داعش پاکستان میں ایک حقیقت پہلا حصہ
داعش نامی دہشت گرد گروہ کا وجود جس پر پہلے ہی متعدد مقالوں میں تحقیق پیش کی جا چکی ہے
داعش نامی دہشت گرد گروہ کا وجود جس پر پہلے ہی متعدد مقالوں میں تحقیق پیش کی جا چکی ہے کہ کس طرح عراق میں 2006 میں امریکی تسلط کے وقت اس خطرناک دہشت گرد گروہ کو پروان چڑھانے کی حکمت عملی وضع کی گئی اور پھر 2011 میں بالآخر شام کی حکومت کا تختہ الٹنے کے لیے امریکا، اسرائیل، برطانیہ، فرانس، اٹلی، جرمنی، سعودی عرب، قطر، ترکی اور اردن سمیت دیگر عرب اور یورپی ریاستیں متحد ہوگئیں کہ جس کے بارے میں خود اقوام متحدہ کی آفیشل ویب سائٹ پر تذکرہ کیا گیا کہ 80 سے زائد مغربی، یورپی اور عرب ممالک داعش نامی دہشت گرد گروہ کی مدد کررہے ہیں اور کس کس طرح اس گروہ کے دہشت گردوں کو اسلحہ اور مالی وسائل فراہم کیے جارہے ہیں۔
حتیٰ کہ عراق میں تیل کے کچھ ذخائر پر بھی ان کا قبضہ کروایا گیا اور پھر امریکی کمپنیاں انھی دہشت گرد گروہوں سے تیل کی خرید و فروخت کرنے میں مصروف عمل رہیں۔ اسرائیل کہ جس نے 1967کی عرب اسرائیل جنگ کے بعد سے ہی شام کی جولان کی پہاڑیوں پر اپنا غاصبانہ تسلط قائم کر رکھا ہے، ان داعش دہشت گرد گروہوں کی مکمل مدد کرتا رہا ہے اور حتیٰ کہ زخمی ہونے والے ان دہشت گردوں کو ریسکیو کرکے جولان کی پہاڑیوں پر طبی سہولیات بھی فراہم کی جاتی رہی ہیں۔
شام میں شامی افواج اور حزب اللہ لبنان کے جوانوں کی ملی جلی داعش مخالف کارروائیوں کے نتیجے میں داعش کے دہشت گردوں کو بھاری نقصان اٹھانا پڑا اور پھر اس صورتحال کو دیکھتے ہوئے امریکا نے مغربی اتحاد بنا کر شام پر فوجی کارروائی کا آغاز کیا اور اس کارروائی کی حقیقت یہ تھی کہ امریکی اور یورپی ممالک کی افواج کے طیارے داعش کے ٹھکانوں کو نشانہ بنانے کے بجائے شامی افواج کے مورچوں پر بمباری کرتے اور داعش کے پھنسے ہوئے دہشت گردوں کے لیے فرار کے راستے بنانے کا کام انجام دیتے رہے، اس کے ساتھ ساتھ امریکی اور اسرائیلی کارگو طیارے مسلسل داعش کے مخصوص ٹھکانوں پر گولہ بارود سمیت ان کی مسلح معاونت کرتے رہے اور ان کو کمک پہنچاتے رہے۔
اس بات میں کسی کو حیرانی نہیں ہونی چاہیے کہ امریکا نے آیا واقعی دہشت گرد گروہ داعش کو مسلح معاونت کی ہوگی۔ اس حوالے سے افغانستان کی مثال ہمارے سامنے ہے کہ جہاں القاعدہ کو بنایا اور پھر اسے زمینی سرحد یعنی پاکستان کے حکمرانوں کی مدد سے اسلحہ اور مدد فراہم کی اور جب ضرورت پڑی تو براہ راست اپنے جہازوں کی مدد سے ان کو مدد پہنچائی جاتی رہی، اور اس بات سے بھی کوئی ذی شعور انکار نہیں کرسکتا کہ القاعدہ کا وجود بنانے میں امریکی کردار پیش پیش تھا۔ اسی طرح اب مثال سابق کو دہراتے ہوئے امریکیوں نے 2006 میں عراق کی ابوغریب جیل میں داعش نامی دہشت گرد گروہ کے لیے افراد تیار کیے اور پھر اسے 2011 میں مارکیٹ میں لے آئے۔
داعش جو کہ شام میں گزشتہ چار سال سے زائد عرصہ سے امریکی، یورپی، اور عربی خلیجی ممالک کے عزائم کی تکمیل کے لیے شامی عوام کا قتل عام کر رہی تھی، شامی افواج اور حزب اللہ کی کارروائیوں اور حال ہی میں بننے والے نئے ریجنل اتحاد کہ جس میں ایران، روس، عراق، شام اور حزب اللہ شامل ہیں، اس نے ان داعش کے دہشت گردوں کی کمر مکمل طور پر توڑ دی ہے۔
عراق اور شام میں اپنے ناپاک مقاصد میں ناکام ہونے کے بعد اب داعش کے آقاؤں نے داعش کے وجود کو ایک مرتبہ پھر افغانستان میں متعارف کروانے کی کوشش کی ہے اور اب یہ خبریں منظرعام پر آنا شروع ہوچکی ہیںکہ داعش کے تربیتی مراکز افغانستان میں موجود ہیں۔ اب یہ تاثر پیدا کرنے کی کوشش کی جارہی ہے کہ افغان طالبان کو سپورٹ کی جائے، کیونکہ داعش تو بے رحم بھیڑیا ہے جس نے نہ تو افغان طالبان پر رحم کھانا ہے اور نہ ہی پاکستانی طالبان پر، اور اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ داعش نے خلافت کا جو مسئلہ پیدا کردیا ہے اور اس میں کسی بھی گروہ کے لیے گنجائش نہیں رکھی گئی۔
سب کو ان کی بیعت کرنا لازم ہے تو اس معاملے پر خود شام میں بھی النصرۃ اور داعش کے گروہوں میں گھمسان کی جنگ چلتی رہی، حالانکہ اوائل میں دونوں گروہوں کے نظریات ایک ہی تھے، تاہم بعد میں بیعت کے مسئلہ پر ایک دوسرے سے لڑ پڑے اور یہی حال اب افغانستان کا کرنے کے لیے مذکورہ بالا ممالک نے عراق اور شام میں اپنی بدترین شکست کے بعد سر زمین افغانستان کو نشانہ بنایا ہے تاکہ یہاں سے ایک تو وسطی ایشیائی ریاستوں پر بھی ان کا تسلط قائم ہو۔
جہاں پہلے ہی ذخائر کی بہتات ہے اور اسی طرح پاکستان جو افغانستان کے ساتھ ایک طویل سرحد رکھتا ہے اور یہاں پر پہلے سے طالبان نامی گروہ بھی موجود ہے جس نے پاکستان میں ستر ہزار سے زائد بے گناہوں بشمول ڈاکٹرز، ہونہاران پاکستان، سیکیورٹی فورسز کے اہلکاروں، معصوم بچوں، مساجد میں نمازیوں، بازاروں میں عام شہریوں سمیت انجیئرز اور معماران پاکستان کو قتل کیا ہے۔ لہٰذا اس طالبان گروہ سے فائدہ اٹھایا جائے اور اس کے لیے داعش کے سرپرست مذکورہ ممالک نے بھرپور کردار بھی ادا کیا ہے۔
پاکستان میں موجود افغان اور پاکستانی طالبان کے حامی پہلے سے ہی موجود ہیں اور انھوں نے داعش کی افغانستان میں موجودگی کی خبروں کے بعد سامری کی طرح ایک بین بجانا شروع کردی ہے، جس راگ یہ الاپا جارہا ہے کہ داعش سے بہتر تو افغان طالبان ہیں کہ جن کی ہمیں کھل کر مدد کرنی چاہیے اور اسی طرح پاکستان میں بھی کہ جب افواج پاکستان نے دہشت گرد طالبان گروہوں سمیت دیگر دہشت گردوں کے خلاف ضرب عضب شروع کر رکھا ہے تو اب یہی بات دہرائی جارہی ہے کہ داعش سے بہتر تو پاکستانی طالبان ہیں، حالانکہ اگر دیکھا جائے تو افغان طالبان ہوں، القاعدہ ہو، پاکستانی طالبان ہوں یا پھر ان سب کے بعد نئی پراڈکٹ داعش ہو، دراصل سب ایک دوسرے سے باہم ملے جلے ہوئے ہیں اور ان سب کے پیچھے ایک ہی سازش کارفرما ہے کہ کسی نہ کسی طرح دنیا کے تمام مسلمان ممالک میں دہشت کا راج ہو اور ان دہشتگرد گروہوں کے آقاؤں بشمول امریکا، اسرائیل، برطانیہ، یورپی اور خلیجی ممالک کے مفادات کو عملی جامہ پہنایا جاسکے۔
دراصل مشاہدہ کیا جائے تو آج پوری مسلم دنیا کا کوئی ملک بھی امن و امان سے شاید نہیں ہے، فلسطین کہ جو دنیائے اسلام کا بنیادی مسئلہ تھا جس پر اسرائیلی غاصبانہ تسلط قائم ہے اور 67 برس کا عرصہ بیت چکا ہے، کسی مسلم ممالک کے حکمران کو فلسطین و قبلہ اول کی فکر لاحق نہیں، اگر آواز اٹھتی ہے تو صرف ایران سے یا پھر پاکستان سے، اسی طرح فلسطین کے مسئلہ کو فراموش کرنے اور اسرائیل کو تحفظ دینے کے لیے داعش نامی سازش کو رچا گیا ہے اور شام کی صورتحال ہمارے سامنے ہے۔
افغانستان کو تو پہلے ہی امریکی اجاڑ چکے تھے، پاکستان بھی امریکی اور اسرائیلی سازشوں کی پراکسی جنگوں کا نشانہ بنتا رہا ہے اور پہلے بھی ذکر کیا گیا ہے کہ امریکی حمایت یافتہ دہشت گرد گروہوں کی پاکستان میں کمی نہیں ہے جنھوں نے گزشتہ چند برسوں میں ستر ہزار سے زائد معصوم پاکستانیوں کو لقمہ اجل بنا ڈالا ہے۔
اب ذرا مصر کی صورتحال دیکھیں تو آپ محسوس کریں گے کہ یہ وہ مصر ہی نہیں رہا کہ جس کے افواج کی بہادری کے چرچے تاریخ میں ملتے تھے، یمن کو دیکھیں وہاں سعودی عرب نے امریکی اور اسرائیلی جنگی جہازوں کی مدد سے دسیوں ہزار مسلمانوں کو خون میں غلطاں کر کے لقمہ اجل بنا ڈالا ہے، نائیجیریا میں انھی القاعدہ اور طالبان کا نیا ورژن موجود ہے جسے بوکوحرام کہا جاتا ہے، جو آئے روز بازاروں میں اور عام مقامات پر بم دھماکوں میں معصوم انسانوں کا خون پانی کی طرح بہاتے ہیں۔ لیبیا کی صورتحال بھی ہمارے سامنے ہے، سوڈان کی بات کریں تو وہاں بھی غاصب صہیونیوں نے سوڈان کو تقسیم کر ڈالا ہے۔ خلاصہ یہ کہ پوری مسلم دنیا کو آگ وخون میں غلطاں کیا گیا ہے۔
حتیٰ کہ عراق میں تیل کے کچھ ذخائر پر بھی ان کا قبضہ کروایا گیا اور پھر امریکی کمپنیاں انھی دہشت گرد گروہوں سے تیل کی خرید و فروخت کرنے میں مصروف عمل رہیں۔ اسرائیل کہ جس نے 1967کی عرب اسرائیل جنگ کے بعد سے ہی شام کی جولان کی پہاڑیوں پر اپنا غاصبانہ تسلط قائم کر رکھا ہے، ان داعش دہشت گرد گروہوں کی مکمل مدد کرتا رہا ہے اور حتیٰ کہ زخمی ہونے والے ان دہشت گردوں کو ریسکیو کرکے جولان کی پہاڑیوں پر طبی سہولیات بھی فراہم کی جاتی رہی ہیں۔
شام میں شامی افواج اور حزب اللہ لبنان کے جوانوں کی ملی جلی داعش مخالف کارروائیوں کے نتیجے میں داعش کے دہشت گردوں کو بھاری نقصان اٹھانا پڑا اور پھر اس صورتحال کو دیکھتے ہوئے امریکا نے مغربی اتحاد بنا کر شام پر فوجی کارروائی کا آغاز کیا اور اس کارروائی کی حقیقت یہ تھی کہ امریکی اور یورپی ممالک کی افواج کے طیارے داعش کے ٹھکانوں کو نشانہ بنانے کے بجائے شامی افواج کے مورچوں پر بمباری کرتے اور داعش کے پھنسے ہوئے دہشت گردوں کے لیے فرار کے راستے بنانے کا کام انجام دیتے رہے، اس کے ساتھ ساتھ امریکی اور اسرائیلی کارگو طیارے مسلسل داعش کے مخصوص ٹھکانوں پر گولہ بارود سمیت ان کی مسلح معاونت کرتے رہے اور ان کو کمک پہنچاتے رہے۔
