زندگی پر اثر انداز ہونے والا ’تماشہ‘

فلم میں زندگی کے ہرحصے کا رنگ موجود ہے جسے ہر شخص اپنے زاویے سے محسوس کرکے فلم کی کہانی کو خود کی زندگی سے جوڑسکتا ہے۔


امتیاز علی نے اپنی پچھلی فلموں خصوصاً ’’راک اسٹار‘‘ اور ’’جب وی میٹ‘‘ میں شامل رومینس اور ایموشنز کا تڑکا بھی اس تماشے کا حصہ رکھا ہے۔

کیا ہوتا کہ اگر ''تارے زمین پر'' کا ایشان اوسطی پڑھ لکھ نہیں پاتا اور بڑا ہوجاتا یا پھر اس کی زندگی میں عامر خان جیسا کوئی استاد آتا اور وہ اسے لکھنا پڑھنا سکھا دیتا لیکن ایشان کے والد اسے پینٹنگ کے بجائے انجینئرنگ کی ڈگری حاصل کرنے پر بضد ہوجاتے؟ چلیں جانے دیجئے، سوچیئے اگر فلم تھری ایڈیٹس کے فرحان قریشی کو راجو رستوگی اور رنچھوڑ داس جیسے دوست ناں ملتے تو آج فرحان انجینئرنگ اور تصویر نگاری کے درمیان ہچکولے کھاتا نظر آتا۔

ایسی ہی کچھ کہانی فلم تماشہ کی بھی ہے۔۔۔۔۔

فرق صرف اتنا ہے کہ امتیاز علی نے اپنی پچھلی فلموں خصوصاً ''راک اسٹار'' اور ''جب وی میٹ'' میں شامل رومینس اور ایموشنز کا تڑکا بھی اس تماشے کا حصہ رکھا ہے۔

فلم میں رنبیر کپور یعنی وید ودھن شرما اور دیپکا پاڈوکون یعنی تارا مہیشوری مرکزی کرداروں میں نظر آئے ہیں۔ پاکستانی اداکار جاوید شیخ نے رنبیر کے والد، وویک مشرن نے رنبیر کے باس اور پیوش مشرا نے اسٹوری ٹیلر کا دلچسپ کردار نبھایا ہے۔



فلم کی ہدایتکاری کا سہرا مکمل طور پر امتیاز علی کے سر جبکہ فلم کی منفرد موسیقی اے آر رحمان کے حصے میں آئی ہے۔ مجموعی طور پر فلم میں 5 گانے شامل کئے گئے ہیں جس میں موہت چوہان کا 'مٹر گشتی' اور میکا سنگھ کا 'ہیر تو بڑی سیڈ ہے' عوام میں مقبول ہوئے ہیں۔



رُخ کرتے ہیں فرانس کا جہاں دیپیکا یعنی تارا ایک فرینچ کو انگریزی میں کچھ سمجھانے کی کوشش کر رہی ہے لیکن وہ فرینچ ہے کہ اپنی زبان سے ہٹ کر بات ہی نہیں سن رہا اور بالاخر ہمت ہار کر تارا اسے ہندی میں گالی دیکر ساحل کنارے اسی ریستوران کی اونچائی پر کھڑی ہوجاتی ہے۔ پاس ہی بیٹھے ہیرو صاحب رنبیر یعنی وید اسے اپنی ہم زبان جان کر اس کے پیچھے چلا آتا ہے۔ وہ تارا اس کا مسئلہ دریافت کرتا ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ اس کا بیگ فرانس میں گم ہوچکا ہے۔ جس میں پاسپورٹ سمیت تمام دستاویزات ہیں، تارا بتاتی ہے کہ وہ اس فرینچ سے صرف ایک کال کے لئے فون استعمال کرنے کی اجازت مانگ رہی تھی۔ وید تارا کو اپنا فون دیتا ہے اور تارا اپنے گھر پر کال کر پاتی ہے۔

https://twitter.com/SilentEloquens/status/668726034548842496

اس بیچ وید اور تارا کی باتوں کا انداز کچھ ڈرامائی ہے۔ وید ڈان بن کر تارا سے مکالمہ کرتا ہے اور تارا بھی ڈرامائی انداز اپناتے ہوئے اسے جواب دیتی ہے۔ دونوں کے درمیان یہ طے پاتا ہے کہ جب تک تارا کا پاسپورٹ نہیں آجاتا دونوں ایک دوسرے کے ساتھ رہیں گے اور اپنے بارے میں کچھ بھی سچ نہیں بتائیں گے اور جو کچھ فرانس میں ہوگا وہ وہیں دفن ہوجائے گا۔

