بے شمارمعدنی ذخائر اور ہماری دریوزہ گری
قدرت نے تو ہمیں اپنی فیاضیوں سے نوازنے میں کوئی کسر نہیں رکھ چھوڑی ہے۔
قدرت نے تو ہمیں اپنی فیاضیوں سے نوازنے میں کوئی کسر نہیں رکھ چھوڑی ہے۔ ہمارا یہ ملک ربِ کریم کی بے شمار نعمتوں سے مالا مال ہے۔ یہاں دنیا کا ہر پھل، ہر سبزی اور تقریباً سارے اناج وافر مقدار میں دستیاب ہیں۔ ایسا شاید ہی کسی علاقے اور ملک کو یہ مقام اور درجہ حاصل ہو کہ وہاں میرے مولا کی ہر نعمت اتنی فراخدلی کے ساتھ موجود ہو۔ اِس کے ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ نے ہمیں بیش بہا معدنی دولت سے بھی خوب نوازا ہوا ہے۔
یہ گیس جسے ہم عرصہ دراز سے بے دریغ استعمال کرتے آئے ہیں، قدرت کی لاتعداد نعمتوں میں سے ایک ہے۔ اِس کے علاوہ بلوچستان میں سینڈک اور ریکوڈک کے مقام پر دریافت ہونے والے معدنی ذخائر دنیا کے چند بڑے ذخائر میں سے ایک ہیں۔ ایک معتبر ریسرچ کے مطابق یہاں پائے جانے والے معدنیات میں سے لوہا، تانبہ، کرومائٹ، سونا، چاندی، لیڈ اور زنک کے علاوہ غیرمعدنی ماربل، جیپسم، کول، سلیکا، گرینائٹ اور لائم اسٹون جیسی نعمتوں کے ایسے ذخیرے موجود ہیں، جنھیں ہم اپنے استعمال میں لا کر ایک خود کفیل، خوشحال اور ترقی یافتہ ملک بن سکتے ہیں، مگر نجانے کیوں اب تک ہمارے حکمرانوں نے اِس معاملے میں صرفِ نظر سے کام لیا ہوا ہے۔
اُن کی ساری توجہ ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف سے قرضے لینے پر تو مرکوز رہتی ہے لیکن خود اپنی زمین میں چھپے ہوئے خزانوں نکال کر اُسے بروے کار لانے میں کوئی دلچسپی نہیں ہوتی۔ یہ سینڈک اور ریکوڈک کے خزانے گزشتہ کئی سالوں سے دریافت تو کیے جا چکے ہیں لیکن ابھی تک اُنہیں قابلِ استعمال نہیں بنایا جا سکا ہے۔
ابھی کچھ ماہ قبل ہمیں حکمرانوں کی جانب سے یہ خوشخبری سنائی گئی تھی کہ چنیوٹ کے قریب رجوعہ نامی قصبے میں سونے، لوہے اور کوئلے کے وسیع ذخائر ملے ہیں، مگر پھر کیا ہو ا یہ خبر یونہی ہواؤں میں تحلیل ہو کر رہ گئی جس طرح تھر کے علاقے میں ملنے والے کوئلے کے ذخائر کے ساتھ کیا گیا۔
اُس کے بارے میں کہا تو یہ جا رہا تھا کہ یہ دنیا میں کوئلے کے سب سے بڑے ذخائر ہیں اور اِن سے ہم کئی صدیوں تک اپنی ضرورت کی بجلی پیدا کر سکتے ہیں۔ مگر رفتہ رفتہ اِن ذخیروں سے وابستہ اُمیدیں خاک ہونے لگیں اور اب لگتا ہے اِن کے استعمال کو ماحولیاتی پولوشن کا بہانا بنا کر ترک کر دیا گیا ہے۔
ذرا سوچیے اور تخمینہ لگایے کہ سینڈک اور ریکوڈک میں پائے جانے والے ذخائرکی مالیت کتنی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق یہاں سے پیدا ہونے والے سونے اور تانبے کے ذخائر اتنے وافر مقدار میں ہیں کہ ہم سالانہ دو لاکھ ٹن تانبہ اور چار لاکھ اونس سونا ایک لاکھ چھ ہزار اونس چاندی نکال سکتے ہیں۔ جن کی مالیت کا تخمینہ مارکیٹ کے موجودہ ریٹ کے مطابق1.11 بلین ڈالرز سالانہ بنتا ہے اور تو اور ایک بین الاقوامی سروے کے مطابق بلوچستان کی زمینوں میں معدنیات کے علاوہ پٹرول کی بھی بھاری مقدار پائی جاتی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اِس صوبے میں بہت تھوڑے عرصے میں اگر ہم چاہیں تو دو ملین بیرل تیل روزانہ کی بنیاد پر نکال سکتے ہیں جس کی مالیت 40 بلین ڈالرز سالانہ بنتی ہے۔
بلوچستان کی طرح سندھ میں بھی پٹرول اور گیس کے ہمیں بہت سے ذخائر ملے ہیں۔ ابھی حال ہی میں یو ایس ایڈ کی ایک رپورٹ کے مطابق زیریں سندھ طاس میں 10159 ٹریلین کیوبک فٹ گیس کا بھاری ذخیرہ دریافت ہوا ہے۔ ایک مطالعاتی سروے میں جو اِسی سال نومبر میں مکمل کیا گیا ہے قدرتی گیس کے یہ ذخائر اتنی بڑی تعداد میں پائے گئے ہیں کہ اِنہیں استعمال کے قابل بنا کر ہم فوری طور پر اپنی مشکلات پر قابو پا سکتے ہیں۔
مگر افسوس کہ یہ کام کون کرے۔ ایسے ذخیروں کو نکالنے کے لیے جس جدید ترین مشینری اور ماہر افرادی قوت کی ضرورت ہوتی ہے وہ ابھی تک ہمیں میسر نہیں ہے۔ ہم تو وہ قوم ہیں کہ ہمیں کوئی خود نکال کر اور پائپ لائن بچھا کر ہمیں دیدے تو ہم لے لیں گے ویسے ہم سے یہ کام نہیں ہونے والا۔ ہم ازبکستان اور ایران سے تو گیس مانگ سکتے ہیں لیکن اپنی زمینوں میں موجود خزانوں سے فیضیاب نہیں ہو سکتے ہیں۔ ہماری یہ کتنی بڑی بد قسمتی ہے کہ سونا، لوہا اور تانبہ سمیت ہر قیمتی معدنیات ہماری زمینوں میں ایک زمانے سے دریافت ہو کر پڑی ہوئی ہیں لیکن ہم آج بھی کشکول تھامے دنیا سے بھیک مانگ رہے ہوتے ہیں۔
اگر ہم اپنی اِن معدنیات کو نکال کر اپنے استعمال میں لے آئیں تو یہ بات یقین کے ساتھ کہی جا سکتی ہے کہ اِس کے بعد ہمیں کسی کا محتاج اور دستِ نگر نہیں ہونا پڑے گا۔ کاسہ لیسی اور دریوزہ گری سے ہماری جان چھٹ جائے گی۔ خوشحالی بہت جلد ہمارے گھروں تک پہنچ جائے گی۔ ہم قرضہ لینے والی نہیں بلکہ قرضہ دینے والی قوم بن سکتے ہیں۔ ہمارے لوگوں کو روزگار کی تلاش میں دوسرے ممالک میں کوئی خاک نہیں چھاننی پڑے گی۔ دنیا ہمیں خود سلام کرے گی اور ہماری عزت کرے گی۔ ہمارا پنا 'آج' اور ہماری نسلوں کا 'کل' روشن ہو جائے گا۔
غور کیا جائے کہ عالمی طاقتیں بلوچستان پر نظریں کیوں گاڑے ہوئی ہیں۔ سوچا جائے کہ وہاں ایسی کونسی کشش ہے کہ جس کے باعث وہ وہاں اپنا اثر و رسوخ قائم کرنے پر تلی ہوئی ہیں اور کیا وجہ ہے کہ وہاں امن و امان کے قیام کا مسئلہ ہمیشہ ہی درپیش ر ہتا ہے۔ آج اگر ہم چین کی مدد سے اکنامک کوریڈور بنانے کے اپنے عزم پر سختی سے قائم ہیں تو پھر بلوچستان میں چھپے قدرت کے اِن بیش قیمت ذخائر کو نکال کر اپنے ملک و قوم کی قسمت کیوں نہیں بدل سکتے۔
جب ہم اپنے بل بوتے پر ایٹمی صلاحیت کی حامل قوم کا درجہ حاصل کر سکتے ہیں، میزائل ٹیکنالوجی میں منفرد مقام حاصل کر سکتے ہیں تو پھر اِن خزانوں کو باہر نکال کر قوم کے حالات کیوں بدل نہیں سکتے۔ بات صرف مصمم ارادوں اور فولادی عزم کی ہے۔ ہم جب تہیہ کر لیں کہ ہمیں ہر صورت میں یہ کام کرنا ہے، دنیا کی کوئی طاقت ہمیں اپنے ارادوں کی تکمیل سے نہیں روک سکتی۔ یہ مشینری اور افرادی قوت کا مسئلہ کوئی مسئلہ نہیں رہے گا۔1974ء میں ذوالفقار علی بھٹو نے پاکستان کو ایک ایٹمی قوت بنانے کے اپنے عزم کے اظہار میں کہا تھا کہ ہم گھاس کھا لیں گے لیکن ایٹم بم ضرور بنائیں گے اور اُن کا یہ عزم حقیقت کا روپ دھار کر ہمیں 1998ء میں مل گیا۔
ہم نہ 1974ء میں اِس قابل تھے اور نہ 1998ء میں اِس قدر آزاد اور خود مختار تھے کہ عالمی طاقتوں کی سخت مخالفت اور پابندیوں کے باوجود یہ کام کر جاتے لیکن ساری دنیا نے دیکھا کہ ایک ایسی قوم جسے1972ء میں ایک بین الاقوامی سازش کے تحت دو لخت کر دیا گیا ہو اور جسے ایک اسلامی ریاست ہونے کے ناتے دشمنوں کی بے شمار سازشوں کا سامنا ہو وہ ایک دن پہلی اسلامی ایٹمی ریاست کا درجہ حاصل کر جاتی ہے۔ یہ سب کچھ ارادوں کی پختگی اور نیتوں کی شفافیت اور اخلاص کی بدولت ہی ممکن ہو پایا تھا۔ آج بھی اگر ہم یہ مصمم ارادہ اور تہیہ کر لیں کہ خواہ کچھ بھی ہو جائے، ہم اپنے وطنِ عزیز کو ایک ترقی یافتہ ملک بنا کر دم لیں گے تو کوئی مضائقہ نہیں کہ ہم اپنا یہ ہدف بھی پورا کر لیں۔ ملک کے موجودہ حکمرانوں سے جن کے دعوے تو بہرحال یہ ہیں کہ وہ اِس ملک کو ایک خوشحال اور ترقی یافتہ ملک بنا کے چھوڑیں گے۔
یہ گیس جسے ہم عرصہ دراز سے بے دریغ استعمال کرتے آئے ہیں، قدرت کی لاتعداد نعمتوں میں سے ایک ہے۔ اِس کے علاوہ بلوچستان میں سینڈک اور ریکوڈک کے مقام پر دریافت ہونے والے معدنی ذخائر دنیا کے چند بڑے ذخائر میں سے ایک ہیں۔ ایک معتبر ریسرچ کے مطابق یہاں پائے جانے والے معدنیات میں سے لوہا، تانبہ، کرومائٹ، سونا، چاندی، لیڈ اور زنک کے علاوہ غیرمعدنی ماربل، جیپسم، کول، سلیکا، گرینائٹ اور لائم اسٹون جیسی نعمتوں کے ایسے ذخیرے موجود ہیں، جنھیں ہم اپنے استعمال میں لا کر ایک خود کفیل، خوشحال اور ترقی یافتہ ملک بن سکتے ہیں، مگر نجانے کیوں اب تک ہمارے حکمرانوں نے اِس معاملے میں صرفِ نظر سے کام لیا ہوا ہے۔
اُن کی ساری توجہ ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف سے قرضے لینے پر تو مرکوز رہتی ہے لیکن خود اپنی زمین میں چھپے ہوئے خزانوں نکال کر اُسے بروے کار لانے میں کوئی دلچسپی نہیں ہوتی۔ یہ سینڈک اور ریکوڈک کے خزانے گزشتہ کئی سالوں سے دریافت تو کیے جا چکے ہیں لیکن ابھی تک اُنہیں قابلِ استعمال نہیں بنایا جا سکا ہے۔
ابھی کچھ ماہ قبل ہمیں حکمرانوں کی جانب سے یہ خوشخبری سنائی گئی تھی کہ چنیوٹ کے قریب رجوعہ نامی قصبے میں سونے، لوہے اور کوئلے کے وسیع ذخائر ملے ہیں، مگر پھر کیا ہو ا یہ خبر یونہی ہواؤں میں تحلیل ہو کر رہ گئی جس طرح تھر کے علاقے میں ملنے والے کوئلے کے ذخائر کے ساتھ کیا گیا۔
اُس کے بارے میں کہا تو یہ جا رہا تھا کہ یہ دنیا میں کوئلے کے سب سے بڑے ذخائر ہیں اور اِن سے ہم کئی صدیوں تک اپنی ضرورت کی بجلی پیدا کر سکتے ہیں۔ مگر رفتہ رفتہ اِن ذخیروں سے وابستہ اُمیدیں خاک ہونے لگیں اور اب لگتا ہے اِن کے استعمال کو ماحولیاتی پولوشن کا بہانا بنا کر ترک کر دیا گیا ہے۔
ذرا سوچیے اور تخمینہ لگایے کہ سینڈک اور ریکوڈک میں پائے جانے والے ذخائرکی مالیت کتنی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق یہاں سے پیدا ہونے والے سونے اور تانبے کے ذخائر اتنے وافر مقدار میں ہیں کہ ہم سالانہ دو لاکھ ٹن تانبہ اور چار لاکھ اونس سونا ایک لاکھ چھ ہزار اونس چاندی نکال سکتے ہیں۔ جن کی مالیت کا تخمینہ مارکیٹ کے موجودہ ریٹ کے مطابق1.11 بلین ڈالرز سالانہ بنتا ہے اور تو اور ایک بین الاقوامی سروے کے مطابق بلوچستان کی زمینوں میں معدنیات کے علاوہ پٹرول کی بھی بھاری مقدار پائی جاتی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اِس صوبے میں بہت تھوڑے عرصے میں اگر ہم چاہیں تو دو ملین بیرل تیل روزانہ کی بنیاد پر نکال سکتے ہیں جس کی مالیت 40 بلین ڈالرز سالانہ بنتی ہے۔
بلوچستان کی طرح سندھ میں بھی پٹرول اور گیس کے ہمیں بہت سے ذخائر ملے ہیں۔ ابھی حال ہی میں یو ایس ایڈ کی ایک رپورٹ کے مطابق زیریں سندھ طاس میں 10159 ٹریلین کیوبک فٹ گیس کا بھاری ذخیرہ دریافت ہوا ہے۔ ایک مطالعاتی سروے میں جو اِسی سال نومبر میں مکمل کیا گیا ہے قدرتی گیس کے یہ ذخائر اتنی بڑی تعداد میں پائے گئے ہیں کہ اِنہیں استعمال کے قابل بنا کر ہم فوری طور پر اپنی مشکلات پر قابو پا سکتے ہیں۔
مگر افسوس کہ یہ کام کون کرے۔ ایسے ذخیروں کو نکالنے کے لیے جس جدید ترین مشینری اور ماہر افرادی قوت کی ضرورت ہوتی ہے وہ ابھی تک ہمیں میسر نہیں ہے۔ ہم تو وہ قوم ہیں کہ ہمیں کوئی خود نکال کر اور پائپ لائن بچھا کر ہمیں دیدے تو ہم لے لیں گے ویسے ہم سے یہ کام نہیں ہونے والا۔ ہم ازبکستان اور ایران سے تو گیس مانگ سکتے ہیں لیکن اپنی زمینوں میں موجود خزانوں سے فیضیاب نہیں ہو سکتے ہیں۔ ہماری یہ کتنی بڑی بد قسمتی ہے کہ سونا، لوہا اور تانبہ سمیت ہر قیمتی معدنیات ہماری زمینوں میں ایک زمانے سے دریافت ہو کر پڑی ہوئی ہیں لیکن ہم آج بھی کشکول تھامے دنیا سے بھیک مانگ رہے ہوتے ہیں۔
اگر ہم اپنی اِن معدنیات کو نکال کر اپنے استعمال میں لے آئیں تو یہ بات یقین کے ساتھ کہی جا سکتی ہے کہ اِس کے بعد ہمیں کسی کا محتاج اور دستِ نگر نہیں ہونا پڑے گا۔ کاسہ لیسی اور دریوزہ گری سے ہماری جان چھٹ جائے گی۔ خوشحالی بہت جلد ہمارے گھروں تک پہنچ جائے گی۔ ہم قرضہ لینے والی نہیں بلکہ قرضہ دینے والی قوم بن سکتے ہیں۔ ہمارے لوگوں کو روزگار کی تلاش میں دوسرے ممالک میں کوئی خاک نہیں چھاننی پڑے گی۔ دنیا ہمیں خود سلام کرے گی اور ہماری عزت کرے گی۔ ہمارا پنا 'آج' اور ہماری نسلوں کا 'کل' روشن ہو جائے گا۔
غور کیا جائے کہ عالمی طاقتیں بلوچستان پر نظریں کیوں گاڑے ہوئی ہیں۔ سوچا جائے کہ وہاں ایسی کونسی کشش ہے کہ جس کے باعث وہ وہاں اپنا اثر و رسوخ قائم کرنے پر تلی ہوئی ہیں اور کیا وجہ ہے کہ وہاں امن و امان کے قیام کا مسئلہ ہمیشہ ہی درپیش ر ہتا ہے۔ آج اگر ہم چین کی مدد سے اکنامک کوریڈور بنانے کے اپنے عزم پر سختی سے قائم ہیں تو پھر بلوچستان میں چھپے قدرت کے اِن بیش قیمت ذخائر کو نکال کر اپنے ملک و قوم کی قسمت کیوں نہیں بدل سکتے۔
جب ہم اپنے بل بوتے پر ایٹمی صلاحیت کی حامل قوم کا درجہ حاصل کر سکتے ہیں، میزائل ٹیکنالوجی میں منفرد مقام حاصل کر سکتے ہیں تو پھر اِن خزانوں کو باہر نکال کر قوم کے حالات کیوں بدل نہیں سکتے۔ بات صرف مصمم ارادوں اور فولادی عزم کی ہے۔ ہم جب تہیہ کر لیں کہ ہمیں ہر صورت میں یہ کام کرنا ہے، دنیا کی کوئی طاقت ہمیں اپنے ارادوں کی تکمیل سے نہیں روک سکتی۔ یہ مشینری اور افرادی قوت کا مسئلہ کوئی مسئلہ نہیں رہے گا۔1974ء میں ذوالفقار علی بھٹو نے پاکستان کو ایک ایٹمی قوت بنانے کے اپنے عزم کے اظہار میں کہا تھا کہ ہم گھاس کھا لیں گے لیکن ایٹم بم ضرور بنائیں گے اور اُن کا یہ عزم حقیقت کا روپ دھار کر ہمیں 1998ء میں مل گیا۔
ہم نہ 1974ء میں اِس قابل تھے اور نہ 1998ء میں اِس قدر آزاد اور خود مختار تھے کہ عالمی طاقتوں کی سخت مخالفت اور پابندیوں کے باوجود یہ کام کر جاتے لیکن ساری دنیا نے دیکھا کہ ایک ایسی قوم جسے1972ء میں ایک بین الاقوامی سازش کے تحت دو لخت کر دیا گیا ہو اور جسے ایک اسلامی ریاست ہونے کے ناتے دشمنوں کی بے شمار سازشوں کا سامنا ہو وہ ایک دن پہلی اسلامی ایٹمی ریاست کا درجہ حاصل کر جاتی ہے۔ یہ سب کچھ ارادوں کی پختگی اور نیتوں کی شفافیت اور اخلاص کی بدولت ہی ممکن ہو پایا تھا۔ آج بھی اگر ہم یہ مصمم ارادہ اور تہیہ کر لیں کہ خواہ کچھ بھی ہو جائے، ہم اپنے وطنِ عزیز کو ایک ترقی یافتہ ملک بنا کر دم لیں گے تو کوئی مضائقہ نہیں کہ ہم اپنا یہ ہدف بھی پورا کر لیں۔ ملک کے موجودہ حکمرانوں سے جن کے دعوے تو بہرحال یہ ہیں کہ وہ اِس ملک کو ایک خوشحال اور ترقی یافتہ ملک بنا کے چھوڑیں گے۔