روس اور ترک قیادت دانشمندی کا مظاہرہ کرے
داعش کے ساتھ تیل کی تجارت کے الزام پر روس اور ترکی کے درمیان لفظی جنگ شدت اختیار کرتی جا رہی ہے
داعش کے ساتھ تیل کی تجارت کے الزام پر روس اور ترکی کے درمیان لفظی جنگ شدت اختیار کرتی جا رہی ہے جس کے اثرات خطے کے امن پر لامحالہ پڑیں گے، نیز روس کی جانب سے ترکی پر عائد کی گئی اقتصادی پابندیاں بھی چپقلش کو ہوا دینے کا باعث بنیں گی۔ ترکی کے صدر رجب طیب اردوان نے ماحولیاتی تبدیلی کے حوالے سے پیرس میں ہونے والی کانفرنس کے دوران سائیڈ لائن مذاکرات میں کہا ہے کہ اگر ان کے ملک پر روسی صدر کا لگایا ہوا الزام ثابت ہوجاتا ہے تو ملک کا وقار اس کا تقاضا کرتا ہے کہ میں اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دوں۔
انھوں نے روس سے کہا کہ اگر آپ کوئی الزام عائد کرتے ہیں تو اسے ثابت بھی کرنا چاہیے، آپ کے پاس کوئی دستاویزات ہیں تو انھیں سامنے لائیے۔ انھوں نے روسی صدر پوتن کو مشورہ دیا کہ انھیں جذباتی ردعمل دینے کے بجائے صبر و تحمل سے کام لینا چاہیے۔ واضح رہے کہ روسی صدر نے پیر کو پیرس میں ترکی پر الزام عائد کیا تھا کہ اس نے روسی جہاز دہشت گرد تنظیم داعش سے اپنی تیل کی تجارت کو تحفظ دینے کے لیے گرایا، جسے ترکی نے یکسر مسترد کردیا تھا۔ دوسری جانب امریکی صدر اوباما نے ترکی کے ساتھ کا عندیہ دیتے ہوئے ترکی کے دفاع کے حق کی حمایت کی ہے۔
گزشتہ روز پیرس میں اپنے ترک ہم منصب اردوان کے ساتھ ملاقات کے بعد اوباما نے واضح کیا کہ انقرہ حکومت کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنی فضائی سرحدوںکی حفاظت کرے۔ امریکی صدر کا کہنا تھا کہ ترکی اور روس بڑھتی ہوئی کشیدگی کو ختم کرنے کے لیے درمیانی راستہ اختیار کریں۔ روسی صدر کو پیغام میں ان کا کہنا تھا کہ داعش ہمارا مشترکہ دشمن ہے اور ہمیں اس خطرے پر توجہ مرکوز رکھنی چاہیے۔
ترک صدر نے موقف اختیار کیا ہے کہ روس کی جانب سے عائد کی گئی اقتصادی پابندیوں کا جواب دینے کے سلسلے میں بھی ان کا ملک تحمل سے کام لے گا۔ مناسب ہوگا کہ امریکا اور نیٹو روس اور ترکی کے درمیان بڑھتی چپقلش میں مصالحت کا کردار ادا کریں۔ دونوں ممالک کو ایک دوسرے پر الزام تراشی کے بجائے مذاکرات کی میز پر معاملات سلجھانے کی کوشش کرنی چاہیے۔ باہمی چپقلش نہ صرف خطے کے امن کے لیے خطرناک ہے بلکہ داعش جیسی تنظیموں کی بیخ کنی سے توجہ ہٹانے کا باعث بھی بنے گی۔تاہم المیہ یہ ہے داعش کودہشت گردی کا سازگار ماحول دینے والے بھی یہی ملک ہیں جو داعش کے خاتمہ کی کوششوں میں بظاہر مصروف نظر آتے ہیں۔
انھوں نے روس سے کہا کہ اگر آپ کوئی الزام عائد کرتے ہیں تو اسے ثابت بھی کرنا چاہیے، آپ کے پاس کوئی دستاویزات ہیں تو انھیں سامنے لائیے۔ انھوں نے روسی صدر پوتن کو مشورہ دیا کہ انھیں جذباتی ردعمل دینے کے بجائے صبر و تحمل سے کام لینا چاہیے۔ واضح رہے کہ روسی صدر نے پیر کو پیرس میں ترکی پر الزام عائد کیا تھا کہ اس نے روسی جہاز دہشت گرد تنظیم داعش سے اپنی تیل کی تجارت کو تحفظ دینے کے لیے گرایا، جسے ترکی نے یکسر مسترد کردیا تھا۔ دوسری جانب امریکی صدر اوباما نے ترکی کے ساتھ کا عندیہ دیتے ہوئے ترکی کے دفاع کے حق کی حمایت کی ہے۔
گزشتہ روز پیرس میں اپنے ترک ہم منصب اردوان کے ساتھ ملاقات کے بعد اوباما نے واضح کیا کہ انقرہ حکومت کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنی فضائی سرحدوںکی حفاظت کرے۔ امریکی صدر کا کہنا تھا کہ ترکی اور روس بڑھتی ہوئی کشیدگی کو ختم کرنے کے لیے درمیانی راستہ اختیار کریں۔ روسی صدر کو پیغام میں ان کا کہنا تھا کہ داعش ہمارا مشترکہ دشمن ہے اور ہمیں اس خطرے پر توجہ مرکوز رکھنی چاہیے۔
ترک صدر نے موقف اختیار کیا ہے کہ روس کی جانب سے عائد کی گئی اقتصادی پابندیوں کا جواب دینے کے سلسلے میں بھی ان کا ملک تحمل سے کام لے گا۔ مناسب ہوگا کہ امریکا اور نیٹو روس اور ترکی کے درمیان بڑھتی چپقلش میں مصالحت کا کردار ادا کریں۔ دونوں ممالک کو ایک دوسرے پر الزام تراشی کے بجائے مذاکرات کی میز پر معاملات سلجھانے کی کوشش کرنی چاہیے۔ باہمی چپقلش نہ صرف خطے کے امن کے لیے خطرناک ہے بلکہ داعش جیسی تنظیموں کی بیخ کنی سے توجہ ہٹانے کا باعث بھی بنے گی۔تاہم المیہ یہ ہے داعش کودہشت گردی کا سازگار ماحول دینے والے بھی یہی ملک ہیں جو داعش کے خاتمہ کی کوششوں میں بظاہر مصروف نظر آتے ہیں۔