اسلام کا عالمگیر تصور امن

حیات طیبہ کی یہ جمال و جلال آفرین روشنی اور ضیا بار کرنیں انسانی زندگی کے ہر شعبے پر یکساں پڑتی ہیں۔


شاہین رحمن December 03, 2015

NEW DELHI: تاریخ میں اگرکوئی ایسی ہستی تلاش کی جائے جس کی سیرت انسانی سماج کے ہر فرد کے لیے رہنمائی رکھتی ہو، جس کی حیات طیبہ کو ہر شعبۂ زندگی کے لیے ایک بہترین آئیڈیل کے طور پر پیش کیا جا سکے، یعنی ایسی ہستی جس میں جامعیت اور تاریخیت اپنے پورے جمال و جلال کے ساتھ جلوہ گر ہو تو ہزارہا برس کی طویل انسانی تاریخ میں صرف ایک مقدس ہستی ایسی ملے گی۔ اور وہ ہے فخر کائنات سید الانبیا محمد رسول اﷲ کی ذات مبارکہ جس کے مثل نہ تو اس سے پہلے کوئی ہستی عالم وجود میں آئی اور نہ آیندہ ایسی اور نہ آیندہ ایسی جامعیت، کاملیت اور تاریخیت کے اوصاف کسی کو نصیب ہو سکیں گے۔

حیات طیبہ کی یہ جمال و جلال آفرین روشنی اور ضیا بار کرنیں انسانی زندگی کے ہر شعبے پر یکساں پڑتی ہیں۔ سیاسی زندگی ہو یا معاشی زندگی انفرادی زندگی ہو یا اجتماعی زندگی کے کسی بھی شعبے کا کوئی بھی مرحلہ درپیش ہو سیرت طیبہ کے بحر بیکراں میں اس کی ہدایت و رہنمائی کے درِنایاب موجود ہیں۔ رسول کریمؐ کی پاکیزہ زندگی انسانی سماج کے لیے بیش بہا متاع ہے، رسول کریم صلی اﷲ علیہ و سلم نے انسانی جان کو اتنا محترم اور قیمتی بنایا کہ ناحق کسی انسان کی جان لینے کو نہ صرف بہت بڑا گناہ بتایا، بلکہ قرآن نے تو ایک انسان کے قتل کو پوری انسانیت کے قتل کے برابر قرار دیا۔

عزت و آبرو اور دوسرے کے مال پرکسی قسم کی دست درازی کو سخت تعزیری جرم قرار دے کر ہر فرد کی عزت اور مال کے تحفظ کی ضمانت فراہم کی۔اسلام نے پہلی بار دنیا کو امن و محبت کا باقاعدہ درس دیا اور اس کے سامنے ایک پائیدار ضابطۂ اخلاق پیش کیا۔ جس کا نام ہی ''اسلام'' رکھا گیا یعنی ''دائمی امن و سکون اور لازوال سلامتی کا مذہب'' اسلام نے مضبوط بنیادوں پر امن و سکون کے ایک نئے باب کا آغاز کیا اور پوری علمی و اخلاقی حقوق بلندی کے ساتھ اس کو وسعت دینے کی کوشش کی۔

جس معاشرے کا شیرازہ امن بکھرتا ہے، اس کی پہلی زد انسانی جان پر پڑتی ہے۔ اسلام قتل و خونریزی کے علاوہ فتنہ انگیزی، دہشت گردی اور جھوٹی افواہوں کی گرم بازاری کو بھی سخت ناپسندکرتا ہے اور اس کو ایک جارحانہ اور وحشیانہ عمل قرار دیتا ہے۔ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے ایمان کی علامت یہ قرار دی ہے کہ اس سے کسی انسانی جان کو بلاوجہ تکلیف نہ پہنچے ''مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے مسلمان محفوظ رہیں اور مومن وہ ہے جس سے لوگوں کے جان و مال کو کوئی خطرہ نہ ہو۔''آج کل مسلمانوں اور مغربی دنیا کے ملکوں میں جو کچھ ہو رہا ہے، دل خون کے آنسو روتا ہے، شام پر بمباری اور پچھلے دنوں پیرس پر حملہ آخر وہ کون سی نا انصافی ہے جو مسلمانوں کوایسا کرنے پر مجبور کر رہی ہے۔

داعش کے نام سے جماعت ہے جو دہشت گردی میں ملوث ہے آج جب کہ دنیا ایک عالمی گاؤں (گلوبل ویلیج بن چکی ہے اور اس گاؤں میں مختلف مذاہب کے ماننے والے پڑوسی کی طرح رہنے لگے ہیں۔ سماجی زندگی خوشگوار بنانے کے لیے پڑوسیوں کے حقوق اور ان کے ساتھ زندگی گزارنے کے آداب انتہائی اہمیت رکھتے ہیں۔ ایک سماج کے لوگوں کے درمیان پر امن بھائی چارے، بقائے باہمی اور خوشگوار زندگی کا سب سے بہتر نمونہ ''اصول میثاق مدینہ کے نام سے ہمارے سامنے موجود ہے، رسول کریمؐ جب مدینہ تشریف لائے تو وہاں کے مختلف قبائل اور مذاہب کے ساتھ آپ نے معاہدہ فرمایا۔ یہ معاہدہ ''میثاق مدینہ'' ہے۔میثاق مدینہ نے مختلف مذاہب کے ماننے والوں کے درمیان ایک مشترک سماج کا اصول فراہم کیا ہے اور ان خطوط پر آج کے کثیر مذہبی سماج کی تشکیل کی جا سکتی ہے۔

خود غرضی اور مفاد پرستی کے موجودہ دور میں کتنی حق تلفیاں ہوئی ہیں، دیکھیے کہ رسول کریمؐ کی زبان فیضِ ترجمان کیسی ہدایت لوگوں کے لیے دی کہ دوسروں کے لیے وہی پسند نہ کرے جو اپنے لیے پسندکرتا ہے۔

پوری انسانی برادری کی خیر و فلاح کے لیے یہ کس قدر زریں اصول ہیں ۔ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کا مزید ارشاد ہے تم میں سے بہتر انسان وہ ہے جو لوگوں کو نفع پہنچائے، نفع پہنچانے کے مختلف طریقے ہوسکتے ہیں۔ نفع اور خیروبھلائی کے ہر طریقے کو سراہا گیا ہے کسی سے دو میٹھے بول کہہ دینا بھی صدقہ ہے کسی سے خوش دلی اور محبت کے ساتھ ملنا بھی صدقہ ہے۔انسانی سماج کا ایک اہم احساس اور تشویشناک مسئلہ ماحولیاتی آلودگی کا ہے اور اس کی تباہ کاریوں سے انسانی معاشرہ لڑ رہا ہے۔آج کا ایک اہم مسئلہ شدت پسندی، تشدد اور جارحانہ مزاج کا ہے۔ کسی بے گناہ پر ظلم اور زیادتی ناقابل تسلیم ہے کسی کو دہشت زدہ کرنا، خوف میں مبتلا کردینا قطعاً ممنوع ہے حتیٰ کہ کسی کے سامنے بلا وجہ تلوار لہرانے کو بھی غلط قرار دیا ہے۔

رسول اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ مسلمان تو وہ ہے جس کے ہاتھ اور جس کی زبان سے دوسرے محفوظ رہیں۔سماج میں باہمی اعتماد تعاون اور باہمی محبت کا فروغ سماج کی بنیادوں کو مضبوط کرتا ہے۔ ایسی مضبوطی کے لیے رسول کریمؐ نے خاصا اہتمام فرمایا ہے، بڑی تفصیل کے ساتھ ہدایات دی گئی ہیں کہ کسی کی غیر موجودگی میں اس کی برائی نہ کی جائے،کسی کی ٹوہ اور تجسس میں نہ پڑا جائے، کسی کو مدد کے موقعے پر بے یارومددگار نہ چھوڑا جائے،کسی کو برے نام اور برے لقب سے نہ پکارا جائے کسی کے بارے میں بد گمانی نہ رکھی جائے ہر انسان سے محبت کی جائے اس کے بارے میں حسن ظن رکھا جائے باہمی محبت کو بڑھاوا دینے کا نسخہ آپ نے یہ بتایاکہ ایک دوسرے کو تحفے تحائف دیے جائیں۔

سلام کو رواج دیا جائے، اس سے محبت بڑھتی ہے، باہمی مدد اور تعاون کا درجہ اتنا بلند کیا گیا ہے کہ فرمایا گیا کہ جب تک انسان اپنے کسی بھائی کی مدد کرتا رہتا ہے اﷲ تعالیٰ اس انسان کی مدد کرتا ہے، سماجی زندگی میں ایک اہم مسئلہ مختلف مذاہب کے احترام اور ان کے درمیان بقائے باہم کا ہے۔ سیرت طیبہ میں اس کے بارے میں بہت واضح ہدایات موجود ہیں۔ میثاق مدینہ میں تمام مذاہب والوں کے لیے اپنے اپنے مذہب پر عمل کی آزادی کی ضمانت تاریخ میں محفوظ ہے، قرآن نے واضح کردیا ہے کہ دین میں کوئی جبر نہیں ہے اور مذاہب کا فرق باہمی رواداری، باہمی تعاون، باہمی اشتراک عمل اور سماجی ہم آہنگی میں ہرگز رکاوٹ نہیں بنتا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں

رائے

شیطان کے ایجنٹ

Nov 24, 2024 01:21 AM |

انسانی چہرہ

Nov 24, 2024 01:12 AM |