لاہور۔۔۔۔تیری خیر
ایسے میں وہ عمر رسیدہ لوگ جو تنہائی کا کرب جھیل رہے ہیں، ان کے لیے ایک بڑا سوالیہ نشان یہ بھی ہے
آج کے دور کا ایک عجب المیہ ہے کہ وہ لوگ جو صاحب ذوق ہیں، فنون لطیفہ کی کسی بھی شاخ سے وابستہ ہیں، نادر تصاویر، نایاب کتب اور کراکری کا ذخیرہ رکھتے ہیں وہ اپنے بزرگوں کی طرح خوش نصیب نہیں ہیں، جن کی قیمتی اور بے مثال چیزوں کو انھوں نے اب بھی سنبھال کے رکھا ہوا ہے۔ لیکن اب یہ سوچ سوچ کر ہلکان ہوئے جاتے ہیں کہ ان کی اولاد نے تو انھیں جیتے جی چھوڑ دیا ہے، کوئی پردیس سدھار گیا، کوئی ایک ہی شہر میں ہوتے ہوئے بھی کوسوں دور، اور کسی نے جیتے جی والدین کو مردہ سمجھ لیا۔
ایسے میں وہ عمر رسیدہ لوگ جو تنہائی کا کرب جھیل رہے ہیں، ان کے لیے ایک بڑا سوالیہ نشان یہ بھی ہے کہ ان کے مرنے کے بعد ان قیمتی اشیا کا کیا ہوگا جو ان کے والدین کی نشانی ہیں؟وہ ان کا کیا کریں، وہ بخوبی جانتے ہیں کہ ان کی آنکھ بند ہوتے ہی وہ تمام اشیا بے کار اور بے مصرف ہوجائیں گی، جنھیں انھوں نے اب تک کلیجے سے لگا کر رکھا ہے؟ کوئی میوزیم نہیں جہاں وہ محفوظ ہوجائیں، کوئی صاحب ذوق خریدار نہیں جو انھیں اپنے ذخیرے میں شامل کرے؟ جب بزرگوں کی محبت ہی باقی نہیں رہی تو ان کی چھوڑی ہوئی اشیا شاید لوٹ کا مال سمجھ کر ادھر ادھر کردی جائیں۔
پچھلے دنوں ایک صاحب نے اس تکلیف کا اظہار کیا کہ وہ اکیلے رہتے ہیں، ان کے پاس نایاب کتابوں، پینٹنگز اور کراکری کا ذخیرہ تھا۔ کتابیں دوست احباب مانگ کر لے گئے اور پھر کبھی واپس نہیں کیں۔ پینٹنگز سیلن سے خراب ہوگئیں اور پھینکنی پڑیں۔ اب لے دے کے ان کے پاس تقریباً سو سال پرانا نہایت نفیس، نازک اور منفرد ٹی سیٹ بچا ہے۔ جسے وہ محفوظ ہاتھوں میں دینا چاہتے ہیں۔ لیکن انھیں کسی ایسے ادارے تک رسائی حاصل نہیں ہے۔ جہاں ان کی کراکری محفوظ ہوجائے۔
کچھ لوگوں نے انھیں برنس گارڈن میوزیم کراچی کا پتا بتایا، کسی نے لاہور کے شاہی قلعے کے منتظمین سے رابطہ کرنے کو کہا۔ انھوں نے دونوں جگہ کئی سال قبل خطوط لکھے، مگر کوئی شنوائی نہیں ہوئی۔ بعض ہمدرد دوستوں نے مشورہ دیا کہ وہ ایسا نایاب سیٹ جو آج تک استعمال نہیں ہوا صرف سجا کر رکھا گیا اسے یوں ہی ضایع نہ کریں بلکہ کسی ادارے کو قیمتاً دیں۔
کیونکہ اس بات کی کیا ضمانت ہے کہ جو صاحب یا انچارج ان سے میوزیم کے لیے اس نادر سیٹ کو تحفتاً حاصل کریں گے، وہ آگے اسے کس قیمت پر فروخت کریں گے؟ لہٰذا اس سلسلے میں ایک واقف کار نے جب یہ صورت حال بتائی تو سوچا کہ ان کا ای میل ایڈریس کالم میں دے دیتے ہیں۔ آگے ان کا نصیب۔ خواہش مند اور باذوق خواتین و حضرات ان سے اس ای میل پہ رابطہ کرکے فون نمبر لے سکتے ہیں۔ای میل: navaderat@gmail.com
