موسیقارخان عطا الرحمن اور سرور بارہ بنکوی کی یادیں
اسی دور میں اداکار رحمان نے اپنی فلم ’’ملن‘‘ میں کراچی کی اداکارہ دیبا کو اپنے ساتھ ہیروئن کاسٹ کیا۔
فلم ''چندا'' کے آرٹسٹوں کی نگار فلم پبلک ایوارڈ کی تقریب میں شرکت کے بعد ڈھاکہ کے فلم آرٹسٹوں کے لیے اپنائیت کا ایک دروازہ کھل گیا تھا۔لاہور کی فلم انڈسٹری اور ڈھاکہ کی فلم انڈسٹری کے درمیان تعاون کی ایک سبیل پیدا ہوگئی تھی۔ یہ 1966 کا دور تھا۔ ڈھاکہ کے ہدایت کار قاضی ظہیر نے فلم ''بھیا'' بنانے کا اعلان کیا اورکراچی سے وحید مراد کو فلم ''بھیا'' میں چترا کے ساتھ ہیروکاسٹ کیا، فلم کے دیگر آرٹسٹوں میں انور حسین، سبھاش دتہ اور جلیل افغانی بھی شامل تھے۔ اس فلم میں ایک گیت وحید مراد اور چترا پر اچھا عکس بند کیا گیا تھا۔ جس کی موسیقی روبن گھوش نے دی تھی اور بول تھے:
دیکھئے نظر اٹھائیے
آپ کو ہے پیارکی قسم
اب ذرا مسکرائیے
پھر جب بنگالی ہدایت کار نظام الحق نے کراچی میں اپنی فلم ''ہمدم'' بنائی تو اس میں ہدایت کار نے اداکارہ طلعت صدیقی کی چھوٹی بہن ریحانہ صدیقی کو ہیروئن لیا اور ڈھاکہ سے خلیل کو کراچی بلایا اور اسے ہیرو کاسٹ کیا۔ مذکورہ فلم کی ساری شوٹنگ کراچی ہی میں کی گئی تھی۔ اس فلم کے کچھ گیت اور مکالمے میرے لکھے ہوئے تھے۔
اسی دور میں اداکار رحمان نے اپنی فلم ''ملن'' میں کراچی کی اداکارہ دیبا کو اپنے ساتھ ہیروئن کاسٹ کیا۔ اس فلم کی موسیقی خان عطا الرحمن نے مرتب کی تھی اور فردوسی بیگم کی آواز میں گایا گیا، ایک گیت ان دنوں کافی مشہور ہوا تھا جس کے بول تھے۔ کوئی دل میں آ کے مسکرا دیا۔اور اس طرح ڈھاکہ، کراچی اور لاہور کے درمیان فلم آرٹسٹوں اورگلوکاروں کا تبادلہ بھی ہوتا رہا اس دوران احمد رشدی مالا، مسعود رانا، نجمہ نیازی وغیرہ بھی ڈھاکہ میں بنائی جانے والی اردو فلموں میں گانے گانے کے لیے ڈھاکہ جاتے رہے اور ڈھاکہ سے فردوسی بیگم اورگلوکارہ شہناز بیگم کراچی میں گیت گانے کے لیے آتی رہیں۔
انھی دنوں گلوکارہ شہناز بیگم کی آواز میں ایک قومی گیت جسے مسرور انور نے لکھا تھا۔ جس کے بول تھے سوہنی دھرتی اللہ رکھے قدم قدم آباد تجھے۔ کراچی T.V کے لیے ریکارڈ گیا پھر یہ قومی گیت اتنا مشہور ہوا کہ پاکستان کا دوسرا قومی ترانہ بن گیا اور پاکستان کی سب سے بڑی سیاسی پارٹی جس کے سربراہ ذوالفقارعلی بھٹو تھے اس پارٹی نے تو اس قومی گیت کو اپنا پارٹی گیت بنالیا تھا۔ اس گیت کی مقبولیت نے شہناز بیگم کو بھی پاکستان کی صف اول کی گلوکاراؤں میں لاکھڑا کیا تھا۔ یہ وہ دور تھا کہ جب ڈھاکہ سے ہر سال نگار فلم ایوارڈ کی تقریب میں شرکت کرنے کے لیے نامور فنکار آنے لگے تھے۔
اسی دوران کراچی میں میری ملاقاتیں اداکارہ نسیمہ خان، اداکارہ سلطانہ زمان اور موسیقار خان عطا الرحمن سے ہوئیں اور ان یادگار اور خوشگوار ملاقاتوں کا تذکرہ میں مختلف فلمی اخبارات میں کرتا رہتا تھا۔ اداکارہ سلطانہ زمان ڈھاکہ کے مشہور اور سینئر ترین کیمرہ مین زمان علی خان کی بیگم تھیں اور سلطانہ زمان نے اپنے کیریئرکا آغاز بنگالی فلموں سے کیا تھا۔ پھر اسے کئی اردو فلموں میں بھی کاسٹ کیا گیا جن میں قابل ذکر فلموں میں ڈائریکٹر عبدالجبار کی فلم اجالا، میرے ارمان میرے سپنے، تھی ہیرو عظیم تھا۔ اسی طرح نسیمہ خان کی قابل ذکر فلموں میں ہدایت کار محسن کی فلم ''گوری'' تھی جس میں رحمان ہیرو تھا۔ فلم ''پروانہ'' تھی نسیمہ خان اور حسن امام مرکزی کرداروں میں تھے۔
اب میں آتا ہوں اداکارہ کابوری کی طر ف جس نے موسیقار و ہدایت کار خان عطا الرحمن کی منفرد فلم ''سوئے ندیا جاگے پانی'' میں ہیروئن کا کردار ادا کیا تھا۔ کابوری کی ایک اور اردو فلم ''مینا'' بھی تھی جس کے ہدایت کار قاضی ظہیر تھے ،جنھوں نے وحید مراد کو لے کر ''بھیا''بنائی تھی۔ اور ''مینا'' میں کابوری کے ساتھ ہیروکا کردار رزاق نے ادا کیا تھا جو ان دنوں کافی مقبول تھا ۔
مگر مجھے سب سے زیادہ متاثر موسیقار و ہدایت کار خان عطا الرحمن نے کیا تھا اور اس کی فلم ''سوئے ندیا جاگے پانی'' کوکراچی میں زیادہ کامیابی تو نہیں ملی تھی مگر کریٹکس نے اس فلم کو بڑا سراہا تھا۔ اور اس کو ایک آرٹ فلم کی حیثیت سے پسند کیا تھا۔ اس فلم کا ایک گیت بہت ہی خوبصورت تھا جو فلم کا تھیم سانگ بھی تھا۔ فلم کی کہانی ایک چھوٹے سے گاؤں میں دو پیار کرنے والوں کی کہانی تھی اس فلم میں کابوری کے ساتھ حسن امام نے ہیروکا کردار ادا کیا تھا اور تھیم سانگ جس کے بول تھے:
سوئے ندیا جاگے پانی
کیسی ہے یہ کہانی
لہروں کے سنگ لہریں بھاگیں
سوئی سوئی امنگیں جاگیں
رت آئی ہے سہانی
یہ فلم جب کراچی میں لگی تو میں بھی اسے بڑے شوق سے دیکھنے گیا تھا۔ مذکورہ گیت ایک کشتی میں فلمایا گیا تھا کابوری اور حسن امام کشتی چلاتے ہوئے یہ گیت عکس بند کراتے ہیں۔ جب کشتی دریا کے کنارے کے قریب آجاتی ہے تو حسن امام کابوری کو کشتی سے پانی میں گھسیٹ لیتا ہے تو کابوری بڑے لجاتے اور شرماتے ہوئے کہتی ہے۔
''اب میں بھیگے کپڑوں میں کیسے گھر جاؤنگی'' یہ مکالمہ ادا کرتے ہوئے کابوری کی معصوم اور خوبصورت اداکاری دل کو موہ لیتی ہے، مجھے یہ فلم بہت اچھی لگی اور اس فلم کو دیکھ کر مجھے ہندوستان کا مشہور فلمسازوہدایتکار شیام بینگل یاد آگیا تھا جس نے ہندوستان میں جتنی فلمیں بنائیں وہ آرٹ فلمیں بنائیں اور اس کی ہر فلم کو کریٹکس نے ہمیشہ سراہا اس کی فلموں نے شیام بینگل کو دولت کما کر تو نہیں دی مگر شیام بینگل کی فلموں کو بیرونی ملکوں کے فلمی میلوں میں بہت پسند کیا گیااور تعریفی اسناد اور ایوارڈ سے نوازا گیا۔
