کراچی کے بلدیاتی انتخابات حصہ اول
بلدیاتی انتخابات کے تیسرے اور آخری مرحلے میں پنجاب میں اب بھی مسلم لیگ نواز کے آگے رہنے کے امکانات زیادہ ہیں
بلدیاتی انتخابات کے تیسرے اور آخری مرحلے میں سندھ میں کراچی ڈویژن کے چھ اضلاع جب کہ پنجاب کے 12 اضلاع میں پانچ دسمبر کو انتخابات منعقد ہورہے ہیں۔
بلدیاتی انتخابات کے تیسرے اور آخری مرحلے میں پنجاب میں اب بھی مسلم لیگ نواز کے آگے رہنے کے امکانات زیادہ ہیں، جب کہ دوسرے نمبر پر آزاد ہی اپنا مومینٹم برقرار رکھیں گے۔ پنجاب کے مقابلے میں سندھ میں صورتحال مختلف ہے۔ ادھر اس بار سرکاری پارٹی اور آزاد کے بجائے متحدہ کی صورتحال مضبوط نظر آرہی ہے لیکن متحدہ کے زور کو توڑنے کے لیے اس بار یہاں کچھ اتحاد بنائے گئے ہیں، جنھوں نے اگر بہتر پرفارم کیا تو وہ متحدہ کی طاقت کا توڑ بن سکتے ہیں۔
کراچی ڈویژن میں ایک طرف تو پاکستان پیپلز پارٹی کی سربراہی میں جمعیت علمائے اسلام اور اے این پی کا اتحاد بنا ہے جب کہ دوسری جانب جماعت اسلامی اور پاکستان تحریک انصاف نے بھی مل کر انتخابات لڑنے کا فیصلہ کیا ہوا ہے۔ یہ دونوں اتحاد متحدہ کے لیے بہت سارے علاقوں میں مسائل کا سبب بن سکتے ہیں۔
ان تمام اتحادوں کا بنیادی مقصد متحدہ کو الیکشن سے آؤٹ کرنا ہے اور اس حوالے سے اس بار متحدہ مخالف جماعتیں ٹھیک ٹھاک عزم کا اظہار بھی کررہی ہیں۔ ان کے علاوہ ایم کیو ایم حقیقی بھی میدان میں موجود ہے اور پہلے سے زیادہ متحرک نظر آرہی ہے۔ وہ بھی مختلف ایریاز جیسے شاہ فیصل کالونی، ملیر، لانڈھی، لائنز ایریا وغیرہ میں متحدہ کو ٹف ٹائم دے سکتی ہے۔ اصل میں 2005 اور اب کی بار ہونے والے انتخابات میں بنیادی نوعیت کا فرق ہے۔ پچھلی بار ایم کیو ایم حقیقی میدان میں اتری ہوئی نہیں تھی، جس کی وجہ سے ظاہر ہے ایم کیو ایم حقیقی کے علاقوں میں بھی متحدہ کو فائدہ ہوا تھا۔
اس کے علاوہ پی ٹی آئی بھی میدان میں موجود نہیں تھی۔ پچھلی دفعہ کوئی اتحاد وغیرہ بھی بنے ہوئے نہیں تھے اور سب سے بڑا فرق یہ کہ پچھلی بار متحدہ صوبائی اور وفاقی سرکار کا حصہ تھی اور جنرل مشرف صاحب کی بلیو آئیڈ بوائے پارٹی بنی ہوئی تھی، جس کی وجہ سے انھیں سیاسی اور انتظامی حوالے سے ایک قسم کی برتری ملی ہوئی تھی۔ اس بار ان کے خلاف سات آٹھ مہینوں سے آپریشن بھی چل رہا ہے، جس کے باعث ان کا تنظیمی ڈھانچہ بھی اچھا خاصا ٹوٹ پھوٹ گیا ہے۔ کارکنان کا مورال بھی پہلے والا نہیں۔
یہ کسی قدر یقین سے کہا جاسکتا ہے کہ 2005 اور اس بار ہونے والے بلدیاتی انتخابات میں بنیادی فرق موجود ہے۔ 2005 میں متحدہ نے سٹی کاؤنسل کی 178 نشستوں میں سے 102 اپنے نام کی تھیں اور اکیلے ہی میئرشپ حاصل کرلی تھی۔ میرا خیال ہے بنیادی فرق کے باعث اس بار انتخابی نتائج میں بھی ٹھیک ٹھاک فرق نظر آئے گا، جس کے باعث متحدہ اس بار سنگل میجریٹی پارٹی بن کر ابھر نہیں سکے گی اور انھیں میئرشپ حاصل کرنے کے لیے کسی نہ کسی جماعت یا پھر اتحاد سے الحاق کرنا پڑے گا۔
