گالیاں

ہمارے معاشرے میں گالی کو بُرا سمجھنا تو درکنار، گالیاں تو اب کئی لوگ تکیہ کلام کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔


عارف جمیل December 06, 2015
آج بھی لوگ جھگڑوں میں، عام گفتگو میں، ازدواجی زندگی میں، سڑکوں پر ٹریفک کے دوران گالیاں دینے سے پہلے پل بھر کے لیے بھی نہیں سوچتے کہ اُن کا یہ عمل کس قدر خراب ہے۔ فوٹو: فائل

RAWALPINDI: کیا گالیاں جیسے موضوع پر لکھنا ''ادب'' میں ادب کے خلاف ہوگا؟ یہ تو فیصلہ قاری ہی کر سکتا ہے، لیکن کوئی بھی قاری اِس حقیقت سے انکار نہیں کر سکتا کہ پڑھنے کی حد تک یہ ایک (نا مناسب) موضوع ہو سکتا ہے لیکن گالیاں دینے اور سننے کی کوئی حد نہیں ہوتی ہے۔

گالیاں کس طرح کا اظہارِ خیال ہے یہ ایک دلچسپ نفسیاتی مسئلہ تو کہلایا جاسکتا ہے لیکن اس کا اندازِ بیان کسی کیلئے کتنا تکلیف دہ ہوسکتا ہے یہ اُسی وقت جانچا جاسکتا ہے جس وقت وہ یہ احساس کر لے کہ اگر اُس کو کوئی گالی دے تو اُس وقت اُسکا اپنا کیا حال ہوتا ہے۔ لیکن اگلی دلچسپ بات ہی یہ ہے کہ وہ اپنا حال جاننے کے بعد بھی ''گالیاں'' دینے سے باز نہیں آتا ہے۔

گالیاں کب سے دی جارہی ہیں؟ اب اسکا تاریخی فیصلہ تو کیا نہیں جاسکتا لیکن بُرائی کی اِس جڑ کا آغاز انسانی فطرت سے باقاعدہ طور منسلک نظر آتا ہے۔ لہذاٰ ہر دور میں معاملات کی ناپسندیدگی کیلئے گالیاں ہی دینا فرد کا اول رویہ واضح کرتا ہے۔

جب دو خاندانوں کی باہمی رضامندی ایک لڑکا لڑکی کے درمیان پسند کی شادی ہوئی تو اُنکی زندگی میں پہلے پہل تو کوئی ایسی ناچاقی نظر نہ آئی کہ کوئی ایسا منفی رویہ سامنے آتا۔ لیکن پسند کی شادی میں زیادہ تر ایسا وقت آہی جاتا ہے کہ شک و شبہات کا سلسلہ چل نکلتا ہے اور گھر میں ناچاقی پیدا ہونا شروع ہوجاتی ہے۔ اختلافی بحث میں جب کوئی نہیں مانتا تو گالیاں ہی کام آتی ہیں۔ بہرحال جب دونوں کے گھر والوں کو معلوم پڑا اور وہ صلح صفائی کروانے گئے تو دونوں طرف سے لڑکا لڑکی سے یہی سوال تھا کہ آپ دونوں اور ''گالیاں''؟ اُن دونوں نے یہ جواب دیا کہ ہم خود حیران ہیں کہ ہم گالیاں اپنی زبان پر لائے کیسے! اسطرح کے مختلف نوعیت کے ہزاروں واقعات ہیں۔

آج بھی کسی جھگڑے میں، لوگوں کی عام گفتگو میں، ازدواجی زندگی میں، اولاد یا کسی قریبی پرغصہ نکالنے میں، استحصال پر، سڑکوں پر ٹریفک کے دوران گالیاں دینے سے پہلے اب پل بھر کے لیے بھی نہیں سوچتے کہ اُن کا یہ عمل کس قدر خراب ہے۔ بُرائی تو دور کی بات بلکہ گالیاں تو اب کئی لوگ تکیہ کلام کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ جبکہ اِس سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ وہ بعض مہذب لوگ جن کو معاشرے میں خصوصی اہمیت حاصل ہوتی ہے، کبھی نہ کبھی ایسی صورتِ حال سے ضرور گذرتے ہیں کہ اُن کو بھی یہ منفی رویہ اپنانا پڑتا ہے۔ تعلیمی درسگاہوں میں وقت گذرنے کے ساتھ جب بچوں کو اس منفی رویے سے روکا گیا تو اگلے کئی سالوں میں اُس کے مثبت نتائج نظر آنا ضرور شروع ہوئے ہیں۔ نتیجے میں والدین اور قریبی دوست احباب نے بھی بچوں کے سامنے احتیاط سے کام لینا شروع کردیا ہے کیونکہ بچے اُن کو پسند نہیں کرتے تھے جو گالیاں دیتے ہیں۔

دینِ اسلام کے ساتھ دُنیا کی اخلاقی قدریں بھی اُسی سے منسلک ہیں کہ بُرے الفاظ و القاب بمعہ گالیاں دینے سے ہر ایک کو گریز کرنا چاہیئے۔ لیکن جیسے ہی انسان کا گذشتہ 2 دہائیوں سے مادی اشیاء کی طرف رحجان بڑھنا شروع ہوا ہے اُس کا سکون سا چھن گیا ہے۔ اُسکی بے چینی کا یہ عالم ہوگیا ہے کہ ''جو دوسرے کے پاس ہے وہ میرے پاس ہونا چاہیئے''۔ احساسِ محرومیت کی حقیقت کا اگلا قدم ہے حاصل کرلو اور اُس کے لئے جس سے توقع ہے اگر وہ کام نہیں آیا تو پھر اُس کے لئے ہیں ''گالیاں'' پھر اگلا انتہائی قدم اُٹھانے سے بھی گریز نہیں کیا جا رہا یعنی قتل، ڈاکہ، چوری اور فریب۔ اس لئے ضرورت اس امر کی ہے کہ لوگوں میں شعور اجاگر کیا جائے اور ان کو باور کروایا جا سکے کہ،
''علم کی حکمت سے گندی زبان کے استعمال کو عملی طور پر روکا جاسکتا ہے''۔



[poll id="813"]

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔


اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں