دہشت گردوں کی درس گاہیں
داعش کے ’’جہاد اسکول‘‘، جہاں ننھے منے بچوں کو کلاشنکوف چلانے اور سر قلم کرنے کی تربیت دی جارہی ہے
یہ ایک عام سا اسکول ہے، لیکن یہاں دی جانے والی تعلیم یکسر مختلف ہے۔ ایک کلاس میں سیاہ پوش بچے بہت ہی انہماک سے پروجیکٹر پر چلنے والی ویڈیو دیکھنے میں مصروف ہیں، اسکرین پر دکھائی دینے والے مناظر کسی بھی ذی ہوش فرد کو خوف زدہ کرنے کے لیے کافی ہیں۔ لیکن یہاں موجود بچوں کے لیے یہ اُن کے 'نصاب' کا حصہ ہے۔
دوسری کلاس میں ان بچوں کے ہاتھوں میں قلم، کتاب کی جگہ ایک بہت ہی انوکھی چیز ہے، ایک ایسی شے جو دنیا بھر میں لاکھوں انسانوں کی ہلاکت کی ذمے دار ہے، ایک ایسی شے جس کا موجد بھی اپنی اس ایجاد پر زندگی بھر انسانیت کے سامنے شرمسار رہا۔ کلاس رومز کے سامنے ہی بچوں کے لیے کھیل کا میدان ہے۔
لیکن اس میدان میں بچے کرکٹ، فٹ بال یا ہاکی کے بجائے ایک انوکھا کھیل کھیلنا سیکھ رہے ہیں، ایک ایسا کھیل جس نے دنیا بھر میں لاکھوں زندگیوں کے چراغ گُل کر دیے۔ یہاں ان بچوں کو اس کھیل کے جدید طریقے سکھائے جا رہے ہیں، وحشت و بربریت کے پُرتشدد طریقے، جیتے جاگتے انسانوں کو زیادہ سے زیادہ اذیت ناک موت دینے کے طریقے، معصوم لوگوں کے حلقوم کو شہ رگ سے کاٹنے کے طریقے۔
اس اسکول کا نصاب بھی مختلف ہے۔ ان درسی کُتب میں امن و محبت کے ساتھ رہنے، دوسروں کے ساتھ خوش اخلاقی سے پیش آنے کے بجائے مذہب کے نام پر نفرت کا پرچار کرنے، دوسرے عقائد و مذہب کے لوگوں کو بربریت کا نشانہ بنانے کا سبق پڑھایا جاتا ہے۔ بچے کی صلاحیتوں کی جانچ یہاں بھی کی جاتی ہے لیکن استاد و طالب علم کے درمیان سوال جواب کا سلسلہ کچھ یوں ہے:
استاد: یہ کیا ہے؟
طالب علم: کلاشنکوف۔
استاد: ہم اسے کس لیے استعمال کرتے ہیں؟
طالب علم: اپنے عقیدے کی حفاظت کے لیے۔
یہ نہ ہی کسی فلم کی کہانی ہے اور نہ اس میں کسی قسم کی مبالغہ آمیزی ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے۔ ایسی حقیقت جس نے بنی نوع انسان کا سر شرم سے جھکا دیا ہے۔
یہ مناظر داعش کی جانب سے قائم کی گئی نام نہاد خلافت اسلامیہ اور افغانستان کے صوبے کنُڑ کی تحصیل میں قائم کیے گیے 'جہاد اسکولز' کے ہیں۔ داعش کے سوشل میڈیا اکاؤنٹ پر جاری ہونے والے جہاد اسکول کی تصاویر اور ویڈیوز میں معصوم بچوں کو وحشت و بربریت کی تربیت دینے کے مراحل دکھائے گئے ہیں۔ ان تصاویر اور وڈیوز میں دس گیارہ سال کے بچوں کو کھیل کے میدان اور کلاس رومز میں کلاشنکوف کے ساتھ دیکھا جا سکتا ہے۔
داعش کے میڈیا ونگ موسیسات الفرقان کی جانب سے یو ٹیوب پر 'ریاست اسلامی کے شیر کے بچے' کے عنوان سے جاری کی گئی ویڈیو میں بچوں کو دی جانے والی جنگی تربیت کے مناظر بھی شامل ہیں۔ ان اسکولوں میں عربی زبان میں بچوں کو سر قلم کرنے، مخالفین کو بے رحمانہ طریقے سے قتل کر نے، بم بنانے اور مہلک آتشیں اسلحہ چلانے کی تعلیم تربیت دی جارہی ہے۔
داعش کے ہی ایک اور میڈیا ونگ الاتصام میڈیا کی جانب سے بھی جہاد اسکول میں دی جانے والی تعلیم کے حوالے سے سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر بھرپور مہم جاری ہے، جس کا مقصد داعش کے زیراثر علاقوں میں دہشت کی فضا قائم کرنا ہے۔ غیرملکی ذرایع ابلاغ پر نشر ہونے والی کچھ ویڈیوز میں جدید اسلحے سے لیس بچے بھی جنگ جوؤں کے ساتھ لڑتے دکھائی دے رہے ہیں، یہ بچے جہاد اسکول ہی سے فارغ التحصیل ہیں۔
داعش کی جانب سے یہ تصاویر اور ویڈیوز اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کی اس رپورٹ کے بعد جاری کی گئی جس میں کہا گیا تھا کہ داعش نے اسکولوں کی آڑ میں تربیتی کیمپ قائم کیے ہیں، جہاں تعلیم کے نام پر بچوں کو بھرتی اور دہشت گردی کی تربیت دی جا رہی ہے۔ رپورٹ کے مطابق ان کیمپوں میں بھرتی کیے جانے والے بچوں کو روز اول سے ہی مذہبی تعلیم اور اسلحہ چلانے کی تربیت کا آغاز کردیا جاتا ہے۔
جہاد اسکول کے نام پر بنائے گئے ان کیمپوں میں داعش کے دہشت گرد ایک مربوط نظام کے ذریعے بچوں کو عسکری تربیت دے رہے ہیں۔ اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کرنے والے بچوں (مستقبل کے دہشت گرد، خود کش بم بار) کو گریجویٹ قرار دے کر لڑائی کے میدان میں بھیج دیا جاتا ہے جہاں یہ جنگ و جدل کے ساتھ ساتھ خود کش حملے کے مشن بھی سر انجام دیتے ہیں۔
اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کے مطابق 15سال سے کم عمر بچوں کی عسکری اداروں اور گروہوں میں بھرتی اور عسکری تربیت جنگی جرائم کے زمرے میں آتی ہے۔ داعش ان جہاد اسکولوں میں بچوں کو بھرتی کرکے سنگین جنگی جرائم کی مرتکب ہورہی ہے۔ دنیا بھر میں انسانی حقوق کی تنظیموں نے داعش کی جانب سے جاری کی گئی جہاد اسکولوں کی ویڈیوز کو شرم ناک قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ داعش اپنے مذموم مقاصد کے لیے بچوں کو بھی بے دریغ استعمال کر رہی ہے۔
جس کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے۔ ایمنیسٹی انٹرنیشنل برطانیہ کی شام کی کمپین مینیجر کرسٹیان بینی ڈکٹ کا اس حوالے سے کہنا ہے،''نقاب پوش مسلح افراد کی اسٹیج پر کھڑے ہوکر بچوں کو دی جانے والی دہشت گردی کی تعلیم تربیت نے یقیناً ہر دردمند دل رکھنے والے فرد کو متاثر کیا ہے۔'' کرسٹینا کے مطابق سوشل میڈیا پر جاری ہونے والی ویڈیوز اس بات کا ثبوت ہیں کہ داعش وحشت و بربریت کے لیے بڑے پیمانے پر معصوم ذہنوں کی برین واشنگ کر رہی ہے۔
اُن کا کہنا ہے،''بین الاقوامی قوانین میں واضح طور پر بچوں کو بہ طور فوجی استعمال کرنے کی سختی سے ممانعت ہے اور داعش کی کم عمر بچوں کو بہ طور جنگ جو استعمال کرنے سے اُس کے خلاف چارج شیٹ میں مزید جرائم کا اضافہ ہورہا ہے۔'' انسداد دہشت گردی کے برطانوی تھنک ٹینک Quilliam فاؤنڈیشن کے ترجمان چارلی ونٹر کا کہنا ہے،''اگر داعش اپنے زیرتسلط علاقوں میں بچوں کو اسلحہ چلانے اور دہشت گردی کی تربیت دے رہی ہے تو اس میں کوئی اچھنبے کی بات نہیں۔ لیکن داعش جہاد اسکول کی ویڈیوز اور تصاویر کی مدد سے جہادی نظریات پر یقین رکھنے والوں کے لیے خود کو ایک مثالی ریاست کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کررہی ہے، جو یقیناً دوسری دہشت گرد تنظیموں کے لیے ایک مثال بن سکتی ہے۔''
گزشتہ ماہ ایک غیرسرکاری تنظیم 'سیریا ڈائریکٹ' نے اپنی ایک رپورٹ میں شام کے مشرقی شہر دیر الزوئر میں داعش کی جانب سے ایلیمنٹری اسکول کھولنے کا ذکر کیا ہے۔ مقامی خبر رساں ایجنسی 'اسٹیپ نیوز' کے مطابق اس اسکول میں بچوں کو نہ بھیجنے والے والدین پر جرمانے عائد کرنے کے ساتھ ساتھ انہیں گرفتار بھی کیا جا رہا ہے۔ میادین (شامی قصبے ) میں بنائے گئے اس اسکول میں نہ صرف لڑکوں بل کہ لڑکیوں کو بھی زبردستی داخل کیا جا رہا ہے۔
داعش پہلے ہی اس خطے میں ریاضی، طبیعات، فلسفے، موسیقی، تاریخ اور جغرافیے کی تعلیم کو غیراسلامی قرار دے اپنا بنایا گیا نصاب لاگو کر چکی ہے، جب کہ داعش کا نصاب نہ پڑھانے والے اساتذہ کو بدترین جسمانی تشدد کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔ داعش کی ان تعلیم دشمن سرگرمیوں کا نقشہ مقامی استاد ابو عبداﷲ (فرضی نام) نے کچھ اس طرح کھینچا ہے،''نام نہاد خلافتِ اسلامیہ کی داعی داعش کے مطابق ایک فلاحی ریاست کے لیے اُن کی مرتب کردہ نصابی کتب ہی ہر بچے کو پڑھانی چاہییں۔
اور ان (داعش کے دہشت گرد) کی حکم عدولی کرنے والے اساتذہ کو کم سے کم بھی تیس کوڑوں کی سزا دی جاتی ہے۔ لیکن سزا سے زیادہ افسوس ناک بات یہ ہے کہ ہماری آنے والی نسلیں جدید علوم سے لا علم ہوں گی۔ یہ بچے ہاتھوں میں قلم کی جگہ ہتھیار تھامے ایک ایسے ماحول میں بڑے ہورہے ہیں جہاں خون خرابہ، قتل و غارت گری معمول کی بات ہے۔ ان بچوں کو نہ صرف آتشیں ہتھیار چلانے کی تربیت دی جارہی ہے، بل کہ یہ سر قلم کرنے اور کئی پھانسیوں کے عینی شاہد بھی ہیں۔ یقیناً بچپن سے ہی اس ماحول میں تربیت حاصل کرنے والے بچوں سے جوانی میں کسی رحم دلی کی امید رکھنا بعید از قیاس ہے۔''
گذشتہ ماہ مشرقی افغانستان کے گاؤں شیگل میں کھلنے والے جہاد اسکول سے چارلی ونٹر کے خدشات کو مزید تقویت ملتی ہے۔ امریکا کی پبلک براڈ کاسٹنگ سروس (پی بی ایس) کی ایک دستاویزی فلم 'آئی ایس آئی ایس ان افغانستان' کے مطابق یہ اسکول خود کو داعش کے اتحادی قرار دینے والے جنگ جوؤں کی جانب سے کھولا گیا ہے، جو یہاں رہنے کے ساتھ ساتھ مقامیوں سے محصول بھی وصول کرتے ہیں۔ اس جہاد اسکول میں کم سن بچوں کو پستول سے لے کر بھاری ہتھیار تک چلانے کی تربیت دی جارہی ہے۔ یہاں بچوں کی جنگی تربیت کے ساتھ ان کی برین واشنگ بھی کی جارہی ہے۔
اگر داعش اور اس کی حلیف دہشت گرد تنظیموں کی تعلیم کے نام پر وحشت و بربریت سکھانے کی مذمت اور ایسے اسکولوں کے قیام کی سرکوبی نہیں کی گئی تو پھر یقیناً ان علاقوں میں پرورش پانے والے بچے بھی مستقبل میں اپنے مخالف فرقے، مذہب سے تعلق رکھنے والے افراد کے ساتھ وہ بربریت کا وہ کھیل کھیلیں گے جسے دیکھ کر ہمیں اُن کے تربیت کاروں (داعش اور اس کی حلیف دہشت گرد تنظیموں) کی دہشت گردی بھی معمولی لگے۔
صلیبی معرکوں سے وسائل پر قابض ہونے کی جنگ تک کا ایندھن: معصوم بچے!