میں نے اپنے طور پر جو ریسرچ کی ہے۔ مختلف علاقوں کے مکینوں سے جو بات چیت کی ہے اور کچھ علاقوں میں جاکر جو صورتحال کا جائزہ لیا ہے، اس کے بعد میرے سامنے مجموعی طور پر جو تصویر بن رہی ہے۔ اسے میں قارئین کے لیے ڈسٹرکٹ وائز پیش کرتا ہوں۔
کراچی ویسٹ (غربی): کراچی ویسٹ میں کل چار ٹاؤن ہیں۔ جس میں اورنگی، سائٹ، بلدیہ اور کیماڑی شامل ہیں۔ اس ضلع میں یونین کمیٹیز کی تعداد 46 ہے۔ یہاں مجموعی طور پر صورتحال متحدہ کے حق میں ہے، کیونکہ اورنگی اور بلدیہ ٹاون میں انھیں دوسری پارٹیوں کے مقابلے میں کامیابی ملنے کا زیادہ امکان ہے۔
جب کہ سائٹ ٹاؤن میں پٹھان آبادی کے باعث جماعت اسلامی اور تحریک انصاف کا اتحاد متحدہ کو کافی جگہوں پر پریشان کرسکتا ہے، باقی جہاں تک کیماڑی ٹاؤن کا تعلق ہے، وہاں متحدہ شاید ایک بھی سیٹ نہ جیت سکے۔ کیونکہ اس علاقے میں کافی پٹھان آبادیاں موجود ہیں، جوکہ اپنے کھڑے کیے ہوئے آزاد امیدواروں یا پھر جماعت اسلامی، تحریک انصاف اتحاد کو وو ٹ کرسکتے ہیں۔ کیماڑی ٹاؤن میں کافی تعداد میں سندھی آبادی بھی رہتی ہے۔ جوکہ پیپلز پارٹی کے امیدوارں کو ایک آدھ سیٹ جتوا سکتی ہے۔ موجودہ صورتحال کو دیکھ کر لگتا یہ ہے کہ کراچی ویسٹ کی آدھے سے زائد سیٹیں متحدہ جیتنے میں کامیاب ہوجائے گی، جب کہ باقی تیس سے چالیس فیصد سیٹیں متحدہ مخالف پارٹیاں جیت سکتی ہیں۔
کراچی سینٹرل (وسطی): کراچی سینٹرل میں کل چار ٹاؤنز لیاقت آباد، نارتھ ناظم آباد، گلبرگ اور نارتھ کراچی شامل ہیں۔ اس ضلع میں مجموعی طور پر 51 یونین کمیٹیز ہیں۔ یونین کمیٹیز کے لحاظ سے یہ کراچی ڈویژن کا سب سے بڑا ضلع ہے۔ اس ضلع سے متحدہ نے کبھی بھی کوئی انتخاب نہیں ہارا۔ اس ضلع کے لیے اگر یہ کہا جائے کہ یہ متحدہ کا آبائی ضلع ہے تو غلط نہ ہوگا۔ متحدہ کا صدر دفتر 90 بھی اسی ضلع میں واقع ہے۔
حال ہی میں جب اسی ضلع کے قومی اسیمبلی کے حلقہ این اے 246 پر ضمنی انتخاب ہوا تو وہ بھی متحدہ نے واضح اکثریت سے جیت لیا۔ اردو بولنے والے نوجوان تحریک انصاف کو ٹھیک ٹھاک تعداد میں ووٹ کرسکتے ہیں لیکن مجموعی طور پر یہاں پر بھی متحدہ کی کامیابی کے امکانات زیادہ ہیں۔ (پی ٹی آئی نے عام انتخابات میں اسی ضلع کے حلقہ این اے 145 سے تقریباً 60 ووٹ حاصل کیے تھے، جب کہ جماعت اسلامی نے 2005 کے بلدیاتی انتخابات میں 14 سیٹیں جیتی تھیں، اس لیے اپ سیٹ بھی ہوسکتے ہیں)۔
