ہم کس طرف جارہے ہیں

یہ بات ہمیں یاد رکھنی چاہیےکہ جب کوئی ظلم اور زیادتی کا نشانہ بنتا ہےتواس میں زیادتی کرنیوالا انسان ہوتا ہے مذہب نہیں۔


لوگوں کو بھی چاہیے کہ اپنی ذاتی پسند و ناپسند، سوچ اور سمجھ اور سب سے زیادہ ہم مذہب اور غیر مذہب ہونے کے فرق سے قطع نظر ہوکر حقائق کی بنیاد پر بات کیا کریں تاکہ خبر، خبر ہی رہے کسی مزید تصادم کا باعث نہ بنے۔ فوٹو: اے ایف پی

کسی بھی خبر کو خبر یا واقعے کے تناظر میں دیکھنا چاہیئے۔ یہ آپ کا حق ہے اگر کوئی خوشی کی خبر ہے تو اس پر خوشی کا اظہار کریں اور اگر خبر کسی سانحے سے متعلق ہے تو اس پر افسوس کا اظہار کریں اور اگر خبر عام نوعیت کی ہے تو آپ اپنی سوچ کے تحت تبصرہ بھی کرسکتے ہیں مگر یہ بات قطعی درست نہیں کہ آپ کسی خبر کو مذاہب کے میزان پر رکھ کر دیکھیں ورنہ ایسی کسی بھی صورت میں لازمی طور پر پلڑہ یقیناً کسی ایک جانب جُھکے گا۔

ایک وقت تھا جب کسی خبر کو فراہم کرنے کی ذمہ داری صحافی حضرات کے شانوں پر ہوتی تھی اور کسی خبر کے حوالے سے لوگوں کی رسائی ٹی وی اور ریڈیو تک تھی تو اُن دونوں ذرائع یعنی ٹی وی اور ریڈیو کے توسط سے ملنے والی خبر پر بحث و مباحثے کا مرکز گلی کا وہ نکڑ یا گھر ہوتا تھا جہاں محلے کے بزرگ اپنی محفل سجاتے تھے۔ مگر جیسے جیسے ہم ترقی کی جانب بڑھے گلی کے نکڑ کی یہ رونقیں سمٹ کر گھر کے ٹی وی لاؤنج تک محدود ہوگئیں، پھر رہی سہی کسر انٹرنیٹ کے فروغ نے پوری کردی۔ انٹرنیٹ نے دُنیا کو صرف گلوبل ولیج کے خطاب سے ہی نہیں نوازا بلکہ گلوبل کے اسی ولیج کے باعث نام نہاد ادیب، تبصرہ نگار، دانشور اور صحافیوں کی پیداوار بھی آلو مولی کی طرح رہی اور تابوت پر آخری کیل سوشل نیٹ ورکس کی بھرمار نے ٹھونکی جہاں سر فہرست ٹوئٹر اور فیس بک نے اس پیداوار کو کھپنے کے لئے ایک بازار بھی فراہم کردیا۔

تو بس اِس بازار کی تمام تر رونقیں ہمہ وقت درکار ایک گرما گرم خبر سے وابستہ ہوتی ہیں اور پھر کوئی خبر دستیاب ہوتے ہی اس خبر بازار کی رونقیں بحث و مباحثے کی صورت میں عروج پر ہوتی ہیں۔ جہاں دستیاب کسی بھی خبر کو ایڈوب فوٹو شاپ کے تحت ایک نیا رنگ دے دیا جاتا ہے اور پھر اپنی جانب سے پوچھے گئے مختلف قسم کے سوالات کے ہمراہ اس خبر کو پیش کیا جاتا ہے۔ جیسے عوامی سطح پر اس خبر پر ملنے والی ہاں یا ناں کے تناسب سے ہی کوئی فیصلہ طے پا جانا ہے۔ ٹی وی کی کوئی خبر ٹی وی پر تو سیکنڈوں یا منٹوں پر مشتمل دورانیہ پورا کرکے ختم ہوجاتی ہے لیکن جب یہی خبر اپنی اپنی سوچ کے تحت سوشل نیٹ ورکس پر پیش کی جاتی ہے تو یہ دنوں اور ہفتوں گونجتی ہے، بلکہ یہ کہنا چاہیے کہ اُس وقت تک گونچتی ہیں جب تک کوئی نئی خبر سامنے نہ آجائے اور پھر ایسی کسی خبر جس پر گھنٹوں اور دنوں سے اس قسم کے لوگ دھواں دھار تقاریر کررہے ہوتے ہیں یہ بھی یاد نہیں رہتا کہ کل ہمارا موضوع گفتگو کیا تھا یا ہم کس مسئلے کا رونا رو رہے تھے؟

