں جب بھکاریوں کی تعداد بہت بڑھ گئی تو ان پر شہر میں آنے سے روکنے کے لیے گولیاں برسائی جاتی تھیں، نتیجتاً ہزاروں فقرا جان سے جاتے رہے۔
اس کرہ ارض پر یو این او کی رپورٹ کے مطابق روزانہ پچھتر ہزار انسان بھوک سے مر رہے ہیں۔ سات ارب کی آبادی میں ساڑھے پانچ ارب کی آبادی غربت کی لکیر کے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔ 1886 میں امریکا کے صنعتی شہر شکاگو میں انارکسسٹوں اور مزدوروں نے عظیم قربانیاں دے کر آٹھ گھنٹے کی ڈیوٹی کروائی تھی لیکن آج تک جاپان میں نو گھنٹے کی ڈیوٹی کرنی پڑتی ہے۔ سوئٹزرلینڈ جیسے ترقی یافتہ ملک میں 1971 میں خواتین کو ووٹ ڈالنے کا حق ملا۔ د بئی میں مزدوروں کو آج بھی بارہ اور چودہ گھنٹے کام کرنا پڑتا ہے۔ جاپان اور دبئی میں مزدوروں کو یکم مئی کی چھٹی بھی نہیں ملتی ہے۔ پاکستان میں اگر گوشت چار سو روپے ہے تو امریکا میں چار سو ڈا لر کا ہے، یہاں اگر دل کے آپریشن میں ایک لاکھ روپے خرچ ہوتے ہیں تو امریکا میں چار لاکھ ڈالر خرچ ہوتے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ ان استحصال کے خلاف برطانیہ کی حزب اختلاف لیبر پارٹی کے سوشلسٹ لیڈر جیمری کاربن منتخب ہوتے ہیں اور امریکا میں سوشلسٹ لیڈر برنی سینڈرز دوسرے نمبر کے صدارتی امیدوار ہیں۔ جب ہمارے حکمران خود کرپٹ ہوں گے تو نیچے والوں کو کیونکر سدھار سکتے ہیں۔ اب یہ عالمی سرمایہ داری اس نہچ پر پہنچ چکی ہے کہ اس میں پیوندکاری کی کوئی گنجائش نہیں۔ صرف انقلابی تبدیلی کے ذریعے ہی ملکیت، جائیداد، سرحدیں، اسلحے، جنگ اور سرمایہ داری کے خاتمے سے ہی عوام کے مسائل حل ہوسکتے ہیں۔ وہ دن جلد آنے والا ہے جب ایک آسمان تلے ایک خاندان ہوگا، کوئی طبقہ ہوگا اور نہ کوئی ریاست۔ بقول فیض 'جب تخت گرائے جائیں گے، جب تاج اچھالے جائیں گے'۔
حبیب جالب نے درست کہا تھا کہ 'اوجھڑی میں لوگ مرے تو مرگئے، جتنے ہلاکو مرے، چنگیز مرے، ڈاکو مرے شہید ہوئے'۔
جی ہاں! مزدور ڈھاکا میں عمارت کے انہدام سے مریں یا کراچی میں جلائے جائیں یا لاہور میں ناقص عمارت کے انہدام سے مریں، وہ مرگئے۔ شہید تو وہ ہوتے ہیں جو اعلیٰ طبقات اور نامور لوگ ہوتے ہیں۔ اس قسم کی عمارتوں کے انہدام کی کئی وجوہات ہوتی ہیں۔ مالکان کی غفلت، مزدوروں کی بے روزگاری یا پھر ذمے داروں کی نااہلیت اور مالی مفادات۔ مالکان کی غفلت یوں ہوتی ہے کہ انھیں پتہ تھا کہ عمارت میں دراڑیں پڑی ہوئی ہیں اور یہ کسی بھی وقت گر سکتی ہے، مگر دوسری عمارت میں اپنا کاروبار اس لیے نہیں منتقل کرتے کہ خریدنے میں یا کرایے پر لینے میں پیسے خرچ ہوں گے، جس کے نتیجے میں ان کے منافعے میں کمی ہوجائے گی۔ مزدور اگر اس خوف سے کام کرنا چھوڑدیں کہ کسی بھی وقت وہ عمارت کے انہدام سے مرسکتے ہیں تو پھر بے روزگاری کے شکار ہو کر بھوک سے مرجائیں گے، اس سے بہتر ہے کہ روٹی تو ملتی رہے گی، مرنا تو ہر صورت میں ہے۔ اب رہا ذمے داروں کی ذمے داری۔ وہ کون ہے؟
