کراچی والے باشعور ہیں
خبریں تو بہت ملتی ہیں کہ یہ ہوگا، وہ ہوگا چند دن شور شرابا رہتا ہے اور پھر اچانک بنا کچھ ہوئے خاموشی چھا جاتی ہے
KARACHI:
خبریں تو بہت ملتی ہیں کہ یہ ہوگا، وہ ہوگا چند دن شور شرابا رہتا ہے اور پھر اچانک بنا کچھ ہوئے خاموشی چھا جاتی ہے، مثلاً اسکول وینز سے گیس سلینڈر ہٹانے کی خبر اور رکشے میں ایک طویل عرصے بعد میٹرز لگائے جانے کی اطلاع جو پندرہ سولہ سالہ بچوں کو معلوم ہی نہیں کہ رکشے کے میٹر ہوتے کیا ہیں۔ البتہ کافی عرصہ قبل ہم گواہ ہیں کہ رکشہ میں میٹر ہوتے تھے اور درست کام بھی کرتے تھے۔ پھر یہ ہوا کہ میٹر تو ہیں مگر ان کی رفتار بے لگام گھوڑے کی سی ہوگئی۔ مگر کچھ عرصے بعد ہم میٹر دیکھنے ہی کو ترس گئے۔
اب جو یہ خبر پڑھی کہ رکشے میں پھر میٹر لگیں گے اورگھر میں اس کا ذکر ہوا تو بچے حیران کہ رکشے میں میٹر کیسے، کہاں اور کیوں کر لگ سکتے ہیں، میٹر تو بجلی کا ہوتا ہے جو بجلی احتیاط سے استعمال کرنے کے باوجود بہت زیادہ بل بناتا ہے۔ اب انھیں کیسے سمجھاتے؟ بالآخر انھیں یہ کہہ کر چپ کرایا کہ صرف چند روز کی بات ہے جب رکشہ ٹیکسی میں میٹر لگ جائیں گے تو تم خود دیکھ لینا کہ یہ کیسے ہوتے ہیں۔ اس خوشگوار خبر کو پڑھے شاید تین ماہ ہوچکے ہیں۔
مگر کل ہی ہم سے ایک رکشے والے نے واٹرپمپ (ایف بی ایریا) سے گلشن چورنگی تک کے دو سو روپے وصول فرما لیے۔ جب ہم نے کہا کہ تمہارے رکشے میں میٹرکیوں نہیں ہے، ہم نے تو ایک اخبار میں تصویر اس کیپشن کے ساتھ دیکھی ہے کہ رکشوں کے میٹر چیک کیے جا رہے ہیں اور نہ ہونے پر چالان۔ تو رکشہ ڈرائیور نے ہنس کر مطلع فرمایا کہ ''میٹر تو سرکار دے گی جب انھوں نے اب تک دیے ہی نہیں تو لگائے کیسے جائیں اور جب میٹر سرکار کی لاپرواہی سے نہ لگیں تو پھر چالان کیسا؟ باجی! یہ سب اطلاعات خبروں سے آگے کچھ نہیں یہ تو صرف حکمراں جماعت بلدیاتی انتخابات کے لیے کاغذی کارروائی کرکے عوام کو بے وقوف بنا رہی ہے۔
برسوں کی نیند سے بیدار ہوکر جلدی جلدی کچھ کارکردگی دکھانا چاہتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ عوام یعنی ووٹر سچ مچ بے وقف بن جائیں گے؟'' رکشے والے کی اس مدلل گفتگو اور سیاسی بصیرت پر ہم حیران رہ گئے اور جنابایک صحافی صاحب کے اس مقبول عام تجزیے پر جو آج کل سوشل میڈیا پر خوب گردش کر رہا ہے ایمان لے آئے کہ ''عمران خان کو کراچی کے موڈ کا اندازہ نہیں، کراچی کے لوگ پڑھے لکھے اور باشعور ہیں۔'' رکشے والے کی گفتگو نے کراچی والوں کے باشعور ہونے کا تو واقعی ثبوت فراہم کردیا۔