ایک عام خبر تو ان سوشل نیٹ ورکس پر تماشہ بنتی ہی ہے مگر سونے پہ سہاگہ اُس وقت ہوتا ہے جب یہ خبر کسی غیر مذہب کے حوالے سے ہو تو انسانیت کا دم بھرنے والے ایسی کسی بھی خبر کو دو مذاہب کے تصادم کی صورت پیش کرنے میں ایک فخر محسوس کرتے ہیں۔ اس بات سے قطعی بے خبر کہ اس کے نتائج کیا نکلیں گے۔

آپ کو یاد ہوگی وہ خبر جس میں ایک مسیحی جوڑے کو اینٹوں کے بھٹے پر زندہ جلا دیا گیا تھا۔ یا ابھی چند ہفتے قبل کی یہ خبر کہ ایک اسکول پرنسپل نے ایک مسیحی بچی کو یہ کہہ کر واش روم میں بند کردیا کہ اُس کی ہمت کیسے ہوئی کہ وہ دیگر مسلم بچیوں کے زیرِ استعمال واش روم کو استعمال کرسکے؟

اور مذکورہ بالا ان دونوں خبروں کو بھی براہِ راست عیسائیت اور اسلام سے جوڑنے کی کوششیں کی جانے لگیں۔ جہاں دونوں مذاہب کے لوگ اپنے اپنے نقطہ نظر کے تحت بحث میں اُلجھے ہوئے تھے۔ اس طرح کی خبروں کے پسِ منظر میں اکثر و بیشتر ذاتی اختلافات و دشمنیاں ہوتی ہیں۔ ماسوائے کسی ایسی خبر کے جو کسی مذہبی توہین کا باعث بنی ہو۔ حالانکہ مذہبی معاملات سے متعلق خبریں جتنی حساس ہوتی ہیں اُس سے کہیں زیادہ توجہ اور حقائق طلب ہوتی ہیں کہ یہ خبر درست ہے بھی یا نہیں، اور اگر درست ہے تو کس حد تک درست ہے؟ کیونکہ بعض اوقات ہم مذہبی جنون میں اِس حد تک آگے نکل جاتے ہیں کہ اس پہلو کو بھی مدِنظر نہیں رکھتے کہ یہ تمام کھیل کسی ذاتی دشمنی کے سبب تو نہیں؟ میری اُن عیسائی، ہندو بھائیوں اور میرے ہم مذہب بھائیوں سے جو ایسی کسی خبر پر اُن کے ہمنوا ہوتے ہیں، اُن سے بھی یہی درخواست ہے کہ جب کوئی ظلم اور زیادتی کا نشانہ بنتا ہے تو اس میں زیادتی کرنے والا انسان ملوث ہے نہ کہ مذہب۔

اینٹوں کے بھٹے پہ جلائے جانے والے میسحی جوڑے کو ذاتی اختلافات کے باعث اپنی جانوں سے ہاتھ دھونے پڑے۔ اسی طرح واش روم میں بند کی جانے والی بچی کی خبر پرنسپل کی اپنی نفسیات کے باعث خبر بنی۔ اسلام کے باعث نہیں کہ وہ مسلم تھی تو اُس نے ایک میسحی بچی کو واش روم میں بطور سزا بند کیا۔ اگر نفسیات بگڑی ہوئی ہو تو ایسی خبر کا موجب مسلمان، ہندو، عیسائی یا کسی اور مذہب سے بھی ہوسکتا ہے۔

لہذا اس طرح کی خبروں کو سوشل نیٹ ورکس پر اپنی سوچ کے ساتھ مشتہر کرنے والے تمام افراد سے التماس ہے کہ کوئی خبر شئیر کرنا کوئی بُری بات نہیں، اُس پر گفتگو کرنا یا اظہار خیال کرنے میں بھی کوئی مضائقہ نہیں کہ یہ تمام چیزیں سوچنے اور سمجھنے کی صلاحیتوں کو جلا بخشتی ہیں۔ مگر غیرجانبدار ہو کر اپنی ذاتی پسند و ناپسند، سوچ اور سمجھ اور سب سے زیادہ ہم مذہب اور غیر مذہب ہونے کے فرق سے قطع نظر ہوکر حقائق کی بنیاد پر بات کیا کریں تاکہ خبر، خبر ہی رہے کسی مزید تصادم کا باعث نہ بنے۔

[poll id="810"]

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں

رائے

شیطان کے ایجنٹ

Nov 24, 2024 01:21 AM |

انسانی چہرہ

Nov 24, 2024 01:12 AM |