دونوں تقریباً اسی انداز میں چلاتے ہیں جیسے راک اسٹار میں نرگس فخری اور رنبیر غُل مچانے کے لئے چلائے تھے اور کہتے ہیں کہ،
''جو کہیں گے جھوٹ کہیں گے، جھوٹ کے سوا کچھ نہیں کہیں گے''۔

فلیش بیک

گو کہ یہ سلسلہ فلم کی شروعات میں زیادہ قابض رہا ہے تاہم اس نے فلم کو شائقین سے جوڑے رکھا۔ فلیش بیک میں وید کا بچپن ہے جہاں اس کے محلے میں موجود ایک بوڑھا بابا چند پیسوں کےعوض اسے کہانی سناتا ہے۔ وید باقاعدگی سے ان کہانیوں کو سنتا اور اپنی زندگی سے ان کا تعلق جوڑتا ہے۔ وید کے والد اُسے زبردستی انجینیئر بناتے ہیں اور اس کے سپنوں پر پانی پھر جاتا ہے۔
وید اور تارا کی وطن واپسی

وید اور تارا کے درمیان ہوا معاہدہ ختم ہونے کے بعد دونوں اپنے اپنے گھروں کو ہو لیتے ہیں۔ تارا اپنی زندگی میں مصروف ضرور ہوجاتی ہے لیکن وید کا خیال دل سے نہیں نکال پاتی۔ فلم میں موجود گانا ''ہیر تو بڑی سیڈ ہے'' اسی پس منظر میں فلمایا گیا ہے جہاں گانے کے دوران تارا کی زندگی کے 4 سال بیت جاتے ہیں مگر تارا کو وید کے ساتھ بتائے چند لمحے بھلائے نہیں بھول پاتے۔ اس دوران تارا کسی کام سے دلی آتی ہے اور وہاں ایک بار پھر وید اور تارا کی ملاقات ہوجاتی ہے مگر یہ وید کون ہے؟
وید کا نیا روپ یا اصلی چہرہ؟

واقعی یہ تو تماشہ ہے، ایک کمپنی کا عام سا ملازم ہے وید جس کی زندگی میں یس سر، نو سر، گڈ مارننگ سر اور اوکے سر کے سوا کچھ بھی نہیں ہے۔ وہ دیوانہ ہے، مجنوں ہے یا کوئی اور اس کا فیصلہ آپ خود بہتر کرسکیں گے، یہاں بھی فلیش بیک فلم پر غالب رہے گا اور تارا وید کے اس رویے سے مایوس ہوکر ایک بار پھر اس کی زندگی سے دور چلی جائے گی۔

فلم کا اختتام بڑا دلچسپ ہے تاہم فلم کچھ مقامات پر بورنگ بھی ہے لیکن اس میں امتیاز علی قصور وار اس لئے بھی نہیں کہ اگر وہ بوریت نہ ہو تو فلم سمجھنا خاصی مشکل ہوجائے۔

فلم ''تماشہ'' کو شائقین اپنے زاویہ نگاہ سے دیکھتے ہیں اور ناقدین اپنے۔

دراصل امتیاز علی نے فلم میں زندگی کے ہر حصے کا کچھ رنگ اٹھا کر بھر دیا ہے جسے ہر شخص اپنے زاویے سے محسوس کرکے فلم کی کہانی کو خود کی زندگی سے جوڑ سکتا ہے۔ بحیثیت ناقد میں یقیناً فلم میں موجود خامیوں کو نظر انداز نہیں کرسکتا لیکن بحیثیت فلم بین فلم اگلے چند روز تک میں اپنی پوری زندگی کو وید کی زندگی سمجھتا رہا۔

[poll id="804"]

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں