بلدیاتی انتخابات جمہوری نظام کا استحکام
اب دسمبر کے پہلے ہفتے میں بلدیاتی انتخابات کا تیسرا مرحلہ ہونا باقی ہے
BARCELONA:
وطن عزیز میں بلدیاتی انتخابات کے دو مرحلے مکمل ہوچکے ہیں ، جن میں مسلم لیگ ن نے پنجاب میں واضح برتری حاصل کرنے کے علاوہ سندھ میں نمایاں کامیابی حاصل کی ہے اور پارٹی پوزیشن کے حوالے سے وہ دوسرے نمبر پر ہے، جب کہ سندھ میں حسبِ روایت پیپلز پارٹی کو زیادہ نشستیں ملی ہیں۔ پاکستان کی تاریخ میں یہ پہلا موقع ہے جب کسی سویلین حکومت نے مقامی اداروں کے انتخابات کرائے ہیں۔ بلوچستان اور کے پی کے میں پہلے ہی بلدیاتی انتخابات کا عمل مکمل ہوگیا۔
اب دسمبر کے پہلے ہفتے میں بلدیاتی انتخابات کا تیسرا مرحلہ ہونا باقی ہے۔ اس سے پہلے ہم حالیہ بلدیاتی انتخابات کے نتائج پر روشنی ڈالیں یہ واضح کرنا ضروری ہے کہ بلدیاتی ادارے سیاست کی نرسری ہوتے ہیں اور جمہوری نظام میں بلدیاتی اداروں کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ بلکہ جمہوری نظام تین سطح پر ہی مشتمل ہوتا ہے۔ جن میں وفاقی حکومت، صوبائی حکومتیں اور بلدیاتی ادارے شامل ہوتے ہیں۔ جس جمہوری نظام میں بلدیاتی ادارے نہ ہوں تو نہ سیاسی جماعتیں مضبوط ہوتی ہیں اور نہ ہی ان میں جمہوریت آتی ہے اور نہ ہی صوبائی حکومتیں عوام کے مسائل ٹھیک طریقے سے حل کرنے میں کامیاب ہوسکتی ہیں۔
یہ بلدیاتی ادارے ہی ہوتے ہیں جو عوام کی دہلیز پر ان کے مسائل حل کرتے ہیں جس کے نتیجے میں عوام حکمرانوں سے مطمئن نظر آتے ہیں۔ اگر بلدیاتی ادارے نہ ہوں اور باقاعدگی سے ان کے انتخابات نہ ہوں تو ملک میں نئی قیادت بھی ابھر کر نہیں آتی۔ کیونکہ بلدیاتی انتخابات کے ذریعے ہی ملک کو نئی سیاسی قیادت ملتی ہے۔ مگر یہ امر انتہائی افسوسناک ہے کہ پاکستان میں برسراقتدار آنے والی ہر جمہوری حکومت نے بلدیاتی انتخابات کرانے سے گریزکیا۔ کیونکہ انھیں خدشہ تھا کہ بلدیاتی انتخابات کے ذریعے نئی قیادت ان کو چیلنج نہ کردے۔ دوسری بات یہ ہے کہ صوبائی حکومت بلدیاتی اداروں کے فنڈز اپنے تصرف میں رکھے ہوئے ہیں، وہ نہیں چاہتی تھیں کہ بلدیاتی انتخابات ہوں اور نو منتخب بلدیاتی قیادت ان سے عوام کے مسائل کے حل کے لیے فنڈز طلب کریں۔
دوسری جانب ملک میں برسراقتدار آنے والی فوجی حکومتوں نے اس نظام کی افادیت کے باعث ہر بار اسے استعمال اور بلدیاتی انتخابات بھی کرائے گئے۔ جنرل ایوب خان، جنرل ضیاء الحق اور جنرل پرویز مشرف کے ادوار میں بلدیاتی انتخابات ہوئے اور اس سے نئی قیادت میں سامنے آئی جب کہ عوامی مسائل بھی حاصل ہوئے۔ اس طرح فوجی حکومتوں کی مخالفت میں کمی آگئی۔ جمہوری حکومتوں کے خوف کی وجہ سے عوام برسوں بلدیاتی اداروں کے انتخابات سے محروم رہے اور آج کے ترقی یافتہ دور میں بھی بنیادی سہولتوں کے لیے ترس رہے ہیں۔ حالیہ انتخابات کے انعقاد میں بھی مسلسل رکاوٹیں ڈالی گئیں۔
