عادل فریدی کی قابل ذکر شاعری
سائے کے تعاقب کا مطلب ہے سیدھ میں چلتے جانا جبکہ بگولوں کی رفاقت زندگی کے چکردار سرگرمیوں کی طرف اشارہ ہے۔
یہ تعارف ہے ایک ایسے شعری مجموعے کا جو آج کی تازہ شاعری کے کئی حوالوں میں سے ایک حوالہ بنتا ہے۔ یہ غزل ہے اور اس کی تازگی اس کے مطالعے ہی سے محسوس کی جاسکتی ہے۔ میرا مطمح نظر یہ ہوتا ہے کہ کتابوں کا محض تعارف ہی نہ ہو بلکہ ان پر مختصر سہی تاہم ایک تنقیدی نگاہ ضرور ڈالی جائے۔ عادل فریدی کی ان غزلوں نے مجھے کافی متاثر کیا ہے۔
شعرا کے ہاں ''میں'' کی موجودی بہت اہم سمجھی جاتی ہے۔ یہ ''میں'' شاعر کو اٹھاتی بھی ہے اور گراتی بھی ہے۔ یہ جتنا آسان دکھائی دیتی ہے اتنا ہی مشکل ہوتی ہے۔ عادل فریدی کی غزل کا ''میں'' ہم عصر شعرا سے اتنا مختلف ہے کہ ان کا مجموعہ پڑھتے ہوئے اس ''میں'' کا تذکرہ ضروری معلوم ہونے لگتا ہے۔ یہ نہ تو ہجر و فراق کے بوجھ تلے دبا ہوا، سسکتا ہے، نہ ہی غیر عقلی و غیر عملی سطح پر بلند و بانگ دعوے کرتا ہے۔ اس کا محرک عملی حسیاتی سرگرمی سے عبارت ہے۔ یہ اپنی ذات کے اظہار کے لیے تشبیہہ کا سہارا تو لے لیتا ہے لیکن کسی اعلیٰ و ارفع مقام پر بیٹھ کر خدائی لب و لہجہ اختیار نہیں کرتا۔
دشت، وحشت اور بگولے کا مضمون باندھتے ہوئے ان کے انسانی حسیاتی انسلاک ملاحظہ کیجیئے،
محبوب کی آواز کی شمولیت اور ایک وقت کے تعین نے اس شعر کو اور اس میں موجود ایک واقعے کو ماورائی، نہ ہی تصوراتی سرگرمی بننے دیا ہے۔ دشت یہاں سماجی مشکلات کا ایک قابل فہم استعارہ بنا ہوا ہے۔ یہی وہ ارضی رویہ ہے جس کی میں ان غزلوں میں نشان دہی کرنا چاہتا ہوں۔ عادل فریدی نے اپنی غزل میں یہی ارضی رویہ مخاطب کے ساتھ روا رکھا ہے۔ شاعری کے حوالے سے جس ارضی و انسانی فہم کی بات کی جاتی ہے اس کی حقیقت یہی ہے کہ آپ شعری تلازمے اور شعری مضامین کس حد تک حقیقی حسیاتی شعور کے ساتھ ہم آہنگ کرپاتے ہیں۔ مبالغہ بلاشبہ شعر کو لطیف تر اور اچھا بناتا ہے لیکن یہ تشبیہہ کے سائے میں ہو تو دل و دماغ پر لایعنیت کا بوجھ نہیں پڑتا۔ آج کی تازہ شاعری کے محاسن کے ساتھ ایک عیب یہی ہے کہ مبالغہ تشبیہہ سے اغماض برتتا ہے، اپنے قیام کے لئے کوئی شعری بنیاد وضع نہیں کرتا۔ عادل فریدی کی شاعری کے مطالعے سے جو بات واضح طور پر سامنے آتی ہے، یہ ہے کہ یہ ہجر و وصال کی لایعنیت سے کنارہ کرکے سماجی و معاشی ماحول میں اپنی عسرت اور مفلسی کا اظہار کم و بیش شعریت کے ساتھ کرتی ہے چناںچہ اس میں معاشی نعرہ بازی کا تاثر بھی نہیں ملتا۔ ہجر و وصال کی لایعنیت کا مطلب یہ ہے کہ شاعر اپنے لئے تصوراتی دکھ اور مسرت کے پیکر نہیں تراشتا۔ اس کی نگاہ میں شعرگوئی کا وظیفہ کچھ اور ہے۔
صارفیت نے اچھے اور بُرے قدر کی تفریق جس طرح مٹائی ہے اور جس طرح سرمایہ داریت نے اپنے مفادات کی توسیع کے لئے اسے ثقافتی نظریہ بنایا ہے اس نے تیسری دنیا کی معاشرت کو بھی مکمل لپیٹ میں لیا۔ انسان کی حیثیت صارف تک محدود ہوکر ضرورت کے گرد گھومنے لگی ہے۔ عادل فریدی کو معاشرت کے اس زوال اور بہ ظاہر متوسط طبقے کی نمو کا نہ صرف اندازہ ہے بلکہ وہ ان معاملات کو شعری پیکر میں ڈھالنے کے سلیقے سے بھی متعارف کراتے ہیں۔
عادل فریدی کے شعری مجموعے ''سوچتی رہتی ہے دنیا'' میں ایسی کئی غزلیں نظروں سے گذرتی ہیں جنہیں پڑھ کر معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے شعر گوئی کی مشق کی ہے۔ ان میں قافیہ پیمائی تو ملتی ہے لیکن شعریت اور خیال کی لطافت سے واسطہ نہیں پڑتا۔ یہ کوئی بُری شے نہیں ہے، ویسے بھی یہ ان کا پہلا مجموعہ کلام ہے، شعری مجموعوں میں بھرتی کے بہت سارے اشعار تو ہوتے ہی ہیں، میرا نقطہ نظر یہ ہے کہ قاری کا طریقہ قرأت یہ ہو تو بہتر ہے کہ اچھے اشعار پر نگاہ رکھی جائے یعنی اچھے اشعار ان میں تلاش کرے اور باقی سے درگزر کرتا جائے۔ 2 مزید ایسے اچھے اشعار کی طرف توجہ مبذول کرانا چاہتا ہوں جن میں اشارے کنایے کی دل پذیر صورت ملتی ہے۔
''سائے کا تعاقب'' اور ''بگولے کی رفاقت'' خیال میں ایک نئی معنوی پرت شامل کررہے ہیں۔ سائے کے تعاقب کا مطلب ہے سیدھ میں چلتے جانا جب کہ بگولوں کی رفاقت زندگی کے چکردار سرگرمیوں کی طرف اشارہ ہے۔ زندگی کے سفر کی لاحاصلی کا اظہار یہاں ان نئی پرتوں کے ساتھ ہوا ہے۔ دوسرے شعر میں فطرت کے خلاف آدمی کے آمادہ بہ جنگ ہونے کی طرف اشارہ ہے جس نے زندگی کی لاحاصلی کے احساس کو بڑھاوا دیا ہے۔ اور اس تمام سرگرمی کے بعد جو صورت حال درپیش ہے اسے انہوں نے کچھ یوں پیش کیا ہے،
شعر کی شعریت کو اس کے صوتی و معنوی تاثر سے بھی پہچانا جاتا ہے۔ معنیٰ صرف وحدت خیال ہی سے جنم نہیں لیتا بلکہ متضاد یا مختلف چیزوں میں کسی مشترک قدر کی صورت میں بھی جنم لیتا ہے۔ شعر میں تلازمہ بھی یہ کردار بخوبی ادا کرتا ہے اور معنوی وحدت نہ ہوتے ہوئے بھی ایک ایسا معنوی تاثر پیدا کرتا ہے جو شعر کو کافی حد تک قابل تفہیم اور قابل قبول بنادیتا ہے۔ عادل فریدی کے ہاں کچھ ایسے اشعار بھی دیکھنے کو ملتے ہیں۔
ان میں انسانی مساعی یا حسیاتی سرگرمیوں کے مابین در آنے والے وہ خلا مذکور کئے گئے ہیں جو ہمیں احساس کی سطح پر اس خالی پن کی طرف دھکیلتے ہیں جس سے ہمارے عہد کا انسان الجھ رہا ہے۔ شعریت کو مدنظر رکھا جائے تو ان میں کشش ویسی نہیں ہے جو کسی دل پذیر طرزِ اظہار میں ملتی ہے تاہم یہ آج کے شعری رویوں کے بہت قریب ہے۔ اپنے شعری رویے کی پہچان کے بارے میں ان کا مندرجہ ذیل شعر معاون معلوم ہوتا ہے جو اس عہد کے شعور اور ہر شخص کے انفرادی تجربے کی اہمیت کا بھی حوالہ فراہم کرتا ہے۔
حالات حاضرہ کی نبض کو چھیڑتے ہوئے جب شاعر کا اپنا وجود اس میں گھلتا ملتا ہے تو احساس کو دھڑ کانے والی شعری تجسیم سامنے آتی ہے اور جہاں شاعر خیال کے اندر وارد ہوتا ہے تو کسی نہ کسی سطح پر تعلّی بھی ابھرنے لگتی ہے۔
یہ کتاب ادارہ شبستان سعید نے چھاپی ہے۔ 184 صفحات کی کتاب کی قیمت 3 سو روپے ہے۔ سیل نمبر 03362137489 پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔
نوٹ: یکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس۔
شعرا کے ہاں ''میں'' کی موجودی بہت اہم سمجھی جاتی ہے۔ یہ ''میں'' شاعر کو اٹھاتی بھی ہے اور گراتی بھی ہے۔ یہ جتنا آسان دکھائی دیتی ہے اتنا ہی مشکل ہوتی ہے۔ عادل فریدی کی غزل کا ''میں'' ہم عصر شعرا سے اتنا مختلف ہے کہ ان کا مجموعہ پڑھتے ہوئے اس ''میں'' کا تذکرہ ضروری معلوم ہونے لگتا ہے۔ یہ نہ تو ہجر و فراق کے بوجھ تلے دبا ہوا، سسکتا ہے، نہ ہی غیر عقلی و غیر عملی سطح پر بلند و بانگ دعوے کرتا ہے۔ اس کا محرک عملی حسیاتی سرگرمی سے عبارت ہے۔ یہ اپنی ذات کے اظہار کے لیے تشبیہہ کا سہارا تو لے لیتا ہے لیکن کسی اعلیٰ و ارفع مقام پر بیٹھ کر خدائی لب و لہجہ اختیار نہیں کرتا۔
دشت، وحشت اور بگولے کا مضمون باندھتے ہوئے ان کے انسانی حسیاتی انسلاک ملاحظہ کیجیئے،
اس کی آواز پہ کل ہم نے بگولے کی طرح
دشت کو پار کیا وحشت و سرشاری میں
محبوب کی آواز کی شمولیت اور ایک وقت کے تعین نے اس شعر کو اور اس میں موجود ایک واقعے کو ماورائی، نہ ہی تصوراتی سرگرمی بننے دیا ہے۔ دشت یہاں سماجی مشکلات کا ایک قابل فہم استعارہ بنا ہوا ہے۔ یہی وہ ارضی رویہ ہے جس کی میں ان غزلوں میں نشان دہی کرنا چاہتا ہوں۔ عادل فریدی نے اپنی غزل میں یہی ارضی رویہ مخاطب کے ساتھ روا رکھا ہے۔ شاعری کے حوالے سے جس ارضی و انسانی فہم کی بات کی جاتی ہے اس کی حقیقت یہی ہے کہ آپ شعری تلازمے اور شعری مضامین کس حد تک حقیقی حسیاتی شعور کے ساتھ ہم آہنگ کرپاتے ہیں۔ مبالغہ بلاشبہ شعر کو لطیف تر اور اچھا بناتا ہے لیکن یہ تشبیہہ کے سائے میں ہو تو دل و دماغ پر لایعنیت کا بوجھ نہیں پڑتا۔ آج کی تازہ شاعری کے محاسن کے ساتھ ایک عیب یہی ہے کہ مبالغہ تشبیہہ سے اغماض برتتا ہے، اپنے قیام کے لئے کوئی شعری بنیاد وضع نہیں کرتا۔ عادل فریدی کی شاعری کے مطالعے سے جو بات واضح طور پر سامنے آتی ہے، یہ ہے کہ یہ ہجر و وصال کی لایعنیت سے کنارہ کرکے سماجی و معاشی ماحول میں اپنی عسرت اور مفلسی کا اظہار کم و بیش شعریت کے ساتھ کرتی ہے چناںچہ اس میں معاشی نعرہ بازی کا تاثر بھی نہیں ملتا۔ ہجر و وصال کی لایعنیت کا مطلب یہ ہے کہ شاعر اپنے لئے تصوراتی دکھ اور مسرت کے پیکر نہیں تراشتا۔ اس کی نگاہ میں شعرگوئی کا وظیفہ کچھ اور ہے۔
میں نے اک روز دریچے کو کھلا چھوڑ دیا
دل پرندہ تری جانب مری غفلت سے گیا
اٹھ گئی شہر سے جب عشق و ہوس کی تفریق
اب میں جس در پہ گیا اپنی ضرورت سے گیا
صارفیت نے اچھے اور بُرے قدر کی تفریق جس طرح مٹائی ہے اور جس طرح سرمایہ داریت نے اپنے مفادات کی توسیع کے لئے اسے ثقافتی نظریہ بنایا ہے اس نے تیسری دنیا کی معاشرت کو بھی مکمل لپیٹ میں لیا۔ انسان کی حیثیت صارف تک محدود ہوکر ضرورت کے گرد گھومنے لگی ہے۔ عادل فریدی کو معاشرت کے اس زوال اور بہ ظاہر متوسط طبقے کی نمو کا نہ صرف اندازہ ہے بلکہ وہ ان معاملات کو شعری پیکر میں ڈھالنے کے سلیقے سے بھی متعارف کراتے ہیں۔
ہم سے سیکھا ہے درندوں نے بہیمت کا ہنر
یوں تو ہر اک زاویے سے آدمی لگتے ہیں ہم
مسائل واقعی حل ہورہے ہیں
ہمارا مسئلہ اپنی جگہ ہے
نیند کو بیچ دیا خواب شکستہ کے عوض
تونے اچھا نہ کیا چشم خریدار کے ساتھ
میں نے یوں عمر گزاری ہے طلب میں تیری
جیسے اک رات گزارے کوئی بیمار کے ساتھ
خوشی بھی خواب ہوئی، عرض حال سے بھی گئے
وہ بے بسی ہے کہ حزن و ملال سے بھی گئے
ہم وہ شمار دانہ تسبیح ہیں کہ جو
اکثر شمار ہوگئے اکثر نہیں ہوئے
عادل فریدی کے شعری مجموعے ''سوچتی رہتی ہے دنیا'' میں ایسی کئی غزلیں نظروں سے گذرتی ہیں جنہیں پڑھ کر معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے شعر گوئی کی مشق کی ہے۔ ان میں قافیہ پیمائی تو ملتی ہے لیکن شعریت اور خیال کی لطافت سے واسطہ نہیں پڑتا۔ یہ کوئی بُری شے نہیں ہے، ویسے بھی یہ ان کا پہلا مجموعہ کلام ہے، شعری مجموعوں میں بھرتی کے بہت سارے اشعار تو ہوتے ہی ہیں، میرا نقطہ نظر یہ ہے کہ قاری کا طریقہ قرأت یہ ہو تو بہتر ہے کہ اچھے اشعار پر نگاہ رکھی جائے یعنی اچھے اشعار ان میں تلاش کرے اور باقی سے درگزر کرتا جائے۔ 2 مزید ایسے اچھے اشعار کی طرف توجہ مبذول کرانا چاہتا ہوں جن میں اشارے کنایے کی دل پذیر صورت ملتی ہے۔
کبھی اپنے ہی سائے کے تعاقب میں رہا ہوں میں
کبھی میں نے بگولوں کی رفاقت میں گزاری ہے
منفی سوچیں مجھ پر غالب رہتی ہیں
میں دریا ہوں لیکن الٹا بہتا ہوں
''سائے کا تعاقب'' اور ''بگولے کی رفاقت'' خیال میں ایک نئی معنوی پرت شامل کررہے ہیں۔ سائے کے تعاقب کا مطلب ہے سیدھ میں چلتے جانا جب کہ بگولوں کی رفاقت زندگی کے چکردار سرگرمیوں کی طرف اشارہ ہے۔ زندگی کے سفر کی لاحاصلی کا اظہار یہاں ان نئی پرتوں کے ساتھ ہوا ہے۔ دوسرے شعر میں فطرت کے خلاف آدمی کے آمادہ بہ جنگ ہونے کی طرف اشارہ ہے جس نے زندگی کی لاحاصلی کے احساس کو بڑھاوا دیا ہے۔ اور اس تمام سرگرمی کے بعد جو صورت حال درپیش ہے اسے انہوں نے کچھ یوں پیش کیا ہے،
بھیڑ ہے اک دائرے کے آس پاس
دائرے کے درمیاں کوئی نہیں
شعر کی شعریت کو اس کے صوتی و معنوی تاثر سے بھی پہچانا جاتا ہے۔ معنیٰ صرف وحدت خیال ہی سے جنم نہیں لیتا بلکہ متضاد یا مختلف چیزوں میں کسی مشترک قدر کی صورت میں بھی جنم لیتا ہے۔ شعر میں تلازمہ بھی یہ کردار بخوبی ادا کرتا ہے اور معنوی وحدت نہ ہوتے ہوئے بھی ایک ایسا معنوی تاثر پیدا کرتا ہے جو شعر کو کافی حد تک قابل تفہیم اور قابل قبول بنادیتا ہے۔ عادل فریدی کے ہاں کچھ ایسے اشعار بھی دیکھنے کو ملتے ہیں۔
میں اپنے تازہ خوں سے روز بھرتا ہوں چراغوں کو
مگر جب شام آتی ہے، جلانا بھول جاتا ہوں
میں اپنی نیند کو تقسیم کردیتا ہوں بچوں میں
مگر مشکل یہ ہے ان کو سلانا بھول جاتا ہوں
ان میں انسانی مساعی یا حسیاتی سرگرمیوں کے مابین در آنے والے وہ خلا مذکور کئے گئے ہیں جو ہمیں احساس کی سطح پر اس خالی پن کی طرف دھکیلتے ہیں جس سے ہمارے عہد کا انسان الجھ رہا ہے۔ شعریت کو مدنظر رکھا جائے تو ان میں کشش ویسی نہیں ہے جو کسی دل پذیر طرزِ اظہار میں ملتی ہے تاہم یہ آج کے شعری رویوں کے بہت قریب ہے۔ اپنے شعری رویے کی پہچان کے بارے میں ان کا مندرجہ ذیل شعر معاون معلوم ہوتا ہے جو اس عہد کے شعور اور ہر شخص کے انفرادی تجربے کی اہمیت کا بھی حوالہ فراہم کرتا ہے۔
مجھے تلاش نہ کر گم شدہ خزانوں میں
نیا شعور ہوں اور تیرے تجربوں میں ہوں
حالات حاضرہ کی نبض کو چھیڑتے ہوئے جب شاعر کا اپنا وجود اس میں گھلتا ملتا ہے تو احساس کو دھڑ کانے والی شعری تجسیم سامنے آتی ہے اور جہاں شاعر خیال کے اندر وارد ہوتا ہے تو کسی نہ کسی سطح پر تعلّی بھی ابھرنے لگتی ہے۔
میں اپنے جسم کو کس سرزمیں میں دفن کروں
نہ دشمنوں کے نہ اپنوں کے اعتبار میں ہوں
اس قبیلے میں کوئی سرکش نہ تھا میری طرح
طاق میں رکھ دی گئی دستار سر جانے کے بعد
یہ کتاب ادارہ شبستان سعید نے چھاپی ہے۔ 184 صفحات کی کتاب کی قیمت 3 سو روپے ہے۔ سیل نمبر 03362137489 پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔
نوٹ: یکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس۔