سوشل میڈیا کا منفی استعمال
جدید ٹیکنالوجی نے جس تیز رفتاری کے ساتھ ترقی کی ہے، ماضی میں اس کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا۔
ISLAMABAD:
جدید ٹیکنالوجی نے جس تیز رفتاری کے ساتھ ترقی کی ہے، ماضی میں اس کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا۔ پچھلی چند دہائیوں میں جدید ٹیکنالوجی کی بدولت دنیا بھرکے لوگ ایک دوسرے کے نزدیک آ گئے ہیں اور پوری دنیا نے ایک گلوبل گاؤں کی شکل اختیارکرلی ہے۔ اب ہزاروں میل کی دوری کوئی اہمیت نہیں رکھتی۔
دور دراز بیٹھ کر لوگ بیک وقت اپنے عزیزوں کی آواز کو اپنے کانوں سے سن اور لب ولہجہ وصورت کو اپنی آنکھوں سے دیکھ سکتے ہیں اور اپنے گھروں میں بیٹھ کر لوگ ہزاروں میل کی مسافت پر موجود اپنوں سے بالمشافہ ملاقات کا حظ اٹھا سکتے ہیں۔ جدید ٹیکنالوجی کی ترقی نے انسانی تعلقات کی نت نئی شکلیں پیدا کرکے ان کے دائرے کو وسیع ترکردیا ہے۔
ان ہی ترقیاتی شکلوں میں نیٹ ورک سوشل میڈیا بھی ہے، جو افراد اور اداروں کو ایک دوسرے سے مربوط ہونے، خیالات کا تبادلہ کرنے، اپنے پیغامات کی ترسیل اور انٹرنیٹ پر موجود دیگر بہت سی چیزوں کو ایک دوسرے کے ساتھ شیئرکرنے کا موقع فراہم کرتا ہے۔ پچھلی ایک دہائی میں اس میں انتہائی تیز رفتار ترقی ہوئی ہے اور اب سوشل میڈیا نوجوانوں کی بڑی تعداد کی دلچسپی کا محور و مرکز بن چکا ہے۔ انٹرنیٹ کی دنیا سے تعلق رکھنے والا ہر شخص فیس بک، ٹوئٹر، لنکڈ اور دیگر بہت سی سوشل سائٹس سے جڑی دنیا کا باشندہ بن چکا ہے۔ آج جملہ ذرایع ابلاغ میں سوشل میڈیا کا استعمال سب سے زیادہ ہورہا ہے۔ دنیا کے کسی بھی گوشے میں ہونے والا کوئی بھی واقعہ سوشل میڈیا کے ذریعے سیکنڈوں میں دوسری جگہ پہنچ جاتا ہے۔
جس طرح ہر چیزکے مثبت و منفی اثرات ہوتے ہیں، جو اس کو استعمال کرنے والوں پر منحصر ہوتے ہیں، اسی طرح سوشل میڈیا کے بھی دونوں قسم کے اثرات ہیں۔ سوشل میڈیا کا مقصد رابطوں کو فروغ دینا تھا، لیکن لوگوں نے اس کے مقاصد کو نظر اندازکرنا شروع کردیا۔ سوشل میڈیا کی وجہ سے معاشرے میں بہت سی اخلاقی و سماجی خرابیوں نے فروغ پایا ہے اور ایسی سرگرمیاں بھی عروج پر ہیں جو معاشرے کے مختلف طبقات اورمکاتب فکر میں ایک دوسرے سے نفرت کو پروان چڑھانے اور باہمی انتشار اور خلفشار کا سبب بن رہی ہیں۔معاشرے میں بیشتر افراد اسے لوگوں کو بدنام کرنے کے لیے بے بنیاد خبروں کو پھیلانے، تصاویر اور خاکوں میں ردوبدل جیسے طریقوں کے ذریعے غلط استعمال کررہے ہیں۔
ماضی میں کسی کے خلاف دو الفاظ شایع کروانے کے لیے ہزار جتن کرنا پڑتے تھے، لیکن اَب کسی کے بخیے ادھیڑنے ہوں،کسی کی زندگی میں زہر گھولنا ہو اور کسی کی عزت کی دھجیاں اڑانی ہو تو سوشل میڈیا کے ذریعے بناخوف کے یہ کام ہوجاتا ہے۔ فیس بک پر جعلی اکاؤنٹس کے ذریعے انسانیت کو جو داغدارکیا جارہا ہے، اُس سے کون واقف نہیں۔ سوشل میڈیا پر بلاخوفِ لوگ ایک دوسرے کے خلاف محاذ کھول لیتے ہیں۔ مختلف جماعتوں، فرقوں، گروہوں نے سوشل میڈیا پر اپنی اپنی لابیاں بنائی ہوئی ہیں، جو اپنے حلقے کی ہر غلط ٹھیک بات میں تائید کرتے ہیں، جب کہ مخالف حلقے کی ہر غلط ٹھیک بات میں مخالفت کرنا فرض ہوتا ہے۔
اپنے قائدین کے حق میں ایسی ایسی صفات گنوائی جاتی ہیں، جن سے وہ بے چارے خود بھی واقف نہیں ہوتے، جب کہ مخالفین کے خلاف ایسے ایسے الزامات لے آتے ہیں، جواُن کی زندگیوں میں کہیں بھی نہیں ہوتے۔ مختلف گروہ مخالفین کے لیے ناقابل برداشت زبان اورکلمات استعمال کیے جاتے ہیں۔ مختلف سیاسی و مذہبی جماعتوں کے ورکرز سوشل میڈیا خاص طور پر فیس بک پر بہت زیادہ متحرک نظر آتے ہیں، جو اس سائٹ کو عام طور پر پروپیگنڈہ کے لیے استعمال کرتے ہیں اور سیاسی اور مذہبی رہنماؤں کی بے عزتی کے لیے مضحکہ خیز فرضی تصاویرکو اپ لوڈ کرتے ہیں۔ متعدد معروف شخصیات، حکومتی عہدیداران، سیاستدان اور ججز کے نام سے آئی ڈیز سماجی رابطے کی سائٹس پر موجود ہیں، لیکن وہ شخصیات بار بار اس کی تردید کرچکی ہیں۔
سوشل میڈیا پرکسی بھی خبر یا افواہ کی تحقیق سے بھی پہلے وہ پوری دنیا میں نشر کردی جاتی ہے۔ معلومات درست ہوں یا غلط،کوئی اس جھنجھٹ میں پڑتا ہی نہیں، بطورِ خاص جب معلومات مذہبی نوعیت کی ہوں، جن میں بہت سے ثواب کی نوید، یا پھر شیطان کے روکنے کا ذکر کیا گیا ہو، اس وقت تو سوشل میڈیا استعمال کرنے والے لوگوں کی بڑی تعداد بغیر تحقیق و تصدیق کے بس شیئر کیے جاتی ہے۔ ثواب کے نام پر بہت سی پوسٹوں کو حدیث اور آیت کے عنوان سے پھیلایا جاتا ہے، جو انتہائی خطرناک بات ہے۔
نوجوان نسل کے ذہن ودماغ پرسوشل میڈیا جنون کی حد تک حاوی ہوچکا ہے، وہ اپنے کام اور پڑھائی کے اوقات بھی سوشل میڈیا پر صرف کر رہا ہے، جس سے ان کی تعلیم پر برا اثر پڑ رہا ہے۔ شریک حیات ہمسفرکو نظرانداز کرکے ٹوئٹر، وہاٹس اپ یا فیس بک پر مصروف رہنے کی عادت نے بہت سے جوڑوں کو علیحدگی کی منزل تک پہنچا دیا ہے۔ بعض عرب ممالک میں تو طلاق کی شرح بڑھنے کی وجہ سوشل میڈیا کو قرار دیا جاتا ہے۔ اس لیے سوشل میڈیا کے منفی پہلوؤں کو کسی طور پر بھی نظرانداز نہیں کرنا چاہیے۔
سوشل میڈیا پرکسی قسم کی کوئی روک تھام کا نظام موجود نہیں ہے، ہر شخص اچھی بری بات کہنے اور لکھنے میں آزاد ہے۔ کوئی شخص بلاروک ٹوک کسی بھی مذہبی شخصیت اور مذہبی نظریات کو مطعون کرسکتا ہے اور مخالف مذہبی سوچ کی محترم شخصیات پرکیچڑ اچھال سکتا ہے۔ سوشل میڈیا پر مخالفین کے خلاف پروپیگنڈے کی مکمل آزادی کی وجہ سے معاشرے میں انتہا پسندی میں اضافہ ہورہا ہے۔ بعض اوقات ایک دوسرے کے خلاف بے جا الزامات یا غیر مستند فتاویٰ جات کا پرچارکرکے انتشار اور خلفشار بھی پھیلایا جاتا ہے۔ دین ہمیں کسی پر تہمت لگانے سے سختی سے منع کرتا ہے، لیکن سوشل میڈیا پر بعض شرپسند عناصر کی جانب سے بے بنیاد الزامات کو پھیلا کر معاشرے میں بے چینی وبدامنی کی کیفیت پیدا کی جارہی ہے۔
سوشل اور سائبر میڈیا کی اہمیت کے پیش نظر ضروری ہے کہ اس کے درست استعمال کے لیے کوششیں تیزکی جائیں۔ اس باب میں ابھی تک مؤثر قانون سازی نہیں کی گئی۔گزشتہ دنوں فیس بک پر نفرت انگیز تقریر پوسٹ کرنے پر انسداد دہشت گردی کی عدالت نے ایک شخص کو 13سال قید کی سزا سنائی ہے، لیکن صرف ایک فرد کو سزا سنانا کافی نہیں ہے، بلکہ ابھی اور بہت کچھ کرنا باقی ہے۔ فیس بک پر دوستیاں لگا کر لڑکیوں اور لڑکوں کے اغوا سے متعلق کئی خبریں میڈیا میں آچکی ہیں اور اسی طرح دھوکا دہی کے کئی واقعات بھی پیش آتے رہے ہیں۔
گزشتہ دنوں بھی ایک لڑکی کو فیس بک پر دوستی کر کے گھر بلایا اور ریپ کے بعد قتل کیا گیا۔ سائبر وار فیئر، سائبرکرائم اور سائبر ٹیررازم جیسی اصطلاحات دُنیا میں رائج ہیں، لیکن سوشل میڈیا کے منفی استعمال کو روکنے کے لیے اپنے یہاں کوئی بھی جامع بات دکھائی نہیں دیتی۔اس کے لیے جامع قانون سازی اور پھر اس پردیانت دارانہ عمل کرنے اور اس کے ساتھ سوشل میڈیا کو تعمیری انداز میں استعمال کا شعور اجاگر کرنے کی اشد ضرورت ہے۔