شورش زدہ بلوچستان اور دہشتگردی کے شکار خیبر پختونخوا میں بلدیاتی انتخابات کرا دیے گئے مگر سندھ اور پنجاب میں انھیں ملتوی کرانے کی کوششیں کی جاتی رہیں۔ سندھ میں طرح طرح کے جواز تراشے گئے، جب کہ پنجاب میں سیلابی صورتحال کو جواز بنا کر الیکشن ملتوی کیے گئے۔ میں سمجھتا ہوں انتخابات کسی بھی قسم کے ہوں مگر انھیں ملتوی نہیں کرنا چاہیے، بدترین حالات میں بھی انتخابات کا انعقاد ہونا چاہیے کیونکہ مسائل نئی قیادت کے آنے سے ہی حل ہوتے ہیں۔ لہٰذا اس صورتحال میں پنجاب اور سندھ میں ہونے والے انتخابات کو خوش آیند ہی قرار دیا جاسکتا ہے۔ پنجاب میں ہونے والے انتخابات میں توقع کی جارہی تھی کہ مسلم لیگ ن اپنی عوامی مقبولیت اور اپنی کارکردگی کی بنیاد پر ایک بار پھر میدان مارے گی اور ایسا ہی ہوا۔
بلدیاتی انتخابات کے دونوں مرحلوں میں مسلم لیگ ن نے شاندارکامیابی حاصل کی جب کہ پاکستان تحریک انصاف جو پے درپے شکستوں کا سامنا کرتی چلی آئی ہے، بلدیاتی انتخابات میں بری طرح ناکام ہوئی ہے۔ ناقص حکمت عملی اور تنظیمی خامیوں کے باعث پی ٹی آئی اب تک عوام میں اپنا اعتماد قائم نہیں رکھ سکی۔ ملکی تاریخ میں پہلی بار ملک کے دارالحکومت اسلام آباد میں بلدیاتی انتخابات منعقد ہوئے ، جن کے غیر حتمی نتائج تادم تحریر جو سامنے آئے ان کے مطابق مسلم لیگ ن انیس یونین کونسلز میں سرفہرست ہے ، پی ٹی آئی نے سترہ نشستیں لی ہیں ۔ توقع ہے کہ حکمراں جماعت اسلام آباد میں اپنا میئر منتخب کرانے میں کامیاب ہوجائے گی ۔
پہلے مرحلے میں سندھ میں پیپلز پارٹی نے واضح کامیابی حاصل کی لیکن دوسرے مرحلے میں اسے سخت مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا، اور پاکستان مسلم لیگ ن دوسرے مرحلے کے انتخابات میں دوسری بڑی جماعت کی حیثیت سے ابھر کر سامنے آئی۔ اب مسلم لیگ ن کے چیئرمین بدین کی گولارچی ٹاؤن کمیٹی، نوشہروفیروزکی محراب پور ٹاؤن کمیٹی تھر پارکرکی ڈیپلو ٹاؤن کمیٹی اور چھاچھرو ٹاؤن کمیٹی کے لیے منتخب ہوچکے ہیں۔ 4 ٹاؤن کمیٹیوں کے علاوہ 37 یوسی اور ڈسٹرکٹ کونسل کی 42 نشستوں پر مسلم لیگ ن کے امیدوار منتخب ہوچکے ہیں جب کہ ن لیگ نے جو نشستیں حاصل کیں ان کی مجموعی تعداد تقریباً 100 ہے۔
مقامی سطح پر ہونے والے یہ انتخابات پیپلزپارٹی کی قیادت کے لیے خطرے کی گھنٹی ہیں،دوسری جانب مسلم لیگ ن کی قیادت کے لیے یہ کامیابی باعث اطمینان ۔ اس کامیابی کے حصول کے لیے مسلم لیگ ن نے واضح حکمت عملی بنائی تھی۔ بلدیاتی انتخابات سے کچھ عرصہ قبل مسلم لیگ ن کی صوبائی قیادت نے خیرپور، دادو، میرپورخاص، کشمور، مٹیاری، نوابشاہ سمیت کئی اضلاع میں کامیاب کنونشن کرکے اپنے پارٹی کارکنوں اور ووٹرزکو فعال کیا۔
ان کنونشنز سے صوبائی صدر اسماعیل راہو، شاہ محمد شاہ، چوہدری محمد طارق، سینیٹر سلیم ضیاء، ایم پی اے سورٹھ ٹھیبو، سینیٹر نہال ہاشمی، ڈاکٹرشام، احسان سومرو، اسد عثمان اور دیگر رہنماؤں سمیت راقم الحروف نے بھی خطاب کیا۔انتخابات سے ذرا قبل سابق وفاقی وزیر مشاہد اللہ خان کی زیر صدارت اجلاس میں پارٹی کی حکمت عملی پر غورکیا گیا اور سندھ کی قیادت کو بلدیاتی الیکشن جیتنے کے لیے رہنمائی کی اور انھوں نے کراچی پریس کلب میں ایک پر ہجوم پریس کانفرنس کرکے پارٹی کی نمایندگی کی۔ وزیر اعظم کے معاون خصوصی برائے سیاسی امور ڈاکٹر آصف کرمانی نے بھی انتخابی حوالے سے صوبائی قیادت کی معاونت کی اور مسلسل سندھ کی قیادت سے رابطہ رکھا۔ بلاشبہ وزیر اعظم محمد نوازشریف سمیت سندھ کی پوری قیادت اس کامیابی پر مبارکباد کی مستحق ہے۔
دسمبرکے پہلے ہفتے میں کراچی میں ہونے والے متوقع انتخابات کے لیے بھی مسلم لیگ ن نے حکمت عملی تیارکرلی ہے۔ کراچی سے مسلم لیگ ن کے 4 ایم پی اے منتخب ہوئے تھے۔ جن کا کیماڑی، لیاری، ملیر، ڈرگ روڈ ایئرپورٹ اور کلفٹن کے علاقوں میں اچھا خاصا اثرورسوخ ہے جب کہ کراچی کے بلدیاتی انتخابات میں مسلم لیگ ن کے مملکتی وزیر عبدالحکیم خان بلوچ، ایم پی اے ہمایوں خان، ایم پی اے شفیع جاموٹ، عرفان اللہ مروت، سینیٹر نہال ہاشمی، سینٹر سلیم ضیاء، علی اکبر گجر و دیگر رہنما اہم کردار ادا کرسکتے ہیں یہ پہلا موقع ہے کہ مسلم لیگ ن نے کراچی کے بلدیاتی انتخابات کے حوالے سے بھرپور تیاری کی ہے۔ لہٰذا توقع کی جانی چاہیے کہ کراچی کے بلدیاتی الیکشن میں مسلم لیگ ن دیگر سیاسی جماعتوں کو ٹف ٹائم دے گی۔
واضح رہے کہ اس سے قبل ہونے والے کنٹونمنٹ بورڈ کے انتخابات میں بھی مسلم لیگ ن کے امیدواوں نے 7 نشستیں جیتی تھیں۔ اور مجموعی طور پر اس کی دوسری پوزیشن تھی۔ کراچی کے بلدیاتی انتخابات کا مرحلہ مکمل ہونے کے بعد سندھ میں بلدیاتی انتخابات مکمل ہوجائیں گے۔ توقع کی جانی چاہیے کہ نو منتخب بلدیاتی قیادت صوبے کے مسائل حل کرے گی اور برسوں سے مسائل کے شکار عوام کو زیادہ سے زیادہ ریلیف دینے میں کوئی کسر نہیں چھوڑے گی۔
وطن عزیز میں بلدیاتی انتخابات کے دو مرحلے مکمل ہوچکے ہیں ، جن میں مسلم لیگ ن نے پنجاب میں واضح برتری حاصل کرنے کے علاوہ سندھ میں نمایاں کامیابی حاصل کی ہے اور پارٹی پوزیشن کے حوالے سے وہ دوسرے نمبر پر ہے، جب کہ سندھ میں حسبِ روایت پیپلز پارٹی کو زیادہ نشستیں ملی ہیں۔ پاکستان کی تاریخ میں یہ پہلا موقع ہے جب کسی سویلین حکومت نے مقامی اداروں کے انتخابات کرائے ہیں۔ بلوچستان اور کے پی کے میں پہلے ہی بلدیاتی انتخابات کا عمل مکمل ہوگیا۔
اب دسمبر کے پہلے ہفتے میں بلدیاتی انتخابات کا تیسرا مرحلہ ہونا باقی ہے۔ اس سے پہلے ہم حالیہ بلدیاتی انتخابات کے نتائج پر روشنی ڈالیں یہ واضح کرنا ضروری ہے کہ بلدیاتی ادارے سیاست کی نرسری ہوتے ہیں اور جمہوری نظام میں بلدیاتی اداروں کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ بلکہ جمہوری نظام تین سطح پر ہی مشتمل ہوتا ہے۔ جن میں وفاقی حکومت، صوبائی حکومتیں اور بلدیاتی ادارے شامل ہوتے ہیں۔ جس جمہوری نظام میں بلدیاتی ادارے نہ ہوں تو نہ سیاسی جماعتیں مضبوط ہوتی ہیں اور نہ ہی ان میں جمہوریت آتی ہے اور نہ ہی صوبائی حکومتیں عوام کے مسائل ٹھیک طریقے سے حل کرنے میں کامیاب ہوسکتی ہیں۔
یہ بلدیاتی ادارے ہی ہوتے ہیں جو عوام کی دہلیز پر ان کے مسائل حل کرتے ہیں جس کے نتیجے میں عوام حکمرانوں سے مطمئن نظر آتے ہیں۔ اگر بلدیاتی ادارے نہ ہوں اور باقاعدگی سے ان کے انتخابات نہ ہوں تو ملک میں نئی قیادت بھی ابھر کر نہیں آتی۔ کیونکہ بلدیاتی انتخابات کے ذریعے ہی ملک کو نئی سیاسی قیادت ملتی ہے۔ مگر یہ امر انتہائی افسوسناک ہے کہ پاکستان میں برسراقتدار آنے والی ہر جمہوری حکومت نے بلدیاتی انتخابات کرانے سے گریزکیا۔ کیونکہ انھیں خدشہ تھا کہ بلدیاتی انتخابات کے ذریعے نئی قیادت ان کو چیلنج نہ کردے۔ دوسری بات یہ ہے کہ صوبائی حکومت بلدیاتی اداروں کے فنڈز اپنے تصرف میں رکھے ہوئے ہیں، وہ نہیں چاہتی تھیں کہ بلدیاتی انتخابات ہوں اور نو منتخب بلدیاتی قیادت ان سے عوام کے مسائل کے حل کے لیے فنڈز طلب کریں۔
دوسری جانب ملک میں برسراقتدار آنے والی فوجی حکومتوں نے اس نظام کی افادیت کے باعث ہر بار اسے استعمال اور بلدیاتی انتخابات بھی کرائے گئے۔ جنرل ایوب خان، جنرل ضیاء الحق اور جنرل پرویز مشرف کے ادوار میں بلدیاتی انتخابات ہوئے اور اس سے نئی قیادت میں سامنے آئی جب کہ عوامی مسائل بھی حاصل ہوئے۔ اس طرح فوجی حکومتوں کی مخالفت میں کمی آگئی۔ جمہوری حکومتوں کے خوف کی وجہ سے عوام برسوں بلدیاتی اداروں کے انتخابات سے محروم رہے اور آج کے ترقی یافتہ دور میں بھی بنیادی سہولتوں کے لیے ترس رہے ہیں۔ حالیہ انتخابات کے انعقاد میں بھی مسلسل رکاوٹیں ڈالی گئیں۔
