جناب صدر کی خدمت میں
’’اسلامی جمہوریہ پاکستان‘‘ کیا کسی مسلمان ملک کا اس سے زیادہ محترم نام کوئی اور ہو سکتا ہے۔ ہر گز نہیں۔
ISLAMABAD:
''اسلامی جمہوریہ پاکستان'' کیا کسی مسلمان ملک کا اس سے زیادہ محترم نام کوئی اور ہو سکتا ہے۔ ہر گز نہیں۔ اسلامیت بشمول جمہوریت کسی مسلمان ملک کی نظریاتی اساس ہے جو مسلمان ملک یا ممالک جمہوری نہیں ہیں اور اپنا کوئی اور نقشہ رکھتے ہیں وہ ایک اسلامی اور اصطلاحاً مسلمان ملک نہیں ہو سکتے۔
اگر اسلام ایک مکمل نظریہ زندگی ہے اور اللہ تعالیٰ نے اسے اس کے اپنے الفاظ میں مکمل کر دیا ہے تو پھر اسلام بس اسلام ہے اس کے نام کے ساتھ بھی کسی ملاوٹ کی گنجائش نہیں ہے کجا کہ اس کے نظام حکومت میں کوئی گڑ بڑ کی جائے۔ اسی طرح کسی مسلمان ملک میں سب سے بڑا منصب اس کے سربراہ کا ہے جسے اب صدر کہا جاتا ہے۔
صدر سے اونچا اور کوئی نہیں۔ اگر کوئی اپنی طاقت سے صدر کی جگہ لے لیتا ہے تو اسے پاکستان کے عوام دل سے تسلیم نہیں کرتے۔ کسی حکومت کے قانون کی پابندی ایک اور بات ہے۔ بات آسان اور واضح ہے جناب صدر جو بھی ہوں وہ 'اسلامی جمہوریہ پاکستان' کے اعلیٰ ترین منصب پر فائز ہیں لیکن آج کے دور میں کسی مسلمان ملک کے صدر کامنصب صرف انتظامی ہے اگر کوئی صدر پاکستان اپنے آپ کو مفتی اعظم پاکستان سمجھ لیتا ہے تو وہ غلط فہمی میں ہے جسے دور کر دینا اس کے لیے ضروری ہے۔
ہمارے موجودہ صدر جناب ممنون کو یہ غلط فہمی ہو گئی ہے کہ وہ انتظامی سربراہی کے ساتھ ساتھ اس ملک کے منصب افتاء پر بھی اس کے کسی عہدے پر فائز ہیں جناب صدر کے بارے میں اس غلط فہمی کی وجہ وہ خود ہیں اور انھوں نے ایک ایسی بات کہہ دی ہے کہ ایک تو انھیں فوری طور پر توبہ کرنی چاہیے، دوسرے کھلم کھلا اعلان عام کے ذریعے اپنے الفاظ کوواپس لے لینا چاہیے۔ ورنہ ان کے اس گناہ عظیم میں تمام پاکستانی بھی شامل ہوں گے۔
جناب صدر نے علماء سے اپیل کی ہے کہ وہ سود کے معاملے میں ذرا سی رعایت کی راہ دریافت کریں۔ یعنی خدا اور اس کے رسول پاک کے واضح الفاظ اور حکم کے باوجود سود میں کسی حد تک جواز کی کوئی راہ نکالیں۔ ہمارے صدر صاحب نے کسی وجہ اور الفاظ میں یہ بات کہی ہے، ایک پاکستانی کے لحاظ سے میں اس نافرمانی سے برأت کا اظہار کرتا ہوں اور ایسی بات کہنے والے کو اپنا صدر تسلیم کرتا ہوں یا نہیں یہ مجھے کوئی عالم دین ہی بتا سکتا ہے ورنہ میں اپنے ایمان کی قربانی دے کر کسی بھی پاکستانی کو صدر تسلیم نہیں کرتا۔ کون مسلمان ہے جس کو کم از کم اتنا معلوم نہیں کہ سود کو اللہ اور رسولؐ کے خلاف جنگ کہا گیا ہے جو ایک انتہائی بات ہے۔
اس سے زیادہ کیا کہا جا سکتا ہے۔ سود کی حرمت اور عدم جواز کا تو تعلیمات اور قرآن و سنت میں بارہا ذکر آیا ہے اور ایک عام مسلمان نے بھی سود کی حرمت کا سن رکھا ہے۔ اگر ہم نے سود کی بنیاد پر بینک بنا رکھے ہیں تو اس میں ہماری نالائقی اور نافرمانی ہے۔ اس سے سود کسی بھی صورت میں حلال نہیں ہو سکتا۔
میں ماہر معاشیات نہیں ہوں اس لیے سودی معیشت کے بارے میں کچھ عرض نہیں کر سکتا سوائے ماہرین کی رائے کے جو وہ سودی معیشت کے بارے میں ظاہر کرتے ہیں اور اس کے غلط اور معاشی طور پر ناجائز ہونے کے حق میں ہیں یا پھر ایک مسلمان کی ہر منطق اس وقت ختم ہو جاتی ہے جب قرآن و سنت میں واضح طور پر سود کو نہ صرف ناجائز بلکہ اسے خدا و رسولؐ کے خلاف جنگ تک کہا گیا ہو اس سے بڑی بات اور کیا ہو سکتی ہے کہ ہم مسلمان اگر یہودی نظام کے زیر اثر مغربی ملکوں کی طرح اپنی معیشت میں سود کو رائج کرتے ہیں اور سودی نظام پر زندگی بسر کرتے ہیں تو یہ ہماری نالائقی کے سوا اور کچھ نہیں۔ سود سے پاک جدید معیشت کے نظام پر کتابیں لکھی گئی ہیں اور اسے عملاً قابل عمل ثابت کیا گیا ہے لیکن ہمارے اندر اتنی ہمت اور حوصلہ نہیں کہ خدا و رسولؐ کے واضح حکم کے مقابلے میں مغربی دنیا کی بات کو ترجیح نہ دیں اور اس سے انکار کردیں۔
اس وقت یہ بات زیر بحث نہیں بلکہ زیر بحث جناب صدر ممنون کی یہ خواہش ہے کہ علماء ضرورت کے مطابق سود میں نرمی کی کوئی صورت پیدا کریں اور خدا و رسولؐ کے واضح فیصلے میں ذرا سی ترمیم کر دیں کہ ہم کسی صورت میں مجبوری ہو تو سود کو کسی حد تک جائز قرار دے دیں۔
اگر محترم صدر صاحب نے سود اور دوسری برائیوں کو جو حرام قرار دی گئی ہیں اس طرح کی رعایتیں دینے دلانے کی کوشش شروع کر دی اور چند حقیقت پسند علماء کو اپنے ساتھ ملانے میں کامیاب ہو گئے تو پھر پاکستان میں ایک نیا دین متعارف ہو گا جس کا نام دین ممنونیت یا کچھ اور ہو گا وہ اسلامی نہیں ہو گا۔ جناب صدر کو ذرا احتیاط برتنی چاہیے کیونکہ وہ محض ایک فرد اور ایک شہری ہی نہیں ہیں ایک بہت بڑے اسلامی ملک کے صدر اور سربراہ بھی ہیں اور ان کی بات صرف ان کی ذات گرامی تک محدود نہیں رہتی۔ ان کی رعایا پر بھی اثر انداز ہوتی ہے اور پھیلتی ہے۔
جناب میری طرح ایک عام پاکستانی شہری نہیں وہ ایک ایسے ملک کے سربراہ ہیں جو پہلا ایٹمی اسلامی ملک ہے اور جس کی فوج کا لوہا پوری دنیا تسلیم کرتی ہے۔ پاکستان ایک ایسا ملک ہے جس کی طرف میلی نظر سے دیکھنے کے لیے بڑی ہمت اور حوصلے کی ضرورت ہے۔ دنیا تسلیم کرتی ہے پاکستان کا ایٹم بم جدید ترین ہے جس کا کوئی توڑ نہیں ہے اور پاکستان کی فوج کو دنیا کی ایک بہترین فوج تسلیم کیا ہے اور دشمنوں نے تسلیم کیا ہے جو اس سے خائف رہ کر اب اپنی پالیسیاں بدل چکے ہیں۔
خدا نہ کرے کہ پاکستان کو کسی آزمائش سے گزرنا پڑے ورنہ دنیا کسی چھوٹے ملک کی غیر معمولی فوجی طاقت کا مشاہدہ کرے گی۔ جناب صدر ایک ایسے پاکستان کے سربراہ ہیں جو دنیا کا ایک مانا ہوا ملک ہے اور اس کے سربراہ کو اس کی حیثیت ہر وقت ذہن میں رکھنی چاہیے، پھر یہ بات اپنی جگہ بے حد اہم ہے کہ یہ ایک ایسا اسلامی ملک ہے جس کی آبادی اسلامی تعلیمات پر غیر معمولی یقین رکھتی ہے اور ان کی حفاظت کے لیے کوئی بھی قربانی دے سکتی ہے۔ اس سے زیادہ کچھ عرض کرنا کہیں گستاخی نہ بن جائے۔
''اسلامی جمہوریہ پاکستان'' کیا کسی مسلمان ملک کا اس سے زیادہ محترم نام کوئی اور ہو سکتا ہے۔ ہر گز نہیں۔ اسلامیت بشمول جمہوریت کسی مسلمان ملک کی نظریاتی اساس ہے جو مسلمان ملک یا ممالک جمہوری نہیں ہیں اور اپنا کوئی اور نقشہ رکھتے ہیں وہ ایک اسلامی اور اصطلاحاً مسلمان ملک نہیں ہو سکتے۔
اگر اسلام ایک مکمل نظریہ زندگی ہے اور اللہ تعالیٰ نے اسے اس کے اپنے الفاظ میں مکمل کر دیا ہے تو پھر اسلام بس اسلام ہے اس کے نام کے ساتھ بھی کسی ملاوٹ کی گنجائش نہیں ہے کجا کہ اس کے نظام حکومت میں کوئی گڑ بڑ کی جائے۔ اسی طرح کسی مسلمان ملک میں سب سے بڑا منصب اس کے سربراہ کا ہے جسے اب صدر کہا جاتا ہے۔
صدر سے اونچا اور کوئی نہیں۔ اگر کوئی اپنی طاقت سے صدر کی جگہ لے لیتا ہے تو اسے پاکستان کے عوام دل سے تسلیم نہیں کرتے۔ کسی حکومت کے قانون کی پابندی ایک اور بات ہے۔ بات آسان اور واضح ہے جناب صدر جو بھی ہوں وہ 'اسلامی جمہوریہ پاکستان' کے اعلیٰ ترین منصب پر فائز ہیں لیکن آج کے دور میں کسی مسلمان ملک کے صدر کامنصب صرف انتظامی ہے اگر کوئی صدر پاکستان اپنے آپ کو مفتی اعظم پاکستان سمجھ لیتا ہے تو وہ غلط فہمی میں ہے جسے دور کر دینا اس کے لیے ضروری ہے۔
ہمارے موجودہ صدر جناب ممنون کو یہ غلط فہمی ہو گئی ہے کہ وہ انتظامی سربراہی کے ساتھ ساتھ اس ملک کے منصب افتاء پر بھی اس کے کسی عہدے پر فائز ہیں جناب صدر کے بارے میں اس غلط فہمی کی وجہ وہ خود ہیں اور انھوں نے ایک ایسی بات کہہ دی ہے کہ ایک تو انھیں فوری طور پر توبہ کرنی چاہیے، دوسرے کھلم کھلا اعلان عام کے ذریعے اپنے الفاظ کوواپس لے لینا چاہیے۔ ورنہ ان کے اس گناہ عظیم میں تمام پاکستانی بھی شامل ہوں گے۔
جناب صدر نے علماء سے اپیل کی ہے کہ وہ سود کے معاملے میں ذرا سی رعایت کی راہ دریافت کریں۔ یعنی خدا اور اس کے رسول پاک کے واضح الفاظ اور حکم کے باوجود سود میں کسی حد تک جواز کی کوئی راہ نکالیں۔ ہمارے صدر صاحب نے کسی وجہ اور الفاظ میں یہ بات کہی ہے، ایک پاکستانی کے لحاظ سے میں اس نافرمانی سے برأت کا اظہار کرتا ہوں اور ایسی بات کہنے والے کو اپنا صدر تسلیم کرتا ہوں یا نہیں یہ مجھے کوئی عالم دین ہی بتا سکتا ہے ورنہ میں اپنے ایمان کی قربانی دے کر کسی بھی پاکستانی کو صدر تسلیم نہیں کرتا۔ کون مسلمان ہے جس کو کم از کم اتنا معلوم نہیں کہ سود کو اللہ اور رسولؐ کے خلاف جنگ کہا گیا ہے جو ایک انتہائی بات ہے۔
اس سے زیادہ کیا کہا جا سکتا ہے۔ سود کی حرمت اور عدم جواز کا تو تعلیمات اور قرآن و سنت میں بارہا ذکر آیا ہے اور ایک عام مسلمان نے بھی سود کی حرمت کا سن رکھا ہے۔ اگر ہم نے سود کی بنیاد پر بینک بنا رکھے ہیں تو اس میں ہماری نالائقی اور نافرمانی ہے۔ اس سے سود کسی بھی صورت میں حلال نہیں ہو سکتا۔
میں ماہر معاشیات نہیں ہوں اس لیے سودی معیشت کے بارے میں کچھ عرض نہیں کر سکتا سوائے ماہرین کی رائے کے جو وہ سودی معیشت کے بارے میں ظاہر کرتے ہیں اور اس کے غلط اور معاشی طور پر ناجائز ہونے کے حق میں ہیں یا پھر ایک مسلمان کی ہر منطق اس وقت ختم ہو جاتی ہے جب قرآن و سنت میں واضح طور پر سود کو نہ صرف ناجائز بلکہ اسے خدا و رسولؐ کے خلاف جنگ تک کہا گیا ہو اس سے بڑی بات اور کیا ہو سکتی ہے کہ ہم مسلمان اگر یہودی نظام کے زیر اثر مغربی ملکوں کی طرح اپنی معیشت میں سود کو رائج کرتے ہیں اور سودی نظام پر زندگی بسر کرتے ہیں تو یہ ہماری نالائقی کے سوا اور کچھ نہیں۔ سود سے پاک جدید معیشت کے نظام پر کتابیں لکھی گئی ہیں اور اسے عملاً قابل عمل ثابت کیا گیا ہے لیکن ہمارے اندر اتنی ہمت اور حوصلہ نہیں کہ خدا و رسولؐ کے واضح حکم کے مقابلے میں مغربی دنیا کی بات کو ترجیح نہ دیں اور اس سے انکار کردیں۔
اس وقت یہ بات زیر بحث نہیں بلکہ زیر بحث جناب صدر ممنون کی یہ خواہش ہے کہ علماء ضرورت کے مطابق سود میں نرمی کی کوئی صورت پیدا کریں اور خدا و رسولؐ کے واضح فیصلے میں ذرا سی ترمیم کر دیں کہ ہم کسی صورت میں مجبوری ہو تو سود کو کسی حد تک جائز قرار دے دیں۔
اگر محترم صدر صاحب نے سود اور دوسری برائیوں کو جو حرام قرار دی گئی ہیں اس طرح کی رعایتیں دینے دلانے کی کوشش شروع کر دی اور چند حقیقت پسند علماء کو اپنے ساتھ ملانے میں کامیاب ہو گئے تو پھر پاکستان میں ایک نیا دین متعارف ہو گا جس کا نام دین ممنونیت یا کچھ اور ہو گا وہ اسلامی نہیں ہو گا۔ جناب صدر کو ذرا احتیاط برتنی چاہیے کیونکہ وہ محض ایک فرد اور ایک شہری ہی نہیں ہیں ایک بہت بڑے اسلامی ملک کے صدر اور سربراہ بھی ہیں اور ان کی بات صرف ان کی ذات گرامی تک محدود نہیں رہتی۔ ان کی رعایا پر بھی اثر انداز ہوتی ہے اور پھیلتی ہے۔
جناب میری طرح ایک عام پاکستانی شہری نہیں وہ ایک ایسے ملک کے سربراہ ہیں جو پہلا ایٹمی اسلامی ملک ہے اور جس کی فوج کا لوہا پوری دنیا تسلیم کرتی ہے۔ پاکستان ایک ایسا ملک ہے جس کی طرف میلی نظر سے دیکھنے کے لیے بڑی ہمت اور حوصلے کی ضرورت ہے۔ دنیا تسلیم کرتی ہے پاکستان کا ایٹم بم جدید ترین ہے جس کا کوئی توڑ نہیں ہے اور پاکستان کی فوج کو دنیا کی ایک بہترین فوج تسلیم کیا ہے اور دشمنوں نے تسلیم کیا ہے جو اس سے خائف رہ کر اب اپنی پالیسیاں بدل چکے ہیں۔
خدا نہ کرے کہ پاکستان کو کسی آزمائش سے گزرنا پڑے ورنہ دنیا کسی چھوٹے ملک کی غیر معمولی فوجی طاقت کا مشاہدہ کرے گی۔ جناب صدر ایک ایسے پاکستان کے سربراہ ہیں جو دنیا کا ایک مانا ہوا ملک ہے اور اس کے سربراہ کو اس کی حیثیت ہر وقت ذہن میں رکھنی چاہیے، پھر یہ بات اپنی جگہ بے حد اہم ہے کہ یہ ایک ایسا اسلامی ملک ہے جس کی آبادی اسلامی تعلیمات پر غیر معمولی یقین رکھتی ہے اور ان کی حفاظت کے لیے کوئی بھی قربانی دے سکتی ہے۔ اس سے زیادہ کچھ عرض کرنا کہیں گستاخی نہ بن جائے۔