بلدیاتی انتخابات میں ارکان اسمبلی کی عدم دلچسپی

2001ء میں جب ملک میں نئے ضلع نظام کے تحت بلدیاتی انتخابات منعقد ہوئے تھے،

ملک میں پہلی بار جماعتی بنیاد پر ہونے والے بلدیاتی انتخابات میں قومی و صوبائی اسمبلی کے کسی ایک بھی رکن اسمبلی نے اپنی اسمبلی سے مستعفی ہو کر ملک کے چاروں صوبوں میں کہیں بھی حصہ نہیں لیا اور ذاتی طور پر بلدیاتی انتخاب لڑنے میں انھوں نے کسی دلچسپی کا مظاہرہ نہیں کیا۔

2001ء میں جب ملک میں نئے ضلع نظام کے تحت بلدیاتی انتخابات منعقد ہوئے تھے، اس وقت ملک میں اسمبلیوں کا وجود نہیں تھا اور ان انتخابات کا ایم کیو ایم سمیت متعدد سیاسی پارٹیوں نے بائیکاٹ کیا تھا، کیونکہ ان کے خیال میں جنرل پرویز مشرف نے اپنے اقتدار کو مستحکم کرنے کے لیے ملک میں تیسری سطح پر ضلع حکومتوں کا نظام قائم کیا تھا اور ملک میں ایک بااختیار ضلع نظام کے ذریعے ملک بھر میں اضلاع کی سطح پر ضلع حکومتوں کا جو قیام عمل میں آیا تھا، ایسی ضلع حکومتیں صرف پہلی بار قائم ہوئی تھیں اور حقیقی طور پر مکمل بااختیار تھیں اور ان ضلع حکومتوں کو پہلی بار بیوروکریٹس کی حاکمیت سے نجات دلائی گئی تھی اور ماضی کے جنرل ایوب خان اور جنرل ضیا الحق کے بلدیاتی نظاموں کے برعکس بیوروکریٹس کو عوام کے منتخب ناظمین کے ماتحت رکھا گیا تھا۔

ملک میں پہلی بار صوبوں کے بلدیاتی محکموں کو ضلع حکومتوں کا سربراہ نہیں رکھا گیا تھا، بلکہ ضلع حکومتوں میں صوبائی وزیر بلدیات اور سیکریٹری بلدیات کو ضلع حکومتوں میں مداخلت کا قانونی اختیار نہیں تھا۔ ملک بھر میں صوبائی سیکریٹریوں، کمشنروں اور ڈپٹی کمشنروں کو منتخب ضلع حکومتوں میں ڈسٹرکٹ کوآرڈی نیشن افسر بنا کر ضلع ناظمین کا ماتحت اور 17 گریڈ کے اسسٹنٹ کمشنروں کو بھی تحصیل اور ٹاؤن کونسلوں میں ٹاؤن افسر بنا دیا گیا تھا اور ملک کی سٹی ضلع حکومتوں میں اٹھارہ اور 19 گریڈ کے افسروں کو مختلف ضلع محکموں کا ای ڈی او بنا دیا گیا تھا اور ملک کے بلدیاتی اداروں کو پہلی بار کمشنری نظام سے نجات دلا کر انگریزوں کا نظام ختم کر کے نچلی سطح پر عوام کے منتخب ناظمین کو پہلی بار اپنے اداروں میں مالی اور انتظامی اختیارات دیے گئے تھے۔

اس وقت چونکہ بیوروکریسی کو اہمیت دینے والے غلامانہ ذہنیت کے ارکان اسمبلی موجود نہیں تھے، اس لیے اعلیٰ بیوروکریسی نے جنرل پرویز کے خوف کے باعث عارضی طور پر خاموشی اختیار کر کے منتخب ناظمین کی ماتحتی قبول کر لی تھی مگر اندرون خانہ پوری بیوروکریسی بااختیار ضلع نظام کے خلاف ہو گئی تھی اور انھوں نے ناظمین کے خلاف سازشیں کر کے انھیں ناکام بنانا چاہا مگر جنرل پرویز مشرف نے انھیں کامیاب نہ ہونے دیا اور سپریم کورٹ کے حکم پر کرائے جانے والے عام انتخابات میں مسلم لیگ (ق) کی حکومتیں قائم ہوئیں۔

تو بیورو کریسی کو موقع مل گیا اور انھوں نے اپنے جی حضوری ارکان اسمبلی کو ضلع نظام کے خلاف بھڑکایا کہ بااختیار ناظمین کے باعث ارکان قومی و صوبائی اسمبلی کی اہمیت ہی ختم نہیں ہوئی بلکہ ماضی سے ارکان اسمبلی کو ملنے والے سالانہ فنڈ بھی جنرل پرویز نے ختم کر کے ضلع حکومتوں کو دے دیے ہیں جس کے بعد ارکان اسمبلی صرف اسمبلیوں تک محدود کر دیے گئے ہیں اور وہ اپنی مرضی سے اپنے حلقوں میں کوئی تعمیری و ترقیاتی کام کرانے کے قابل نہیں ہیں۔