بات میوزیم اور نوادرات کی نکلی تو ایک خبر نے مجھے واقعی پریشان کردیا۔ یہ خبر میرے پسندیدہ شہر لاہور سے متعلق ہے۔ شنید ہے کہ پنجاب گورنمنٹ کوئی ''اورنج ٹرین منصوبہ'' شروع کر رہی ہے، جس کے لیے لاہور کی پرانی تاریخی عمارتوں کو مسمار کیا جا رہا ہے۔ اس منصوبے کی تکمیل میں، انارکلی، چوبرجی، کپورتھلہ ہاؤس، شالامار باغ، دائی انگہ کا مقبرہ اور قبرستان مسمار کیے جائیں گے، جو لاہور ہی کی نہیں ہماری تہذیب و ثقافت کی آئینہ دار ہیں۔
لاہور میں قدم قدم پہ تاریخ بکھری پڑی ہے۔ مہذب اقوام اپنی تاریخی عمارتوں اور آثار قدیمہ کی حفاظت خزانے کی طرح کرتی ہیں تاکہ دنیا کو پتا چل سکے کہ یہ شہر اور اس کی عمارتیں راتوں رات وجود میں نہیں آئی ہیں بلکہ ان کے پیچھے ایک شاندار ماضی بھی ہے۔ فرانس، برطانیہ، مصر، چین اور اسپین کی تہذیبیں بہت پرانی ہیں اور اسی لیے سیاحوں کے لیے باعث کشش بھی ہیں۔ لیکن ہم وہ ''منفرد'' قوم ہیں جو اپنی تاریخی عمارتوں کو خود تباہ کر رہے ہیں ۔
بعض خودساختہ دانش ور مختلف حیلے بہانوں سے مغلوں کی خصوصاً اکبر اعظم اور شاہ جہاں کی مذمت کرتے ہیں۔ لیکن ان کے پاس اس سوال کا کوئی جواب نہیں ہوتا کہ تمام بیرونی حملہ آور افغانستان سے لاہور آتے تھے اور پھر سیدھے دہلی نکل جاتے تھے۔ کسی نے کبھی کسی حملہ آور کی مزاحمت نہیں کی، بلکہ پنڈاری ہر جگہ ساتھ دینے کو آمادہ ہوجاتے تھے، تاکہ لوٹ کا مال ہاتھ لگے۔
موجودہ حکمران دائی انگہ کا مقبرہ اور انارکلی اسی لیے برباد کرنا چاہتے ہیں کہ کہیں کوئی تاریخ کا طالب علم یا سیاح یہ نہ پوچھ سکے کہ دائی انگہ کون تھی؟ دائی انگہ نے اکبر کی پرورش کی تھی بالکل ماں کی طرح، اسی لیے محل کے معاملات میں بھی وہ دخیل تھی۔ انارکلی اور شہنشاہ جہانگیر کی کہانی بھلا کسے معلوم نہیں ہوگی۔ پہلی بار بچپن میں جب لاہور گئے تھے تو سب سے پہلے انارکلی کا مزار دیکھنے کی ضد کی تھی۔
شاہ جہاں نے برصغیر میں جتنی عمارتیں بنوائی ہیں اتنی کسی اور حکمراں نے نہیں۔ لیکن ہمارے متعصب اینکرز اور تجزیہ کار یہ کہتے نہیں تھکتے کہ شاہ جہاں نے اپنی چہیتی بیگم کا مقبرہ عوام کے پیسے سے بنوا کر زیادتی اور بے ایمانی کی تھی؟ لیکن یہ یاد نہیں رکھتے کہ پاکستان کے حکم رانوں نے عوام کے پیسہ لوٹ کر کون سی ایسی عمارت یا اسپتال بنایا جو عوام الناس کے لیے یا سیاحوں کے لیے کشش کا باعث ہو۔ البتہ انھوں نے قومی دولت اور عوام کے ٹیکس کے پیسوں سے ''سرے محل'' خریدے۔ فرانس میں ''شاطو'' خریدا۔ جاتی امرا نامی گاؤں کی یاد میں عوام کا پیسہ لٹا دیا۔ ذرا ٹھنڈے دل و دماغ سے تعصب اور منفی سوچ کو ایک طرف رکھ کر بتایے، کہ ہے کوئی عمارت ''تاج محل'' جیسی جو سیاحوں کی جیبوں سے دھڑا دھڑ ڈالرز اور پونڈز نکلوا کر قومی خزانے میں جمع کروائے؟
ہمیں نہ اورنج منصوبے پہ اعتراض ہے نہ میٹرو پر۔ پنجاب گورنمنٹ چاہے تو لال، نیلے، پیلے، سبز، سنہری، کالے، جامنی اورنج تمام رنگوں کے منصوبے شروع کردیے۔ لیکن خدارا! لاہور کی تاریخی حیثیت کو برباد مت کیجیے۔ ایسا لگتا ہے جیسے پنجاب گورنمنٹ ترقی کے نام پر ماضی کے تمام نشان مٹا کر اپنے نام کی تختیاں لگوانا چاہتی ہے۔ بالکل ایسے ہی جیسے رنجیت سنگھ نے کیا تھا اور بادشاہی مسجد کو اصطبل بنا دیا تھا۔ لیکن ہم نے ان کے گردوارے کو تحفظ دیا، یاتریوں کو راہداری اور ویزے دیے۔ لاہور ایک ایسا شہر ہے جہاں اجنبیت کا احساس نہیں ہوتا۔ پرانے لاہور میں جہاں ہر طرف تاریخ بکھری پڑی ہے۔ اسے اورنج ٹرین کے منصوبے کی نذر نہیں ہونا چاہیے۔
سندھ میں بالخصوص ٹھٹھہ اور مکلی کے تاریخی مقامات اور قبرستان میں نادرالوجود قبروں سے لوگ پتھر چوری کرکے لے جا رہے ہیں۔ ٹھٹھہ کی جامع مسجد بھی شاہ جہاں کی بنوائی ہوئی ہے۔
ادھر بھی لینڈ مافیا کی نظریں ہیں۔ بھٹو صاحب نے جام صادق کو فری ہینڈ دیتے ہوئے کہا تھا ''صرف بابا کا مزار چھوڑ دینا'' آج بھی کراچی کو ایک طاقت ور شخصیت نے لینڈ مافیا کے سرپرست کو تحفے میں دے دی ہے۔ ابھی یہی صدمہ کیا کم تھا کہ ادھر سے لاہور کی خبر آگئی۔ جب سے یہ خبر پڑھی ہے یوں لگتا ہے جیسے چند سال میں مقبرہ جہانگیر، مقبرہ نورجہاں، کامران کی بارہ دری کے ساتھ ساتھ اور بھی بہت کچھ مٹ جائے گا۔ پاکستان وہ بدنصیب ملک ہے جس کے آثار قدیمہ پہ کوئی توجہ نہیں دی گئی۔ لینڈ مافیا کا بس نہیں چلتا کہ وہ علامہ اقبال اور بابائے قوم کے مزار پر بھی ہاتھ صاف کردے۔
کاش کالم کے چھپنے تک یہ خبر آجائے کہ اورنج ٹرین کا منصوبہ ترک کردیا گیا ہے۔ سنا ہے اس منصوبے پر کچھ دوسرے منصوبوں کی رقم بھی خرچ کی جا رہی ہے۔
ایسے میں وہ عمر رسیدہ لوگ جو تنہائی کا کرب جھیل رہے ہیں، ان کے لیے ایک بڑا سوالیہ نشان یہ بھی ہے کہ ان کے مرنے کے بعد ان قیمتی اشیا کا کیا ہوگا جو ان کے والدین کی نشانی ہیں؟وہ ان کا کیا کریں، وہ بخوبی جانتے ہیں کہ ان کی آنکھ بند ہوتے ہی وہ تمام اشیا بے کار اور بے مصرف ہوجائیں گی، جنھیں انھوں نے اب تک کلیجے سے لگا کر رکھا ہے؟ کوئی میوزیم نہیں جہاں وہ محفوظ ہوجائیں، کوئی صاحب ذوق خریدار نہیں جو انھیں اپنے ذخیرے میں شامل کرے؟ جب بزرگوں کی محبت ہی باقی نہیں رہی تو ان کی چھوڑی ہوئی اشیا شاید لوٹ کا مال سمجھ کر ادھر ادھر کردی جائیں۔
پچھلے دنوں ایک صاحب نے اس تکلیف کا اظہار کیا کہ وہ اکیلے رہتے ہیں، ان کے پاس نایاب کتابوں، پینٹنگز اور کراکری کا ذخیرہ تھا۔ کتابیں دوست احباب مانگ کر لے گئے اور پھر کبھی واپس نہیں کیں۔ پینٹنگز سیلن سے خراب ہوگئیں اور پھینکنی پڑیں۔ اب لے دے کے ان کے پاس تقریباً سو سال پرانا نہایت نفیس، نازک اور منفرد ٹی سیٹ بچا ہے۔ جسے وہ محفوظ ہاتھوں میں دینا چاہتے ہیں۔ لیکن انھیں کسی ایسے ادارے تک رسائی حاصل نہیں ہے۔ جہاں ان کی کراکری محفوظ ہوجائے۔