ہندوستان کے فلم بینوں نے شیام بینگل کو قدرومنزلت تو دی مگر وہ مالی طور پر خوشحال نہ ہو سکا اب میں پھر خان عطا الرحمن کی طرف آتا ہوں اس کی ایک اور معرکۃ الآرا فلم ''نواب سراج الدولہ'' تھی یہ بھی ایک تاریخی شخصیت پر بنائی گئی تھی، یہ فلم 1967 میں ریلیز ہوئی تھی، بڑی محنت کے ساتھ یہ فلم بنائی گئی تھی، اس کے ہدایتکاراو موسیقار خان عطا الرحمن تھے یہ بھی ایک خوبصورت فلم تھی ۔
جس میں نواب آف بنگال، اڑیسہ، بہار اور مرشد آباد کی تاریخ کو بڑے شاندار انداز میں فلم کا روپ دیا گیا تھا۔ فلم میں مرکزی کردار انور حسین نے بڑے جاندار انداز میں ادا کیا تھا، دیگر آرٹسٹوں میں عطیہ چوہدری، انور اور خود خان عطا الرحمن نے بھی کام کیا تھا، اس فلم کے گیت سرور بارہ بنکوی نے لکھے تھے اور ایک غزل تو بڑی کمال کی تھی، موسیقی اور بول دل میں اتر جاتے تھے۔ اس کو سن کر سرور بارہ بنکوی یاد آجاتے ہیں، غزل کا مطلع تھا:
ہے یہ عالم تجھے بھلانے میں
اشک آتے ہیں مسکرانے میں
ایک اور شعر بہت ہی دل کش تھا اور اس غزل کو فردوسی بیگم نے گایا تھا:
کتنی سنسان ہے چمن کی فضا
دل دھڑکتا ہے آشیانے میں
خان عطا الرحمن ایک انتہائی ذہین ڈائریکٹر اور بہت ہی باصلاحیت موسیقار تھا۔اس کے بچن کا کچھ حصہ کراچی میں گزرا تھا،ایسے ندرت پسند انسان کی نہ ڈھاکہ اور نہ ہی لاہورکی فلم انڈسٹری نے قدر کی اگر ایسے شخص کے ساتھ تعاون کیا جاتا تو یہ فنکار فلم کی دنیا کا انمول رتن ہوتا۔ اب میں آتا ہوں ایک ایسی ہی نفیس شخصیت سرور بارہ بنکوی کی طرف۔ سروربارہ بنکوی ہماری فلم انڈسٹری کا قیمتی سرمایا تھے۔ سرور بارہ بنکوی نے ڈھاکہ کی پہلی اردو فلم ''چندا'' سے لے کر اپنی آخری فلم ''احساس'' تک بے شمار فلموں کے لیے دل آویزگیت لکھے تھے۔ اور ان کے گیتوں میں شعر و ادب کوٹ کوٹ کر بھرا ہوتا تھا۔
انھوں نے کئی فلمیں پروڈیوس کیں۔ ان کی ہدایت کاری کے فرائض بھی ادا کیے فلموں کے مکالمے بھی لکھے اور ڈھاکہ کی سب سے زیادہ اردو فلموں کے گیت سرور بارہ بنکوی ہی کے لکھے ہوئے ہیں۔ انھوں نے جو پہلی فلم ''آخری اسٹیشن'' کے نام سے بنائی وہ مشہور افسانہ نگار حاجرہ مسرور کے ایک افسانے ''پگلی'' سے ماخوذ تھی۔
جس میں شبنم نے پگلی کا کردار بہت ہی خوبصورت ادا کیا تھا۔ پھر جب دوسری فلم ''تم میرے ہو'' بنائی اس کی کہانی کا بنیادی خیال بھی ہندوستان کے نامور افسانہ اور ناول نگار کرشن چندر کے ایک افسانے ''انجان'' سے لیا گیا تھا اور پھر جب سرور صاحب نے اپنی تیسری فلم ''آشنا'' بنائی تو اس کی کہانی بھی ادب کا حصہ تھی جس کا مرکزی خیال مشہور خاتون رائٹر وحیدہ نسیم کے افسانے ''بیگانگی'' سے لیا گیا تھا۔ مذکورہ بالا دونوں فلموں میں شبنم اور ندیم مرکزی کرداروں میں تھے جب کہ اپنی تیسری فلم ''آشنا'' میں سرور صاحب نے نئی اداکارہ سنبل اور نئے اداکار سلیم کو ہیرو کے طور پر لیا تھا۔
سرور بارہ بنکوی نے فلمیں پروڈیوس کرتے ہوئے بھی ادب سے اپنا رشتہ جوڑے رکھا تھا مگر ان تینوں فلموں کی پے در پے ناکامیوں نے سرور صاحب کی کمر توڑ کے رکھ دی تھی۔ میری سرور صاحب سے آخری ملاقات نگار ویکلی کے دفتر میں ہوئی تھی اندر سے ٹوٹے ہوئے تھے مگر پھر بھی وہ ہشاش بشاش تھے ان کے ہونٹوں پر ہر وقت مسکراہٹ ہی سجی رہتی تھی۔ ان کا آخری گیت فلم ''احساس'' کا ''ہمیں کھوکر بہت پچھتاؤ گے جب ہم نہیں ہوں گے'' جب بھی سنو تو آنکھیں بھیگ جاتی ہیں۔
دیکھئے نظر اٹھائیے
آپ کو ہے پیارکی قسم
اب ذرا مسکرائیے
پھر جب بنگالی ہدایت کار نظام الحق نے کراچی میں اپنی فلم ''ہمدم'' بنائی تو اس میں ہدایت کار نے اداکارہ طلعت صدیقی کی چھوٹی بہن ریحانہ صدیقی کو ہیروئن لیا اور ڈھاکہ سے خلیل کو کراچی بلایا اور اسے ہیرو کاسٹ کیا۔ مذکورہ فلم کی ساری شوٹنگ کراچی ہی میں کی گئی تھی۔ اس فلم کے کچھ گیت اور مکالمے میرے لکھے ہوئے تھے۔
اسی دور میں اداکار رحمان نے اپنی فلم ''ملن'' میں کراچی کی اداکارہ دیبا کو اپنے ساتھ ہیروئن کاسٹ کیا۔ اس فلم کی موسیقی خان عطا الرحمن نے مرتب کی تھی اور فردوسی بیگم کی آواز میں گایا گیا، ایک گیت ان دنوں کافی مشہور ہوا تھا جس کے بول تھے۔ کوئی دل میں آ کے مسکرا دیا۔اور اس طرح ڈھاکہ، کراچی اور لاہور کے درمیان فلم آرٹسٹوں اورگلوکاروں کا تبادلہ بھی ہوتا رہا اس دوران احمد رشدی مالا، مسعود رانا، نجمہ نیازی وغیرہ بھی ڈھاکہ میں بنائی جانے والی اردو فلموں میں گانے گانے کے لیے ڈھاکہ جاتے رہے اور ڈھاکہ سے فردوسی بیگم اورگلوکارہ شہناز بیگم کراچی میں گیت گانے کے لیے آتی رہیں۔
انھی دنوں گلوکارہ شہناز بیگم کی آواز میں ایک قومی گیت جسے مسرور انور نے لکھا تھا۔ جس کے بول تھے سوہنی دھرتی اللہ رکھے قدم قدم آباد تجھے۔ کراچی T.V کے لیے ریکارڈ گیا پھر یہ قومی گیت اتنا مشہور ہوا کہ پاکستان کا دوسرا قومی ترانہ بن گیا اور پاکستان کی سب سے بڑی سیاسی پارٹی جس کے سربراہ ذوالفقارعلی بھٹو تھے اس پارٹی نے تو اس قومی گیت کو اپنا پارٹی گیت بنالیا تھا۔ اس گیت کی مقبولیت نے شہناز بیگم کو بھی پاکستان کی صف اول کی گلوکاراؤں میں لاکھڑا کیا تھا۔ یہ وہ دور تھا کہ جب ڈھاکہ سے ہر سال نگار فلم ایوارڈ کی تقریب میں شرکت کرنے کے لیے نامور فنکار آنے لگے تھے۔
اسی دوران کراچی میں میری ملاقاتیں اداکارہ نسیمہ خان، اداکارہ سلطانہ زمان اور موسیقار خان عطا الرحمن سے ہوئیں اور ان یادگار اور خوشگوار ملاقاتوں کا تذکرہ میں مختلف فلمی اخبارات میں کرتا رہتا تھا۔ اداکارہ سلطانہ زمان ڈھاکہ کے مشہور اور سینئر ترین کیمرہ مین زمان علی خان کی بیگم تھیں اور سلطانہ زمان نے اپنے کیریئرکا آغاز بنگالی فلموں سے کیا تھا۔ پھر اسے کئی اردو فلموں میں بھی کاسٹ کیا گیا جن میں قابل ذکر فلموں میں ڈائریکٹر عبدالجبار کی فلم اجالا، میرے ارمان میرے سپنے، تھی ہیرو عظیم تھا۔ اسی طرح نسیمہ خان کی قابل ذکر فلموں میں ہدایت کار محسن کی فلم ''گوری'' تھی جس میں رحمان ہیرو تھا۔ فلم ''پروانہ'' تھی نسیمہ خان اور حسن امام مرکزی کرداروں میں تھے۔
اب میں آتا ہوں اداکارہ کابوری کی طر ف جس نے موسیقار و ہدایت کار خان عطا الرحمن کی منفرد فلم ''سوئے ندیا جاگے پانی'' میں ہیروئن کا کردار ادا کیا تھا۔ کابوری کی ایک اور اردو فلم ''مینا'' بھی تھی جس کے ہدایت کار قاضی ظہیر تھے ،جنھوں نے وحید مراد کو لے کر ''بھیا''بنائی تھی۔ اور ''مینا'' میں کابوری کے ساتھ ہیروکا کردار رزاق نے ادا کیا تھا جو ان دنوں کافی مقبول تھا ۔
مگر مجھے سب سے زیادہ متاثر موسیقار و ہدایت کار خان عطا الرحمن نے کیا تھا اور اس کی فلم ''سوئے ندیا جاگے پانی'' کوکراچی میں زیادہ کامیابی تو نہیں ملی تھی مگر کریٹکس نے اس فلم کو بڑا سراہا تھا۔ اور اس کو ایک آرٹ فلم کی حیثیت سے پسند کیا تھا۔ اس فلم کا ایک گیت بہت ہی خوبصورت تھا جو فلم کا تھیم سانگ بھی تھا۔ فلم کی کہانی ایک چھوٹے سے گاؤں میں دو پیار کرنے والوں کی کہانی تھی اس فلم میں کابوری کے ساتھ حسن امام نے ہیروکا کردار ادا کیا تھا اور تھیم سانگ جس کے بول تھے:
سوئے ندیا جاگے پانی
کیسی ہے یہ کہانی
لہروں کے سنگ لہریں بھاگیں
سوئی سوئی امنگیں جاگیں
رت آئی ہے سہانی
یہ فلم جب کراچی میں لگی تو میں بھی اسے بڑے شوق سے دیکھنے گیا تھا۔ مذکورہ گیت ایک کشتی میں فلمایا گیا تھا کابوری اور حسن امام کشتی چلاتے ہوئے یہ گیت عکس بند کراتے ہیں۔ جب کشتی دریا کے کنارے کے قریب آجاتی ہے تو حسن امام کابوری کو کشتی سے پانی میں گھسیٹ لیتا ہے تو کابوری بڑے لجاتے اور شرماتے ہوئے کہتی ہے۔
''اب میں بھیگے کپڑوں میں کیسے گھر جاؤنگی'' یہ مکالمہ ادا کرتے ہوئے کابوری کی معصوم اور خوبصورت اداکاری دل کو موہ لیتی ہے، مجھے یہ فلم بہت اچھی لگی اور اس فلم کو دیکھ کر مجھے ہندوستان کا مشہور فلمسازوہدایتکار شیام بینگل یاد آگیا تھا جس نے ہندوستان میں جتنی فلمیں بنائیں وہ آرٹ فلمیں بنائیں اور اس کی ہر فلم کو کریٹکس نے ہمیشہ سراہا اس کی فلموں نے شیام بینگل کو دولت کما کر تو نہیں دی مگر شیام بینگل کی فلموں کو بیرونی ملکوں کے فلمی میلوں میں بہت پسند کیا گیااور تعریفی اسناد اور ایوارڈ سے نوازا گیا۔
ہندوستان کے فلم بینوں نے شیام بینگل کو قدرومنزلت تو دی مگر وہ مالی طور پر خوشحال نہ ہو سکا اب میں پھر خان عطا الرحمن کی طرف آتا ہوں اس کی ایک اور معرکۃ الآرا فلم ''نواب سراج الدولہ'' تھی یہ بھی ایک تاریخی شخصیت پر بنائی گئی تھی، یہ فلم 1967 میں ریلیز ہوئی تھی، بڑی محنت کے ساتھ یہ فلم بنائی گئی تھی، اس کے ہدایتکاراو موسیقار خان عطا الرحمن تھے یہ بھی ایک خوبصورت فلم تھی ۔
جس میں نواب آف بنگال، اڑیسہ، بہار اور مرشد آباد کی تاریخ کو بڑے شاندار انداز میں فلم کا روپ دیا گیا تھا۔ فلم میں مرکزی کردار انور حسین نے بڑے جاندار انداز میں ادا کیا تھا، دیگر آرٹسٹوں میں عطیہ چوہدری، انور اور خود خان عطا الرحمن نے بھی کام کیا تھا، اس فلم کے گیت سرور بارہ بنکوی نے لکھے تھے اور ایک غزل تو بڑی کمال کی تھی، موسیقی اور بول دل میں اتر جاتے تھے۔ اس کو سن کر سرور بارہ بنکوی یاد آجاتے ہیں، غزل کا مطلع تھا:
ہے یہ عالم تجھے بھلانے میں
اشک آتے ہیں مسکرانے میں
ایک اور شعر بہت ہی دل کش تھا اور اس غزل کو فردوسی بیگم نے گایا تھا:
کتنی سنسان ہے چمن کی فضا
دل دھڑکتا ہے آشیانے میں
خان عطا الرحمن ایک انتہائی ذہین ڈائریکٹر اور بہت ہی باصلاحیت موسیقار تھا۔اس کے بچن کا کچھ حصہ کراچی میں گزرا تھا،ایسے ندرت پسند انسان کی نہ ڈھاکہ اور نہ ہی لاہورکی فلم انڈسٹری نے قدر کی اگر ایسے شخص کے ساتھ تعاون کیا جاتا تو یہ فنکار فلم کی دنیا کا انمول رتن ہوتا۔ اب میں آتا ہوں ایک ایسی ہی نفیس شخصیت سرور بارہ بنکوی کی طرف۔ سروربارہ بنکوی ہماری فلم انڈسٹری کا قیمتی سرمایا تھے۔ سرور بارہ بنکوی نے ڈھاکہ کی پہلی اردو فلم ''چندا'' سے لے کر اپنی آخری فلم ''احساس'' تک بے شمار فلموں کے لیے دل آویزگیت لکھے تھے۔ اور ان کے گیتوں میں شعر و ادب کوٹ کوٹ کر بھرا ہوتا تھا۔
انھوں نے کئی فلمیں پروڈیوس کیں۔ ان کی ہدایت کاری کے فرائض بھی ادا کیے فلموں کے مکالمے بھی لکھے اور ڈھاکہ کی سب سے زیادہ اردو فلموں کے گیت سرور بارہ بنکوی ہی کے لکھے ہوئے ہیں۔ انھوں نے جو پہلی فلم ''آخری اسٹیشن'' کے نام سے بنائی وہ مشہور افسانہ نگار حاجرہ مسرور کے ایک افسانے ''پگلی'' سے ماخوذ تھی۔
جس میں شبنم نے پگلی کا کردار بہت ہی خوبصورت ادا کیا تھا۔ پھر جب دوسری فلم ''تم میرے ہو'' بنائی اس کی کہانی کا بنیادی خیال بھی ہندوستان کے نامور افسانہ اور ناول نگار کرشن چندر کے ایک افسانے ''انجان'' سے لیا گیا تھا اور پھر جب سرور صاحب نے اپنی تیسری فلم ''آشنا'' بنائی تو اس کی کہانی بھی ادب کا حصہ تھی جس کا مرکزی خیال مشہور خاتون رائٹر وحیدہ نسیم کے افسانے ''بیگانگی'' سے لیا گیا تھا۔ مذکورہ بالا دونوں فلموں میں شبنم اور ندیم مرکزی کرداروں میں تھے جب کہ اپنی تیسری فلم ''آشنا'' میں سرور صاحب نے نئی اداکارہ سنبل اور نئے اداکار سلیم کو ہیرو کے طور پر لیا تھا۔
سرور بارہ بنکوی نے فلمیں پروڈیوس کرتے ہوئے بھی ادب سے اپنا رشتہ جوڑے رکھا تھا مگر ان تینوں فلموں کی پے در پے ناکامیوں نے سرور صاحب کی کمر توڑ کے رکھ دی تھی۔ میری سرور صاحب سے آخری ملاقات نگار ویکلی کے دفتر میں ہوئی تھی اندر سے ٹوٹے ہوئے تھے مگر پھر بھی وہ ہشاش بشاش تھے ان کے ہونٹوں پر ہر وقت مسکراہٹ ہی سجی رہتی تھی۔ ان کا آخری گیت فلم ''احساس'' کا ''ہمیں کھوکر بہت پچھتاؤ گے جب ہم نہیں ہوں گے'' جب بھی سنو تو آنکھیں بھیگ جاتی ہیں۔