بلدیاتی انتخابات کے نتائج
ایک غلط فہمی بڑی شدومد کے ساتھ پھیلائی جاتی رہی کہ نیازی برادری، پختون قوم کا حصہ نہیں ہے۔
KARACHI:
بلدیاتی انتخابات میں علاقائی سیاست کا بڑا عمل دخل ہوتا ہے، لسانیت اور قوم پرستی کی سیاست کا غلبہ ووٹ کے حصول کے لیے زیادہ سے زیادہ استعمال کیا جاتا ہے، گو کہ بلدیاتی انتخابات سیاسی بنیادوں پر ہو رہے ہیں، لیکن قومی جماعت کہلانے والی پارٹیوں کے عہدے داران بھی قوم پرستی کی منفی سیاست کو استعمال کر رہے ہیں اور عوام میں ان کی تقاریر میں دو اہم نکات بڑے اہم نظر آئے ایک، امن و امان کے حوالے سے دعوے کہ کراچی میں امن لانے والے ہم ہیں اور اس کے برخلاف کہ کراچی میں بدامنی کی ذمے دار کون سی جماعت ہے اور دوسرا اہم نکتہ یہ رہا کہ قوم (پاکستان یا مسلم قوم نہیں )کو اس کے حقوق نہیں ملے اور دوسری قوم نے ان کے حقوق غصب کر لیے، پختون، سندھی، بلوچ، پنجابی غرض یہ کہ جتنی زبانیں اتنی ہی قومیں تھیں، لیکن اگر کوئی نا تھی تو مسلم قوم نہیں تھی۔
ایک غلط فہمی بڑی شدومد کے ساتھ پھیلائی جاتی رہی کہ نیازی برادری، پختون قوم کا حصہ نہیں ہے۔ پختون قوم کو یہ تو معلوم ہے کہ نیازی برادری کا تعلق بھی پختون قوم سے ہے لیکن جہاں جہاں نیازی برادری کے پینل کھڑے تھے، ان کے سامنے پختونوں کے پینل چاہے وہ کسی بھی سیاسی جماعت سے ہوں، ان کی مخالفت کا سب سے پہلا نعرہ نیازی کو پختون قومیت سے باہر نکالنا تھا۔ تاریخ بتاتی ہے کہ نیازی قبیلے کا تعلق لودی (لودھی) (مگر یہ لودھی پنجاب کی لودھی خاندان جو کے راجپوت نسل سے ہیں لودھی کہلواتے ہیں ان سے الگ ہیں) پشتون خاندان سے ہیں یہ کوئی پندرھویں صدی عیسوی میں یہاں قیام پذیر ہوئے یہ پہلے پشتون قبیلے تھے جو اس علاقے میں وارد ہوئے اورجاٹوں اور سکھوں کو باہر نکال کیا، اس قبیلے کے اثرات و کھنڈرات آج بھی دہلی کے گرد و نواح میں موجود ہیں جن میں خاص کر عیسی خان نیازی کا مقبرہ ہے، جو آج بھی ہمایوں کے مقبرے کے ساتھ موجود ہے۔ اس قوم کی پہلی سکونت دہلی میں تھی اور پشتونوں کی پہلی اور ابتدائی دور حکومت میں وہاں قیام پذیر تھے مگر مغلوں کے ہاتھوں شکست کھانے کے بعد یہ اس علاقے میں دیگر افغان قوموں کے ساتھ دریائے سندھ کے کنارے آباد ہو گئے اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ نیازی قبائل افغانستان سے آ کر آباد ہوتے چلے گئے آج بھی کچھ نیازی قبیلے پشتو بولتے ہیں جن میں بخیرے خیل، سلطان خیل اور بوری خیل سرِفہرست ہیں، نیازی قبیلے کے مشہور لوگوں میں عیسی خان نیازی جو کہ شیر شاہ سوری کے مشیر تھے، ہبیت خان نیازی گورنر پنجاب و جرنیل تھے۔ عیسی خیل، نیازیوں کا سب سے بڑا قبیلہ کہلاتا ہے جو تمام نیازیوں کی نمایندگی کرتے ہوئے نادر شاہ کے ساتھ مل کر جنگ بھی لڑ چکا ہے اور نواب کا خطاب بھی حاصل کیا۔یہاں اس بات کا ذکراس لیے ضروری تھا کہ نیازی قبیلہ اگر میانوالی، پنجاب میں آباد ہے تو اس کا مطلب یہ نہیں لیا جا سکتا کہ وہ کسی دوسرے خطے میں ہونے کی وجہ سے اپنی روایات و ثقافت سے جداگانہ ہے۔ کیونکہ پشتونوں کی طرح ان کی خواتین بھی شٹل کاک برقع پہنتی ہیں، دوسری جانب ہزارے وال کو 'سرحدی پنجابی' کہنا بھی تعصب کی علامت ہے۔میں بلدیاتی انتخابات کے حوالے سے مختلف برادریوں کے پروگراموں اور سیاسی جماعتوں کی میٹنگزمیں جاتا رہا تو مجھے اس بات کی کافی حیرانی بھی ہوئی کہ ووٹ کے خاطر اگر قوموں کا تشخص بھی بگاڑ دینے سے کسی کو ووٹ حاصل ہوتے ہیں تو ہونے دو، لیکن اس کو اس بات کی پرواہ نہیں ہوتی کہ اس عمل سے نفرتوں کا جو بیج بویا جا رہا ہے، اس کے نتائج کس قدر خطرناک نکل سکتے ہیں۔ پاکستان مسلم لیگ ن کراچی ڈویژن کے نائب صدر نجیب اللہ خان نیازی اس سیاست سے نالاں نظر آئے اور انھوں نے مجھ سے شکوہ بھی کیا کہ سیاست میں نفرتوں کے بیج نہیں بونے چاہییں۔ میں مخالف میٹنگز میں گیا تو نیازی اور پختون قومیت کے نام پر قومی جماعت کہلانے والی جماعتوں کے لیڈروں نے اس بات کا بڑا پرچار کیا کہ نیازی پختون قوم کے مخالف ہیں، تاریخ سے نابلد ہونے کی وجہ سے انھیں یہی نہیں معلوم کہ نیازی برادری بھی ان کی طرح پختون قوم کا حصہ ہے، جس طرح پختون قوم میں اکثر قومیتیں اپنا نام کے ساتھ حسن زئی، یوسف زئی، سواتی، کوہاٹی، آکاخیل، بونیری خٹک اور دیگر استعارے لگاتی ہے اسی طرح نیازی برادری بھی اپنے بڑوں کے نام کی پیروی کرتے ہوئے اپنے نام کے ساتھ نیازی لگاتے ہیں۔بہرحال ہمیں اس بات کو ضرور سوچنا چاہیے کہ اگر اردو بولنے والا کراچی میں آباد ہیں اور ان کی زبان اردو ہے تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ ان کا تعلق ہم ہندوستان سے اس طرح جوڑیں کہ وہ پاکستانی نہیں بلکہ بھارتی کہلائیں، اردو بولنے والے تو ہر جماعت میں ہیں۔ ہر لسانی قوم کی طرح ان میں بھی جرائم پیشہ ہیںاور پھر قانون نافذ کرنے والے کسی جماعت کے خلاف کوئی کارروائی کر رہے ہیں تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ کسی قوم کے خلاف کارروائی کر رہے ہیں۔ میںنے یہ بات بھی محسوس کی کہ جب پختون اور بلوچ قوم پرآپریشن کیا جاتا ہے تو اسے ایسا سمجھا جاتا ہے جیسے کسی دوسری مخلوق کے خلاف پاکستانی مخلوق کارروائی کررہی ہو، بلوچ ہو یا پختون ہو، پاکستان کے شہری ہیں۔ ان کے اپنے حقوق ہیں، ان کے اپنے وسائل ہیں ان میں بھی دوسری لسانی اکائیوں کی طرح جرائم پیشہ افراد ہیں، اس لیے ان کے خلاف آپریشن نہیں بلکہ جرائم پیشہ عناصر کے خلاف آپریشن کہلوانا زیادہ پسند کرتا ہوں۔ عوامی نیشنل پارٹی سندھ کے جنرل سیکریٹری یونس بونیری سے بلدیاتی انتخابات کے حوالے سے دلچسپ گفتگو ہوئی، کیونکہ ان کی جماعت سہ فریقی اتحاد کے طور پر حصہ لے رہی ہے اور ان کے بعض امیدواروں نے پی پی پی کے نشان پر الیکشن کے لیے باچا خان بابا کی تصویر، ذوالفقار علی بھٹو کے ساتھ لگائی ہوئی تھی، خدائی خدمتگاروں کو یہ عمل پسند نہیں آیا کہ اب باچا خان بابا، پی پی پی کے لیے ووٹ مانگ رہے ہیں، ان کا کہنا تھا کہ بابا کا نشان گم ہو گیا۔ یونس بونیری نے اس کو سیاسی عمل قرار دیا کہ سیاسی اتحادوں میں ایسا ہوتارہتا ہے جب کہ ہمارے پارٹی کے نشان لالٹین سے کراچی میں170 امیدوار چیئرمین شپ کا الیکشن لڑ رہے ہیں۔ متحدہ قومی موومنٹ رابطہ کمیٹی کے رکن گل فراز خٹک کا کہنا تھا کہ ان کا کراچی میں کسی سے مقابلہ نہیں، اس لیے انھیں کسی سے اتحاد کرنے کی ضرورت بھی نہیں ہے، گل فراز خٹک کے مطابق 200 سے زائد انتخابی حلقوں میں ان کی جماعت کا کوئی مقابل ہی نہیں ہے اور جنھوں نے کاغذات نامزدگی داخل کرائے ہیں وہ بھی محض رسمی کارروائی ہے۔ ان کا خیال تھا کہ حیدرآباد کی طرح کراچی میں بھی متحدہ قومی موومنٹ کو کامیابی ملے گی۔ میرے پوچھنے انھوں نے بتایا کہ ان کی تمام انتخابی مہم عوام خود چلا رہے ہیں، لہذا آپریشن میں دشواریوں کی باوجود انھیں کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ پی پی پی کراچی ڈویژن کے جنرل سیکریٹری ندیم احمد بھٹو کراچی میں کامیابی کے حوالے سے بڑے پرامید نظرآئے کہ سندھ میں ملنے والی کامیابیوں کا اثر کراچی میں بھی نظر آئے گا اور کراچی کا مئیر پی پی پی کا جیالا ہو گا۔ انھوں نے پارٹی میں گروپ بندیوں اور پارٹی فیصلوں سے اختلاف رکھنے والوں کا آزاد حیثیت سے کھڑے ہونے پر پریشانی کا اظہار کیا کہ جو پارٹی کے فیصلے کو قبول نہیں کرتے وہ دراصل پارٹی سے مخلص ہی نہیں ہیں لیکن اس سے کوئی فرق نہیں پڑے گا اور عوام ان کو ہی ووٹ دیں گے۔تحریک انصاف اور جماعت اسلامی کے ذمے داران بھی پرامید نظر آئے لیکن نتائج کیا ہوتے ہیں یہ بلدیاتی انتخابات کے آخری مرحلے میں سامنے آ جائیں گے، میرے لیے یہ بات اہم ہے کہ بلدیاتی انتخابات میں جو پارٹی بھی جیتے گی، اپنے پیچھے اس نے لسانیت کے پودے کو مزید مضبوط کرنے کا عمل بھی سر انجام دیا ہے۔ پی پی پی، سندھیوں، اے این پی، پختونوں اور متحدہ مہاجروں کی سیاست کرتی نظر آئی تو ان کے مقابلے میں مذہبی جماعتوں اور پاکستان مسلم لیگ (ن ) کا اتحاد، جمعیت علمائے اسلام (ف) کا پی پی پی سے اتحاد اور تحریک انصاف کا جماعت اسلامی سے اتحاد کراچی میں کئی نئے راستے بنا جائے گا۔یہ اتحاد مستقبل میں دیرپا نہیں ہوں گے، کیونکہ یہ سب وقتی ضرورت کے تحت ہیں، بلدیاتی انتخابات کے نتائج کے بعد ہی ان میں دراڑ پڑجائے گی ، کامیابی کی واحد صورت یہی ہو سکتی ہے کہ جب قومی جماعتیں تمام سیاسی جماعتوں کے مینڈیٹ کو تسلیم بھی کریں۔ جمہوریت کے اس پر فریب ووٹ کے نظام میں بندے گنے جا رہے ہیں تولے نہیں جا رہے ۔ جمہوریت کے نام پر عوام کو بے وقوف بنانا اور مک مکا کی سیاست کے ساتھ مٹی پاء کی سیاست بھی عروج پر ہے، پانچ دسمبر کوعوام پھر جمہوریت کے نام پر دھوکا کھاکر لمبی لمبی قطاروں میں ووٹ ڈالیں گے۔ جھوٹی گواہی دیں گے، آپس میں لڑیں گے، خون بہانے سے بھی دریغ نہیںکریں گے، لیکن مغرب کے اس نظام سے تبدیلی کبھی بھی نہیں آ سکتی کیونکہ جمہوری نظام فریب ہے۔صرف ایک گزارش ہے کہ لسانیت، فرقہ پرستی، صوبائیت کے نام پر بن سوچے ووٹ ڈال کر آپس میںنفرتیں نہ بڑھائیں، بھائی چارے کو نقصان نہ پہنچائیں تشدد کو نہ اپنائیں، کیونکہ تفرقہ متحدہ مسلم قومیت کے لیے زہر قاتل ہے۔
بلدیاتی انتخابات میں علاقائی سیاست کا بڑا عمل دخل ہوتا ہے، لسانیت اور قوم پرستی کی سیاست کا غلبہ ووٹ کے حصول کے لیے زیادہ سے زیادہ استعمال کیا جاتا ہے، گو کہ بلدیاتی انتخابات سیاسی بنیادوں پر ہو رہے ہیں، لیکن قومی جماعت کہلانے والی پارٹیوں کے عہدے داران بھی قوم پرستی کی منفی سیاست کو استعمال کر رہے ہیں اور عوام میں ان کی تقاریر میں دو اہم نکات بڑے اہم نظر آئے ایک، امن و امان کے حوالے سے دعوے کہ کراچی میں امن لانے والے ہم ہیں اور اس کے برخلاف کہ کراچی میں بدامنی کی ذمے دار کون سی جماعت ہے اور دوسرا اہم نکتہ یہ رہا کہ قوم (پاکستان یا مسلم قوم نہیں )کو اس کے حقوق نہیں ملے اور دوسری قوم نے ان کے حقوق غصب کر لیے، پختون، سندھی، بلوچ، پنجابی غرض یہ کہ جتنی زبانیں اتنی ہی قومیں تھیں، لیکن اگر کوئی نا تھی تو مسلم قوم نہیں تھی۔