پرانی بات نہیں محض ڈھائی سال قبل یعنی 11 مئی 2013 کے عام انتخابات میں بھی یہ گہما گہمی نظر نہیں آئی تھی بلکہ کراچی میں تو سناٹا تھا نہ جلسے نہ جلوس، جو ان بلدیاتی انتخابات میں نظر آرہی ہے ان بے اختیار عہدوں کے لیے جانے کیوں ساری جماعتیں بوکھلائی جا رہی ہیں۔ وہ جو کبھی کراچی آنے کے تصور سے لرزتے تھے کراچی پر قابض جماعت کی مہربانی سے ایک عدد کامیاب جلسہ کرکے ذرا یہاں قدم رنجہ فرمانے کی ہمت ہوئی تو اب ''اپنا کراچی ہوگیا''۔ جانے لوگوں کو پی ٹی آئی اور جماعت اسلامی کے اتحاد میں کیا نقص نظر آرہا ہے کہ اعتراض پر اعتراض، سوشل میڈیا پر اپنے دل کی بھڑاس نکال رہے ہیں کہ جماعت اسلامی کو ''آؤ بدلیں اپنا کراچی'' جیسے نعرے زیب نہیں دیتے کیونکہ کراچی والے انھیں نہ صرف کئی بار مسترد کرچکے ہیں بلکہ گزشتہ ضمنی انتخاب میں تو ان کی ضمانت بھی ضبط کراچکے ہیں۔
پی ٹی آئی کے تبدیلی والے نعرے پر ایک صاحب نے بڑا دلچسپ اور باذوق تبصرہ فرمایا کہ تبدیلی تو آچکی ہے کہ حلقہ این اے 246 فتح کرنے کے لیے خان صاحب ریحام خان کے ہمراہ آئے تھے اور اب کراچی فتح کرنے سراج الحق صاحب کے ساتھ اس سے بڑی تبدیلی اور کیا آسکتی ہے۔ گویا پی ٹی آئی نے محض نعرہ ہی نہیں بلکہ تبدیلی کا عملی ثبوت بھی فراہم کردیا۔
کچھ دل جلے اسی کا رونا روئے جا رہے ہیں کہ نیا پاکستان بنانے والوں کا بھلا جماعت اسلامی سے کیا تعلق؟ محض کراچی سے ایک جماعت کا تسلط ختم کرکے اپنا قبضہ جمانے کے لیے اتحاد کیا گیا اور انھیں یقین ہے کہ سانجے کی یہ ہنڈیا چوراہے پر پھوٹے گی۔ ہنڈیا پھوٹتی ہے یا نہیں یہ تو بعد کی بات ہے فی الحال تو ہمیں ان اعتراض کرنے والوں پر یہ اعتراض ہے کہ انھیں ان دونوں جماعتوں کا تعلق اب تک کیوں نظر نہیں آیا؟ تعلق یہ ہے کہ ایک طالبان کا دفتر کھلوانے ان سے برابری کی سطح پر مذاکرات کے حق میں بہت پرجوش تھے (طالبان نے انھیں مذاکرات میں اپنا نمایندہ بھی مقرر کردیا تھا) تو دوسرے پاک افواج کے ہاتھوں بطور دہشت گرد مرنے والوں کو شہید قرار دے کر ان کی نماز جنازہ میں شرکت فرمایا کرتے تھے۔
ذرا غور کریں تو تعلق خودبخود واضح ہوجائے گا۔ ادھر سوشل میڈیا کے ذریعے معلوم ہوا کہ ہر وقت حکمرانوں کو آڑے ہاتھوں لینے والے خان صاحب نے حکمراں جماعت سے بھی ملیر کے علاقے میں اتحاد کیا ہوا ہے اب اس میں حیران ہونے کی کیا بات ہے؟ عام انتخابات میں صرف یہی دو جماعتیں تو تھیں جن کے بڑے بڑے جلسے پورے زور شور سے ہو رہے تھے باقی تمام سیاسی جماعتیں تو دم بخود تھیں جن کو دھمکی تھی کہ ذرا جلسہ کرکے تو دیکھو۔ تو ہم نے جو گزشتہ کالم میں ان سب کو ایک ہی تھیلی کے چٹے بٹے قرار دیا تھا تو کیا غلط تھا؟ ادھر سابق صدر کو صلواتیں سنانے والے اب ان کی جماعت پی پی پی کے ساتھ مل کر مضبوط حزب مخالف کا کردار ایوان میں ادا کریں گے۔دیکھا آپ نے یہ ہوتی ہے دانشوری:
خرد کا نام جنوں رکھ دیا جنوں کا خرد
جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے
کیا واقعی ہوس اقتدار اتنی ہی خطرناک چیز ہے کہ ایک تصویر کے اتنے رخ بنا ڈالے۔ ''اپنے کراچی'' سے خلوص کا عالم یہ ہے کہ کارکنان کو دلاسے دے کر کہ محترم چیئرمین صاحب آپ سے بذات خود ملنے اور آپ کا ووٹ مانگنے تشریف لا رہے ہیں، کارکنان جلسہ سجائے انتظار کرتے رہے اور چیئرمین صاحب ایئرپورٹ روانہ ہوگئے۔ بے چارے چاہنے والے انتظار سے تنگ آکر مقامی قائدین پر چڑھ دوڑے پتھر، انڈے اور ٹماٹروں سے ان کی مدارت کی، کرسیاں اٹھا کر ان بے چاروں کو مارنے پیٹنے کی کوشش کی اور یہ سب کچھ سہنے کے لیے رہ گئے کراچی کے پارٹی عہدیدار۔ مقامی قیادت اپنے چیئرمین صاحب کے خلوص اور کراچی والوں سے ان کی محبت کو اب بھی نہ سمجھ سکے؟
بات دراصل یہ ہے کہ فکر کراچی کے حالات درست کرنے کی نہیں بلکہ کسی بھی طرح جلد ازجلد وزارت عظمیٰ کی کرسی تک رسائی کی ہے مگر بقول ایک صحافی کے ''جب بھی کارکنان خان صاحب کے قریب آنے لگتے ہیں وہ کوئی نہ کوئی ایسا بلنڈر کردیتے ہیں کہ وہ پھر دور ہوجاتے ہیں۔ اپنی مسلسل ناکامیوں کی ان وجوہات پر خان صاحب توجہ دینے پر ہرگز تیار نہیں۔ خیر یہ تو خان صاحب کا مزاج ہے۔ مگر شاید کراچی والوں کو اب عقل آچکی ہوگی۔''
خبریں تو بہت ملتی ہیں کہ یہ ہوگا، وہ ہوگا چند دن شور شرابا رہتا ہے اور پھر اچانک بنا کچھ ہوئے خاموشی چھا جاتی ہے، مثلاً اسکول وینز سے گیس سلینڈر ہٹانے کی خبر اور رکشے میں ایک طویل عرصے بعد میٹرز لگائے جانے کی اطلاع جو پندرہ سولہ سالہ بچوں کو معلوم ہی نہیں کہ رکشے کے میٹر ہوتے کیا ہیں۔ البتہ کافی عرصہ قبل ہم گواہ ہیں کہ رکشہ میں میٹر ہوتے تھے اور درست کام بھی کرتے تھے۔ پھر یہ ہوا کہ میٹر تو ہیں مگر ان کی رفتار بے لگام گھوڑے کی سی ہوگئی۔ مگر کچھ عرصے بعد ہم میٹر دیکھنے ہی کو ترس گئے۔
اب جو یہ خبر پڑھی کہ رکشے میں پھر میٹر لگیں گے اورگھر میں اس کا ذکر ہوا تو بچے حیران کہ رکشے میں میٹر کیسے، کہاں اور کیوں کر لگ سکتے ہیں، میٹر تو بجلی کا ہوتا ہے جو بجلی احتیاط سے استعمال کرنے کے باوجود بہت زیادہ بل بناتا ہے۔ اب انھیں کیسے سمجھاتے؟ بالآخر انھیں یہ کہہ کر چپ کرایا کہ صرف چند روز کی بات ہے جب رکشہ ٹیکسی میں میٹر لگ جائیں گے تو تم خود دیکھ لینا کہ یہ کیسے ہوتے ہیں۔ اس خوشگوار خبر کو پڑھے شاید تین ماہ ہوچکے ہیں۔
مگر کل ہی ہم سے ایک رکشے والے نے واٹرپمپ (ایف بی ایریا) سے گلشن چورنگی تک کے دو سو روپے وصول فرما لیے۔ جب ہم نے کہا کہ تمہارے رکشے میں میٹرکیوں نہیں ہے، ہم نے تو ایک اخبار میں تصویر اس کیپشن کے ساتھ دیکھی ہے کہ رکشوں کے میٹر چیک کیے جا رہے ہیں اور نہ ہونے پر چالان۔ تو رکشہ ڈرائیور نے ہنس کر مطلع فرمایا کہ ''میٹر تو سرکار دے گی جب انھوں نے اب تک دیے ہی نہیں تو لگائے کیسے جائیں اور جب میٹر سرکار کی لاپرواہی سے نہ لگیں تو پھر چالان کیسا؟ باجی! یہ سب اطلاعات خبروں سے آگے کچھ نہیں یہ تو صرف حکمراں جماعت بلدیاتی انتخابات کے لیے کاغذی کارروائی کرکے عوام کو بے وقوف بنا رہی ہے۔
برسوں کی نیند سے بیدار ہوکر جلدی جلدی کچھ کارکردگی دکھانا چاہتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ عوام یعنی ووٹر سچ مچ بے وقف بن جائیں گے؟'' رکشے والے کی اس مدلل گفتگو اور سیاسی بصیرت پر ہم حیران رہ گئے اور جنابایک صحافی صاحب کے اس مقبول عام تجزیے پر جو آج کل سوشل میڈیا پر خوب گردش کر رہا ہے ایمان لے آئے کہ ''عمران خان کو کراچی کے موڈ کا اندازہ نہیں، کراچی کے لوگ پڑھے لکھے اور باشعور ہیں۔'' رکشے والے کی گفتگو نے کراچی والوں کے باشعور ہونے کا تو واقعی ثبوت فراہم کردیا۔
پرانی بات نہیں محض ڈھائی سال قبل یعنی 11 مئی 2013 کے عام انتخابات میں بھی یہ گہما گہمی نظر نہیں آئی تھی بلکہ کراچی میں تو سناٹا تھا نہ جلسے نہ جلوس، جو ان بلدیاتی انتخابات میں نظر آرہی ہے ان بے اختیار عہدوں کے لیے جانے کیوں ساری جماعتیں بوکھلائی جا رہی ہیں۔ وہ جو کبھی کراچی آنے کے تصور سے لرزتے تھے کراچی پر قابض جماعت کی مہربانی سے ایک عدد کامیاب جلسہ کرکے ذرا یہاں قدم رنجہ فرمانے کی ہمت ہوئی تو اب ''اپنا کراچی ہوگیا''۔ جانے لوگوں کو پی ٹی آئی اور جماعت اسلامی کے اتحاد میں کیا نقص نظر آرہا ہے کہ اعتراض پر اعتراض، سوشل میڈیا پر اپنے دل کی بھڑاس نکال رہے ہیں کہ جماعت اسلامی کو ''آؤ بدلیں اپنا کراچی'' جیسے نعرے زیب نہیں دیتے کیونکہ کراچی والے انھیں نہ صرف کئی بار مسترد کرچکے ہیں بلکہ گزشتہ ضمنی انتخاب میں تو ان کی ضمانت بھی ضبط کراچکے ہیں۔
پی ٹی آئی کے تبدیلی والے نعرے پر ایک صاحب نے بڑا دلچسپ اور باذوق تبصرہ فرمایا کہ تبدیلی تو آچکی ہے کہ حلقہ این اے 246 فتح کرنے کے لیے خان صاحب ریحام خان کے ہمراہ آئے تھے اور اب کراچی فتح کرنے سراج الحق صاحب کے ساتھ اس سے بڑی تبدیلی اور کیا آسکتی ہے۔ گویا پی ٹی آئی نے محض نعرہ ہی نہیں بلکہ تبدیلی کا عملی ثبوت بھی فراہم کردیا۔
