آپریشن نارتھ وُڈ
جب امریکا نے اپنے ہی شہریوں کے قتل عام کا منصوبہ بنا کر کیوبا پر حملے کا جواز پیدا کرنا چاہا
(ریاست کی سطح پر خفیہ منصوبے بنائے جائیں یا کوئی سازش کی جائے، کوئی ریاستی ادارہ خاص مقاصد کے تحت دہشت گردی کی واردات کرائے یا کسی ملک میں بغاوت کی لہر پیدا کرے، یہ منصوبے ناکام ہوں یا کام یاب، روبہ عمل آئیں یا آغاز سے پہلے ہی انجام سے دوچار ہوجائیں، یہ کارستانیاں تحریر کی صورت اور دستاویزات کی شکل میں ''نہایت خفیہ'' کے صیغے کے تحت محفوظ رہتی ہیں اور ایک خاص مدت گزرنے کے بعد ''ڈی کلاسیفائڈ'' کے عنوان سے ان کے مندرجات سامنے آکر ہلچل مچادیتے ہیں۔ ایکسپریس سنڈے میگزین کے اس نئے سلسلے میں قارئین کے لیے ایسی دستاویزات میں بند چشم کُشا کہانیاں پیش کی جائیں گی۔ امید ہے آپ کو یہ سلسلہ پسند آئے گا)
ریاست ہائے متحدہ امریکا کرۂ ارض پر اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے ہر جائز اور ناجائز قدم کو درست سمجھتا ہے اور اس مقصد کے لیے وہ آئے دن کوئی نہ کوئی منصوبہ بندی کرتا رہتا ہے۔ ایسا ہی ایک سیاہ باب وہ خفیہ منصوبہ ہے، جسے دنیا ''آپریشن نارتھ وڈ'' کے نام سے جانتی ہے تیس اپریل دوہزار ایک کو جب پینٹاگون کے اس خفیہ منصوبے کی دستاویزات منظر عام پرآئیں تو یہ حقیقت مزید واضح ہوگئی کہ امریکی حکام اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے معصوم انسانی جانوں سے کھیلنے سے بھی گریز نہیں کرتے، چاہے اس دوران انہیں اپنے ہی شہریوں کو کیوں نہ موت کی نیند سلانا پڑے۔
چار دہائیوں بعد منظر عام پر لائے جانے والے پینٹاگون کے ان خفیہ کاغذات سے علم ہوتا ہے کہ تیرہ مارچ انیس سو باسٹھ کو امریکا کے اس وقت کے محکمۂ دفاع اور چیئرمین جوائنٹ چیف آف اسٹاف لیمن لیمنٹزرنے کیوبا کے خلاف ایک مصنوعی فوجی آپریشن کی منصوبہ بندی کی تھی، جس کے مطابق امریکا کے شہریوں پر خود امریکی خفیہ اداروں کے ارکان کے ذریعے دہشت گردی کرانے کے بعد ان حملوں کا ذمہ دار کیوبا کی فیڈل کاسترو حکومت کو قرار دینا تھا، تاکہ دنیا کے سامنے کیوبا کی کمیونسٹ حکومت پر فوج کشی کا جواز پیش کیا جاسکے۔
واضح رہے کہ پینٹاگون کے اس منصوبے کے بارے میں آگاہی امریکا کے صدر جان ایف کینیڈی کے قتل کی تحقیقات کے دوران ملنے والے کاغذات سے ہوئی تھی ان کاغذات میں ''امریکی فوج کا کیوبا میں فوج کشی کا جواز'' کے عنوان سے کاغذات کا ایک پلندہ تھا جس میں تجویز کیا گیا تھا کہ کس طرح کیوبا پر فوجی حملے کے لیے مصنوعی حالات پیدا کیے جائیں بہت سی تجاویز پر مشتمل یہ مجوزہ میمورنڈم امریکا کے محکمۂ دفاع کے اعلیٰ حکام اور جوائنٹ چیف آف اسٹاف کی جانب سے تیار کیا گیا تھا جسے تیرہ دسمبر انیس سو باسٹھ کو مزید بہتر بنانے کے لیے جوائنٹ چیف آف اسٹاف کی جانب سے سیکریٹری محکمۂ دفاع رابرٹ میکمرا کو پیش کیا گیا تھا، جس میں تجویز کیا گیا تھا کے محکمۂ دفاع خفیہ اداروں کی مدد سے اس مشن کے لیے ہر پہلو سے خفیہ اور ظاہری منصوبہ بندی کرے۔
اس خفیہ منصوبے کو عوام کے سامنے اٹھارہ نومبر انیس سو ستانوے کو پہلی مرتبہ لایا گیا یہ فیصلہ امریکی صدر جان ایف کینیڈی کے قتل کے لیے بنائے گئے ''ریکارڈ ریویو بورڈ'' نے کیا تھا۔