شورش زدہ بلوچستان اور دہشتگردی کے شکار خیبر پختونخوا میں بلدیاتی انتخابات کرا دیے گئے مگر سندھ اور پنجاب میں انھیں ملتوی کرانے کی کوششیں کی جاتی رہیں۔ سندھ میں طرح طرح کے جواز تراشے گئے، جب کہ پنجاب میں سیلابی صورتحال کو جواز بنا کر الیکشن ملتوی کیے گئے۔ میں سمجھتا ہوں انتخابات کسی بھی قسم کے ہوں مگر انھیں ملتوی نہیں کرنا چاہیے، بدترین حالات میں بھی انتخابات کا انعقاد ہونا چاہیے کیونکہ مسائل نئی قیادت کے آنے سے ہی حل ہوتے ہیں۔ لہٰذا اس صورتحال میں پنجاب اور سندھ میں ہونے والے انتخابات کو خوش آیند ہی قرار دیا جاسکتا ہے۔ پنجاب میں ہونے والے انتخابات میں توقع کی جارہی تھی کہ مسلم لیگ ن اپنی عوامی مقبولیت اور اپنی کارکردگی کی بنیاد پر ایک بار پھر میدان مارے گی اور ایسا ہی ہوا۔
بلدیاتی انتخابات کے دونوں مرحلوں میں مسلم لیگ ن نے شاندارکامیابی حاصل کی جب کہ پاکستان تحریک انصاف جو پے درپے شکستوں کا سامنا کرتی چلی آئی ہے، بلدیاتی انتخابات میں بری طرح ناکام ہوئی ہے۔ ناقص حکمت عملی اور تنظیمی خامیوں کے باعث پی ٹی آئی اب تک عوام میں اپنا اعتماد قائم نہیں رکھ سکی۔ ملکی تاریخ میں پہلی بار ملک کے دارالحکومت اسلام آباد میں بلدیاتی انتخابات منعقد ہوئے ، جن کے غیر حتمی نتائج تادم تحریر جو سامنے آئے ان کے مطابق مسلم لیگ ن انیس یونین کونسلز میں سرفہرست ہے ، پی ٹی آئی نے سترہ نشستیں لی ہیں ۔ توقع ہے کہ حکمراں جماعت اسلام آباد میں اپنا میئر منتخب کرانے میں کامیاب ہوجائے گی ۔
پہلے مرحلے میں سندھ میں پیپلز پارٹی نے واضح کامیابی حاصل کی لیکن دوسرے مرحلے میں اسے سخت مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا، اور پاکستان مسلم لیگ ن دوسرے مرحلے کے انتخابات میں دوسری بڑی جماعت کی حیثیت سے ابھر کر سامنے آئی۔ اب مسلم لیگ ن کے چیئرمین بدین کی گولارچی ٹاؤن کمیٹی، نوشہروفیروزکی محراب پور ٹاؤن کمیٹی تھر پارکرکی ڈیپلو ٹاؤن کمیٹی اور چھاچھرو ٹاؤن کمیٹی کے لیے منتخب ہوچکے ہیں۔ 4 ٹاؤن کمیٹیوں کے علاوہ 37 یوسی اور ڈسٹرکٹ کونسل کی 42 نشستوں پر مسلم لیگ ن کے امیدوار منتخب ہوچکے ہیں جب کہ ن لیگ نے جو نشستیں حاصل کیں ان کی مجموعی تعداد تقریباً 100 ہے۔