ارکان اسمبلی نے جب دیکھا کہ اب اسمبلی کی ممبری میں کچھ نہیں رکھا کیونکہ اب انھیں اسمبلیوں سے ملنے والی مراعات اور الاؤنسز پر ہی گزارا کرنا پڑیگا۔ اب ارکان اسمبلی اپنے منظور ٹھیکیداروں کو ٹھیکے دلاسکیں گے اور نہ حکومت یا ضلع حکومتیں ان کے کہنے پر کام کرائیں گی اور نہ وہ اپنے حلقے کے بلدیاتی اداروں میں مداخلت کرسکتے ہیں تو اسمبلی میں آنے کے لیے انھوں نے جو اخراجات کیے ہیں وہ کیسے وصول کیے جا سکیں گے کیونکہ جنرل پرویز کے ضلعی نظام میں بے بس کر کے انھیں صرف اسمبلیوں میں قانون سازی پر لگا دیا گیا ہے اور عوام بھی اب ارکان اسمبلی کو نظرانداز کر کے ناظمین کو اختیار دیکر اہمیت دینے لگے ہیں۔

تو ارکان اسمبلی شدید تشویش میں مبتلا ہو گئے اور انھوں نے بیوروکریسی کی ملی بھگت سے اپنی اسمبلیوں اور حکومتوں کے ذریعے صدر جنرل پرویز پر دباؤ ڈلوایا کہ وہ نچلی سطح پر مزید اختیارات منتقل نہ کریں اور ناظمین کو حاصل اختیارات کم کر کے ضلع حکومتوں اور بااختیار ناظمین کو قومی تعمیر نو بیورو کی بجائے صوبائی حکومتوں کے کنٹرول میں دیں تا کہ محکمہ بلدیات ناظمین پر حاوی ہو سکے۔عام انتخابات میں ملک میں اپنی حکومتیں قائم ہونے کے بعد جنرل پرویز کی بھی ترجیحات بدل گئیں اور اب انھیں ناظمین کے بعد دنیا کو اپنی جمہوری حکومتیں دکھانے کے لیے ارکان قومی و صوبائی اسمبلی کی حمایت کی ضرورت تھی اس لیے وہ ارکان اسمبلی کو اہمیت دینے پر مجبور ہو گئے۔ ضلع حکومتوں کے خالق نے اپنے ہی ضلع نظام سے آنکھیں بدل لیں۔ ناظمین کے اختیارات کم کر کے ضلع حکومتوں کو صوبائی محکمہ بلدیات کے تابع کرنے کے اقدامات کیے اور ارکان اسمبلی کے فنڈ بھی بعد میں بحال کرنے پڑے۔

ضلع نظام کو جنرل پرویز مشرف نے مقررہ مدت کے لیے آئینی تحفظ دلا دیا تھا۔ اس لیے ناظمین پھر بھی اہمیت کے حامل رہے۔

ضلع حکومتوں کے 2005ء میں جب دوبارہ انتخابات ہوئے تو متعدد ارکان اسمبلی نے اسمبلیوں سے مستعفی ہو کر ناظمین کے عہدوں پر انتخاب لڑا اور کامیاب بھی ہوئے۔ بیورو کریسی دوسرے دور میں بھی ناظمین کے ماتحت تھی مگر 2008ء کے عام انتخابات میں جنرل پرویز مشرف کی حامی (ق) لیگ حکومتیں نہ بنا سکی اور وفاق اور صوبوں میں پیپلز پارٹی، مسلم لیگ (ن) اور اے این پی کی حکومتیں قائم ہوئیں تو انھوں نے مل کر سب سے پہلے صدر پرویز مشرف کو مستعفی ہونے پر مجبور کیا پھر ضلع حکومتوں کے اختیارات سلب کیے گئے اور آئینی تحفظ ختم ہونے کے بعد چاروں صوبوں میں ارکان اسمبلی سینیٹروں اور بیوروکریسی کی شدید خواہش پر ضلع حکومتوں پر مہلک وار کر کے کمشنری نظام بحال کر دیا۔

اب چاروں صوبوں میں سیاسی حکومتوں نے کمزور بلدیاتی نظام قائم کر رکھے ہیں۔ کمشنروں اور ڈپٹی کمشنروں کو کمزور و بے اختیار بلدیاتی اداروں پر مسلط کیا جا چکا ہے جو بااختیار نہیں بلکہ صوبائی حکومتوں اور کمشنری نظام کے ماتحت اور محتاج ہیں۔ سندھ میں تو سب سے کمزور بلدیاتی نظام رائج ہے جہاں تمام اختیارات وزیر اعلیٰ کے پاس ہیں جب کہ پنجاب میں ضلع حکومتوں کو برقرار رکھا گیا ہے جہاں کمشنروں کے ساتھ ڈی سی اوز بھی برقرار ہیں۔چاروں صوبوں میں سپریم کورٹ کے حکم پر بلدیاتی انتخابات تو کرائے گئے مگر اب بلدیاتی ادارے مفلوج اور بے اختیار ہیں اس لیے اس بار کسی بھی رکن اسمبلی نے مستعفی ہو کر ضلع چیئرمین بننا گوارا نہیں کیا اور بلدیاتی انتخابات میں خود حصہ اور دلچسپی نہیں لی البتہ اپنے لوگوں کو الیکشن لڑوایا تاکہ بے اختیار بلدیاتی ادارے ان کے کنٹرول اور اپنے عزیزوں و دوستوں کے کنٹرول میں رہیں۔
Load Next Story