خفیہ دستاویزات لگ بھگ ایک ہزار پانچ سو اکیس صفحات پر مشتمل تھیں اور سن انیس سو باسٹھ سے انیس سو چونسٹھ کے دوران دو سال کے عرصے پر محیط تھیں۔ جب اس خفیہ خونی منصوبے کے مندرجات کو عوام کے سامنے لایا گیا تو امریکا کے پالیسی سازوں کے کالے کرتوتوں سے ساری دنیا ہل کر رہ گئی۔ ان صفحات کو دنیا کے سامنے پیش کرنے کے حوالے سے امریکا کے وفاقی ادارے برائے نیشنل سیکیوریٹی آرکائیو نے ایک سال تک سوچ وبچار کیا اور پھر بالآخر چھے نومبر انیس سو اٹھانوے کو اس ادارے نے ان خفیہ کاغذات کو عوام کے سامنے آن لائن پیش کردیا۔
امریکا کے وفاقی ادارے برائے نیشنل سیکیوریٹی آرکائیو نے یہ خفیہ کاغذات نشرواشاعت کے مشہور امریکی ادارے سی این این کے ساتھ مل کر پیش کیے تھے،''اپینڈکس ٹو انکلوژر اے'' اور ''اینکس ٹو اپینڈکس ٹو انکلوژر اے'' کے عنوان سے ملنے والے یہ کاغذات نشریاتی ادارے سی این این نے ''سرد جنگ'' پر مشتمل اپنی سلسلہ وار دستاویزی فلم کے دسویں حصے میں انتیس نومبرانیس سو اٹھانوے کو پیش کیے تھے۔ جس میں ''اینکس ٹو اپینڈکس ٹو انکلوژر اے'' دستاویزات میں مکمل طور پر کیوبا پر فوجی حملے کے لیے مصنوعی طریقے سے مگر اصل نقصان کی صورت میں حالات جنگ پیدا کرنے کے حوالے سے تجاویز تھیں۔
اگرچہ یہ کاغذات امریکا کے گھناؤنے چہرے کو ظاہر کرنے کے لیے کافی تھے، تاہم بعدازاں جب تیس اپریل دو ہزار ایک کو امریکی ادارے برائے نیشنل سیکیوریٹی آرکائیو نے انہیں مزید تفصیل اور ثبوتوں کے ساتھ آن لائن مطالعے کے لیے پیش کیا تو امریکا کی جارحیت پسندی کی پالیسی پر مہر ثبت ہوگئی۔
منصوبے کی تجاویز:
امریکی محکمۂ ودفاع پینٹا گون سے ملنے والی خفیہ دستاویزات کے مطابق دوسری جنگ عظیم اور ویت نام میں شرکت کرنے والے میجر جنرل ایڈورڈ لینس ڈیل کو اس مشن کا نگران بنایا گیا تھا اور ان کے ذمہ یہ کام لگایا گیا تھا کہ وہ علاقائی سطح سے لے کر عالمی سطح تک ایسا ماحول بنانے کی منصوبہ بندی کریں گے جس میں کیوبا پر امریکا کا فوجی حملہ درست اور جائز نظر آئے۔
اس دوران کیوبا کی جانب سے حملے کی افواہیں پھیلانا اور امریکا کے شہروں بالخصوص واشنگٹن، میامی اور دیگر شہروں میں نہتے شہریوں پر اندھادھند فائرنگ کرکے اس کا الزام کیوبا کے خفیہ اداروں کے اراکین پر ڈالنا، خلیج گوانتاموبے میں کیوبا کے مہاجروں کی کشتیوں پر حملے کرکے اس کا الزام بھی کیوبن فوجیوں پر ڈالنا، گوانتاموبے بیس پر جعلی حملہ کرنا اور اس حملے کا الزام کیوبا کے صدر فیڈل کاسترو کی جانب سے کیے گئے ایک ٹیلی فونک پیغام کو قرار دینا۔ الغرض امریکا کے اندر دہشت گردی کے واقعات کا ڈراما رچا کر دہشت گردی کی ان کارروائیوں سے پوری دنیا کی ہم دردی حاصل کرکے کیوبا پر حملے کا جواز پیدا کرنا اس منصوبے میں شامل تھا۔
منظر عام پر آنے والی ان خفیہ دستاویزات کا سب سے اہم حصہ جو کہ ''اینکس ٹو اپینڈکس ٹو انکلوژر اے'' کے نام سے محفوظ ہے، کے مطالعے کے بعد واضح ہوتا ہے کہ امریکی فوجی حکام نے اپنے انٹیلی جنس افسران کو کھلی ہدایات دی تھیں کہ وہ کیوبن افواج جیسا یونیفارم پہن کر گوانتاموبے بیس پر حملہ کریں۔ اسی طرح بیس سے کیوبن فوجیوں کے روپ میں موجود اپنے ہی فوجیوں کو گرفتار کرکے انہیں دہشت گردوں کے طور پر ظاہر کیا جائے۔
فوجی بیس کے مرکزی گیٹ پر مصنوعی ہنگامہ آرائی کی جائے، بیس کے اندر اسلحے کے مخصوص ذخیرے میں آگ لگائی جائے، بیس کے فضائی حصے میں کھڑے ہوائی جہاز کو دھماکے سے اڑادیا جائے، امریکی فوجی جو کیوبا کے فوجیوں کے بھیس میں ہوں گے ان کی گرفتاری سمندر کی جانب سے بطور حملہ آور ظاہر کی جائے، بندرگاہ پر موجود ایک بحری جہاز ڈبودیا جائے اور فوجی بیس کے قریب واقع بندرگاہ پر آگ لگادی جائے۔