کراچی ایسٹ (شرقی): کراچی ایسٹ میں دو جمشید اور گلشن ٹاونز ہیں، جب کہ اس ضلع میں کل 31 یونین کمیٹیز پر مقابلہ ہورہا ہے۔ کراچی ایسٹ میں جمشید ٹاؤن میں مجموعی طور متحدہ کے جیتنے کے امکانات باقی سب سے زیادہ ہیں۔ باقی جہاں تک گلشن ٹاؤن کا تعلق ہے تو وہاں پر گلستان جوہر، یونیورسٹی روڈ، سچل گوٹھ، صفورا گوٹھ، پہلوان گوٹھ اور قرب و جوار کی کئی آبادیوں میں سندھی، پٹھان، پنجابی اور ہزارہ وال سے تعلق رکھنے والے افراد رہتے ہیں، اس لیے ان علاقوں میں زیادہ تر آزاد، پیپلز پارٹی، جماعت اسلامی، تحریک انصاف اتحاد اور اے این پی کے امیدوار جیت سکتے ہیں، مگر گلشن ٹاؤن کے کئی علاقوں سے متحدہ کی کامیابی کے بھی روشن امکانات موجود ہیں۔
کراچی ساؤتھ (جنوبی): کراچی ساؤتھ ضلع صدر اور لیاری ٹاؤن پر مشتمل ہے۔ اس ضلع میں کل 13 نشستیں ہیں، جن میں سے 16 صدر ٹاؤن میں، جب کہ 15 لیاری ٹاؤن میں ہیں۔ صدر ٹاؤن میں صدر، آرام باغ، سول لائنز، گارڈن اور کلفٹن کے علاقے شامل ہیں۔ صدر ٹاؤن کے اکثریتی علاقوں میں متحدہ کے جیتنے کے امکانات سب سے زیادہ ہیں، جب کہ کلفٹن، شیریں جناح کالونی، ہجرت کالونی اور کالاپل جیسے علاقوں سے جماعت اسلامی، پی ٹی آئی اتحاد کے جیتنے کے امکانات کافی حد تک روشن ہیں۔ ان میں سے آدھا حصہ پوش علاقوں پر مبنی ہے، جہاں کی آبادی زیادہ تر تحریک انصاف کو ووٹ کرے گی۔
جب کہ بیچ بیچ میں موجود کچی آبادیوں میں مقیم پٹھان اور ہزارہ وال کمیونٹیز بھی جماعت اسلامی، تحریک انصاف اتحاد کی طرف جھکاؤ اختیار کرسکتی ہیں۔ پٹھان آبادی اے این پی کے امیدواروں کو بھی جتواسکتی ہے، جب کہ یہاں سے آزاد امیدوار بھی جیتنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
دوسری جانب لیاری کی صورتحال کچھ عجیب و غریب نوعیت کی بن چکی ہے۔ یہاں سے تاریخی طور پر ہمیشہ پیپلز پارٹی جیتتی آئی ہے لیکن سننے میں آرہا ہے کہ یہاں کے رہنے والی اکثریتی بلوچ کمیونٹی پارٹی قیادت سے کچھ ناراض ہے، اس صورتحال کے باوجود کچھ صحافی دوستوں کا خیال ہے کہ پیپلزپارٹی کے امیدوار بس بجا تیر بجا، بجاتے ہوئے آئیں اور باقی کام بلوچ ووٹر پر چھوڑ دیں۔ لیاری ٹاؤن میں بغدادی، کمیلا، آگرہ تاج، بہار کالونی، جمن شاہ پلاٹ، عثمان آباد، حسن لشکری ولیج، نورانی کالونی، کلاکوٹ، بکرا پیڑی اور چاکیواڑہ کے علاقے شامل ہیں، جن میں بلوچ، سندھی، پنجابی، پٹھان اور کچھی کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے افراد مقیم ہیں۔ کچھ پاکیٹس میں پنجابی اور پٹھان بھی رہتے ہیں، جوکہ ممکنہ طور پر تحریک انصاف کو ووٹ کریں گے۔ لیاری کے علاقے سے متحدہ کو ایک بھی سیٹ ملنے کا کوئی امکان نہیں ہے۔
جب کہ لیاری سے پیپلز پارٹی اپنے آزاد امیدواروں سمیت 15 میں سے سات یا آٹھ سیٹیں جیت سکتی ہے۔ پیپلز پارٹی کو بدین میں ٹف ٹائم دینے والا ذوالفقارمرزا بھی لیاری کے میدان میں اترا ہوا ہے۔ سننے میں آرہا ہے کہ ان کی صورتحال بھی کمزور نہیں ہے۔ لیاری کی الیکشن پر مبینہ طور پر گینگ وار کی شمولیت کی بات بھی کی جارہی ہے۔ کہا جارہا ہے کہ لیاری گینگ وار کے دو مرکزی کردار بابا لاڈلا اور عزیر بلوچ مختلف امیدواروں کی پس پشت مدد کررہے ہیں۔ (جاری ہے)
بلدیاتی انتخابات کے تیسرے اور آخری مرحلے میں پنجاب میں اب بھی مسلم لیگ نواز کے آگے رہنے کے امکانات زیادہ ہیں، جب کہ دوسرے نمبر پر آزاد ہی اپنا مومینٹم برقرار رکھیں گے۔ پنجاب کے مقابلے میں سندھ میں صورتحال مختلف ہے۔ ادھر اس بار سرکاری پارٹی اور آزاد کے بجائے متحدہ کی صورتحال مضبوط نظر آرہی ہے لیکن متحدہ کے زور کو توڑنے کے لیے اس بار یہاں کچھ اتحاد بنائے گئے ہیں، جنھوں نے اگر بہتر پرفارم کیا تو وہ متحدہ کی طاقت کا توڑ بن سکتے ہیں۔
کراچی ڈویژن میں ایک طرف تو پاکستان پیپلز پارٹی کی سربراہی میں جمعیت علمائے اسلام اور اے این پی کا اتحاد بنا ہے جب کہ دوسری جانب جماعت اسلامی اور پاکستان تحریک انصاف نے بھی مل کر انتخابات لڑنے کا فیصلہ کیا ہوا ہے۔ یہ دونوں اتحاد متحدہ کے لیے بہت سارے علاقوں میں مسائل کا سبب بن سکتے ہیں۔
ان تمام اتحادوں کا بنیادی مقصد متحدہ کو الیکشن سے آؤٹ کرنا ہے اور اس حوالے سے اس بار متحدہ مخالف جماعتیں ٹھیک ٹھاک عزم کا اظہار بھی کررہی ہیں۔ ان کے علاوہ ایم کیو ایم حقیقی بھی میدان میں موجود ہے اور پہلے سے زیادہ متحرک نظر آرہی ہے۔ وہ بھی مختلف ایریاز جیسے شاہ فیصل کالونی، ملیر، لانڈھی، لائنز ایریا وغیرہ میں متحدہ کو ٹف ٹائم دے سکتی ہے۔ اصل میں 2005 اور اب کی بار ہونے والے انتخابات میں بنیادی نوعیت کا فرق ہے۔ پچھلی بار ایم کیو ایم حقیقی میدان میں اتری ہوئی نہیں تھی، جس کی وجہ سے ظاہر ہے ایم کیو ایم حقیقی کے علاقوں میں بھی متحدہ کو فائدہ ہوا تھا۔
اس کے علاوہ پی ٹی آئی بھی میدان میں موجود نہیں تھی۔ پچھلی دفعہ کوئی اتحاد وغیرہ بھی بنے ہوئے نہیں تھے اور سب سے بڑا فرق یہ کہ پچھلی بار متحدہ صوبائی اور وفاقی سرکار کا حصہ تھی اور جنرل مشرف صاحب کی بلیو آئیڈ بوائے پارٹی بنی ہوئی تھی، جس کی وجہ سے انھیں سیاسی اور انتظامی حوالے سے ایک قسم کی برتری ملی ہوئی تھی۔ اس بار ان کے خلاف سات آٹھ مہینوں سے آپریشن بھی چل رہا ہے، جس کے باعث ان کا تنظیمی ڈھانچہ بھی اچھا خاصا ٹوٹ پھوٹ گیا ہے۔ کارکنان کا مورال بھی پہلے والا نہیں۔
یہ کسی قدر یقین سے کہا جاسکتا ہے کہ 2005 اور اس بار ہونے والے بلدیاتی انتخابات میں بنیادی فرق موجود ہے۔ 2005 میں متحدہ نے سٹی کاؤنسل کی 178 نشستوں میں سے 102 اپنے نام کی تھیں اور اکیلے ہی میئرشپ حاصل کرلی تھی۔ میرا خیال ہے بنیادی فرق کے باعث اس بار انتخابی نتائج میں بھی ٹھیک ٹھاک فرق نظر آئے گا، جس کے باعث متحدہ اس بار سنگل میجریٹی پارٹی بن کر ابھر نہیں سکے گی اور انھیں میئرشپ حاصل کرنے کے لیے کسی نہ کسی جماعت یا پھر اتحاد سے الحاق کرنا پڑے گا۔
