اسپتال
میری سہیلی کی والدہ باتھ روم میں پھسل کر گرگئیں۔ عمر تقریباً 80 سال کے قریب ہے،
میری سہیلی کی والدہ باتھ روم میں پھسل کر گرگئیں۔ عمر تقریباً 80 سال کے قریب ہے، فوراً انھیں اسپتال لے جایا گیا، کولہے کی ہڈی کا معاملہ ہوا اور بات آپریشن تک پہنچی۔ کراچی کے پوش علاقے میں قائم یہ اسپتال ایک برانڈ اسپتال کا درجہ حاصل کرگیا ہے، صاحب حیثیت لوگ بخوشی علاج و معالجے کے لیے اس میں آتے جاتے رہتے ہیں۔
بڑے بڑے ڈاکٹرز کے نام اس اسپتال کی List میں ہیں۔ خیر ان کی والدہ کا آپریشن ہوا اور کچھ دنوں کے بعد پھر ان کی والدہ کی طبیعت خراب ہوئی اور پھر وہ اسی اسپتال میں لے کر آئیں۔ پھر سے تمام ٹیسٹ ہوئے اور ان کو اسپتال میں داخل کرلیا گیا۔ اسپیشلسٹ ڈاکٹرز آ آ کر دیکھتے رہے اور اپنی اپنی فیلڈ میں دوائیں دیتے رہے۔ کیونکہ خاتون 80 سال سے اوپرکی عمر کی تھیں اس لیے شاید ڈاکٹرز بہت پرسکون بھی تھے اور ان کے لواحقین کو جذباتی نہ ہونے کی تلقین بھی کرتے رہے کہ تمام علاج و معالجہ اپنی جگہ مگر عمر کا تقاضا بھی ہے۔ زبردست قسم کا Bill ان کا بنتا رہا۔ کیس ہسٹری موجود ہونے کے ساتھ ساتھ ڈاکٹرز اپنی اپنی تجویزکردہ دواؤں کو تجویز کرتے رہے۔ مریض اپنی جگہ ویسا ہے، گھر والے بے حد پریشان آخرکار ایک ہفتہ اسپتال میں رکھنے کے باوجود مریض کی حالت زیادہ تسلی بخش نہ ہوئی۔
گھر کے افراد انھیں واپس گھر لے آئے۔ Bill لاکھوں میں ادا کرنے کے باوجود بھی مریض جیسا آیا تھا ویسا ہی چلا گیا اور پھر ایک کے بعد دوسرے بڑے اسپتال کو بھی ٹرائی کیا گیا، تمام چھوٹے اور بڑے ٹیسٹ شروع سے آکر تک دوبارہ شروع سے کروائے جاتے رہے کہ اس سے اسپتال کو کمیشن ملتا ہے۔ جو ڈاکٹرز جتنے زیادہ ٹیسٹ تجویز کرتا ہے اور مریض کو جتنے دن زیادہ اسپتال میں رکھتا ہے اس ڈاکٹر کو اتنا ہی کمیشن ملتا ہے اور یہ سب تنخواہ سے علیحدہ ہوتا ہے اور شاید ان بڑے اسپتالوں میں بل جتنا زیادہ بنتا ہے وہ بھی اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ مریض کو توجہ دی جا رہی ہے۔
بے پناہ نخروں اور بے پناہ اسٹائل کے ساتھ یہ اسپتال ڈاکٹروں اور مریضوں دونوں کو Status بنانا اور بنائے رکھنا، سکھائے جانے کے ادارے بھی ہیں۔ اسپتال کے ساتھ، 3 ہزار سے 5 ہزار تک ڈاکٹرز کی فیس ہوتی ہے، منٹوں اور گھنٹوں کے حساب سے کمیشن ہوتے ہیں اور اسی حساب سے چارج کیا جاتا ہے۔ ان بڑے اسٹائل کے اسپتالوں میں ڈاکٹرز اور نرسوں کی گرومنگ ماہر اسٹائلسٹ سے کروائی جاتی ہے تاکہ کھاتے پیتے گھرانوں کے مریضوں کو صاف ستھرے ماحول کے ساتھ ساتھ گروم ڈاکٹرز اور اسٹاف بھی میسر ہوں۔
اس کے ساتھ ساتھ ایک زبردست کیفے ٹیریا بھی تمام لوگوں کے لیے اسپتال میں ہوتا ہے، گفٹ سینٹر اور پھولوں کا کارنر، تاکہ لوازمات اور دیکھ بھال کے تمام اسٹینڈرڈز کو ملحوظ خاطر رکھا جائے، مریض کے تمام ٹیسٹ اور ان کے رزلٹ وغیرہ وغیرہ مگر سب سے ضروری اور اہم ''مریض'' سوچنے والی بات یہ ہے کہ اگر مریض کھاتے پیتے گھرانے کا ہے تو ان بڑے اسپتالوں کا رخ کرے گا اور اگر نہیں ہے تو وہ ایک اسپتال نما ٹارچر سیل کا حصہ بن جائے گا۔ سب سے پہلے مریض کو گندگی کا سامنا کرنا پڑے گا۔ ڈاکٹر کہاں ہے اور کس طرح وہ یہ سہولت حاصل کرے گا اس کے لیے اس کو دھکے کھانے پڑیں گے۔ دوائیں اگر مل رہی ہیں تو وہ اصلی ہیں یا نقلی اس کو کچھ پتہ نہیں۔ پان کی پیکیں، جگہ جگہ گندگی کے ڈھیر، گالی گلوچ کا ماحول، نہ کوئی حال نہ کوئی پوچھنے والا، کیا کیسے؟
موسم گرما میں سرکاری اسپتالوں کا حال یہ تک ہوتا ہے کہ آئی سی یو یونٹ تک لوڈ شیڈنگ کا شکار ہوتے ہیں، چھوٹے بچوں سے لے کر بزرگوں تک بے انتہا شدید کرب و اذیت کا شکار۔ مختلف امراض میں گرفتار بے بس لوگ اللہ جانے کس کس طرح زندگی و موت سے ہمہ وقت لڑتے ہیں اور دکھ کی بات یہ ہے کہ جہاں مداوا نہ ہو وہ جگہ خود درد کا ذریعہ بن جائے۔
یورپ اور امریکا میں اور دوسرے ممالک میں بھی اسپتال اور اسپتالوں کی سہولیات پر بہت توجہ دی جاتی ہے اور تمام مریضوں کو بہترین سہولیات فراہم کی جاتی ہیں کہ یہ ان کا حق تصور ہوتا ہے مگر اپنے اردگرد نظر ڈالیں تو اسپتال میں ایک انڈسٹری نظر آرہی ہے جہاں زیادہ سے زیادہ پیسہ بنانے کے لیے بہتر ماحول بنایا جاتا ہے اور کم سے کم بیماری کو بھی زیادہ سے زیادہ بتا کے مریض کی جیبیں خالی کروائی جاتی ہیں۔
وہ جو مسیحائی کا جذبہ وہ جو ہر طالب علم میں ڈاکٹر بننے کی لگن کہ وہ ڈاکٹر بن کے انسانیت کی خدمت کرے گا کا جملہ سب کچھ ایک خواب بن کر رہ گیا، اس ماحول میں ڈاکٹرز بھی بڑے بڑے دانت لگا کر انسانیت کی خدمت کرنے نکلے ہیں کہ زندگی اور موت صرف اور صرف اللہ کے ہاتھ میں ہے، مگر بیماریوں میں، تکلیفوں میں یہ مسیحا اب کچھ اور بن گئے ہیں۔
ایک خوف ناک سا ماحول بنتا جا رہا ہے اسپتالوں کے حوالے سے۔ اور یہ کوئی معمولی بات نہیں اگر پیسے کا عمل دخل اتنی ہی تیزی سے اس شعبے تک پہنچ رہا ہے تو گمان یہ ہے کہ شاید لوگوں کو بغیر علاج و معالجے کے ہی اس دنیا سے جانا ہوگا اور اگر وہ صاحب حیثیت ہے تو ان کو ہفتوں نہیں مہینوں اسپتالوں کو لاکھوں کے بلز ادا کرنے ہوں گے۔
سڑکوں، بسوں، ریلوں کی بجائے اگر سب سے پہلی اہمیت انسان کو دی جائے تو بہتر ہوگا، جب صحت مند انسان ہی نہیں ہوں گے تو یہ سڑکیں، بسیں کس کام کی؟ کم بختی ہم سب کی یہ ہے کہ ہم بہت جلد اور بہت کم وقت میں ماڈرن بننا چاہتے ہیں۔ وہ بھی ایسے ماڈرن جس پر لبرل کا لیبل بھی لگا ہو۔ ہم کیا ہیں اور ہمیں کیا ہونا چاہیے۔ یہ بالکل بھول بھال کر ایک ایسی دنیا کا حصہ بننا چاہتے ہیں جہاں سارے کردار ایک مصنوعی ماحول میں جی رہے ہوں؟ ایسی زندگی ناپائیدار ہوگی اور اس ناپائیدار زندگی میں ایک دوسرے کے لیے کچھ بہتر کرنے کا جذبہ تو ناپید ہی ہوگا۔
سب سے پہلے صحت و تعلیم کے شعبے دیکھیے اور زیادہ سے زیادہ بہترین اسپتالوں کی سہولیات ایسے ہی پیدا کیجیے کہ جیسے کہ میٹرو بسیں یا موٹروے!
بڑے بڑے جدید اسپتالوں میں بھی چیک اینڈ بیلنس کا سسٹم رکھنا ہوگا مریض اسپتالوں میں اپنی صحت و سلامتی کی امید کے ساتھ ہی آتا ہے کئی مرتبہ میں نے خود بھی دیکھا ہے کہ وینٹی لیٹر پر ایسے مریضوں کو ہفتوں کے لیے ڈال دیتے ہیں جن میں زندگی کی امید ہی نہیں ہوتی صرف مقصد لواحقین سے پیسے بٹورنے۔زیادہ عمر کے مریضوں کو سمجھا جاتا ہے کہ بس اپنی زندگی جی چکے ہیں اب ان کے جانے میں کوئی مضائقہ نہیں۔ لاکھوں، کروڑوں روپے لگائے گئے اسپتال نام کے سیٹ اپ سے کروڑوں کمائے جاتے ہیں۔
گوکہ ہم کوئی نئی بات آپ کو نہیں بتا رہے ہیں مگر صرف مقصد یہ ہے کہ اگر ہم ہر بنیادی ضرورت کو اتنا ہی کمرشل کردیں گے اور آسمان کو چھونے کی بات کریں گے تو کیسے ایک صحت مند، تعلیم یافتہ ماحول بنے پائے گا، جو مسیحا ہیں جن کے کاندھوں پر یہ ذمے داریاں ہیں اگر وہی اس کے مخالف چلیں گے تو کیسے ہم ایک ماڈرن معاشرہ تشکیل دے پائیں گے۔
شراب خانے کھلنے سے، سگریٹ، چرس پینے سے، انگریزی بولنے سے، گالی گلوچ کرنے سے کیا ہم ماڈرن بن پائیں گے؟ چھوٹے بڑے ورکشاپ، سیمینار اور کانفرنسوں کا انعقاد ہوتا رہے اور انسانیت کی خدمت اور انسان کی اہمیت پر نہ صرف یہ کہ ہم اپنے آپ کو بھی جگاتے رہے بلکہ نوجوان نسل کو خاص طور پر ان نوجوانوں کو جن کی تعداد ہمارے ملک میں بہت زیادہ ہے اور یقینا جذبات بھی زیادہ ہیں۔ ان کو صحیح رہنمائی ملتی رہے، اسپتالوں کی لوٹ کھسوٹ، جعلی دوائیں، ڈاکٹرز کی فیسیں اور تمام معاملات پر باقاعدہ ایک راہ عمل بنایا جائے اور مکمل طور پر اس شعبے کی سرپرستی کے لیے بہت ہی اعلیٰ باہر کے تعلیم یافتہ افراد کو دی جائے۔
اسپتال لوگوں کو شفا اور دوا دونوں ہی بہترین فراہم کرسکیں، اسپتال اسپتال ہی رہیں، بینک نہ بنیں، بچوں سے لے کر بزرگوں تک، سر درد سے لے کر کینسر تک، بہت مناسب علاج و معالجہ یقیناً ہم سب کا حق ہے۔
بڑے بڑے ڈاکٹرز کے نام اس اسپتال کی List میں ہیں۔ خیر ان کی والدہ کا آپریشن ہوا اور کچھ دنوں کے بعد پھر ان کی والدہ کی طبیعت خراب ہوئی اور پھر وہ اسی اسپتال میں لے کر آئیں۔ پھر سے تمام ٹیسٹ ہوئے اور ان کو اسپتال میں داخل کرلیا گیا۔ اسپیشلسٹ ڈاکٹرز آ آ کر دیکھتے رہے اور اپنی اپنی فیلڈ میں دوائیں دیتے رہے۔ کیونکہ خاتون 80 سال سے اوپرکی عمر کی تھیں اس لیے شاید ڈاکٹرز بہت پرسکون بھی تھے اور ان کے لواحقین کو جذباتی نہ ہونے کی تلقین بھی کرتے رہے کہ تمام علاج و معالجہ اپنی جگہ مگر عمر کا تقاضا بھی ہے۔ زبردست قسم کا Bill ان کا بنتا رہا۔ کیس ہسٹری موجود ہونے کے ساتھ ساتھ ڈاکٹرز اپنی اپنی تجویزکردہ دواؤں کو تجویز کرتے رہے۔ مریض اپنی جگہ ویسا ہے، گھر والے بے حد پریشان آخرکار ایک ہفتہ اسپتال میں رکھنے کے باوجود مریض کی حالت زیادہ تسلی بخش نہ ہوئی۔
گھر کے افراد انھیں واپس گھر لے آئے۔ Bill لاکھوں میں ادا کرنے کے باوجود بھی مریض جیسا آیا تھا ویسا ہی چلا گیا اور پھر ایک کے بعد دوسرے بڑے اسپتال کو بھی ٹرائی کیا گیا، تمام چھوٹے اور بڑے ٹیسٹ شروع سے آکر تک دوبارہ شروع سے کروائے جاتے رہے کہ اس سے اسپتال کو کمیشن ملتا ہے۔ جو ڈاکٹرز جتنے زیادہ ٹیسٹ تجویز کرتا ہے اور مریض کو جتنے دن زیادہ اسپتال میں رکھتا ہے اس ڈاکٹر کو اتنا ہی کمیشن ملتا ہے اور یہ سب تنخواہ سے علیحدہ ہوتا ہے اور شاید ان بڑے اسپتالوں میں بل جتنا زیادہ بنتا ہے وہ بھی اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ مریض کو توجہ دی جا رہی ہے۔
بے پناہ نخروں اور بے پناہ اسٹائل کے ساتھ یہ اسپتال ڈاکٹروں اور مریضوں دونوں کو Status بنانا اور بنائے رکھنا، سکھائے جانے کے ادارے بھی ہیں۔ اسپتال کے ساتھ، 3 ہزار سے 5 ہزار تک ڈاکٹرز کی فیس ہوتی ہے، منٹوں اور گھنٹوں کے حساب سے کمیشن ہوتے ہیں اور اسی حساب سے چارج کیا جاتا ہے۔ ان بڑے اسٹائل کے اسپتالوں میں ڈاکٹرز اور نرسوں کی گرومنگ ماہر اسٹائلسٹ سے کروائی جاتی ہے تاکہ کھاتے پیتے گھرانوں کے مریضوں کو صاف ستھرے ماحول کے ساتھ ساتھ گروم ڈاکٹرز اور اسٹاف بھی میسر ہوں۔
اس کے ساتھ ساتھ ایک زبردست کیفے ٹیریا بھی تمام لوگوں کے لیے اسپتال میں ہوتا ہے، گفٹ سینٹر اور پھولوں کا کارنر، تاکہ لوازمات اور دیکھ بھال کے تمام اسٹینڈرڈز کو ملحوظ خاطر رکھا جائے، مریض کے تمام ٹیسٹ اور ان کے رزلٹ وغیرہ وغیرہ مگر سب سے ضروری اور اہم ''مریض'' سوچنے والی بات یہ ہے کہ اگر مریض کھاتے پیتے گھرانے کا ہے تو ان بڑے اسپتالوں کا رخ کرے گا اور اگر نہیں ہے تو وہ ایک اسپتال نما ٹارچر سیل کا حصہ بن جائے گا۔ سب سے پہلے مریض کو گندگی کا سامنا کرنا پڑے گا۔ ڈاکٹر کہاں ہے اور کس طرح وہ یہ سہولت حاصل کرے گا اس کے لیے اس کو دھکے کھانے پڑیں گے۔ دوائیں اگر مل رہی ہیں تو وہ اصلی ہیں یا نقلی اس کو کچھ پتہ نہیں۔ پان کی پیکیں، جگہ جگہ گندگی کے ڈھیر، گالی گلوچ کا ماحول، نہ کوئی حال نہ کوئی پوچھنے والا، کیا کیسے؟
موسم گرما میں سرکاری اسپتالوں کا حال یہ تک ہوتا ہے کہ آئی سی یو یونٹ تک لوڈ شیڈنگ کا شکار ہوتے ہیں، چھوٹے بچوں سے لے کر بزرگوں تک بے انتہا شدید کرب و اذیت کا شکار۔ مختلف امراض میں گرفتار بے بس لوگ اللہ جانے کس کس طرح زندگی و موت سے ہمہ وقت لڑتے ہیں اور دکھ کی بات یہ ہے کہ جہاں مداوا نہ ہو وہ جگہ خود درد کا ذریعہ بن جائے۔
یورپ اور امریکا میں اور دوسرے ممالک میں بھی اسپتال اور اسپتالوں کی سہولیات پر بہت توجہ دی جاتی ہے اور تمام مریضوں کو بہترین سہولیات فراہم کی جاتی ہیں کہ یہ ان کا حق تصور ہوتا ہے مگر اپنے اردگرد نظر ڈالیں تو اسپتال میں ایک انڈسٹری نظر آرہی ہے جہاں زیادہ سے زیادہ پیسہ بنانے کے لیے بہتر ماحول بنایا جاتا ہے اور کم سے کم بیماری کو بھی زیادہ سے زیادہ بتا کے مریض کی جیبیں خالی کروائی جاتی ہیں۔
وہ جو مسیحائی کا جذبہ وہ جو ہر طالب علم میں ڈاکٹر بننے کی لگن کہ وہ ڈاکٹر بن کے انسانیت کی خدمت کرے گا کا جملہ سب کچھ ایک خواب بن کر رہ گیا، اس ماحول میں ڈاکٹرز بھی بڑے بڑے دانت لگا کر انسانیت کی خدمت کرنے نکلے ہیں کہ زندگی اور موت صرف اور صرف اللہ کے ہاتھ میں ہے، مگر بیماریوں میں، تکلیفوں میں یہ مسیحا اب کچھ اور بن گئے ہیں۔
ایک خوف ناک سا ماحول بنتا جا رہا ہے اسپتالوں کے حوالے سے۔ اور یہ کوئی معمولی بات نہیں اگر پیسے کا عمل دخل اتنی ہی تیزی سے اس شعبے تک پہنچ رہا ہے تو گمان یہ ہے کہ شاید لوگوں کو بغیر علاج و معالجے کے ہی اس دنیا سے جانا ہوگا اور اگر وہ صاحب حیثیت ہے تو ان کو ہفتوں نہیں مہینوں اسپتالوں کو لاکھوں کے بلز ادا کرنے ہوں گے۔
سڑکوں، بسوں، ریلوں کی بجائے اگر سب سے پہلی اہمیت انسان کو دی جائے تو بہتر ہوگا، جب صحت مند انسان ہی نہیں ہوں گے تو یہ سڑکیں، بسیں کس کام کی؟ کم بختی ہم سب کی یہ ہے کہ ہم بہت جلد اور بہت کم وقت میں ماڈرن بننا چاہتے ہیں۔ وہ بھی ایسے ماڈرن جس پر لبرل کا لیبل بھی لگا ہو۔ ہم کیا ہیں اور ہمیں کیا ہونا چاہیے۔ یہ بالکل بھول بھال کر ایک ایسی دنیا کا حصہ بننا چاہتے ہیں جہاں سارے کردار ایک مصنوعی ماحول میں جی رہے ہوں؟ ایسی زندگی ناپائیدار ہوگی اور اس ناپائیدار زندگی میں ایک دوسرے کے لیے کچھ بہتر کرنے کا جذبہ تو ناپید ہی ہوگا۔
سب سے پہلے صحت و تعلیم کے شعبے دیکھیے اور زیادہ سے زیادہ بہترین اسپتالوں کی سہولیات ایسے ہی پیدا کیجیے کہ جیسے کہ میٹرو بسیں یا موٹروے!
بڑے بڑے جدید اسپتالوں میں بھی چیک اینڈ بیلنس کا سسٹم رکھنا ہوگا مریض اسپتالوں میں اپنی صحت و سلامتی کی امید کے ساتھ ہی آتا ہے کئی مرتبہ میں نے خود بھی دیکھا ہے کہ وینٹی لیٹر پر ایسے مریضوں کو ہفتوں کے لیے ڈال دیتے ہیں جن میں زندگی کی امید ہی نہیں ہوتی صرف مقصد لواحقین سے پیسے بٹورنے۔زیادہ عمر کے مریضوں کو سمجھا جاتا ہے کہ بس اپنی زندگی جی چکے ہیں اب ان کے جانے میں کوئی مضائقہ نہیں۔ لاکھوں، کروڑوں روپے لگائے گئے اسپتال نام کے سیٹ اپ سے کروڑوں کمائے جاتے ہیں۔
گوکہ ہم کوئی نئی بات آپ کو نہیں بتا رہے ہیں مگر صرف مقصد یہ ہے کہ اگر ہم ہر بنیادی ضرورت کو اتنا ہی کمرشل کردیں گے اور آسمان کو چھونے کی بات کریں گے تو کیسے ایک صحت مند، تعلیم یافتہ ماحول بنے پائے گا، جو مسیحا ہیں جن کے کاندھوں پر یہ ذمے داریاں ہیں اگر وہی اس کے مخالف چلیں گے تو کیسے ہم ایک ماڈرن معاشرہ تشکیل دے پائیں گے۔
شراب خانے کھلنے سے، سگریٹ، چرس پینے سے، انگریزی بولنے سے، گالی گلوچ کرنے سے کیا ہم ماڈرن بن پائیں گے؟ چھوٹے بڑے ورکشاپ، سیمینار اور کانفرنسوں کا انعقاد ہوتا رہے اور انسانیت کی خدمت اور انسان کی اہمیت پر نہ صرف یہ کہ ہم اپنے آپ کو بھی جگاتے رہے بلکہ نوجوان نسل کو خاص طور پر ان نوجوانوں کو جن کی تعداد ہمارے ملک میں بہت زیادہ ہے اور یقینا جذبات بھی زیادہ ہیں۔ ان کو صحیح رہنمائی ملتی رہے، اسپتالوں کی لوٹ کھسوٹ، جعلی دوائیں، ڈاکٹرز کی فیسیں اور تمام معاملات پر باقاعدہ ایک راہ عمل بنایا جائے اور مکمل طور پر اس شعبے کی سرپرستی کے لیے بہت ہی اعلیٰ باہر کے تعلیم یافتہ افراد کو دی جائے۔
اسپتال لوگوں کو شفا اور دوا دونوں ہی بہترین فراہم کرسکیں، اسپتال اسپتال ہی رہیں، بینک نہ بنیں، بچوں سے لے کر بزرگوں تک، سر درد سے لے کر کینسر تک، بہت مناسب علاج و معالجہ یقیناً ہم سب کا حق ہے۔