واضح رہے امریکی منصوبہ سازوں کی جانب سے ان تمام حملوں کے دوران امریکی افواج کو صرف دفاع کرنے کا حکم دیا گیا تھا، تاکہ دنیا کی نظر میں امریکی افواج معصوم نظر آئے تاہم خفیہ دستاویزات کے مطالعے سے واضح ہوتا ہے کہ اندرون خانہ امریکی افواج کی حکمت عملی یہ تھی کہ وقت گزرنے کے ساتھ وہ اپنے دفاع میں ہتھیار اٹھانے کا اعلان کریں گے لیکن دوسری جانب مصنوعی طریقے سے کیوبا کی افواج کے حملے جاری رکھیں گے اور پھر لامحالہ کیوبا پر حملہ کرنا ناگزیر ظاہر کرکے کیوبا کی عوام اور حکومت پر روس کی ہم نوائی کا انتقام لینے کے لیے ظلم و بربریت شروع کردی جائے گی۔
انجام:
پینٹاگون میں انتہائی خفیہ کے عنوان سے محفوظ کیے جانے والی ان دستاویزات سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ امریکی فوج کے تقریباً تمام اعلیٰ فوجی حکام اور سرکاری عہدے دار اس مشن کی انجام دہی کے لیے بے چین تھے۔ تاہم اس کے لیے امریکی صدر جان ایف کینیڈی کی جانب سے منظوری حاصل کرنا ضروری تھا اور حیرت انگیز طور پر جان ایف کینیڈی نے نہ صرف اس مشن کی مخالفت کی بل کہ مشن کی منصوبہ بندی کرنے والے سب سے اہم کردار چیئرمین جوائنٹ چیف آف دی اسٹاف لیمن لیمنٹزر کو بھی ان کے عہدے سے ہٹادیا تاہم انیس سو تریسٹھ میں انہیں ناٹو افواج کا سپریم کمانڈر بنادیا گیا۔
مبصرین جان ایف کینیڈی کے اس فیصلے کو ان کے کیوبا کے حوالے سے نرم گوشہ قرار دیتے ہیں۔ واضح رہے کہ اس واقعے کے بعد جان ایف کینیڈی اور امریکی فوجی حکام کے درمیان کافی تناؤ کی صورت حال پیدا ہوگئی تھی اور کچھ ہی عرصے بعد جان ایف کینیڈی امریکی ریاست ٹیکساس کے شہر ڈیلاس کی سڑک پر دن دہاڑے ماہر نشانچی اور سابق امریکی فوجی چوبیس سالہ ''لی ہاروے اوسوالڈ '' کی گولیوں کا نشانہ بن گئے۔
دل چسپ بات یہ ہے کہ محض دو دن بعد قاتل لی ہاروے اوسوالڈ کو پولیس ہیڈکوارٹر سے مرکزی جیل لے جاتے ہوئے ایک دوسرے قیدی ''جیک روبی'' نے لڑائی جھگڑے کے بعد گولی مار کر قتل کردیا۔ اس طرح امریکا کے انتہائی ہردل عزیز صدر جان ایف کینیڈی کے قتل کے محرکات ابھی تک پراسراریت کی دبیز چادر میں چھپے ہوئے ہیں۔
تاہم کیوبا پر مصنوعی طریقے سے لشکرکشی کے بارے میں پیش کیے جانے والی ان خفیہ دستاویزات کے مطالعے سے علم ہوتا ہے کہ جان ایف کینیڈی کے قتل کے تانے بانے ان کی کیوبا پر فوج کشی کے منصوبے کی مخالفت سے بھی جڑے ہوئے ہیں۔ تاہم اس تمام صورت حال کے برعکس اگر خفیہ ''آپریشن نارتھ وڈ'' پر عمل ہوجاتا تو عین ممکن ہے سرد جنگ کے بادل جنگ جدل کے خوف ناک بادلوں میں تبدیل ہوجاتے، جس کا خمیازہ دنیا ابھی تک بھگت رہی ہوتی۔
تیس اپریل سن دو ہزار ایک میں جب آپریشن نارتھ وڈ کی یہ خفیہ دستاویزات امریکا کے محکمہ برائے نیشنل سیکیوریٹی آرکائیو کی جانب سے عوام کے مطالعے کے لیے پیش کی گئیں تو تین اگست دو ہزار ایک کو اس پر ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کیوبا کی قومی اسمبلی جسے نیشنل اسمبلی آف پیپلز پاور بھی کہا جاتا ہے۔ اس میں امریکا کے ان منصوبوں کے خلاف مذمتی قرارداد پاس کی گئی اور امریکا کی پالیسیوں پر سخت تنقید کی گئی۔
امریکی خلا باز جان گلین کو ماردیا جانا تھا
آپریشن نارتھ وڈ میں امریکی فوجی حکام کی جانب سے اپنے ہیروز کو بھی نقصان پہچانے کی منصوبہ بندی کی گئی تھی۔ منصوبے کے مطابق امریکا کے پہلے خلاباز ''جان گلین'' جنہیںکرۂ ہوائی سے باہر خلا میں چکر لگانے والے اولین امریکی خلاباز کا اعزاز حاصل ہے۔ انہوں نے یہ تاریخی خلائی سفر بیس فروری انیس سو باسٹھ کو شروع کیا تھا۔ ان کا یہ مشن پروجیکٹ مرکری اسپیس شپ کا حصہ تھا، جسے فرینڈ شپ مشن کا نام دیا گیا تھا۔
منظرعام پر آنے والی دستاویزات کے مطابق آپریشن نارتھ وڈ کے منصوبہ سازوں کے مطابق جس وقت یہ خلائی جہاز فلوریڈا میں واقع کیپ کینورل کے خلائی مستقر سے بلند ہونا تھا اسے ایک راکٹ کے ذریعے خلا باز جان گلین سمیت تباہ کردیا جاتا اور پھر اسپیس شپ کی تباہی کا الزام کیوبا کی حکومت پر لگا کر فوجی حملے کا جواز پیدا کیا جاتا۔ تاہم امریکی فوجی حکام، چیئرمین جوائنٹ چیف آف اسٹاف لیمن لیمنٹزر اور کیوبا کے خلاف جنگ کا جواز پیدا کرنے کے مشن کے نگراں لینس ڈیل اپنے مکروہ عزائم میں ناکام رہے۔
کیوبا کے خلاف دیگر آپریشن
کیوبا کے صدر فیڈل کاسترو امریکی حکومت کی آنکھ میں ہمیشہ کانٹے کی طرح چبھتے رہے ہیں بالخصوص سن ساٹھ کی دہائی میں سرد جنگ کے زمانے میں تو امریکا فیڈل کاسترو کی کمیونسٹ حکومت کو ہر حال میں ختم کرنا چاہتا تھا۔
سرد جنگ کے اس زمانے میں اگرچہ کیوبا کو کمیونسٹ بلاک بل خصوص سوویت یونین کی زبردست آشیرباد حاصل تھی، اس کے باوجود امریکا گاہے بگاہے کیوبا کے خلاف تباہی کے منصوبے تشکیل دیتا رہتا تھا اس حوالے سے آشکار ہونے والی دستاویزات میں لکھا ہے امریکہ نے کیوبا پر زبردستی جنگ لادنے کے لئے کئی منصوبے بنائے جن میں سرفہرست ''آپریشن مینگوز'' تھا۔ یہ منصوبہ دو فروری انیس سوباسٹھ کو پیش کیا گیا۔ بریگیڈیئر جنرل ولیم ایچ کریگ کی جانب سے تشکیل دیے گئے اس منصوبے کے نگراں بریگیڈیئر جنرل ایڈورڈ لینسڈیل تھے۔ مصنوعی حربے استعمال کرتے ہوئے کیوبا پر جنگ مسلط کرنے والے اس منصوبے کا عنوان ''کیوبا میں انتشار، خوف اور ہنگامہ آرائی کے خلاف ممکنہ حملہ'' تھا۔
اس کے علاوہ ''آپریشن بنگو'' بھی تشکیل دیا گیا تھا جس کے تحت ''کیوبا میں موجود امریکی فوجی تنصیبات پر حملہ کرکے اور اس حملے کو جواز بناکر فیڈل کاسترو کی حکومت کا خاتمہ کرنا تھا۔'' اس منصوبے سے قبل امریکی خلائی جہاز مرکری کو خلاباز جان گلین سمیت تباہ کرنے کا منصوبہ بھی تشکیل دیا گیا جسے ''آپریشن ڈرٹی ٹرک'' کا نام دیا گیا تھا۔
امریکی محکمۂ دفاع پینٹاگون کی ڈی کلاسیفائیڈ ہونے والی دستاویزات کے مطابق انیس سو تریسٹھ میں امریکی فوجی حکام نے منصوبہ بنایا تھا کہ ''آرگنائزیشن آف امریکن اسٹیٹ'' سے تعلق رکھنے والی کسی بھی ریاست پر کیوبا کی افواج کی جانب سے مصنوعی طریقے سے فوجی حملہ ظاہر کیا جائے گا، جس کے بعد وہ ریاست امریکا سے مدد طلب کرے گی اور امریکا مدد کا جواب دیتے ہوئے کیوبا پر حملہ آور ہوجائے گا۔
اسی طرح انیس سو تریسٹھ ہی میں امریکی فوج کے اعلیٰ حکام کی جانب سے یہ منصوبہ بھی پیش کیا گیا تھا کہ جنوبی امریکا میں جزائر کیربین میں واقع جزیرے جمیکا اور ٹرینیڈاڈ ٹوبیگو پر خفیہ طریقے سے حملہ کرکے اس حملے کو کیوبا کی جانب سے جنگ قرار دیا جائے اور اس طرح کیوبا پر حملے کے لیے برطانوی عوام اور حکومت کا تعاون اور ہم دردی حاصل کی جائے۔ واضح رہے کہ یہ دونوں جزائر اس وقت برطانیہ کے دولت مشترکہ ممالک میں شامل تھے۔
انہی کاغذات میں آگے چل کر امریکی محکمۂ دفاع کی جانب سے تحریر ہے کہ امریکی حکام نے کئی مواقع پر فیڈل کاسترو کے جونیئر سرکاری حکام اور فوجی کمانڈرز کو رشوت دے کر گونتاناموبے میں واقع امریکی فوجی تنصیبات پر حملہ آور ہونے کی پیش کش کیں، تاکہ اس کے جواب میں امریکا کیوبا پر حملہ کرسکے، لیکن اسے اس میں بھی ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا۔
ریاست ہائے متحدہ امریکا کرۂ ارض پر اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے ہر جائز اور ناجائز قدم کو درست سمجھتا ہے اور اس مقصد کے لیے وہ آئے دن کوئی نہ کوئی منصوبہ بندی کرتا رہتا ہے۔ ایسا ہی ایک سیاہ باب وہ خفیہ منصوبہ ہے، جسے دنیا ''آپریشن نارتھ وڈ'' کے نام سے جانتی ہے تیس اپریل دوہزار ایک کو جب پینٹاگون کے اس خفیہ منصوبے کی دستاویزات منظر عام پرآئیں تو یہ حقیقت مزید واضح ہوگئی کہ امریکی حکام اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے معصوم انسانی جانوں سے کھیلنے سے بھی گریز نہیں کرتے، چاہے اس دوران انہیں اپنے ہی شہریوں کو کیوں نہ موت کی نیند سلانا پڑے۔
چار دہائیوں بعد منظر عام پر لائے جانے والے پینٹاگون کے ان خفیہ کاغذات سے علم ہوتا ہے کہ تیرہ مارچ انیس سو باسٹھ کو امریکا کے اس وقت کے محکمۂ دفاع اور چیئرمین جوائنٹ چیف آف اسٹاف لیمن لیمنٹزرنے کیوبا کے خلاف ایک مصنوعی فوجی آپریشن کی منصوبہ بندی کی تھی، جس کے مطابق امریکا کے شہریوں پر خود امریکی خفیہ اداروں کے ارکان کے ذریعے دہشت گردی کرانے کے بعد ان حملوں کا ذمہ دار کیوبا کی فیڈل کاسترو حکومت کو قرار دینا تھا، تاکہ دنیا کے سامنے کیوبا کی کمیونسٹ حکومت پر فوج کشی کا جواز پیش کیا جاسکے۔
واضح رہے کہ پینٹاگون کے اس منصوبے کے بارے میں آگاہی امریکا کے صدر جان ایف کینیڈی کے قتل کی تحقیقات کے دوران ملنے والے کاغذات سے ہوئی تھی ان کاغذات میں ''امریکی فوج کا کیوبا میں فوج کشی کا جواز'' کے عنوان سے کاغذات کا ایک پلندہ تھا جس میں تجویز کیا گیا تھا کہ کس طرح کیوبا پر فوجی حملے کے لیے مصنوعی حالات پیدا کیے جائیں بہت سی تجاویز پر مشتمل یہ مجوزہ میمورنڈم امریکا کے محکمۂ دفاع کے اعلیٰ حکام اور جوائنٹ چیف آف اسٹاف کی جانب سے تیار کیا گیا تھا جسے تیرہ دسمبر انیس سو باسٹھ کو مزید بہتر بنانے کے لیے جوائنٹ چیف آف اسٹاف کی جانب سے سیکریٹری محکمۂ دفاع رابرٹ میکمرا کو پیش کیا گیا تھا، جس میں تجویز کیا گیا تھا کے محکمۂ دفاع خفیہ اداروں کی مدد سے اس مشن کے لیے ہر پہلو سے خفیہ اور ظاہری منصوبہ بندی کرے۔
اس خفیہ منصوبے کو عوام کے سامنے اٹھارہ نومبر انیس سو ستانوے کو پہلی مرتبہ لایا گیا یہ فیصلہ امریکی صدر جان ایف کینیڈی کے قتل کے لیے بنائے گئے ''ریکارڈ ریویو بورڈ'' نے کیا تھا۔
خفیہ دستاویزات لگ بھگ ایک ہزار پانچ سو اکیس صفحات پر مشتمل تھیں اور سن انیس سو باسٹھ سے انیس سو چونسٹھ کے دوران دو سال کے عرصے پر محیط تھیں۔ جب اس خفیہ خونی منصوبے کے مندرجات کو عوام کے سامنے لایا گیا تو امریکا کے پالیسی سازوں کے کالے کرتوتوں سے ساری دنیا ہل کر رہ گئی۔ ان صفحات کو دنیا کے سامنے پیش کرنے کے حوالے سے امریکا کے وفاقی ادارے برائے نیشنل سیکیوریٹی آرکائیو نے ایک سال تک سوچ وبچار کیا اور پھر بالآخر چھے نومبر انیس سو اٹھانوے کو اس ادارے نے ان خفیہ کاغذات کو عوام کے سامنے آن لائن پیش کردیا۔
امریکا کے وفاقی ادارے برائے نیشنل سیکیوریٹی آرکائیو نے یہ خفیہ کاغذات نشرواشاعت کے مشہور امریکی ادارے سی این این کے ساتھ مل کر پیش کیے تھے،''اپینڈکس ٹو انکلوژر اے'' اور ''اینکس ٹو اپینڈکس ٹو انکلوژر اے'' کے عنوان سے ملنے والے یہ کاغذات نشریاتی ادارے سی این این نے ''سرد جنگ'' پر مشتمل اپنی سلسلہ وار دستاویزی فلم کے دسویں حصے میں انتیس نومبرانیس سو اٹھانوے کو پیش کیے تھے۔ جس میں ''اینکس ٹو اپینڈکس ٹو انکلوژر اے'' دستاویزات میں مکمل طور پر کیوبا پر فوجی حملے کے لیے مصنوعی طریقے سے مگر اصل نقصان کی صورت میں حالات جنگ پیدا کرنے کے حوالے سے تجاویز تھیں۔
اگرچہ یہ کاغذات امریکا کے گھناؤنے چہرے کو ظاہر کرنے کے لیے کافی تھے، تاہم بعدازاں جب تیس اپریل دو ہزار ایک کو امریکی ادارے برائے نیشنل سیکیوریٹی آرکائیو نے انہیں مزید تفصیل اور ثبوتوں کے ساتھ آن لائن مطالعے کے لیے پیش کیا تو امریکا کی جارحیت پسندی کی پالیسی پر مہر ثبت ہوگئی۔
منصوبے کی تجاویز:
امریکی محکمۂ ودفاع پینٹا گون سے ملنے والی خفیہ دستاویزات کے مطابق دوسری جنگ عظیم اور ویت نام میں شرکت کرنے والے میجر جنرل ایڈورڈ لینس ڈیل کو اس مشن کا نگران بنایا گیا تھا اور ان کے ذمہ یہ کام لگایا گیا تھا کہ وہ علاقائی سطح سے لے کر عالمی سطح تک ایسا ماحول بنانے کی منصوبہ بندی کریں گے جس میں کیوبا پر امریکا کا فوجی حملہ درست اور جائز نظر آئے۔
اس دوران کیوبا کی جانب سے حملے کی افواہیں پھیلانا اور امریکا کے شہروں بالخصوص واشنگٹن، میامی اور دیگر شہروں میں نہتے شہریوں پر اندھادھند فائرنگ کرکے اس کا الزام کیوبا کے خفیہ اداروں کے اراکین پر ڈالنا، خلیج گوانتاموبے میں کیوبا کے مہاجروں کی کشتیوں پر حملے کرکے اس کا الزام بھی کیوبن فوجیوں پر ڈالنا، گوانتاموبے بیس پر جعلی حملہ کرنا اور اس حملے کا الزام کیوبا کے صدر فیڈل کاسترو کی جانب سے کیے گئے ایک ٹیلی فونک پیغام کو قرار دینا۔ الغرض امریکا کے اندر دہشت گردی کے واقعات کا ڈراما رچا کر دہشت گردی کی ان کارروائیوں سے پوری دنیا کی ہم دردی حاصل کرکے کیوبا پر حملے کا جواز پیدا کرنا اس منصوبے میں شامل تھا۔
منظر عام پر آنے والی ان خفیہ دستاویزات کا سب سے اہم حصہ جو کہ ''اینکس ٹو اپینڈکس ٹو انکلوژر اے'' کے نام سے محفوظ ہے، کے مطالعے کے بعد واضح ہوتا ہے کہ امریکی فوجی حکام نے اپنے انٹیلی جنس افسران کو کھلی ہدایات دی تھیں کہ وہ کیوبن افواج جیسا یونیفارم پہن کر گوانتاموبے بیس پر حملہ کریں۔ اسی طرح بیس سے کیوبن فوجیوں کے روپ میں موجود اپنے ہی فوجیوں کو گرفتار کرکے انہیں دہشت گردوں کے طور پر ظاہر کیا جائے۔
فوجی بیس کے مرکزی گیٹ پر مصنوعی ہنگامہ آرائی کی جائے، بیس کے اندر اسلحے کے مخصوص ذخیرے میں آگ لگائی جائے، بیس کے فضائی حصے میں کھڑے ہوائی جہاز کو دھماکے سے اڑادیا جائے، امریکی فوجی جو کیوبا کے فوجیوں کے بھیس میں ہوں گے ان کی گرفتاری سمندر کی جانب سے بطور حملہ آور ظاہر کی جائے، بندرگاہ پر موجود ایک بحری جہاز ڈبودیا جائے اور فوجی بیس کے قریب واقع بندرگاہ پر آگ لگادی جائے۔
واضح رہے امریکی منصوبہ سازوں کی جانب سے ان تمام حملوں کے دوران امریکی افواج کو صرف دفاع کرنے کا حکم دیا گیا تھا، تاکہ دنیا کی نظر میں امریکی افواج معصوم نظر آئے تاہم خفیہ دستاویزات کے مطالعے سے واضح ہوتا ہے کہ اندرون خانہ امریکی افواج کی حکمت عملی یہ تھی کہ وقت گزرنے کے ساتھ وہ اپنے دفاع میں ہتھیار اٹھانے کا اعلان کریں گے لیکن دوسری جانب مصنوعی طریقے سے کیوبا کی افواج کے حملے جاری رکھیں گے اور پھر لامحالہ کیوبا پر حملہ کرنا ناگزیر ظاہر کرکے کیوبا کی عوام اور حکومت پر روس کی ہم نوائی کا انتقام لینے کے لیے ظلم و بربریت شروع کردی جائے گی۔
انجام:
پینٹاگون میں انتہائی خفیہ کے عنوان سے محفوظ کیے جانے والی ان دستاویزات سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ امریکی فوج کے تقریباً تمام اعلیٰ فوجی حکام اور سرکاری عہدے دار اس مشن کی انجام دہی کے لیے بے چین تھے۔ تاہم اس کے لیے امریکی صدر جان ایف کینیڈی کی جانب سے منظوری حاصل کرنا ضروری تھا اور حیرت انگیز طور پر جان ایف کینیڈی نے نہ صرف اس مشن کی مخالفت کی بل کہ مشن کی منصوبہ بندی کرنے والے سب سے اہم کردار چیئرمین جوائنٹ چیف آف دی اسٹاف لیمن لیمنٹزر کو بھی ان کے عہدے سے ہٹادیا تاہم انیس سو تریسٹھ میں انہیں ناٹو افواج کا سپریم کمانڈر بنادیا گیا۔
مبصرین جان ایف کینیڈی کے اس فیصلے کو ان کے کیوبا کے حوالے سے نرم گوشہ قرار دیتے ہیں۔ واضح رہے کہ اس واقعے کے بعد جان ایف کینیڈی اور امریکی فوجی حکام کے درمیان کافی تناؤ کی صورت حال پیدا ہوگئی تھی اور کچھ ہی عرصے بعد جان ایف کینیڈی امریکی ریاست ٹیکساس کے شہر ڈیلاس کی سڑک پر دن دہاڑے ماہر نشانچی اور سابق امریکی فوجی چوبیس سالہ ''لی ہاروے اوسوالڈ '' کی گولیوں کا نشانہ بن گئے۔
دل چسپ بات یہ ہے کہ محض دو دن بعد قاتل لی ہاروے اوسوالڈ کو پولیس ہیڈکوارٹر سے مرکزی جیل لے جاتے ہوئے ایک دوسرے قیدی ''جیک روبی'' نے لڑائی جھگڑے کے بعد گولی مار کر قتل کردیا۔ اس طرح امریکا کے انتہائی ہردل عزیز صدر جان ایف کینیڈی کے قتل کے محرکات ابھی تک پراسراریت کی دبیز چادر میں چھپے ہوئے ہیں۔
تاہم کیوبا پر مصنوعی طریقے سے لشکرکشی کے بارے میں پیش کیے جانے والی ان خفیہ دستاویزات کے مطالعے سے علم ہوتا ہے کہ جان ایف کینیڈی کے قتل کے تانے بانے ان کی کیوبا پر فوج کشی کے منصوبے کی مخالفت سے بھی جڑے ہوئے ہیں۔ تاہم اس تمام صورت حال کے برعکس اگر خفیہ ''آپریشن نارتھ وڈ'' پر عمل ہوجاتا تو عین ممکن ہے سرد جنگ کے بادل جنگ جدل کے خوف ناک بادلوں میں تبدیل ہوجاتے، جس کا خمیازہ دنیا ابھی تک بھگت رہی ہوتی۔
تیس اپریل سن دو ہزار ایک میں جب آپریشن نارتھ وڈ کی یہ خفیہ دستاویزات امریکا کے محکمہ برائے نیشنل سیکیوریٹی آرکائیو کی جانب سے عوام کے مطالعے کے لیے پیش کی گئیں تو تین اگست دو ہزار ایک کو اس پر ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کیوبا کی قومی اسمبلی جسے نیشنل اسمبلی آف پیپلز پاور بھی کہا جاتا ہے۔ اس میں امریکا کے ان منصوبوں کے خلاف مذمتی قرارداد پاس کی گئی اور امریکا کی پالیسیوں پر سخت تنقید کی گئی۔
امریکی خلا باز جان گلین کو ماردیا جانا تھا
آپریشن نارتھ وڈ میں امریکی فوجی حکام کی جانب سے اپنے ہیروز کو بھی نقصان پہچانے کی منصوبہ بندی کی گئی تھی۔ منصوبے کے مطابق امریکا کے پہلے خلاباز ''جان گلین'' جنہیںکرۂ ہوائی سے باہر خلا میں چکر لگانے والے اولین امریکی خلاباز کا اعزاز حاصل ہے۔ انہوں نے یہ تاریخی خلائی سفر بیس فروری انیس سو باسٹھ کو شروع کیا تھا۔ ان کا یہ مشن پروجیکٹ مرکری اسپیس شپ کا حصہ تھا، جسے فرینڈ شپ مشن کا نام دیا گیا تھا۔
منظرعام پر آنے والی دستاویزات کے مطابق آپریشن نارتھ وڈ کے منصوبہ سازوں کے مطابق جس وقت یہ خلائی جہاز فلوریڈا میں واقع کیپ کینورل کے خلائی مستقر سے بلند ہونا تھا اسے ایک راکٹ کے ذریعے خلا باز جان گلین سمیت تباہ کردیا جاتا اور پھر اسپیس شپ کی تباہی کا الزام کیوبا کی حکومت پر لگا کر فوجی حملے کا جواز پیدا کیا جاتا۔ تاہم امریکی فوجی حکام، چیئرمین جوائنٹ چیف آف اسٹاف لیمن لیمنٹزر اور کیوبا کے خلاف جنگ کا جواز پیدا کرنے کے مشن کے نگراں لینس ڈیل اپنے مکروہ عزائم میں ناکام رہے۔
کیوبا کے خلاف دیگر آپریشن
کیوبا کے صدر فیڈل کاسترو امریکی حکومت کی آنکھ میں ہمیشہ کانٹے کی طرح چبھتے رہے ہیں بالخصوص سن ساٹھ کی دہائی میں سرد جنگ کے زمانے میں تو امریکا فیڈل کاسترو کی کمیونسٹ حکومت کو ہر حال میں ختم کرنا چاہتا تھا۔
سرد جنگ کے اس زمانے میں اگرچہ کیوبا کو کمیونسٹ بلاک بل خصوص سوویت یونین کی زبردست آشیرباد حاصل تھی، اس کے باوجود امریکا گاہے بگاہے کیوبا کے خلاف تباہی کے منصوبے تشکیل دیتا رہتا تھا اس حوالے سے آشکار ہونے والی دستاویزات میں لکھا ہے امریکہ نے کیوبا پر زبردستی جنگ لادنے کے لئے کئی منصوبے بنائے جن میں سرفہرست ''آپریشن مینگوز'' تھا۔ یہ منصوبہ دو فروری انیس سوباسٹھ کو پیش کیا گیا۔ بریگیڈیئر جنرل ولیم ایچ کریگ کی جانب سے تشکیل دیے گئے اس منصوبے کے نگراں بریگیڈیئر جنرل ایڈورڈ لینسڈیل تھے۔ مصنوعی حربے استعمال کرتے ہوئے کیوبا پر جنگ مسلط کرنے والے اس منصوبے کا عنوان ''کیوبا میں انتشار، خوف اور ہنگامہ آرائی کے خلاف ممکنہ حملہ'' تھا۔
اس کے علاوہ ''آپریشن بنگو'' بھی تشکیل دیا گیا تھا جس کے تحت ''کیوبا میں موجود امریکی فوجی تنصیبات پر حملہ کرکے اور اس حملے کو جواز بناکر فیڈل کاسترو کی حکومت کا خاتمہ کرنا تھا۔'' اس منصوبے سے قبل امریکی خلائی جہاز مرکری کو خلاباز جان گلین سمیت تباہ کرنے کا منصوبہ بھی تشکیل دیا گیا جسے ''آپریشن ڈرٹی ٹرک'' کا نام دیا گیا تھا۔
امریکی محکمۂ دفاع پینٹاگون کی ڈی کلاسیفائیڈ ہونے والی دستاویزات کے مطابق انیس سو تریسٹھ میں امریکی فوجی حکام نے منصوبہ بنایا تھا کہ ''آرگنائزیشن آف امریکن اسٹیٹ'' سے تعلق رکھنے والی کسی بھی ریاست پر کیوبا کی افواج کی جانب سے مصنوعی طریقے سے فوجی حملہ ظاہر کیا جائے گا، جس کے بعد وہ ریاست امریکا سے مدد طلب کرے گی اور امریکا مدد کا جواب دیتے ہوئے کیوبا پر حملہ آور ہوجائے گا۔
اسی طرح انیس سو تریسٹھ ہی میں امریکی فوج کے اعلیٰ حکام کی جانب سے یہ منصوبہ بھی پیش کیا گیا تھا کہ جنوبی امریکا میں جزائر کیربین میں واقع جزیرے جمیکا اور ٹرینیڈاڈ ٹوبیگو پر خفیہ طریقے سے حملہ کرکے اس حملے کو کیوبا کی جانب سے جنگ قرار دیا جائے اور اس طرح کیوبا پر حملے کے لیے برطانوی عوام اور حکومت کا تعاون اور ہم دردی حاصل کی جائے۔ واضح رہے کہ یہ دونوں جزائر اس وقت برطانیہ کے دولت مشترکہ ممالک میں شامل تھے۔
انہی کاغذات میں آگے چل کر امریکی محکمۂ دفاع کی جانب سے تحریر ہے کہ امریکی حکام نے کئی مواقع پر فیڈل کاسترو کے جونیئر سرکاری حکام اور فوجی کمانڈرز کو رشوت دے کر گونتاناموبے میں واقع امریکی فوجی تنصیبات پر حملہ آور ہونے کی پیش کش کیں، تاکہ اس کے جواب میں امریکا کیوبا پر حملہ کرسکے، لیکن اسے اس میں بھی ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا۔