میں نے اپنے طور پر جو ریسرچ کی ہے۔ مختلف علاقوں کے مکینوں سے جو بات چیت کی ہے اور کچھ علاقوں میں جاکر جو صورتحال کا جائزہ لیا ہے، اس کے بعد میرے سامنے مجموعی طور پر جو تصویر بن رہی ہے۔ اسے میں قارئین کے لیے ڈسٹرکٹ وائز پیش کرتا ہوں۔
کراچی ویسٹ (غربی): کراچی ویسٹ میں کل چار ٹاؤن ہیں۔ جس میں اورنگی، سائٹ، بلدیہ اور کیماڑی شامل ہیں۔ اس ضلع میں یونین کمیٹیز کی تعداد 46 ہے۔ یہاں مجموعی طور پر صورتحال متحدہ کے حق میں ہے، کیونکہ اورنگی اور بلدیہ ٹاون میں انھیں دوسری پارٹیوں کے مقابلے میں کامیابی ملنے کا زیادہ امکان ہے۔
جب کہ سائٹ ٹاؤن میں پٹھان آبادی کے باعث جماعت اسلامی اور تحریک انصاف کا اتحاد متحدہ کو کافی جگہوں پر پریشان کرسکتا ہے، باقی جہاں تک کیماڑی ٹاؤن کا تعلق ہے، وہاں متحدہ شاید ایک بھی سیٹ نہ جیت سکے۔ کیونکہ اس علاقے میں کافی پٹھان آبادیاں موجود ہیں، جوکہ اپنے کھڑے کیے ہوئے آزاد امیدواروں یا پھر جماعت اسلامی، تحریک انصاف اتحاد کو وو ٹ کرسکتے ہیں۔ کیماڑی ٹاؤن میں کافی تعداد میں سندھی آبادی بھی رہتی ہے۔ جوکہ پیپلز پارٹی کے امیدوارں کو ایک آدھ سیٹ جتوا سکتی ہے۔ موجودہ صورتحال کو دیکھ کر لگتا یہ ہے کہ کراچی ویسٹ کی آدھے سے زائد سیٹیں متحدہ جیتنے میں کامیاب ہوجائے گی، جب کہ باقی تیس سے چالیس فیصد سیٹیں متحدہ مخالف پارٹیاں جیت سکتی ہیں۔
کراچی سینٹرل (وسطی): کراچی سینٹرل میں کل چار ٹاؤنز لیاقت آباد، نارتھ ناظم آباد، گلبرگ اور نارتھ کراچی شامل ہیں۔ اس ضلع میں مجموعی طور پر 51 یونین کمیٹیز ہیں۔ یونین کمیٹیز کے لحاظ سے یہ کراچی ڈویژن کا سب سے بڑا ضلع ہے۔ اس ضلع سے متحدہ نے کبھی بھی کوئی انتخاب نہیں ہارا۔ اس ضلع کے لیے اگر یہ کہا جائے کہ یہ متحدہ کا آبائی ضلع ہے تو غلط نہ ہوگا۔ متحدہ کا صدر دفتر 90 بھی اسی ضلع میں واقع ہے۔
حال ہی میں جب اسی ضلع کے قومی اسیمبلی کے حلقہ این اے 246 پر ضمنی انتخاب ہوا تو وہ بھی متحدہ نے واضح اکثریت سے جیت لیا۔ اردو بولنے والے نوجوان تحریک انصاف کو ٹھیک ٹھاک تعداد میں ووٹ کرسکتے ہیں لیکن مجموعی طور پر یہاں پر بھی متحدہ کی کامیابی کے امکانات زیادہ ہیں۔ (پی ٹی آئی نے عام انتخابات میں اسی ضلع کے حلقہ این اے 145 سے تقریباً 60 ووٹ حاصل کیے تھے، جب کہ جماعت اسلامی نے 2005 کے بلدیاتی انتخابات میں 14 سیٹیں جیتی تھیں، اس لیے اپ سیٹ بھی ہوسکتے ہیں)۔
کراچی ایسٹ (شرقی): کراچی ایسٹ میں دو جمشید اور گلشن ٹاونز ہیں، جب کہ اس ضلع میں کل 31 یونین کمیٹیز پر مقابلہ ہورہا ہے۔ کراچی ایسٹ میں جمشید ٹاؤن میں مجموعی طور متحدہ کے جیتنے کے امکانات باقی سب سے زیادہ ہیں۔ باقی جہاں تک گلشن ٹاؤن کا تعلق ہے تو وہاں پر گلستان جوہر، یونیورسٹی روڈ، سچل گوٹھ، صفورا گوٹھ، پہلوان گوٹھ اور قرب و جوار کی کئی آبادیوں میں سندھی، پٹھان، پنجابی اور ہزارہ وال سے تعلق رکھنے والے افراد رہتے ہیں، اس لیے ان علاقوں میں زیادہ تر آزاد، پیپلز پارٹی، جماعت اسلامی، تحریک انصاف اتحاد اور اے این پی کے امیدوار جیت سکتے ہیں، مگر گلشن ٹاؤن کے کئی علاقوں سے متحدہ کی کامیابی کے بھی روشن امکانات موجود ہیں۔
کراچی ساؤتھ (جنوبی): کراچی ساؤتھ ضلع صدر اور لیاری ٹاؤن پر مشتمل ہے۔ اس ضلع میں کل 13 نشستیں ہیں، جن میں سے 16 صدر ٹاؤن میں، جب کہ 15 لیاری ٹاؤن میں ہیں۔ صدر ٹاؤن میں صدر، آرام باغ، سول لائنز، گارڈن اور کلفٹن کے علاقے شامل ہیں۔ صدر ٹاؤن کے اکثریتی علاقوں میں متحدہ کے جیتنے کے امکانات سب سے زیادہ ہیں، جب کہ کلفٹن، شیریں جناح کالونی، ہجرت کالونی اور کالاپل جیسے علاقوں سے جماعت اسلامی، پی ٹی آئی اتحاد کے جیتنے کے امکانات کافی حد تک روشن ہیں۔ ان میں سے آدھا حصہ پوش علاقوں پر مبنی ہے، جہاں کی آبادی زیادہ تر تحریک انصاف کو ووٹ کرے گی۔
جب کہ بیچ بیچ میں موجود کچی آبادیوں میں مقیم پٹھان اور ہزارہ وال کمیونٹیز بھی جماعت اسلامی، تحریک انصاف اتحاد کی طرف جھکاؤ اختیار کرسکتی ہیں۔ پٹھان آبادی اے این پی کے امیدواروں کو بھی جتواسکتی ہے، جب کہ یہاں سے آزاد امیدوار بھی جیتنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
دوسری جانب لیاری کی صورتحال کچھ عجیب و غریب نوعیت کی بن چکی ہے۔ یہاں سے تاریخی طور پر ہمیشہ پیپلز پارٹی جیتتی آئی ہے لیکن سننے میں آرہا ہے کہ یہاں کے رہنے والی اکثریتی بلوچ کمیونٹی پارٹی قیادت سے کچھ ناراض ہے، اس صورتحال کے باوجود کچھ صحافی دوستوں کا خیال ہے کہ پیپلزپارٹی کے امیدوار بس بجا تیر بجا، بجاتے ہوئے آئیں اور باقی کام بلوچ ووٹر پر چھوڑ دیں۔ لیاری ٹاؤن میں بغدادی، کمیلا، آگرہ تاج، بہار کالونی، جمن شاہ پلاٹ، عثمان آباد، حسن لشکری ولیج، نورانی کالونی، کلاکوٹ، بکرا پیڑی اور چاکیواڑہ کے علاقے شامل ہیں، جن میں بلوچ، سندھی، پنجابی، پٹھان اور کچھی کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے افراد مقیم ہیں۔ کچھ پاکیٹس میں پنجابی اور پٹھان بھی رہتے ہیں، جوکہ ممکنہ طور پر تحریک انصاف کو ووٹ کریں گے۔ لیاری کے علاقے سے متحدہ کو ایک بھی سیٹ ملنے کا کوئی امکان نہیں ہے۔
جب کہ لیاری سے پیپلز پارٹی اپنے آزاد امیدواروں سمیت 15 میں سے سات یا آٹھ سیٹیں جیت سکتی ہے۔ پیپلز پارٹی کو بدین میں ٹف ٹائم دینے والا ذوالفقارمرزا بھی لیاری کے میدان میں اترا ہوا ہے۔ سننے میں آرہا ہے کہ ان کی صورتحال بھی کمزور نہیں ہے۔ لیاری کی الیکشن پر مبینہ طور پر گینگ وار کی شمولیت کی بات بھی کی جارہی ہے۔ کہا جارہا ہے کہ لیاری گینگ وار کے دو مرکزی کردار بابا لاڈلا اور عزیر بلوچ مختلف امیدواروں کی پس پشت مدد کررہے ہیں۔ (جاری ہے)