اس بات میں کسی کو حیرانی نہیں ہونی چاہیے کہ امریکا نے آیا واقعی دہشت گرد گروہ داعش کو مسلح معاونت کی ہوگی۔ اس حوالے سے افغانستان کی مثال ہمارے سامنے ہے کہ جہاں القاعدہ کو بنایا اور پھر اسے زمینی سرحد یعنی پاکستان کے حکمرانوں کی مدد سے اسلحہ اور مدد فراہم کی اور جب ضرورت پڑی تو براہ راست اپنے جہازوں کی مدد سے ان کو مدد پہنچائی جاتی رہی، اور اس بات سے بھی کوئی ذی شعور انکار نہیں کرسکتا کہ القاعدہ کا وجود بنانے میں امریکی کردار پیش پیش تھا۔ اسی طرح اب مثال سابق کو دہراتے ہوئے امریکیوں نے 2006 میں عراق کی ابوغریب جیل میں داعش نامی دہشت گرد گروہ کے لیے افراد تیار کیے اور پھر اسے 2011 میں مارکیٹ میں لے آئے۔
داعش جو کہ شام میں گزشتہ چار سال سے زائد عرصہ سے امریکی، یورپی، اور عربی خلیجی ممالک کے عزائم کی تکمیل کے لیے شامی عوام کا قتل عام کر رہی تھی، شامی افواج اور حزب اللہ کی کارروائیوں اور حال ہی میں بننے والے نئے ریجنل اتحاد کہ جس میں ایران، روس، عراق، شام اور حزب اللہ شامل ہیں، اس نے ان داعش کے دہشت گردوں کی کمر مکمل طور پر توڑ دی ہے۔
عراق اور شام میں اپنے ناپاک مقاصد میں ناکام ہونے کے بعد اب داعش کے آقاؤں نے داعش کے وجود کو ایک مرتبہ پھر افغانستان میں متعارف کروانے کی کوشش کی ہے اور اب یہ خبریں منظرعام پر آنا شروع ہوچکی ہیںکہ داعش کے تربیتی مراکز افغانستان میں موجود ہیں۔ اب یہ تاثر پیدا کرنے کی کوشش کی جارہی ہے کہ افغان طالبان کو سپورٹ کی جائے، کیونکہ داعش تو بے رحم بھیڑیا ہے جس نے نہ تو افغان طالبان پر رحم کھانا ہے اور نہ ہی پاکستانی طالبان پر، اور اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ داعش نے خلافت کا جو مسئلہ پیدا کردیا ہے اور اس میں کسی بھی گروہ کے لیے گنجائش نہیں رکھی گئی۔
سب کو ان کی بیعت کرنا لازم ہے تو اس معاملے پر خود شام میں بھی النصرۃ اور داعش کے گروہوں میں گھمسان کی جنگ چلتی رہی، حالانکہ اوائل میں دونوں گروہوں کے نظریات ایک ہی تھے، تاہم بعد میں بیعت کے مسئلہ پر ایک دوسرے سے لڑ پڑے اور یہی حال اب افغانستان کا کرنے کے لیے مذکورہ بالا ممالک نے عراق اور شام میں اپنی بدترین شکست کے بعد سر زمین افغانستان کو نشانہ بنایا ہے تاکہ یہاں سے ایک تو وسطی ایشیائی ریاستوں پر بھی ان کا تسلط قائم ہو۔
جہاں پہلے ہی ذخائر کی بہتات ہے اور اسی طرح پاکستان جو افغانستان کے ساتھ ایک طویل سرحد رکھتا ہے اور یہاں پر پہلے سے طالبان نامی گروہ بھی موجود ہے جس نے پاکستان میں ستر ہزار سے زائد بے گناہوں بشمول ڈاکٹرز، ہونہاران پاکستان، سیکیورٹی فورسز کے اہلکاروں، معصوم بچوں، مساجد میں نمازیوں، بازاروں میں عام شہریوں سمیت انجیئرز اور معماران پاکستان کو قتل کیا ہے۔ لہٰذا اس طالبان گروہ سے فائدہ اٹھایا جائے اور اس کے لیے داعش کے سرپرست مذکورہ ممالک نے بھرپور کردار بھی ادا کیا ہے۔
