پاکستان کرکٹ میں ’’عمر فکسنگ‘‘ کی پردہ پوشی کا انکشاف
میڈیکل رپورٹ کے مطابق انڈر19پینٹنگولرکپ میں شریک90فیصد پلیئرز زائد العمر، آفیشلزمعاملے کوچھپانے لگے
پاکستان کرکٹ میں''عمر فکسنگ''کی پردہ پوشی کا انکشاف ہوا ہے، میڈیکل رپورٹ کے مطابق انڈر 19 پینٹنگولر کپ میں شریک 90 فیصد کھلاڑی زائد العمر ہیں، کچھ آفیشلز معاملے کو چھپا کر گیم ڈیولپمنٹ کیلیے کی جانے والی کوششوں پر پانی پھیرنے لگے۔
تفصیلات کے مطابق پاکستان میں ڈومیسٹک اور بیرون ملک بھیجی جانے والی مختلف ایج لیول ٹیموں میں زائد العمر کھلاڑیوں کی شمولیت کا معاملہ انتہائی سنگین صورتحال اختیار کرچکا ہے۔ ''ایکسپریس ٹریبیون'' کے مطابق بورڈ میں ہی موجود کچھ آفیشلز اس اسکینڈل پر پردہ ڈالنے کی کوششوں میں مصروف ہیں، تازہ میڈیکل رپورٹس سے انکشاف ہواکہ پی سی بی انڈر19 ریجنل چیمپئن شپ میں شریک 18 ٹیموں کے 360 نامزد کھلاڑیوں میں سے 150 کی عمریں 19 سال سے زیادہ تھیں۔
بورڈ کی جانب سے آغا خان اسپتال اور شوکت خانم اسپتال کو کھلاڑیوں کی عمریں چیک کرنے کیلیے آفیشل طور پر نامزد کیا گیا ہے، تازہ رپورٹ شوکت خانم کی ہے جس میں اسلام آباد، راولپنڈی، پشاور اور فاٹا کی ٹیموں کے 90 فیصد کھلاڑی زائد العمر ہیں۔ تشویشناک بات یہ ہے کہ بجائے اس مسئلے کا تدارک کرنے کے اسلام آباد کے ایک اور ڈاکٹر کی رپورٹ جمع کرا دی گئی جو بذات خود بورڈ قوانین کی خلاف ورزی ہے۔
اس حوالے سے ایک آفیشل نے کہا کہ پی سی بی ہر سال انڈر 16 اور 19 سطح پر کھیل کو فروغ دینے کیلیے30 ملین روپے خرچ کرتا ہے، مگر ان فراڈیوں کی وجہ سے یہ رقم ضائع ہونے لگی،ایسے کھلاڑیوں کی اوسط عمر 23 سال ہے جو بدستور انڈر 19 میں کھیل رہے ہیں، ان پر سرمایہ کاری رقم ضائع کرنے کے مترادف ہے۔
آفیشل نے تصدیق کی کہ آسٹریلیا کو شکست دینے والی انڈر 16 ٹیم میں دو 19 سال کے کھلاڑیوں کو بھی شامل کیا گیا تھا، انڈر 19 پینٹنگولر کپ میں تقریباً سب ہی کھلاڑی زائد العمر اور یہ صورتحال کسی مذاق سے کم نہیں ہے۔ جب اس بارے میں جونیئر سلیکشن کمیٹی کے چیئرمین باسط علی سے پوچھا گیا تو وہ تمام تر ملبہ میڈیکل پینل پر ڈالتے ہوئے کہنے لگے کہ ہمارا کام عمریں نہیں صرف کارکردگی پر نظر رکھنا ہے،نیشنل کرکٹ اکیڈمی کے ڈائریکٹر ایزد سید نے اس حوالے سے کوئی بھی بات کرنے سے صاف انکارکردیا۔
تفصیلات کے مطابق پاکستان میں ڈومیسٹک اور بیرون ملک بھیجی جانے والی مختلف ایج لیول ٹیموں میں زائد العمر کھلاڑیوں کی شمولیت کا معاملہ انتہائی سنگین صورتحال اختیار کرچکا ہے۔ ''ایکسپریس ٹریبیون'' کے مطابق بورڈ میں ہی موجود کچھ آفیشلز اس اسکینڈل پر پردہ ڈالنے کی کوششوں میں مصروف ہیں، تازہ میڈیکل رپورٹس سے انکشاف ہواکہ پی سی بی انڈر19 ریجنل چیمپئن شپ میں شریک 18 ٹیموں کے 360 نامزد کھلاڑیوں میں سے 150 کی عمریں 19 سال سے زیادہ تھیں۔
بورڈ کی جانب سے آغا خان اسپتال اور شوکت خانم اسپتال کو کھلاڑیوں کی عمریں چیک کرنے کیلیے آفیشل طور پر نامزد کیا گیا ہے، تازہ رپورٹ شوکت خانم کی ہے جس میں اسلام آباد، راولپنڈی، پشاور اور فاٹا کی ٹیموں کے 90 فیصد کھلاڑی زائد العمر ہیں۔ تشویشناک بات یہ ہے کہ بجائے اس مسئلے کا تدارک کرنے کے اسلام آباد کے ایک اور ڈاکٹر کی رپورٹ جمع کرا دی گئی جو بذات خود بورڈ قوانین کی خلاف ورزی ہے۔
اس حوالے سے ایک آفیشل نے کہا کہ پی سی بی ہر سال انڈر 16 اور 19 سطح پر کھیل کو فروغ دینے کیلیے30 ملین روپے خرچ کرتا ہے، مگر ان فراڈیوں کی وجہ سے یہ رقم ضائع ہونے لگی،ایسے کھلاڑیوں کی اوسط عمر 23 سال ہے جو بدستور انڈر 19 میں کھیل رہے ہیں، ان پر سرمایہ کاری رقم ضائع کرنے کے مترادف ہے۔
آفیشل نے تصدیق کی کہ آسٹریلیا کو شکست دینے والی انڈر 16 ٹیم میں دو 19 سال کے کھلاڑیوں کو بھی شامل کیا گیا تھا، انڈر 19 پینٹنگولر کپ میں تقریباً سب ہی کھلاڑی زائد العمر اور یہ صورتحال کسی مذاق سے کم نہیں ہے۔ جب اس بارے میں جونیئر سلیکشن کمیٹی کے چیئرمین باسط علی سے پوچھا گیا تو وہ تمام تر ملبہ میڈیکل پینل پر ڈالتے ہوئے کہنے لگے کہ ہمارا کام عمریں نہیں صرف کارکردگی پر نظر رکھنا ہے،نیشنل کرکٹ اکیڈمی کے ڈائریکٹر ایزد سید نے اس حوالے سے کوئی بھی بات کرنے سے صاف انکارکردیا۔