کچھ دل جلے اسی کا رونا روئے جا رہے ہیں کہ نیا پاکستان بنانے والوں کا بھلا جماعت اسلامی سے کیا تعلق؟ محض کراچی سے ایک جماعت کا تسلط ختم کرکے اپنا قبضہ جمانے کے لیے اتحاد کیا گیا اور انھیں یقین ہے کہ سانجے کی یہ ہنڈیا چوراہے پر پھوٹے گی۔ ہنڈیا پھوٹتی ہے یا نہیں یہ تو بعد کی بات ہے فی الحال تو ہمیں ان اعتراض کرنے والوں پر یہ اعتراض ہے کہ انھیں ان دونوں جماعتوں کا تعلق اب تک کیوں نظر نہیں آیا؟ تعلق یہ ہے کہ ایک طالبان کا دفتر کھلوانے ان سے برابری کی سطح پر مذاکرات کے حق میں بہت پرجوش تھے (طالبان نے انھیں مذاکرات میں اپنا نمایندہ بھی مقرر کردیا تھا) تو دوسرے پاک افواج کے ہاتھوں بطور دہشت گرد مرنے والوں کو شہید قرار دے کر ان کی نماز جنازہ میں شرکت فرمایا کرتے تھے۔
ذرا غور کریں تو تعلق خودبخود واضح ہوجائے گا۔ ادھر سوشل میڈیا کے ذریعے معلوم ہوا کہ ہر وقت حکمرانوں کو آڑے ہاتھوں لینے والے خان صاحب نے حکمراں جماعت سے بھی ملیر کے علاقے میں اتحاد کیا ہوا ہے اب اس میں حیران ہونے کی کیا بات ہے؟ عام انتخابات میں صرف یہی دو جماعتیں تو تھیں جن کے بڑے بڑے جلسے پورے زور شور سے ہو رہے تھے باقی تمام سیاسی جماعتیں تو دم بخود تھیں جن کو دھمکی تھی کہ ذرا جلسہ کرکے تو دیکھو۔ تو ہم نے جو گزشتہ کالم میں ان سب کو ایک ہی تھیلی کے چٹے بٹے قرار دیا تھا تو کیا غلط تھا؟ ادھر سابق صدر کو صلواتیں سنانے والے اب ان کی جماعت پی پی پی کے ساتھ مل کر مضبوط حزب مخالف کا کردار ایوان میں ادا کریں گے۔دیکھا آپ نے یہ ہوتی ہے دانشوری:
خرد کا نام جنوں رکھ دیا جنوں کا خرد
جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے
کیا واقعی ہوس اقتدار اتنی ہی خطرناک چیز ہے کہ ایک تصویر کے اتنے رخ بنا ڈالے۔ ''اپنے کراچی'' سے خلوص کا عالم یہ ہے کہ کارکنان کو دلاسے دے کر کہ محترم چیئرمین صاحب آپ سے بذات خود ملنے اور آپ کا ووٹ مانگنے تشریف لا رہے ہیں، کارکنان جلسہ سجائے انتظار کرتے رہے اور چیئرمین صاحب ایئرپورٹ روانہ ہوگئے۔ بے چارے چاہنے والے انتظار سے تنگ آکر مقامی قائدین پر چڑھ دوڑے پتھر، انڈے اور ٹماٹروں سے ان کی مدارت کی، کرسیاں اٹھا کر ان بے چاروں کو مارنے پیٹنے کی کوشش کی اور یہ سب کچھ سہنے کے لیے رہ گئے کراچی کے پارٹی عہدیدار۔ مقامی قیادت اپنے چیئرمین صاحب کے خلوص اور کراچی والوں سے ان کی محبت کو اب بھی نہ سمجھ سکے؟
بات دراصل یہ ہے کہ فکر کراچی کے حالات درست کرنے کی نہیں بلکہ کسی بھی طرح جلد ازجلد وزارت عظمیٰ کی کرسی تک رسائی کی ہے مگر بقول ایک صحافی کے ''جب بھی کارکنان خان صاحب کے قریب آنے لگتے ہیں وہ کوئی نہ کوئی ایسا بلنڈر کردیتے ہیں کہ وہ پھر دور ہوجاتے ہیں۔ اپنی مسلسل ناکامیوں کی ان وجوہات پر خان صاحب توجہ دینے پر ہرگز تیار نہیں۔ خیر یہ تو خان صاحب کا مزاج ہے۔ مگر شاید کراچی والوں کو اب عقل آچکی ہوگی۔''