عمارتوں کی تعمیرات اور خطرات کی ذمے دار پاکستان انجینئرنگ کونسل ہے۔ جائز ناجائز طریقوں سے کمپنیوں کو تعمیرات کی اجازت دینے کی وجہ سے آج عمارتوں، روڈوں اور گٹروں کی خستہ حالی ہے۔ جس کی وجہ سے عمارتوں کا انہدام، گٹروں سے سیوریج کے پانی کا ابلنا، روڈوں کی آئے روز ٹوٹ پھوٹ وغیرہ معمول کے واقعات بن چکے ہیں۔ باقی کمپنیوں کو چھوڑ دیں، صرف دو کمپنیوں کی مثال دینا کافی ہے۔ ان دو کمپنیوں نے پاکستان انجینئرنگ کونسل میں رجسٹر یشن کے لیے درخواست دی۔ ان میں ایک کمپنی کئی محکموں میں لامحدود ٹھیکہ لینے کی مجاز رکھتی ہے اور اسے انجینئرنگ کونسل نے پچاس لاکھ روپے میں رجسٹرڈ کیا اور دوسری کمپنی جس نے رجسٹریشن کے لیے درخواست دی تھی وہ انجینئرنگ کونسل میں کسی محکمے میں رجسٹرڈ کمپنی نہیں تھی، جسے پانچ کروڑ کی لمٹ میں انجینئرنگ کونسل میں رجسٹرڈ کیا گیا۔ ان دو کمپنیوں سے ہر کوئی اندازہ لگا سکتا ہے کہ پاکستان انجینئرنگ کونسل کا کیا حال ہے، یعنی کہ یہ کرپشن میں ڈوبا ہوا محکمہ ہے اور آج سی ڈی اے تباہ و برباد ہے، اس کے ہاتھوں آج نیشنل ہائی وے اتھارٹی برباد ہے۔ پورٹ قاسم، سول ایوی ایشن اتھارٹی، بلڈنگ ڈپارٹمنٹ، روڈ ڈپارٹمنٹ، واپڈا، کراچی پورٹ ٹرسٹ اور ملک کے دیگر انجینئرنگ ڈپارٹمنٹس اور پورے ملک کے بلدیات کے محکموں میں راشی افسروں کی وجہ سے ملک کو تباہ و برباد کر رکھا ہے۔
پاکستان سمیت دنیا بھر میں اس قسم کی بدعنوانی کی پکڑ کے لیے کوئی تحقیق کی ضرورت نہیں۔ معظم خان کی 'ازخود نوٹس نمبر تین' نامی کتاب میں ان حقائق پر تفصیلی روشنی ڈالی ہے۔ انھوں نے ایک جگہ بڑا خوبصورت جملہ لکھا ہے، جس میں وہ کہتے ہیں کہ 'کرپٹ آدمی کو پہچاننے کے لیے الہ دین کے چراغ کی ضرورت نہیں، اس کا بڑا آسان سا طریقہ ہے کہ یہ شخص پہلے کہاں رہتا تھا، اس کے بچے پہلے کہاں پڑھتے تھے اور اب کہاں پڑھتے ہیں، یہ کل بسوں میں سفر کرتا تھا اور اب لینڈ کروزر کہاں سے آگئی، اس کے کچن کے اخراجات پہلے کیا تھے اور اب کیا ہیں؟ پہلے سوات کا چکر نہیں لگا پاتا تھا، اب دبئی اور لندن کا چکر کیسے لگاتا ہے؟ جواب سامنے آجائے گا۔ اس لیے کہ بدعنوانی سرمایہ دارانہ نظام کی برائی نہیں بلکہ اس نظام کا ناگزیر نتیجہ ہے۔ اسی کو کارل مارکس نے قدر زائد کہا تھا۔