پاکستان میں موجود افغان اور پاکستانی طالبان کے حامی پہلے سے ہی موجود ہیں اور انھوں نے داعش کی افغانستان میں موجودگی کی خبروں کے بعد سامری کی طرح ایک بین بجانا شروع کردی ہے، جس راگ یہ الاپا جارہا ہے کہ داعش سے بہتر تو افغان طالبان ہیں کہ جن کی ہمیں کھل کر مدد کرنی چاہیے اور اسی طرح پاکستان میں بھی کہ جب افواج پاکستان نے دہشت گرد طالبان گروہوں سمیت دیگر دہشت گردوں کے خلاف ضرب عضب شروع کر رکھا ہے تو اب یہی بات دہرائی جارہی ہے کہ داعش سے بہتر تو پاکستانی طالبان ہیں، حالانکہ اگر دیکھا جائے تو افغان طالبان ہوں، القاعدہ ہو، پاکستانی طالبان ہوں یا پھر ان سب کے بعد نئی پراڈکٹ داعش ہو، دراصل سب ایک دوسرے سے باہم ملے جلے ہوئے ہیں اور ان سب کے پیچھے ایک ہی سازش کارفرما ہے کہ کسی نہ کسی طرح دنیا کے تمام مسلمان ممالک میں دہشت کا راج ہو اور ان دہشتگرد گروہوں کے آقاؤں بشمول امریکا، اسرائیل، برطانیہ، یورپی اور خلیجی ممالک کے مفادات کو عملی جامہ پہنایا جاسکے۔
دراصل مشاہدہ کیا جائے تو آج پوری مسلم دنیا کا کوئی ملک بھی امن و امان سے شاید نہیں ہے، فلسطین کہ جو دنیائے اسلام کا بنیادی مسئلہ تھا جس پر اسرائیلی غاصبانہ تسلط قائم ہے اور 67 برس کا عرصہ بیت چکا ہے، کسی مسلم ممالک کے حکمران کو فلسطین و قبلہ اول کی فکر لاحق نہیں، اگر آواز اٹھتی ہے تو صرف ایران سے یا پھر پاکستان سے، اسی طرح فلسطین کے مسئلہ کو فراموش کرنے اور اسرائیل کو تحفظ دینے کے لیے داعش نامی سازش کو رچا گیا ہے اور شام کی صورتحال ہمارے سامنے ہے۔
افغانستان کو تو پہلے ہی امریکی اجاڑ چکے تھے، پاکستان بھی امریکی اور اسرائیلی سازشوں کی پراکسی جنگوں کا نشانہ بنتا رہا ہے اور پہلے بھی ذکر کیا گیا ہے کہ امریکی حمایت یافتہ دہشت گرد گروہوں کی پاکستان میں کمی نہیں ہے جنھوں نے گزشتہ چند برسوں میں ستر ہزار سے زائد معصوم پاکستانیوں کو لقمہ اجل بنا ڈالا ہے۔
اب ذرا مصر کی صورتحال دیکھیں تو آپ محسوس کریں گے کہ یہ وہ مصر ہی نہیں رہا کہ جس کے افواج کی بہادری کے چرچے تاریخ میں ملتے تھے، یمن کو دیکھیں وہاں سعودی عرب نے امریکی اور اسرائیلی جنگی جہازوں کی مدد سے دسیوں ہزار مسلمانوں کو خون میں غلطاں کر کے لقمہ اجل بنا ڈالا ہے، نائیجیریا میں انھی القاعدہ اور طالبان کا نیا ورژن موجود ہے جسے بوکوحرام کہا جاتا ہے، جو آئے روز بازاروں میں اور عام مقامات پر بم دھماکوں میں معصوم انسانوں کا خون پانی کی طرح بہاتے ہیں۔ لیبیا کی صورتحال بھی ہمارے سامنے ہے، سوڈان کی بات کریں تو وہاں بھی غاصب صہیونیوں نے سوڈان کو تقسیم کر ڈالا ہے۔ خلاصہ یہ کہ پوری مسلم دنیا کو آگ وخون میں غلطاں کیا گیا ہے۔