بچوں کو جنگی مقاصد میں استعمال کرنے کا رواج کچھ نیا نہیں۔ اگر ہم تاریخ پر ایک نظر ڈالیں تو بچوں کو پہلی بار جنگی مقاصد میں استعمال کرنے کا ذکر 1212کی صلیبی جنگوں میں ملتا ہے۔ جنگ میں لگاتار شکست کھانے کے بعد عیسائیوں کی مذہبی وعسکری قیادت نے بچوں کو جنگ کا ایندھن بنانے کا فیصلہ کیا۔
اس مذموم مقصد کے لیے انہوں نے اٹلی کے شمالی علاقوں کو منتخب کیا، جہاں اسٹیفن نامی بارہ سالہ بچے کی قیادت میں ہاتھوں میں لکڑی کی صلیبیں تھامے سیکڑوں بچے بلند آواز میں مذہبی گیت گاتے ساحل سمندر کی جانب گام زن تھے۔ مذہبی پیشواؤں نے ان بچوں کو یہ باور کرادیا تھا کہ ساحل پر پہنچے پر سمندر اُن کا راستہ بنانے کے لیے سمٹ جائے گا اور وہ مقدس سرزمین پر پہنچ کر سب مسلمانوں کو عیسائی کرلیں گے۔ اس وقت چرچ کی تاریخ کے طاقت ور ترین پوپ انوسنٹ نے بچوں کے اس سفر کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرتے ہوئے کہا،''یہ ہمارے لیے باعثِ شرم ہے کہ بچے تو سرزمین مقدس کی آزادی کے لیے نکلیں اور ہم گھروں میں بیٹھے رہیں۔'' مذہبی اور سیاسی قیادت نے تو اپنا مقصد حاصل کرلیا۔ لیکن اُن بچوں کو بہت عبرت ناک انجام سے دوچار ہونا پڑا۔
دور حاضر میں تہذیب و تمدن کا پرچار کرنے والے انسانوں نے بچوں کو بڑے پیمانے پر جنگوں، گروہی لڑائیوں میں استعمال کرنا شروع کردیا ہے۔ اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے یونیسیف کے اعداد و شما رکے مطابق صرف گذشتہ سال ہی تقریباً4لاکھ بچوں کو جنگی تربیت دی گئی یا انہیں گروہی لڑائیوں میں استعمال کیا گیا اور اس مقصد کے لیے پوری دنیا میں مزید ہزاروں بچوں کو فوجی اور عسکریت تربیت کے لیے بھرتی کیے جانے کا امکان ہے۔
اقوام متحدہ کی بچوں اور مسلح تنازعات کے حوالے سے مرتب کی گئی اس رپورٹ میں داعش، القاعدہ کی ذیلی جماعت جبھتہ النصرہ، احرار الشام، کردش پیپلز پروٹیکشن اور نائیجریا کا انتہا پسند گروپ بوکوحرام آٹھ سرکاری افواج اور 51مسلح گروپوں بھی شامل کیا گیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق یہ دہشت گرد اور عسکریت پسند گروپ بچوں کو گروہی اور عسکری لڑائیوں میں استعمال کرنے کے ساتھ ساتھ جنسی زیادتی، یا خود کش حملوں کے لیے استعمال کر رہے ہیں اور اس کام کے لیے دنیا بھر میں بچوں کی بھرتیوں کا سلسلہ بنا کسی رکاوٹ کے جاری ہے۔ حکومتی سطح پر بچوں کو بہ طور فوجی استعمال کرنے میں برما کی حکومت سر فہرست ہے۔
بچوں کے جنگوں میں استعمال کی روک تھام کے لیے کام کرنے والی ایک غیرسرکاری تنظیم 'وار چائلڈ' کے حالیہ اعدادوشمار کے مطابق برما میں تقریباً 80 ہزار بچوں کو مختلف باغی گروپوں اور سرکاری فوج میں استعمال کیا جارہا ہے۔
انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیم ہیومن رائٹس واچ کے مطابق میانمار میں ہر پانچواں فوجی 18سال سے کم عمر ہے، جب کہ گذشتہ پندرہ سالوں میں دنیا کے تقریباً ہر خطے میں بچوں کو جنگ کا ایندھن بنانے میں کی شرح میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے، جب کہ بچہ فوج میں تقریباً تیس فی صد تعداد معصوم کم عمر لڑکیوں کی ہے، جنہیں میدان جنگ کے علاوہ جنسی استحصال کے لیے بھی استعمال کیا جاتا ہے اور ان میں سے کچھ بچوں کی عمریں تو دس سال سے بھی کم ہیں۔
امریکی اخبار ''واشنگٹن پوسٹ'' کے مطابق یمن کے حوثی باغی بھی بچوں کو میدان جنگ میں بھرپور طریقے سے استعمال کر رہے ہیں۔ حوثی باغیوں نے خود اپنی صفوں میں شامل ایک تہائی بچوں کے 18سال سے کم عمر ہونے کا اعتراف کیا ہے۔ اپنے مفادات کی ہوس میں حوثیوں نے بچوں سے قلم چھین کر انہیں ہتھیار دے کر میدان جنگ کا ایندھن بنایا دیا ہے۔ ان کے ناتواں کندھوں پر بندوق رکھ دی ہے۔ ان سے اسکول کے یونیفارم چھین لیے گئے ہیں۔
اب وہ فوجی وردی پہن کر جنگ میں شریک ہیں۔ رپورٹ کے مطابق یمن میں اس وقت حوثی جنگ جوؤں کی کل تعداد 25 ہزار کے لگ بھک ہے، جس کا ایک تہائی ایسے بچوں پر مشتمل ہے جن کی عمریں محض 13 سے 18سال کے درمیان ہیں۔ حوثی شدت پسندوں کی جانب سے اپنی صفوں میں کم عمر بچوں کو بھرتی کرنے کا عمل نیا نہیں، تاہم حوثیوں کا دعویٰ ہے کہ بچوں کو براہ راست لڑائی کے بجائے سیکیوریٹی چیک پوسٹس پر تلاشی کے لیے بھرتی کیا گیا ہے۔
حوثیوں کے علاوہ القاعدہ کے دہشت گرد بھی یمن میں بچوں کو جنگ کے لیے بھرتی کرتے رہے ہیں۔ ان دونوں کی جانب سے جنگ کے لیے بھرتی کیے گئے بچوں کو فی کس ماہانہ 100 ڈالر تک اُجرت بھی دی جاتی ہے اور خط غربت سے نیچے زندگی گزارنے والے یمنی باشندے چند پیسوں کے لیے اپنے بچوں کو بھرتی کرارہے ہیں۔
دوسری کلاس میں ان بچوں کے ہاتھوں میں قلم، کتاب کی جگہ ایک بہت ہی انوکھی چیز ہے، ایک ایسی شے جو دنیا بھر میں لاکھوں انسانوں کی ہلاکت کی ذمے دار ہے، ایک ایسی شے جس کا موجد بھی اپنی اس ایجاد پر زندگی بھر انسانیت کے سامنے شرمسار رہا۔ کلاس رومز کے سامنے ہی بچوں کے لیے کھیل کا میدان ہے۔
لیکن اس میدان میں بچے کرکٹ، فٹ بال یا ہاکی کے بجائے ایک انوکھا کھیل کھیلنا سیکھ رہے ہیں، ایک ایسا کھیل جس نے دنیا بھر میں لاکھوں زندگیوں کے چراغ گُل کر دیے۔ یہاں ان بچوں کو اس کھیل کے جدید طریقے سکھائے جا رہے ہیں، وحشت و بربریت کے پُرتشدد طریقے، جیتے جاگتے انسانوں کو زیادہ سے زیادہ اذیت ناک موت دینے کے طریقے، معصوم لوگوں کے حلقوم کو شہ رگ سے کاٹنے کے طریقے۔
اس اسکول کا نصاب بھی مختلف ہے۔ ان درسی کُتب میں امن و محبت کے ساتھ رہنے، دوسروں کے ساتھ خوش اخلاقی سے پیش آنے کے بجائے مذہب کے نام پر نفرت کا پرچار کرنے، دوسرے عقائد و مذہب کے لوگوں کو بربریت کا نشانہ بنانے کا سبق پڑھایا جاتا ہے۔ بچے کی صلاحیتوں کی جانچ یہاں بھی کی جاتی ہے لیکن استاد و طالب علم کے درمیان سوال جواب کا سلسلہ کچھ یوں ہے:
استاد: یہ کیا ہے؟
طالب علم: کلاشنکوف۔
استاد: ہم اسے کس لیے استعمال کرتے ہیں؟
طالب علم: اپنے عقیدے کی حفاظت کے لیے۔
یہ نہ ہی کسی فلم کی کہانی ہے اور نہ اس میں کسی قسم کی مبالغہ آمیزی ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے۔ ایسی حقیقت جس نے بنی نوع انسان کا سر شرم سے جھکا دیا ہے۔
یہ مناظر داعش کی جانب سے قائم کی گئی نام نہاد خلافت اسلامیہ اور افغانستان کے صوبے کنُڑ کی تحصیل میں قائم کیے گیے 'جہاد اسکولز' کے ہیں۔ داعش کے سوشل میڈیا اکاؤنٹ پر جاری ہونے والے جہاد اسکول کی تصاویر اور ویڈیوز میں معصوم بچوں کو وحشت و بربریت کی تربیت دینے کے مراحل دکھائے گئے ہیں۔ ان تصاویر اور وڈیوز میں دس گیارہ سال کے بچوں کو کھیل کے میدان اور کلاس رومز میں کلاشنکوف کے ساتھ دیکھا جا سکتا ہے۔
داعش کے میڈیا ونگ موسیسات الفرقان کی جانب سے یو ٹیوب پر 'ریاست اسلامی کے شیر کے بچے' کے عنوان سے جاری کی گئی ویڈیو میں بچوں کو دی جانے والی جنگی تربیت کے مناظر بھی شامل ہیں۔ ان اسکولوں میں عربی زبان میں بچوں کو سر قلم کرنے، مخالفین کو بے رحمانہ طریقے سے قتل کر نے، بم بنانے اور مہلک آتشیں اسلحہ چلانے کی تعلیم تربیت دی جارہی ہے۔
داعش کے ہی ایک اور میڈیا ونگ الاتصام میڈیا کی جانب سے بھی جہاد اسکول میں دی جانے والی تعلیم کے حوالے سے سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر بھرپور مہم جاری ہے، جس کا مقصد داعش کے زیراثر علاقوں میں دہشت کی فضا قائم کرنا ہے۔ غیرملکی ذرایع ابلاغ پر نشر ہونے والی کچھ ویڈیوز میں جدید اسلحے سے لیس بچے بھی جنگ جوؤں کے ساتھ لڑتے دکھائی دے رہے ہیں، یہ بچے جہاد اسکول ہی سے فارغ التحصیل ہیں۔
داعش کی جانب سے یہ تصاویر اور ویڈیوز اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کی اس رپورٹ کے بعد جاری کی گئی جس میں کہا گیا تھا کہ داعش نے اسکولوں کی آڑ میں تربیتی کیمپ قائم کیے ہیں، جہاں تعلیم کے نام پر بچوں کو بھرتی اور دہشت گردی کی تربیت دی جا رہی ہے۔ رپورٹ کے مطابق ان کیمپوں میں بھرتی کیے جانے والے بچوں کو روز اول سے ہی مذہبی تعلیم اور اسلحہ چلانے کی تربیت کا آغاز کردیا جاتا ہے۔
جہاد اسکول کے نام پر بنائے گئے ان کیمپوں میں داعش کے دہشت گرد ایک مربوط نظام کے ذریعے بچوں کو عسکری تربیت دے رہے ہیں۔ اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کرنے والے بچوں (مستقبل کے دہشت گرد، خود کش بم بار) کو گریجویٹ قرار دے کر لڑائی کے میدان میں بھیج دیا جاتا ہے جہاں یہ جنگ و جدل کے ساتھ ساتھ خود کش حملے کے مشن بھی سر انجام دیتے ہیں۔
اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کے مطابق 15سال سے کم عمر بچوں کی عسکری اداروں اور گروہوں میں بھرتی اور عسکری تربیت جنگی جرائم کے زمرے میں آتی ہے۔ داعش ان جہاد اسکولوں میں بچوں کو بھرتی کرکے سنگین جنگی جرائم کی مرتکب ہورہی ہے۔ دنیا بھر میں انسانی حقوق کی تنظیموں نے داعش کی جانب سے جاری کی گئی جہاد اسکولوں کی ویڈیوز کو شرم ناک قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ داعش اپنے مذموم مقاصد کے لیے بچوں کو بھی بے دریغ استعمال کر رہی ہے۔
جس کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے۔ ایمنیسٹی انٹرنیشنل برطانیہ کی شام کی کمپین مینیجر کرسٹیان بینی ڈکٹ کا اس حوالے سے کہنا ہے،''نقاب پوش مسلح افراد کی اسٹیج پر کھڑے ہوکر بچوں کو دی جانے والی دہشت گردی کی تعلیم تربیت نے یقیناً ہر دردمند دل رکھنے والے فرد کو متاثر کیا ہے۔'' کرسٹینا کے مطابق سوشل میڈیا پر جاری ہونے والی ویڈیوز اس بات کا ثبوت ہیں کہ داعش وحشت و بربریت کے لیے بڑے پیمانے پر معصوم ذہنوں کی برین واشنگ کر رہی ہے۔
اُن کا کہنا ہے،''بین الاقوامی قوانین میں واضح طور پر بچوں کو بہ طور فوجی استعمال کرنے کی سختی سے ممانعت ہے اور داعش کی کم عمر بچوں کو بہ طور جنگ جو استعمال کرنے سے اُس کے خلاف چارج شیٹ میں مزید جرائم کا اضافہ ہورہا ہے۔'' انسداد دہشت گردی کے برطانوی تھنک ٹینک Quilliam فاؤنڈیشن کے ترجمان چارلی ونٹر کا کہنا ہے،''اگر داعش اپنے زیرتسلط علاقوں میں بچوں کو اسلحہ چلانے اور دہشت گردی کی تربیت دے رہی ہے تو اس میں کوئی اچھنبے کی بات نہیں۔ لیکن داعش جہاد اسکول کی ویڈیوز اور تصاویر کی مدد سے جہادی نظریات پر یقین رکھنے والوں کے لیے خود کو ایک مثالی ریاست کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کررہی ہے، جو یقیناً دوسری دہشت گرد تنظیموں کے لیے ایک مثال بن سکتی ہے۔''
گزشتہ ماہ ایک غیرسرکاری تنظیم 'سیریا ڈائریکٹ' نے اپنی ایک رپورٹ میں شام کے مشرقی شہر دیر الزوئر میں داعش کی جانب سے ایلیمنٹری اسکول کھولنے کا ذکر کیا ہے۔ مقامی خبر رساں ایجنسی 'اسٹیپ نیوز' کے مطابق اس اسکول میں بچوں کو نہ بھیجنے والے والدین پر جرمانے عائد کرنے کے ساتھ ساتھ انہیں گرفتار بھی کیا جا رہا ہے۔ میادین (شامی قصبے ) میں بنائے گئے اس اسکول میں نہ صرف لڑکوں بل کہ لڑکیوں کو بھی زبردستی داخل کیا جا رہا ہے۔
داعش پہلے ہی اس خطے میں ریاضی، طبیعات، فلسفے، موسیقی، تاریخ اور جغرافیے کی تعلیم کو غیراسلامی قرار دے اپنا بنایا گیا نصاب لاگو کر چکی ہے، جب کہ داعش کا نصاب نہ پڑھانے والے اساتذہ کو بدترین جسمانی تشدد کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔ داعش کی ان تعلیم دشمن سرگرمیوں کا نقشہ مقامی استاد ابو عبداﷲ (فرضی نام) نے کچھ اس طرح کھینچا ہے،''نام نہاد خلافتِ اسلامیہ کی داعی داعش کے مطابق ایک فلاحی ریاست کے لیے اُن کی مرتب کردہ نصابی کتب ہی ہر بچے کو پڑھانی چاہییں۔
اور ان (داعش کے دہشت گرد) کی حکم عدولی کرنے والے اساتذہ کو کم سے کم بھی تیس کوڑوں کی سزا دی جاتی ہے۔ لیکن سزا سے زیادہ افسوس ناک بات یہ ہے کہ ہماری آنے والی نسلیں جدید علوم سے لا علم ہوں گی۔ یہ بچے ہاتھوں میں قلم کی جگہ ہتھیار تھامے ایک ایسے ماحول میں بڑے ہورہے ہیں جہاں خون خرابہ، قتل و غارت گری معمول کی بات ہے۔ ان بچوں کو نہ صرف آتشیں ہتھیار چلانے کی تربیت دی جارہی ہے، بل کہ یہ سر قلم کرنے اور کئی پھانسیوں کے عینی شاہد بھی ہیں۔ یقیناً بچپن سے ہی اس ماحول میں تربیت حاصل کرنے والے بچوں سے جوانی میں کسی رحم دلی کی امید رکھنا بعید از قیاس ہے۔''
گذشتہ ماہ مشرقی افغانستان کے گاؤں شیگل میں کھلنے والے جہاد اسکول سے چارلی ونٹر کے خدشات کو مزید تقویت ملتی ہے۔ امریکا کی پبلک براڈ کاسٹنگ سروس (پی بی ایس) کی ایک دستاویزی فلم 'آئی ایس آئی ایس ان افغانستان' کے مطابق یہ اسکول خود کو داعش کے اتحادی قرار دینے والے جنگ جوؤں کی جانب سے کھولا گیا ہے، جو یہاں رہنے کے ساتھ ساتھ مقامیوں سے محصول بھی وصول کرتے ہیں۔ اس جہاد اسکول میں کم سن بچوں کو پستول سے لے کر بھاری ہتھیار تک چلانے کی تربیت دی جارہی ہے۔ یہاں بچوں کی جنگی تربیت کے ساتھ ان کی برین واشنگ بھی کی جارہی ہے۔
اگر داعش اور اس کی حلیف دہشت گرد تنظیموں کی تعلیم کے نام پر وحشت و بربریت سکھانے کی مذمت اور ایسے اسکولوں کے قیام کی سرکوبی نہیں کی گئی تو پھر یقیناً ان علاقوں میں پرورش پانے والے بچے بھی مستقبل میں اپنے مخالف فرقے، مذہب سے تعلق رکھنے والے افراد کے ساتھ وہ بربریت کا وہ کھیل کھیلیں گے جسے دیکھ کر ہمیں اُن کے تربیت کاروں (داعش اور اس کی حلیف دہشت گرد تنظیموں) کی دہشت گردی بھی معمولی لگے۔
صلیبی معرکوں سے وسائل پر قابض ہونے کی جنگ تک کا ایندھن: معصوم بچے!
بچوں کو جنگی مقاصد میں استعمال کرنے کا رواج کچھ نیا نہیں۔ اگر ہم تاریخ پر ایک نظر ڈالیں تو بچوں کو پہلی بار جنگی مقاصد میں استعمال کرنے کا ذکر 1212کی صلیبی جنگوں میں ملتا ہے۔ جنگ میں لگاتار شکست کھانے کے بعد عیسائیوں کی مذہبی وعسکری قیادت نے بچوں کو جنگ کا ایندھن بنانے کا فیصلہ کیا۔
اس مذموم مقصد کے لیے انہوں نے اٹلی کے شمالی علاقوں کو منتخب کیا، جہاں اسٹیفن نامی بارہ سالہ بچے کی قیادت میں ہاتھوں میں لکڑی کی صلیبیں تھامے سیکڑوں بچے بلند آواز میں مذہبی گیت گاتے ساحل سمندر کی جانب گام زن تھے۔ مذہبی پیشواؤں نے ان بچوں کو یہ باور کرادیا تھا کہ ساحل پر پہنچے پر سمندر اُن کا راستہ بنانے کے لیے سمٹ جائے گا اور وہ مقدس سرزمین پر پہنچ کر سب مسلمانوں کو عیسائی کرلیں گے۔ اس وقت چرچ کی تاریخ کے طاقت ور ترین پوپ انوسنٹ نے بچوں کے اس سفر کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرتے ہوئے کہا،''یہ ہمارے لیے باعثِ شرم ہے کہ بچے تو سرزمین مقدس کی آزادی کے لیے نکلیں اور ہم گھروں میں بیٹھے رہیں۔'' مذہبی اور سیاسی قیادت نے تو اپنا مقصد حاصل کرلیا۔ لیکن اُن بچوں کو بہت عبرت ناک انجام سے دوچار ہونا پڑا۔
دور حاضر میں تہذیب و تمدن کا پرچار کرنے والے انسانوں نے بچوں کو بڑے پیمانے پر جنگوں، گروہی لڑائیوں میں استعمال کرنا شروع کردیا ہے۔ اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے یونیسیف کے اعداد و شما رکے مطابق صرف گذشتہ سال ہی تقریباً4لاکھ بچوں کو جنگی تربیت دی گئی یا انہیں گروہی لڑائیوں میں استعمال کیا گیا اور اس مقصد کے لیے پوری دنیا میں مزید ہزاروں بچوں کو فوجی اور عسکریت تربیت کے لیے بھرتی کیے جانے کا امکان ہے۔
اقوام متحدہ کی بچوں اور مسلح تنازعات کے حوالے سے مرتب کی گئی اس رپورٹ میں داعش، القاعدہ کی ذیلی جماعت جبھتہ النصرہ، احرار الشام، کردش پیپلز پروٹیکشن اور نائیجریا کا انتہا پسند گروپ بوکوحرام آٹھ سرکاری افواج اور 51مسلح گروپوں بھی شامل کیا گیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق یہ دہشت گرد اور عسکریت پسند گروپ بچوں کو گروہی اور عسکری لڑائیوں میں استعمال کرنے کے ساتھ ساتھ جنسی زیادتی، یا خود کش حملوں کے لیے استعمال کر رہے ہیں اور اس کام کے لیے دنیا بھر میں بچوں کی بھرتیوں کا سلسلہ بنا کسی رکاوٹ کے جاری ہے۔ حکومتی سطح پر بچوں کو بہ طور فوجی استعمال کرنے میں برما کی حکومت سر فہرست ہے۔
بچوں کے جنگوں میں استعمال کی روک تھام کے لیے کام کرنے والی ایک غیرسرکاری تنظیم 'وار چائلڈ' کے حالیہ اعدادوشمار کے مطابق برما میں تقریباً 80 ہزار بچوں کو مختلف باغی گروپوں اور سرکاری فوج میں استعمال کیا جارہا ہے۔
انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیم ہیومن رائٹس واچ کے مطابق میانمار میں ہر پانچواں فوجی 18سال سے کم عمر ہے، جب کہ گذشتہ پندرہ سالوں میں دنیا کے تقریباً ہر خطے میں بچوں کو جنگ کا ایندھن بنانے میں کی شرح میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے، جب کہ بچہ فوج میں تقریباً تیس فی صد تعداد معصوم کم عمر لڑکیوں کی ہے، جنہیں میدان جنگ کے علاوہ جنسی استحصال کے لیے بھی استعمال کیا جاتا ہے اور ان میں سے کچھ بچوں کی عمریں تو دس سال سے بھی کم ہیں۔
امریکی اخبار ''واشنگٹن پوسٹ'' کے مطابق یمن کے حوثی باغی بھی بچوں کو میدان جنگ میں بھرپور طریقے سے استعمال کر رہے ہیں۔ حوثی باغیوں نے خود اپنی صفوں میں شامل ایک تہائی بچوں کے 18سال سے کم عمر ہونے کا اعتراف کیا ہے۔ اپنے مفادات کی ہوس میں حوثیوں نے بچوں سے قلم چھین کر انہیں ہتھیار دے کر میدان جنگ کا ایندھن بنایا دیا ہے۔ ان کے ناتواں کندھوں پر بندوق رکھ دی ہے۔ ان سے اسکول کے یونیفارم چھین لیے گئے ہیں۔
اب وہ فوجی وردی پہن کر جنگ میں شریک ہیں۔ رپورٹ کے مطابق یمن میں اس وقت حوثی جنگ جوؤں کی کل تعداد 25 ہزار کے لگ بھک ہے، جس کا ایک تہائی ایسے بچوں پر مشتمل ہے جن کی عمریں محض 13 سے 18سال کے درمیان ہیں۔ حوثی شدت پسندوں کی جانب سے اپنی صفوں میں کم عمر بچوں کو بھرتی کرنے کا عمل نیا نہیں، تاہم حوثیوں کا دعویٰ ہے کہ بچوں کو براہ راست لڑائی کے بجائے سیکیوریٹی چیک پوسٹس پر تلاشی کے لیے بھرتی کیا گیا ہے۔
حوثیوں کے علاوہ القاعدہ کے دہشت گرد بھی یمن میں بچوں کو جنگ کے لیے بھرتی کرتے رہے ہیں۔ ان دونوں کی جانب سے جنگ کے لیے بھرتی کیے گئے بچوں کو فی کس ماہانہ 100 ڈالر تک اُجرت بھی دی جاتی ہے اور خط غربت سے نیچے زندگی گزارنے والے یمنی باشندے چند پیسوں کے لیے اپنے بچوں کو بھرتی کرارہے ہیں۔