ایک غلط فہمی بڑی شدومد کے ساتھ پھیلائی جاتی رہی کہ نیازی برادری، پختون قوم کا حصہ نہیں ہے۔ پختون قوم کو یہ تو معلوم ہے کہ نیازی برادری کا تعلق بھی پختون قوم سے ہے لیکن جہاں جہاں نیازی برادری کے پینل کھڑے تھے، ان کے سامنے پختونوں کے پینل چاہے وہ کسی بھی سیاسی جماعت سے ہوں، ان کی مخالفت کا سب سے پہلا نعرہ نیازی کو پختون قومیت سے باہر نکالنا تھا۔ تاریخ بتاتی ہے کہ نیازی قبیلے کا تعلق لودی (لودھی) (مگر یہ لودھی پنجاب کی لودھی خاندان جو کے راجپوت نسل سے ہیں لودھی کہلواتے ہیں ان سے الگ ہیں) پشتون خاندان سے ہیں یہ کوئی پندرھویں صدی عیسوی میں یہاں قیام پذیر ہوئے یہ پہلے پشتون قبیلے تھے جو اس علاقے میں وارد ہوئے اورجاٹوں اور سکھوں کو باہر نکال کیا، اس قبیلے کے اثرات و کھنڈرات آج بھی دہلی کے گرد و نواح میں موجود ہیں جن میں خاص کر عیسی خان نیازی کا مقبرہ ہے، جو آج بھی ہمایوں کے مقبرے کے ساتھ موجود ہے۔ اس قوم کی پہلی سکونت دہلی میں تھی اور پشتونوں کی پہلی اور ابتدائی دور حکومت میں وہاں قیام پذیر تھے مگر مغلوں کے ہاتھوں شکست کھانے کے بعد یہ اس علاقے میں دیگر افغان قوموں کے ساتھ دریائے سندھ کے کنارے آباد ہو گئے اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ نیازی قبائل افغانستان سے آ کر آباد ہوتے چلے گئے آج بھی کچھ نیازی قبیلے پشتو بولتے ہیں جن میں بخیرے خیل، سلطان خیل اور بوری خیل سرِفہرست ہیں، نیازی قبیلے کے مشہور لوگوں میں عیسی خان نیازی جو کہ شیر شاہ سوری کے مشیر تھے، ہبیت خان نیازی گورنر پنجاب و جرنیل تھے۔ عیسی خیل، نیازیوں کا سب سے بڑا قبیلہ کہلاتا ہے جو تمام نیازیوں کی نمایندگی کرتے ہوئے نادر شاہ کے ساتھ مل کر جنگ بھی لڑ چکا ہے اور نواب کا خطاب بھی حاصل کیا۔یہاں اس بات کا ذکراس لیے ضروری تھا کہ نیازی قبیلہ اگر میانوالی، پنجاب میں آباد ہے تو اس کا مطلب یہ نہیں لیا جا سکتا کہ وہ کسی دوسرے خطے میں ہونے کی وجہ سے اپنی روایات و ثقافت سے جداگانہ ہے۔ کیونکہ پشتونوں کی طرح ان کی خواتین بھی شٹل کاک برقع پہنتی ہیں، دوسری جانب ہزارے وال کو 'سرحدی پنجابی' کہنا بھی تعصب کی علامت ہے۔میں بلدیاتی انتخابات کے حوالے سے مختلف برادریوں کے پروگراموں اور سیاسی جماعتوں کی میٹنگزمیں جاتا رہا تو مجھے اس بات کی کافی حیرانی بھی ہوئی کہ ووٹ کے خاطر اگر قوموں کا تشخص بھی بگاڑ دینے سے کسی کو ووٹ حاصل ہوتے ہیں تو ہونے دو، لیکن اس کو اس بات کی پرواہ نہیں ہوتی کہ اس عمل سے نفرتوں کا جو بیج بویا جا رہا ہے، اس کے نتائج کس قدر خطرناک نکل سکتے ہیں۔ پاکستان مسلم لیگ ن کراچی ڈویژن کے نائب صدر نجیب اللہ خان نیازی اس سیاست سے نالاں نظر آئے اور انھوں نے مجھ سے شکوہ بھی کیا کہ سیاست میں نفرتوں کے بیج نہیں بونے چاہییں۔ میں مخالف میٹنگز میں گیا تو نیازی اور پختون قومیت کے نام پر قومی جماعت کہلانے والی جماعتوں کے لیڈروں نے اس بات کا بڑا پرچار کیا کہ نیازی پختون قوم کے مخالف ہیں، تاریخ سے نابلد ہونے کی وجہ سے انھیں یہی نہیں معلوم کہ نیازی برادری بھی ان کی طرح پختون قوم کا حصہ ہے، جس طرح پختون قوم میں اکثر قومیتیں اپنا نام کے ساتھ حسن زئی، یوسف زئی، سواتی، کوہاٹی، آکاخیل، بونیری خٹک اور دیگر استعارے لگاتی ہے اسی طرح نیازی برادری بھی اپنے بڑوں کے نام کی پیروی کرتے ہوئے اپنے نام کے ساتھ نیازی لگاتے ہیں۔بہرحال ہمیں اس بات کو ضرور سوچنا چاہیے کہ اگر اردو بولنے والا کراچی میں آباد ہیں اور ان کی زبان اردو ہے تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ ان کا تعلق ہم ہندوستان سے اس طرح جوڑیں کہ وہ پاکستانی نہیں بلکہ بھارتی کہلائیں، اردو بولنے والے تو ہر جماعت میں ہیں۔ ہر لسانی قوم کی طرح ان میں بھی جرائم پیشہ ہیںاور پھر قانون نافذ کرنے والے کسی جماعت کے خلاف کوئی کارروائی کر رہے ہیں تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ کسی قوم کے خلاف کارروائی کر رہے ہیں۔ میںنے یہ بات بھی محسوس کی کہ جب پختون اور بلوچ قوم پرآپریشن کیا جاتا ہے تو اسے ایسا سمجھا جاتا ہے جیسے کسی دوسری مخلوق کے خلاف پاکستانی مخلوق کارروائی کررہی ہو، بلوچ ہو یا پختون ہو، پاکستان کے شہری ہیں۔ ان کے اپنے حقوق ہیں، ان کے اپنے وسائل ہیں ان میں بھی دوسری لسانی اکائیوں کی طرح جرائم پیشہ افراد ہیں، اس لیے ان کے خلاف آپریشن نہیں بلکہ جرائم پیشہ عناصر کے خلاف آپریشن کہلوانا زیادہ پسند کرتا ہوں۔ عوامی نیشنل پارٹی سندھ کے جنرل سیکریٹری یونس بونیری سے بلدیاتی انتخابات کے حوالے سے دلچسپ گفتگو ہوئی، کیونکہ ان کی جماعت سہ فریقی اتحاد کے طور پر حصہ لے رہی ہے اور ان کے بعض امیدواروں نے پی پی پی کے نشان پر الیکشن کے لیے باچا خان بابا کی تصویر، ذوالفقار علی بھٹو کے ساتھ لگائی ہوئی تھی، خدائی خدمتگاروں کو یہ عمل پسند نہیں آیا کہ اب باچا خان بابا، پی پی پی کے لیے ووٹ مانگ رہے ہیں، ان کا کہنا تھا کہ بابا کا نشان گم ہو گیا۔ یونس بونیری نے اس کو سیاسی عمل قرار دیا کہ سیاسی اتحادوں میں ایسا ہوتارہتا ہے جب کہ ہمارے پارٹی کے نشان لالٹین سے کراچی میں170 امیدوار چیئرمین شپ کا الیکشن لڑ رہے ہیں۔ متحدہ قومی موومنٹ رابطہ کمیٹی کے رکن گل فراز خٹک کا کہنا تھا کہ ان کا کراچی میں کسی سے مقابلہ نہیں، اس لیے انھیں کسی سے اتحاد کرنے کی ضرورت بھی نہیں ہے، گل فراز خٹک کے مطابق 200 سے زائد انتخابی حلقوں میں ان کی جماعت کا کوئی مقابل ہی نہیں ہے اور جنھوں نے کاغذات نامزدگی داخل کرائے ہیں وہ بھی محض رسمی کارروائی ہے۔ ان کا خیال تھا کہ حیدرآباد کی طرح کراچی میں بھی متحدہ قومی موومنٹ کو کامیابی ملے گی۔ میرے پوچھنے انھوں نے بتایا کہ ان کی تمام انتخابی مہم عوام خود چلا رہے ہیں، لہذا آپریشن میں دشواریوں کی باوجود انھیں کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ پی پی پی کراچی ڈویژن کے جنرل سیکریٹری ندیم احمد بھٹو کراچی میں کامیابی کے حوالے سے بڑے پرامید نظرآئے کہ سندھ میں ملنے والی کامیابیوں کا اثر کراچی میں بھی نظر آئے گا اور کراچی کا مئیر پی پی پی کا جیالا ہو گا۔ انھوں نے پارٹی میں گروپ بندیوں اور پارٹی فیصلوں سے اختلاف رکھنے والوں کا آزاد حیثیت سے کھڑے ہونے پر پریشانی کا اظہار کیا کہ جو پارٹی کے فیصلے کو قبول نہیں کرتے وہ دراصل پارٹی سے مخلص ہی نہیں ہیں لیکن اس سے کوئی فرق نہیں پڑے گا اور عوام ان کو ہی ووٹ دیں گے۔تحریک انصاف اور جماعت اسلامی کے ذمے داران بھی پرامید نظر آئے لیکن نتائج کیا ہوتے ہیں یہ بلدیاتی انتخابات کے آخری مرحلے میں سامنے آ جائیں گے، میرے لیے یہ بات اہم ہے کہ بلدیاتی انتخابات میں جو پارٹی بھی جیتے گی، اپنے پیچھے اس نے لسانیت کے پودے کو مزید مضبوط کرنے کا عمل بھی سر انجام دیا ہے۔ پی پی پی، سندھیوں، اے این پی، پختونوں اور متحدہ مہاجروں کی سیاست کرتی نظر آئی تو ان کے مقابلے میں مذہبی جماعتوں اور پاکستان مسلم لیگ (ن ) کا اتحاد، جمعیت علمائے اسلام (ف) کا پی پی پی سے اتحاد اور تحریک انصاف کا جماعت اسلامی سے اتحاد کراچی میں کئی نئے راستے بنا جائے گا۔یہ اتحاد مستقبل میں دیرپا نہیں ہوں گے، کیونکہ یہ سب وقتی ضرورت کے تحت ہیں، بلدیاتی انتخابات کے نتائج کے بعد ہی ان میں دراڑ پڑجائے گی ، کامیابی کی واحد صورت یہی ہو سکتی ہے کہ جب قومی جماعتیں تمام سیاسی جماعتوں کے مینڈیٹ کو تسلیم بھی کریں۔ جمہوریت کے اس پر فریب ووٹ کے نظام میں بندے گنے جا رہے ہیں تولے نہیں جا رہے ۔ جمہوریت کے نام پر عوام کو بے وقوف بنانا اور مک مکا کی سیاست کے ساتھ مٹی پاء کی سیاست بھی عروج پر ہے، پانچ دسمبر کوعوام پھر جمہوریت کے نام پر دھوکا کھاکر لمبی لمبی قطاروں میں ووٹ ڈالیں گے۔ جھوٹی گواہی دیں گے، آپس میں لڑیں گے، خون بہانے سے بھی دریغ نہیںکریں گے، لیکن مغرب کے اس نظام سے تبدیلی کبھی بھی نہیں آ سکتی کیونکہ جمہوری نظام فریب ہے۔صرف ایک گزارش ہے کہ لسانیت، فرقہ پرستی، صوبائیت کے نام پر بن سوچے ووٹ ڈال کر آپس میںنفرتیں نہ بڑھائیں، بھائی چارے کو نقصان نہ پہنچائیں تشدد کو نہ اپنائیں، کیونکہ تفرقہ متحدہ مسلم قومیت کے لیے زہر قاتل ہے۔