کچھ لوگوں نے انھیں برنس گارڈن میوزیم کراچی کا پتا بتایا، کسی نے لاہور کے شاہی قلعے کے منتظمین سے رابطہ کرنے کو کہا۔ انھوں نے دونوں جگہ کئی سال قبل خطوط لکھے، مگر کوئی شنوائی نہیں ہوئی۔ بعض ہمدرد دوستوں نے مشورہ دیا کہ وہ ایسا نایاب سیٹ جو آج تک استعمال نہیں ہوا صرف سجا کر رکھا گیا اسے یوں ہی ضایع نہ کریں بلکہ کسی ادارے کو قیمتاً دیں۔
کیونکہ اس بات کی کیا ضمانت ہے کہ جو صاحب یا انچارج ان سے میوزیم کے لیے اس نادر سیٹ کو تحفتاً حاصل کریں گے، وہ آگے اسے کس قیمت پر فروخت کریں گے؟ لہٰذا اس سلسلے میں ایک واقف کار نے جب یہ صورت حال بتائی تو سوچا کہ ان کا ای میل ایڈریس کالم میں دے دیتے ہیں۔ آگے ان کا نصیب۔ خواہش مند اور باذوق خواتین و حضرات ان سے اس ای میل پہ رابطہ کرکے فون نمبر لے سکتے ہیں۔ای میل: navaderat@gmail.com
بات میوزیم اور نوادرات کی نکلی تو ایک خبر نے مجھے واقعی پریشان کردیا۔ یہ خبر میرے پسندیدہ شہر لاہور سے متعلق ہے۔ شنید ہے کہ پنجاب گورنمنٹ کوئی ''اورنج ٹرین منصوبہ'' شروع کر رہی ہے، جس کے لیے لاہور کی پرانی تاریخی عمارتوں کو مسمار کیا جا رہا ہے۔ اس منصوبے کی تکمیل میں، انارکلی، چوبرجی، کپورتھلہ ہاؤس، شالامار باغ، دائی انگہ کا مقبرہ اور قبرستان مسمار کیے جائیں گے، جو لاہور ہی کی نہیں ہماری تہذیب و ثقافت کی آئینہ دار ہیں۔
لاہور میں قدم قدم پہ تاریخ بکھری پڑی ہے۔ مہذب اقوام اپنی تاریخی عمارتوں اور آثار قدیمہ کی حفاظت خزانے کی طرح کرتی ہیں تاکہ دنیا کو پتا چل سکے کہ یہ شہر اور اس کی عمارتیں راتوں رات وجود میں نہیں آئی ہیں بلکہ ان کے پیچھے ایک شاندار ماضی بھی ہے۔ فرانس، برطانیہ، مصر، چین اور اسپین کی تہذیبیں بہت پرانی ہیں اور اسی لیے سیاحوں کے لیے باعث کشش بھی ہیں۔ لیکن ہم وہ ''منفرد'' قوم ہیں جو اپنی تاریخی عمارتوں کو خود تباہ کر رہے ہیں ۔
بعض خودساختہ دانش ور مختلف حیلے بہانوں سے مغلوں کی خصوصاً اکبر اعظم اور شاہ جہاں کی مذمت کرتے ہیں۔ لیکن ان کے پاس اس سوال کا کوئی جواب نہیں ہوتا کہ تمام بیرونی حملہ آور افغانستان سے لاہور آتے تھے اور پھر سیدھے دہلی نکل جاتے تھے۔ کسی نے کبھی کسی حملہ آور کی مزاحمت نہیں کی، بلکہ پنڈاری ہر جگہ ساتھ دینے کو آمادہ ہوجاتے تھے، تاکہ لوٹ کا مال ہاتھ لگے۔
موجودہ حکمران دائی انگہ کا مقبرہ اور انارکلی اسی لیے برباد کرنا چاہتے ہیں کہ کہیں کوئی تاریخ کا طالب علم یا سیاح یہ نہ پوچھ سکے کہ دائی انگہ کون تھی؟ دائی انگہ نے اکبر کی پرورش کی تھی بالکل ماں کی طرح، اسی لیے محل کے معاملات میں بھی وہ دخیل تھی۔ انارکلی اور شہنشاہ جہانگیر کی کہانی بھلا کسے معلوم نہیں ہوگی۔ پہلی بار بچپن میں جب لاہور گئے تھے تو سب سے پہلے انارکلی کا مزار دیکھنے کی ضد کی تھی۔
شاہ جہاں نے برصغیر میں جتنی عمارتیں بنوائی ہیں اتنی کسی اور حکمراں نے نہیں۔ لیکن ہمارے متعصب اینکرز اور تجزیہ کار یہ کہتے نہیں تھکتے کہ شاہ جہاں نے اپنی چہیتی بیگم کا مقبرہ عوام کے پیسے سے بنوا کر زیادتی اور بے ایمانی کی تھی؟ لیکن یہ یاد نہیں رکھتے کہ پاکستان کے حکم رانوں نے عوام کے پیسہ لوٹ کر کون سی ایسی عمارت یا اسپتال بنایا جو عوام الناس کے لیے یا سیاحوں کے لیے کشش کا باعث ہو۔ البتہ انھوں نے قومی دولت اور عوام کے ٹیکس کے پیسوں سے ''سرے محل'' خریدے۔ فرانس میں ''شاطو'' خریدا۔ جاتی امرا نامی گاؤں کی یاد میں عوام کا پیسہ لٹا دیا۔ ذرا ٹھنڈے دل و دماغ سے تعصب اور منفی سوچ کو ایک طرف رکھ کر بتایے، کہ ہے کوئی عمارت ''تاج محل'' جیسی جو سیاحوں کی جیبوں سے دھڑا دھڑ ڈالرز اور پونڈز نکلوا کر قومی خزانے میں جمع کروائے؟
ہمیں نہ اورنج منصوبے پہ اعتراض ہے نہ میٹرو پر۔ پنجاب گورنمنٹ چاہے تو لال، نیلے، پیلے، سبز، سنہری، کالے، جامنی اورنج تمام رنگوں کے منصوبے شروع کردیے۔ لیکن خدارا! لاہور کی تاریخی حیثیت کو برباد مت کیجیے۔ ایسا لگتا ہے جیسے پنجاب گورنمنٹ ترقی کے نام پر ماضی کے تمام نشان مٹا کر اپنے نام کی تختیاں لگوانا چاہتی ہے۔ بالکل ایسے ہی جیسے رنجیت سنگھ نے کیا تھا اور بادشاہی مسجد کو اصطبل بنا دیا تھا۔ لیکن ہم نے ان کے گردوارے کو تحفظ دیا، یاتریوں کو راہداری اور ویزے دیے۔ لاہور ایک ایسا شہر ہے جہاں اجنبیت کا احساس نہیں ہوتا۔ پرانے لاہور میں جہاں ہر طرف تاریخ بکھری پڑی ہے۔ اسے اورنج ٹرین کے منصوبے کی نذر نہیں ہونا چاہیے۔
سندھ میں بالخصوص ٹھٹھہ اور مکلی کے تاریخی مقامات اور قبرستان میں نادرالوجود قبروں سے لوگ پتھر چوری کرکے لے جا رہے ہیں۔ ٹھٹھہ کی جامع مسجد بھی شاہ جہاں کی بنوائی ہوئی ہے۔
ادھر بھی لینڈ مافیا کی نظریں ہیں۔ بھٹو صاحب نے جام صادق کو فری ہینڈ دیتے ہوئے کہا تھا ''صرف بابا کا مزار چھوڑ دینا'' آج بھی کراچی کو ایک طاقت ور شخصیت نے لینڈ مافیا کے سرپرست کو تحفے میں دے دی ہے۔ ابھی یہی صدمہ کیا کم تھا کہ ادھر سے لاہور کی خبر آگئی۔ جب سے یہ خبر پڑھی ہے یوں لگتا ہے جیسے چند سال میں مقبرہ جہانگیر، مقبرہ نورجہاں، کامران کی بارہ دری کے ساتھ ساتھ اور بھی بہت کچھ مٹ جائے گا۔ پاکستان وہ بدنصیب ملک ہے جس کے آثار قدیمہ پہ کوئی توجہ نہیں دی گئی۔ لینڈ مافیا کا بس نہیں چلتا کہ وہ علامہ اقبال اور بابائے قوم کے مزار پر بھی ہاتھ صاف کردے۔
کاش کالم کے چھپنے تک یہ خبر آجائے کہ اورنج ٹرین کا منصوبہ ترک کردیا گیا ہے۔ سنا ہے اس منصوبے پر کچھ دوسرے منصوبوں کی رقم بھی خرچ کی جا رہی ہے۔