مقامی سطح پر ہونے والے یہ انتخابات پیپلزپارٹی کی قیادت کے لیے خطرے کی گھنٹی ہیں،دوسری جانب مسلم لیگ ن کی قیادت کے لیے یہ کامیابی باعث اطمینان ۔ اس کامیابی کے حصول کے لیے مسلم لیگ ن نے واضح حکمت عملی بنائی تھی۔ بلدیاتی انتخابات سے کچھ عرصہ قبل مسلم لیگ ن کی صوبائی قیادت نے خیرپور، دادو، میرپورخاص، کشمور، مٹیاری، نوابشاہ سمیت کئی اضلاع میں کامیاب کنونشن کرکے اپنے پارٹی کارکنوں اور ووٹرزکو فعال کیا۔
ان کنونشنز سے صوبائی صدر اسماعیل راہو، شاہ محمد شاہ، چوہدری محمد طارق، سینیٹر سلیم ضیاء، ایم پی اے سورٹھ ٹھیبو، سینیٹر نہال ہاشمی، ڈاکٹرشام، احسان سومرو، اسد عثمان اور دیگر رہنماؤں سمیت راقم الحروف نے بھی خطاب کیا۔انتخابات سے ذرا قبل سابق وفاقی وزیر مشاہد اللہ خان کی زیر صدارت اجلاس میں پارٹی کی حکمت عملی پر غورکیا گیا اور سندھ کی قیادت کو بلدیاتی الیکشن جیتنے کے لیے رہنمائی کی اور انھوں نے کراچی پریس کلب میں ایک پر ہجوم پریس کانفرنس کرکے پارٹی کی نمایندگی کی۔ وزیر اعظم کے معاون خصوصی برائے سیاسی امور ڈاکٹر آصف کرمانی نے بھی انتخابی حوالے سے صوبائی قیادت کی معاونت کی اور مسلسل سندھ کی قیادت سے رابطہ رکھا۔ بلاشبہ وزیر اعظم محمد نوازشریف سمیت سندھ کی پوری قیادت اس کامیابی پر مبارکباد کی مستحق ہے۔
دسمبرکے پہلے ہفتے میں کراچی میں ہونے والے متوقع انتخابات کے لیے بھی مسلم لیگ ن نے حکمت عملی تیارکرلی ہے۔ کراچی سے مسلم لیگ ن کے 4 ایم پی اے منتخب ہوئے تھے۔ جن کا کیماڑی، لیاری، ملیر، ڈرگ روڈ ایئرپورٹ اور کلفٹن کے علاقوں میں اچھا خاصا اثرورسوخ ہے جب کہ کراچی کے بلدیاتی انتخابات میں مسلم لیگ ن کے مملکتی وزیر عبدالحکیم خان بلوچ، ایم پی اے ہمایوں خان، ایم پی اے شفیع جاموٹ، عرفان اللہ مروت، سینیٹر نہال ہاشمی، سینٹر سلیم ضیاء، علی اکبر گجر و دیگر رہنما اہم کردار ادا کرسکتے ہیں یہ پہلا موقع ہے کہ مسلم لیگ ن نے کراچی کے بلدیاتی انتخابات کے حوالے سے بھرپور تیاری کی ہے۔ لہٰذا توقع کی جانی چاہیے کہ کراچی کے بلدیاتی الیکشن میں مسلم لیگ ن دیگر سیاسی جماعتوں کو ٹف ٹائم دے گی۔
واضح رہے کہ اس سے قبل ہونے والے کنٹونمنٹ بورڈ کے انتخابات میں بھی مسلم لیگ ن کے امیدواوں نے 7 نشستیں جیتی تھیں۔ اور مجموعی طور پر اس کی دوسری پوزیشن تھی۔ کراچی کے بلدیاتی انتخابات کا مرحلہ مکمل ہونے کے بعد سندھ میں بلدیاتی انتخابات مکمل ہوجائیں گے۔ توقع کی جانی چاہیے کہ نو منتخب بلدیاتی قیادت صوبے کے مسائل حل کرے گی اور برسوں سے مسائل کے شکار عوام کو زیادہ سے زیادہ ریلیف دینے میں کوئی کسر نہیں چھوڑے گی۔