اس نظامِ زر کو اب برباد ہونا چاہیئے

سرکاری خزانے کا پیسہ اڑاتے وقت ضرور یاد رکھا کیجئے کہ آپ کے ملک کا ہر بچہ ایک لاکھ روپے سے زائد کا مقروض ہے۔


اویس حفیظ November 30, 2015
یہ 37 روپے سے 37 کروڑ کا سفر محض ایک دن میں طے نہیں ہوا۔ اس میں ہماری غفلت کی دہائیاں شامل ہیں۔ فوٹو :فائل

KARACHI: تاریخ بھی بہت جابر ہوتی ہے اور اس کا یہ ستم کیا کم ہے کہ یہ ماضی کے ایسے ایسے واقعات اچانک سامنے لا کھڑے کرتی ہے جو حال کے کسی واقعے کی طرف اشارہ کرتے ہیں اور یہ پاس کھڑے ہوکر انسان کی بے بسی کا تماشا اڑاتی ہے۔ کبھی کبھی خیال آتا ہے کہ تاریخ کے اوراق کو ماضی کے ساتھ ہی کہیں پر دفن کردیا جائے تاکہ کل کلاں کو کوئی حال کو ماضی سے جوڑ کر سہانے مستقبل کے خواب دکھا کر گمراہ نہ کرسکے مگر ماضی تو سیکھنے کیلئے ہوتا ہے اور ہم نے ہمیشہ اس سے منفی چیزیں ہی سیکھی ہیں۔

ماضی کے دریچوں سے روشنی کی طرح چھن چھن کر آتا اور ہمارا تمسخر اڑاتا ایک واقعہ ملاحظہ کیجئے۔ اس واقعے کے راوی جنرل گل حسن ہیں جنہوں نے بطوراے ڈی سی قائد اعظم کی خدمت کی ہے۔ جنرل صاحب لکھتے ہیں کہ ایک دن کابینہ کی میٹنگ قائد اعظم کی زیر صدارت منعقد ہونا تھی، ہم نے ان سے پوچھ لیا کہ شرکاء کے لئے چائے یا کافی کا کیا اہتمام کیا جائے؟ کچھ دیر آپ خاموش رہے، پھر فرمایا! کچھ بھی نہیں، جس نے چائے یا کافی پینی ہو وہ گھر سے پی کر آئے۔ اب ذرا ماضی کے خمار سے باہر نکلیں اور چند ہفتے قبل شائع ہونے والی یہ خبر دیکھیں کہ ملک کے سب سے آئینی عہدیدار یعنی عزت مآب صدرِ مملکت نے اپنے بیرون ممالک دوروں کے موقع پر 61 لاکھ روپے محض ''ٹپ'' کی مد میں اڑا دئیے اور اس کے لئے وزارت خزانہ سے منظوری لینا بھی ضروری نہیں سمجھا گیا۔

یہ خبر بھی میڈیا کے ذریعے عوام تک پہنچ گئی وگرنہ جہاں اور اتنے کیس دفن ہیں، یہ مونگ پھلی کے برابر 61 لاکھ روپے کی کیا اہمیت تھی۔ خیر وزارت خزانہ کی مستعدی دیکھئے کہ اس نے اس واقعے کی تصدیق تو کردی کہ صدرِ مملکت کے بیرون ملک دوروں پرہونے والے یہ اخراجات وزارت خزانہ کے مروجہ قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے کئے گئے مگر اس سے آگے اس نے کسی قسم کی کوئی تادیبی کارروائی حتیٰ کہ کسی وارننگ کا بھی تذکرہ کرنا صدر کی شانِ منصبی کے خلاف سمجھا۔

خیر آگے بڑھئے! ماضی کے طاقچوں میں گرد آلود ہونے والا ایک اور واقعہ دیکھئے۔ یہ پہلا واقعہ نوزائیدہ اسلامی ریاست پاکستان کے گورنر ہاؤس کا ایک منظر ہے جہاں پر بانی مملکت قائد اعظم محمد علی جناح گورنر ہاؤس کیلئے منگوائے جانے والے ضروری سامان کی فہرست کا جائزہ لے رہے ہیں۔ 37 روپے کے اس سامان میں ایک 7 روپے کی کرسی بھی ہے جس کا مصرف قائد وہاں موجود آفیسر سے پوچھتے ہیں کہ یہ کرسی کس لئے لائی گئی ہے؟ وہ فوری جواب دیتا ہے کہ ''آپ کی بہن محترمہ فاطمہ جناح بھی آپ کے ساتھ رہتی ہیں، یہ کرسی اُن کے بیٹھنے کیلئے آئی ہے''۔ قائد اعظم قدرے ناراضی سے اس کی طرف دیکھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اگر یہ کرسی فاطمہ جناح کیلئے آئی ہے تو اس کے پیسے بھی ان سے لو، سرکاری خزانے کا پیسہ اس طرح خرچ نہیں کیا جاسکتا۔ اِس کے ساتھ ہی آپ لسٹ میں سے کرسی کاٹ دیتے ہیں اور 30 روپے سرکاری خزانے سے ادا کرنے کے احکامات جاری فرما دیتے ہیں۔

اب گذشتہ دنوں کی ایک خبر ملاحظہ کیجئے کہ پنجاب حکومت نے رائے ونڈ، جاتی امراء میں وزیراعظم اور ان کے خاندان کی سیکیورٹی کے لئے 37 کروڑ یعنی 3.64 ملین روپے کی رقم جاری کردی ہے۔ یہاں پر یہ بات واضح رہے کہ یہ رقم اس سیکیورٹی بجٹ کے علاوہ ہے جو ہر سال وزیر اعظم ہاؤس و پرائم منسٹر سیکرٹریٹ کے لئے مختص کیا جاتا ہے۔ بتایا گیا ہے کہ اس رقم سے مزید سیکیورٹی آلات خریدے جائیں گے۔ چونکہ وزیر اعظم اور ان کے خاندان کو ایک عرصہ سے دہشت گردوں کی جانب سے سنگین دھمکیاں دی جارہی ہیں اس لئے یہ قدم اٹھایا گیا ہے (عوام کو تو شاید ان دہشت گردوں کی جانب سے روز سرخ گلاب بجھوائے جاتے ہیں جو ان کا خیال کرنا مناسب نہیں سمجھا گیا)۔

اب ذرا ان دونوں واقعات پر دوبارہ نظر ڈالیے اور دیکھیں کہ ان کا آپس میں کیا تعلق ہے۔ یہ 37 روپے سے 37 کروڑ کا سفر محض ایک دن میں طے نہیں ہوا۔ اس میں ہماری غفلت کی دہائیاں شامل ہیں۔

ہمیں یاد پڑتا ہے کہ سابق وزیر اعظم مخدوم سید یوسف رضا گیلانی نے بھی اپنی وزارتِ عظمیٰ کے دور میں ملتان میں اپنے گھر کے گرد غالباً 10 کروڑ کی لاگت سے ایک بم پروف سیکورٹی وال تعمیر کروائی تھی کیونکہ انہیں بھی بہت سی دھمکیوں کا سامنا تھا (حیرانی کی بات ہے کہ اب ان کے گرد نہ کمانڈوز کی فوج نظر آتی ہے، نہ آلات جام کرنے والی گاڑیاں اور نہ ہی اب ان کے قافلے میں فائر بریگیڈ یا ریسکیو کی ایمبولینسیں ہوتی ہیں۔ ہوسکتا ہے کہ اب اُن کا نام ''اس سرخ لسٹ'' سے نکال دیا گیا ہو، واللہ اعلم)، یہ خالی انہی دو وزرائے اعظم کا قصہ نہیں ہے ہر حکومتی عہدیدار کو یہی محسوس ہوتا ہے کہ ملک بھر میں سب سے زیادہ خطرہ اسی کو ہے۔ (اگر عوامی فلاح کے کام کیے ہوں تو یہ خطرہ لاحق ہی کیوں ہو، سب کے دلوں میں چور اور داڑھی میں تنکا ہوتا ہے) اور اس خطرہ کا سدباب وہ اپنے گرد مضبوط حصار اور اپنے گھروں کو قلعوں میں تبدیل کرکے کرتے ہیں مگر،
موت سے کسی کو رستگاری ہے
آج وہ، کل ہماری باری ہے

اجل سے کسی کو فرار حاصل نہیں، اس کا سندیس تو ایک آن کی بھی دیری برداشت نہیں کرتا مگر سرکاری خزانے کا پیسہ اڑاتے وقت یہ ضرور دیکھ لیا کریں کہ آپ ایک ایسے ملک سے تعلق رکھتے ہیں کہ جس کا ایک ایک بچہ ایک لاکھ روپے سے زائد کا مقروض ہے۔ جہاں افلاس کا عالم یہ ہے کہ نصف سے زائد آبادی خطِ غربت کے نیچے زندگی گذار رہی ہے۔ جہاں محض 24.6 فیصد لوگوں کی آمدن ہی انہیں غریبوں کی صف میں کھڑے ہونے سے روکتی ہے مگر اس سب کے باوجود آپ سرکاری خزانے کو اپنی وراثت کی طرح اڑا رہے ہیں۔ یہ ماضی کے دو واقعات محض یاد دہانی کیلئے ہیں کہ دیکھئے کہ ایک وہ دور تھا کہ جب صاحبانِ اقتدار قومی خزانے کا ایک پیسہ بھی اپنے ذاتی خرچ کیلئے استعمال کرنے کو حرام سمجھتے تھے اور اپنے تمام تر اخراجات اپنی گرہ سے کرتے تھے اور آج آپ ہیں کہ اپنے اعمال سے خود کو عوام سے ممتاز ثابت کرنا چاہ رہے ہیں اور پھر یہ گلہ کرتے ہیں کہ عوام آپ کو بھی اپنی تقریبات میں بلائیں، آپ پر ''رنگ ڈالیں''۔ وہ سب تو ٹھیک مگر آپ نے یہ جو الگ تھلگ رہنے کا جو رنگ خود پر چڑھا رکھا ہے پہلے اسے تو اتارئیے۔

عطاء الحق قاسمی نے نہ جانے کس ترنگ میں یہ شعر کہہ گئے تھے کہ،
جب بھی یاد آ گئے ،
ان کے لئے دعا ہی نکلی

بہر حال ہمارا تو اب یہی مطالبہ ہے کہ ،
خوشبوؤں کا اک نگر آباد ہونا چاہیئے
اس نظامِ زر کو اب برباد ہونا چاہیئے
ظلم بچے جَن رہا ہے کوچہ و بازار میں
عدل کو بھی صاحب اولاد ہونا چاہیئے

[poll id="799"]

نوٹ: یکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں