کلمۂ طیّبہ

حضور اکرمﷺ کا ارشاد ہے:’’اچھے کلمے سے مراد ’لاالٰہ الااﷲ‘ ہے۔‘‘

یہی کلمۂ طیبہ دین کی بنیاد اور ایمان کی جڑ ہے۔ فوٹو: رائٹرز

''کلمہ ٔ طیّبہ'' کے لفظی معنیٰ وہ قول حق اور عقیدۂ صالحہ ہے جو سراسر راستی پر مبنی ہو۔

سورۂ ابراہیم میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:''کیا تم دیکھتے نہیں کہ کلمۂ طیّبہ کو کس چیز سے مثال دی ہے۔ اس کی مثال ایسی ہے جیسے ایک اچھی ذات کا پاکیزہ درخت کہ جس کی جڑ زمین گہری جمی ہو اور شاخیں آسمان تک پہنچی ہوں۔ ہر آن وہ اپنے رب کے حکم سے پھل دے رہا ہے۔ یہ مثالیں اﷲ تعالیٰ اس لیے دیتا ہے کہ لوگ ان سے سبق لیں اور کلمۂ خبیثہ کی مثال ایک بد ذات درخت کی سی ہے جو زمین کی سطح سے اکھاڑ پھینکا جاتا ہے، اس کے لیے کوئی استحکام نہیں ہے۔''
(سورۂ ابراہیم آیات 24تا26)

سورۂ انعام میں ارشاد ہوتا ہے:''اور تیرے رب کا حکم سچائی اور انصاف (اعتدال) کے اعتبار سے پورا ہے۔''

یہ قول اور عقیدہ قرآن کی رو سے وہی ہو سکتا ہے جس میں توحید کا اقرار انبیا اور کتب آسمانی کا اقرار اور آخرت کا اقرار ہو۔ زمین سے آسمان تک چوں کہ سارا نظام کائنات اسی حقیقت پر مبنی ہے جس کا اقرار ایک مومن کلمۂ طیّبہ میں کرتا ہے، اس لیے کسی گوشے میں بھی قانون فطرت سے نہیں ٹکراتا۔ یہ ایسا بار آور اور نتیجہ خیز کلمہ ہے کہ جو شخص اسے بنیادبنا کر اپنی زندگی کا نظام تعمیر کرے، اس کو ہر آن مفید نتائج حاصل ہوتے ہیں۔

حضرت ابن عباسؓ فرماتے ہیں کہ کلمۂ طیّبہ سے مراد کلمۂ شہادت ہے جس کی جڑ مومن کے قلب میں ہے اور اس کی شاخیں آسمان میں کہ اس کی وجہ سے مومن کے اعمال آسمان تک جاتے ہیں۔
سورۂ فاطر میں ارشاد ربانی ہے:''جو شخص عزت حاصل کرنا چاہے، وہ اﷲ ہی سے عزت حاصل کرے، کیوں کہ ساری عزت اﷲ ہی کے واسطے ہے۔ اسی تک اچھے کلمے پہنچتے ہیں اور نیک عمل ان کو پہنچاتا ہے۔''

حضور اکرمﷺ کا ارشاد ہے:''اچھے کلمے سے مراد 'لاالٰہ الااﷲ' ہے۔''
حضرت براءؓ روایت کرتے ہیں کہ حضور اقدس ﷺ نے ارشاد فرمایا:''جب قبر میں سوال ہوتا ہے تو مسلمان 'لاالٰہ الا اﷲ محمد الرسول اﷲ' کی گواہی دیتا ہے۔''

سورۂ آل عمران میں ارشاد ربانی ہے:''اے محمد (ﷺ)! آپؐ فرما دیجیے کہ اے اہل کتاب! آؤ ایک ایسے کلمے کی طرف جو ہمارے اور تمہارے درمیان برابر ہے اور وہ یہ کہ بجز اﷲ تعالیٰ کے ہم کسی اور کی عبادت نہ کریں اور اﷲ تعالیٰ کے ساتھ کسی کو شریک نہ کریں اور ہم میں سے کوئی اﷲ تعالیٰ کو چھوڑ کر کسی دوسرے کو رب قرار نہ دے۔ پھر اس کے بعد بھی وہ اعراض کریں تو تم کہہ دو کہ تم اس کے گواہ رہو کہ ہم لوگ تو مسلمان ہیں۔''

حضرت ابو ذرؓ نے ایک مرتبہ رسول اکرم ﷺ کی خدمت میں عرض کیا:''اے اﷲ کے رسولؐ! مجھے کچھ نصیحت فرما دیجیے۔''
اس پر نبی کریمﷺ نے ارشاد فرمایا:''اﷲ سے ڈرتے رہو، جب کوئی برائی صادر ہوجائے تو اس کے فوراً بعد کوئی بھلائی کرو، تاکہ اس کا رد ہوجائے اور وہ زائل ہوجائے۔''

حضرت ابن عمرؓ فرماتے ہیں کہ حضرت سعیدؓ بن زید حضرت ابو ذر غفاریؓ اور حضرت سلمان فارسیؓ زمانہ جاہلیت ہی میں''لاالٰہ الااﷲ'' پڑھا کرتے تھے۔ سورۂ فتح میں ارشاد ہوا:''پس اﷲ تعالیٰ نے سکون (یا خاص رحمت) اپنے رسول پر نازل فرمائی اور مومنین پر اور ان کو تقویٰ کے کلمے پر جمائے رکھا اور وہی اس تقویٰ کے کلمے کے مستحق اور اہل تھے۔'' تقویٰ کے کلمے سے مراد کلمۂ طیبہ یعنی 'لاالٰہ الا اﷲ' ہے۔ حضرت علیؓ اور حضرت براءؓ نے بھی کلمۂ طیبہ سے مراد یہی 'لاالٰہ الا اﷲ'' لیا ہے۔

حضرت جابرؓ سے روایت ہے، حضور اکرم ﷺ نے فرمایا:''تمام اذکار میں افضل ''لاالٰہ الااﷲ'' ہے اور تمام دعاؤں میں افضل الحمد اﷲ ہے۔'' یہی کلمۂ طیبہ دین کی بنیاد اور ایمان کی جڑ ہے۔
صحیح حدیث میں آیا ہے کہ قیامت اس وقت تک نہیں آسکتی جب تک اس زمین پر ''لاالٰہ الااﷲ'' کہنے والا موجود ہو۔


بارگاہ الٰہی سے ارشاد ہوا:''اگر ساتوں آسمان اور ساتوں زمینیں ایک پلڑے میں رکھ دی جائیں اور دوسرے پلڑے میں 'لاالٰہ الااﷲ' رکھ دیا جائے تو 'لاالٰہ الااﷲ' والا پلڑا جھک جائے گا۔''
اخلاص پیدا کرنے کے لیے جس قدر مفید اس کلمے کی کثرت ہے، اتنی کسی دوسری چیز نہیں۔

حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا:''سب سے زیادہ سعادت مند اور نفع اٹھانے والا میری شفاعت کے ساتھ وہ شخص ہوگا جو خلوص کے ساتھ 'لاالٰہ الااﷲ' کہے۔''
اہل ایمان پر لازم ہے کہ وہ کثرت سے 'لاالٰہ الااﷲ' پڑھتے رہیں، حق تعالیٰ سے ایمان کے باقی رہنے کی دعا بھی کرتے رہیں اور اپنے آپ کو گناہوں سے بچاتے رہیں۔

ترمذی میں حضور اکرمﷺ کا ارشاد ہے:''کوئی انسان ایسا نہیں کہ 'لاالٰہ الااﷲ' کہے اور اس کے لیے آسمانوں کے دروازے نہ کھل جائیں، یہاں تک کہ یہ کلمۂ طیبہ سیدھا عرش تک پہنچتا ہے، بشرطے کہ کبیرہ گناہوں سے بچتا رہے۔''

ایک بار نبی پاکؐ نے ارشاد فرمایا:''اپنے ایمان کی تجدید کرتے رہا کرو۔''
صحابہ نے عرض کیا:''یا رسول اﷲ(ﷺ)! ایمان کی تجدید کس طرح کریں؟'' ارشاد فرمایا :
''لاالٰہ الااﷲ کو کثرت سے پڑھتے رہا کرو۔''

آپؐ نے ارشاد فرمایا:''لاالٰہ الااﷲ'' کی کثرت کرو، قبل اس کے کہ وہ وقت آئے کہ تم اس کلمے کو کہہ نہ سکو۔''
حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول پاک ﷺ نے ارشاد فرمایا:''عرش کے سامنے نور کا ایک ستون ہے۔ جب کوئی 'لاالٰہ الااﷲ' کہتا ہے تو وہ ستون ہلنے لگتا ہے۔ اﷲ اسے ٹھہرنے کا حکم دیتا ہے تو وہ عرض کرتا ہے: 'کیسے ٹھہروں، ابھی تک یہ کلمہ پڑھنے والے کی مغفرت نہیں ہوئی!

اس پر ارشاد باری ہوتا ہے: اچھا میں نے اس کی مغفرت کردی۔ پھر وہ ستون ٹھہر جاتا ہے۔''
عبداﷲ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ رسول اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ 'لاالٰہ الااﷲ' پڑھنے والوں پر نہ قبر میں وحشت ہوگی اور نہ میدان حشر میں۔''
حضرت ابو دارداءؓ روایت کرتے ہیں، حضور پاکؐ نے ارشاد فرمایا:''جن لوگوں کی زبانیں اﷲ کے ذکر سے تر و تازہ رہتی ہیں، وہ جنت میں ہنستے ہوئے داخل ہوں گے۔''

دین کا سارا مدار کلمۂ شہادت پر اور اسلام کی جڑ کلمۂ طیبہ ہے ۔ دنیاوی کاموں میں جتنی بھی مشکلات پیش آئیں، وسوسے گھیرلیں، شیطان کی رخنہ اندازی کام میں خلل ڈالے، دنیاوی ضروریات پریشان کریں، کلمۂ طیبہ کی کثرت ان سب چیزوں کا علاج ہے کہ وہ اخلاص پیدا کرنے والا دلوں کو صاف کرنے والا اور شیطان کی ہلاکت کا سبب ہے۔

حضرت ابوبکر صدیقؓ سے روایت ہے کہ نبی برحق ﷺ نے ارشاد فرمایا:''لاالٰہ الااﷲ اور استغفار کی بہت کثرت کیا کرو۔ شیطان کہتا ہے کہ میں نے لوگوں کو گناہوں سے ہلاک کیا اور لوگوں نے مجھے 'لاالٰہ الااﷲ' اور 'استغفار' سے ہلاک کردیا۔''

جس شخص کا اول و آخر کلمۂ طیبہ یعنی 'لاالٰہ الااﷲ' ہو، وہ ہزار برس بھی زندہ رہے تو اﷲ اپنے فضل سے اس کی خطائیں معاف فرما دیں گے۔''
Load Next Story