مزدوروں کے خون پسینے کی محنت کو لوٹ کر ہی ایک لکھ پتی کروڑ پتی اور ارب پتی بن جاتا ہے اور دوسری جانب نیم فاقہ کش، بے روزگار اور گداگر بن جاتا ہے۔ ہاں مگر ترقی یافتہ ممالک کے مقابلے میں ہمیں پسماندہ ملکوں میں کرپشن زیادہ نظر آتی ہے، اس لیے کہ سامراجی ممالک پسماندہ ملکوں کے معدنی، زرعی اور آبی وسائل کو لوٹ کر ہی ترقی یافتہ بنے ہیں۔ اب ہمیں وہ مہذب، تعلیم یافتہ اور ایماندار نظر آنے لگے ہیں، جب کہ انھوں نے ہی افریقہ، ایشیا اور لاطینی امریکا کے بے بہا وسائل کو لوٹا۔ پہلے لوٹ کے مال میں سے مزدوروں کو کچھ دے دیا کرتے تھے، اب تو اس کے بھی قابل نہ رہے۔ اس وقت امریکا میں تین کروڑ، جاپان میں پینسٹھ لاکھ، جرمنی میں ساٹھ لاکھ، برطانیہ میں تیس لاکھ، فرانس میں پچیس لاکھ اور چین میں ستائیس کروڑ لوگ بے روزگار ہیں۔ چین کی پیپلز کانگریس میں تراسی ارب پتی (ڈا لروں میں) ہیں۔ ہاں آپ سوچتے ہوں گے کہ وہاں کچھ تو عوام کے لیے کرتے ہیں، یہاں سب ہی ہڑپ کرجاتے ہیں۔ جی ہاں زیادہ عرصے کی بات نہیں، سولہویں صدی کی بات ہے کہ آئرلینڈ میں جب بھکاریوں کی تعداد بہت بڑھ گئی تو ان پر شہر میں آنے سے روکنے کے لیے گولیاں برسائی جاتی تھیں، نتیجتاً ہزاروں فقرا جان سے جاتے رہے۔
اس کرہ ارض پر یو این او کی رپورٹ کے مطابق روزانہ پچھتر ہزار انسان بھوک سے مر رہے ہیں۔ سات ارب کی آبادی میں ساڑھے پانچ ارب کی آبادی غربت کی لکیر کے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔ 1886 میں امریکا کے صنعتی شہر شکاگو میں انارکسسٹوں اور مزدوروں نے عظیم قربانیاں دے کر آٹھ گھنٹے کی ڈیوٹی کروائی تھی لیکن آج تک جاپان میں نو گھنٹے کی ڈیوٹی کرنی پڑتی ہے۔ سوئٹزرلینڈ جیسے ترقی یافتہ ملک میں 1971 میں خواتین کو ووٹ ڈالنے کا حق ملا۔ د بئی میں مزدوروں کو آج بھی بارہ اور چودہ گھنٹے کام کرنا پڑتا ہے۔ جاپان اور دبئی میں مزدوروں کو یکم مئی کی چھٹی بھی نہیں ملتی ہے۔ پاکستان میں اگر گوشت چار سو روپے ہے تو امریکا میں چار سو ڈا لر کا ہے، یہاں اگر دل کے آپریشن میں ایک لاکھ روپے خرچ ہوتے ہیں تو امریکا میں چار لاکھ ڈالر خرچ ہوتے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ ان استحصال کے خلاف برطانیہ کی حزب اختلاف لیبر پارٹی کے سوشلسٹ لیڈر جیمری کاربن منتخب ہوتے ہیں اور امریکا میں سوشلسٹ لیڈر برنی سینڈرز دوسرے نمبر کے صدارتی امیدوار ہیں۔ جب ہمارے حکمران خود کرپٹ ہوں گے تو نیچے والوں کو کیونکر سدھار سکتے ہیں۔ اب یہ عالمی سرمایہ داری اس نہچ پر پہنچ چکی ہے کہ اس میں پیوندکاری کی کوئی گنجائش نہیں۔ صرف انقلابی تبدیلی کے ذریعے ہی ملکیت، جائیداد، سرحدیں، اسلحے، جنگ اور سرمایہ داری کے خاتمے سے ہی عوام کے مسائل حل ہوسکتے ہیں۔ وہ دن جلد آنے والا ہے جب ایک آسمان تلے ایک خاندان ہوگا، کوئی طبقہ ہوگا اور نہ کوئی ریاست۔ بقول فیض 'جب تخت گرائے جائیں گے، جب تاج اچھالے جائیں گے'۔