سپریم کورٹ کا اہم فیصلہ
عدالت عظمیٰ کا یہ فیصلہ عوام کی امنگوں کا ترجمان ہے
سپریم کورٹ آف پاکستان نے بدھ کو سی این جی کی قیمت پٹرول سے منسلک کرنے اورپٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں ہفتہ وار رد و بدل کی پالیسی اور اوگرا کے رویے پر برہمی کا اظہار کیا ۔
جمعرات کو عدالت عظمیٰ نے اس کیس پر اپنا فیصلہ سنا دیا ہے۔ سپریم کورٹ نے گیس کی قیمتوں کو پٹرول سے منسلک کرنے کو غیر قانونی قرار دے دیا ہے اور سی این جی کی قیمت کے ہفتہ وار تعین کو روک دیا ہے۔ اس فیصلے کی رو سے سی این جی کی قیمت یکم جولائی 2012ء کی قیمت پر چلی جائے گی۔ حکومت نے سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میںسی این جی کی قیمتوں میں کمی کا نوٹیفکیشن جاری کردیا ہے اور فوری طور پر نئی قیمتوں کا اطلاق کردیا گیا ہے۔ عدالت نے پٹرولیم مصنوعات کی ہفتہ وار قیمتوں کا تعین بھی روک دیا ہے۔ عدالت عظمیٰ کا یہ فیصلہ عوام کی امنگوں کا ترجمان ہے' اس سے عوام کے ایک بڑے طبقے کو فائدہ پہنچے گا۔
سی این جی کی قیمت میں کتنی کمی ہو گی، اس کا تعین اوگرا کرے گا، بہرحال اس معاملے پر عدالت عظمیٰ کے فیصلے پر تبصرہ کیے بغیر اگر صرف پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں کے ہفتہ وار نظام پر بات کی جائے تو حقیقت کھل کر سامنے آ جاتی ہے کہ اس نظام کے فوائد کم اور معیشت کو نقصانات زیادہ پہنچے ہیں۔ اس سے کاروباری سرگرمیاں غیر یقینی کا شکار ہوئیں اور عوام کو خاصی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ہر ہفتے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں ردوبدل کے باعث معاشی سرگرمیاں بھی اتار چڑھائو کا شکار ہوجاتی ہیں۔
ہفتے کے شروع میں جیسے ہی پٹرول کی قیمت میں رد و بدل کا اعلان متوقع ہوتا ہے تو ایک دن قبل ہی پٹرول پمپس سے پٹرول غائب ہو جاتا ہے جس سے شہریوں کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ یہ افراتفری دو دن تک جاری رہتی۔ ادھر حکومت اگر ایک ہفتے پٹرول کی قیمت میں چند روپے کمی کرتی تو دوسرے ہفتے اس میں کئی روپے کا اضافہ کر دیا جاتا ہے جس سے پورے معاشی نظام میں اتھل پتھل پیدا ہو جاتی ہے۔ ایسی صورتحال میں صنعت کاروں اور تاجروں کو شدید پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ پٹرولیم مصنوعات مہنگی ہونے سے اشیا ضروریہ کی قیمتیں تو بڑھ جاتی ہیں مگر پٹرول سستا ہونے سے کسی بھی چیز کی قیمت میں کمی نہیں آتی۔
نتیجتاًشہریوں کے معاشی بوجھ اور مسائل میں مزید اضافہ ہوجاتا ہے۔ پٹرول کی قیمت میں اتار چڑھاو سے ٹرانسپورٹ سیکٹر سب سے زیادہ غیر یقینی کا شکار ہوا۔اس غیر یقینی کا ملبہ بھی عام آدمی پر گرا۔ ٹرانسپورٹ میں ڈیزل اور گیس استعمال ہوتی ہے۔ اگر ڈیزل اور گیس کی قیمت بڑھتی توٹرانسپورٹر بھی ٹرانسپورٹ کے کرائے بڑھا دیتے ہیں، جس سے اشیا کی نقل و حمل میں اضافی بوجھ پڑنے سے روزمرہ کی ہر چیز مہنگی ہو جاتی ہے مگر جب پٹرول سستا ہوتا ہے تو کوئی بھی چیز سستی نہیں ہوتی ،ٹرانسپورٹ کے کرائے بھی کم نہیں ہوتے کیونکہ صنعت کار' تاجر اور ٹرانسپورٹر سب غیر یقینی صورتحال کا شکار رہتے ہیں کہ نہ جانے اگلے ہفتے پٹرول کی نئی قیمت کیا ہو اور اگر پٹرول کی قیمت دوبارہ بڑھ گئی تو اشیا پر پیداواری لاگت بھی بڑھ جائے گی، یوں اس غیر یقینی کا فائدہ تو بالادست طبقے کو ہوتا جب کہ عام آدمی کے اخراجات بڑھتے رہتے۔
اس گومگوں کی کیفیت نے جہاں کاروباری سرگرمیوں کو شدید نقصان پہنچایا وہاں عوام کو بھی مہنگائی کی چکی میں پس کر رکھ دیا ہے۔ اسی غیر یقینی صورتحال کا شاخسانہ ہے کہ پٹرول کی قیمتیں کم ہونے کے باوجود کاروباری اور عوامی حلقوں میں خوشی کی لہر نہیں دوڑتی کیونکہ انھیں خدشہ ہوتا ہے کہ آیندہ ہفتے پٹرول کی قیمت پھر بڑھ سکتی ہے۔ ماضی میں تیل کی قیمتوں میں رد و بدل سالانہ بجٹ کے موقع پر کیا جاتا تھا جس سے اشیا کی قیمتوں میں بھی استحکام رہتا اور تجارتی و معاشی سرگرمیاں بھی بہتری کی جانب گامزن رہتی تھیں۔ مگر پھر سسٹم میں تبدیلی آئی اور پٹرول کی قیمتوں میں رد و بدل کا ماہانہ نظام مقرر کر دیا گیا۔ اس نظام سے معاشی دنیا میں بے چینی پیدا ہوئی اور کاروباری سرگرمیاں متاثر ہونے لگیں۔
عوامی حلقوں نے اس ماہانہ نظام کے خلاف بہت شور مچایا مگر طوطی کی آواز نقار خانے کے مصداق عوام کی آواز حکمرانوں کے کانوں تک نہ پہنچ سکی۔ یہ بھی اب ڈھکی چھپی بات نہیں رہی کہ حکومت پٹرول پر 23.78 روپے جب کہ ڈیزل پر 30 روپے ٹیکس وصول کر رہی ہے۔ کچھ عرصے قبل سینیٹ کی قائمہ کمیٹی نے بھی پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں آئے دن کے اضافے پر تشویش کا اظہار کیا تھا۔ ارکان کمیٹی نے کہا تھا کہ حکومت پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کو روک سکتی ہے مگر اس نے تمام تر بوجھ عوام پر ڈال دیا۔ حکومت کی اتحادی جماعتوں اور اپوزیشن جماعتیں بھی تیل کی قیمتوںمیں اضافے کو ظلم و زیادتی قرار دیتی ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ حکومت کے کل پرزے ہوں یا عوامی نمائندے انھیں صورت حال کا علم ہے۔ اس کے باوجود کچھ نہیں ہو رہا تو اسے کیا نام دیا جا سکتا ہے۔
اب حکومت کو یہ بتانا کہ تیل کی قیمت بڑھنے سے مہنگائی کا بڑھنا لازمی ہے، ایک بے معنی سی بات ہے کیونکہ پالیسی سازوں کو سب کچھ معلوم ہے۔ اب عدالت عظمیٰ نے ایک جرات مندانہ فیصلہ سنا دیا ہے' اصولی طور پر تو یہ مسئلہ حکومت کو بہت پہلے خود ہی طے کرلینا چاہیے تھا تاکہ عدالت عظمیٰ کو یہ فیصلہ نہ کرنا پڑتا۔ بہر حال اصل مسئلہ پٹرولیم قیمتوں کے تعین کے نظام کا ہے۔ پاکستان ایک ترقی پذیر ملک ہے' اس کی معیشت کو ترقی کی شاہراہ پر دوڑنے کے لیے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں استحکام انتہائی ضروری ہے۔ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں استحکام پیدا ہو جائے تو معیشت کے دیگر شعبوں میں ترقی کی رفتار متاثر نہیں ہو گی۔ حکومت کو اس حوالے سے کوئی فیصلہ کرنا چاہیے تا کہ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں استحکام پیدا ہوجائے اور ملکی معیشت کے تمام شعبے اپنی پوری استعداد کارکے مطابق کام کرسکیں۔بہتر یہ ہے کہ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں ردوبدل سالانہ بجٹ میں کیا جائے ۔اس طریقے سے ملکی معیشت میں ٹھہرائو آئے گااور مہنگائی میں بھی شدت سے اضافہ نہیں ہوگا۔
جمعرات کو عدالت عظمیٰ نے اس کیس پر اپنا فیصلہ سنا دیا ہے۔ سپریم کورٹ نے گیس کی قیمتوں کو پٹرول سے منسلک کرنے کو غیر قانونی قرار دے دیا ہے اور سی این جی کی قیمت کے ہفتہ وار تعین کو روک دیا ہے۔ اس فیصلے کی رو سے سی این جی کی قیمت یکم جولائی 2012ء کی قیمت پر چلی جائے گی۔ حکومت نے سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میںسی این جی کی قیمتوں میں کمی کا نوٹیفکیشن جاری کردیا ہے اور فوری طور پر نئی قیمتوں کا اطلاق کردیا گیا ہے۔ عدالت نے پٹرولیم مصنوعات کی ہفتہ وار قیمتوں کا تعین بھی روک دیا ہے۔ عدالت عظمیٰ کا یہ فیصلہ عوام کی امنگوں کا ترجمان ہے' اس سے عوام کے ایک بڑے طبقے کو فائدہ پہنچے گا۔
سی این جی کی قیمت میں کتنی کمی ہو گی، اس کا تعین اوگرا کرے گا، بہرحال اس معاملے پر عدالت عظمیٰ کے فیصلے پر تبصرہ کیے بغیر اگر صرف پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں کے ہفتہ وار نظام پر بات کی جائے تو حقیقت کھل کر سامنے آ جاتی ہے کہ اس نظام کے فوائد کم اور معیشت کو نقصانات زیادہ پہنچے ہیں۔ اس سے کاروباری سرگرمیاں غیر یقینی کا شکار ہوئیں اور عوام کو خاصی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ہر ہفتے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں ردوبدل کے باعث معاشی سرگرمیاں بھی اتار چڑھائو کا شکار ہوجاتی ہیں۔
ہفتے کے شروع میں جیسے ہی پٹرول کی قیمت میں رد و بدل کا اعلان متوقع ہوتا ہے تو ایک دن قبل ہی پٹرول پمپس سے پٹرول غائب ہو جاتا ہے جس سے شہریوں کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ یہ افراتفری دو دن تک جاری رہتی۔ ادھر حکومت اگر ایک ہفتے پٹرول کی قیمت میں چند روپے کمی کرتی تو دوسرے ہفتے اس میں کئی روپے کا اضافہ کر دیا جاتا ہے جس سے پورے معاشی نظام میں اتھل پتھل پیدا ہو جاتی ہے۔ ایسی صورتحال میں صنعت کاروں اور تاجروں کو شدید پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ پٹرولیم مصنوعات مہنگی ہونے سے اشیا ضروریہ کی قیمتیں تو بڑھ جاتی ہیں مگر پٹرول سستا ہونے سے کسی بھی چیز کی قیمت میں کمی نہیں آتی۔
نتیجتاًشہریوں کے معاشی بوجھ اور مسائل میں مزید اضافہ ہوجاتا ہے۔ پٹرول کی قیمت میں اتار چڑھاو سے ٹرانسپورٹ سیکٹر سب سے زیادہ غیر یقینی کا شکار ہوا۔اس غیر یقینی کا ملبہ بھی عام آدمی پر گرا۔ ٹرانسپورٹ میں ڈیزل اور گیس استعمال ہوتی ہے۔ اگر ڈیزل اور گیس کی قیمت بڑھتی توٹرانسپورٹر بھی ٹرانسپورٹ کے کرائے بڑھا دیتے ہیں، جس سے اشیا کی نقل و حمل میں اضافی بوجھ پڑنے سے روزمرہ کی ہر چیز مہنگی ہو جاتی ہے مگر جب پٹرول سستا ہوتا ہے تو کوئی بھی چیز سستی نہیں ہوتی ،ٹرانسپورٹ کے کرائے بھی کم نہیں ہوتے کیونکہ صنعت کار' تاجر اور ٹرانسپورٹر سب غیر یقینی صورتحال کا شکار رہتے ہیں کہ نہ جانے اگلے ہفتے پٹرول کی نئی قیمت کیا ہو اور اگر پٹرول کی قیمت دوبارہ بڑھ گئی تو اشیا پر پیداواری لاگت بھی بڑھ جائے گی، یوں اس غیر یقینی کا فائدہ تو بالادست طبقے کو ہوتا جب کہ عام آدمی کے اخراجات بڑھتے رہتے۔
اس گومگوں کی کیفیت نے جہاں کاروباری سرگرمیوں کو شدید نقصان پہنچایا وہاں عوام کو بھی مہنگائی کی چکی میں پس کر رکھ دیا ہے۔ اسی غیر یقینی صورتحال کا شاخسانہ ہے کہ پٹرول کی قیمتیں کم ہونے کے باوجود کاروباری اور عوامی حلقوں میں خوشی کی لہر نہیں دوڑتی کیونکہ انھیں خدشہ ہوتا ہے کہ آیندہ ہفتے پٹرول کی قیمت پھر بڑھ سکتی ہے۔ ماضی میں تیل کی قیمتوں میں رد و بدل سالانہ بجٹ کے موقع پر کیا جاتا تھا جس سے اشیا کی قیمتوں میں بھی استحکام رہتا اور تجارتی و معاشی سرگرمیاں بھی بہتری کی جانب گامزن رہتی تھیں۔ مگر پھر سسٹم میں تبدیلی آئی اور پٹرول کی قیمتوں میں رد و بدل کا ماہانہ نظام مقرر کر دیا گیا۔ اس نظام سے معاشی دنیا میں بے چینی پیدا ہوئی اور کاروباری سرگرمیاں متاثر ہونے لگیں۔
عوامی حلقوں نے اس ماہانہ نظام کے خلاف بہت شور مچایا مگر طوطی کی آواز نقار خانے کے مصداق عوام کی آواز حکمرانوں کے کانوں تک نہ پہنچ سکی۔ یہ بھی اب ڈھکی چھپی بات نہیں رہی کہ حکومت پٹرول پر 23.78 روپے جب کہ ڈیزل پر 30 روپے ٹیکس وصول کر رہی ہے۔ کچھ عرصے قبل سینیٹ کی قائمہ کمیٹی نے بھی پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں آئے دن کے اضافے پر تشویش کا اظہار کیا تھا۔ ارکان کمیٹی نے کہا تھا کہ حکومت پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کو روک سکتی ہے مگر اس نے تمام تر بوجھ عوام پر ڈال دیا۔ حکومت کی اتحادی جماعتوں اور اپوزیشن جماعتیں بھی تیل کی قیمتوںمیں اضافے کو ظلم و زیادتی قرار دیتی ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ حکومت کے کل پرزے ہوں یا عوامی نمائندے انھیں صورت حال کا علم ہے۔ اس کے باوجود کچھ نہیں ہو رہا تو اسے کیا نام دیا جا سکتا ہے۔
اب حکومت کو یہ بتانا کہ تیل کی قیمت بڑھنے سے مہنگائی کا بڑھنا لازمی ہے، ایک بے معنی سی بات ہے کیونکہ پالیسی سازوں کو سب کچھ معلوم ہے۔ اب عدالت عظمیٰ نے ایک جرات مندانہ فیصلہ سنا دیا ہے' اصولی طور پر تو یہ مسئلہ حکومت کو بہت پہلے خود ہی طے کرلینا چاہیے تھا تاکہ عدالت عظمیٰ کو یہ فیصلہ نہ کرنا پڑتا۔ بہر حال اصل مسئلہ پٹرولیم قیمتوں کے تعین کے نظام کا ہے۔ پاکستان ایک ترقی پذیر ملک ہے' اس کی معیشت کو ترقی کی شاہراہ پر دوڑنے کے لیے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں استحکام انتہائی ضروری ہے۔ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں استحکام پیدا ہو جائے تو معیشت کے دیگر شعبوں میں ترقی کی رفتار متاثر نہیں ہو گی۔ حکومت کو اس حوالے سے کوئی فیصلہ کرنا چاہیے تا کہ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں استحکام پیدا ہوجائے اور ملکی معیشت کے تمام شعبے اپنی پوری استعداد کارکے مطابق کام کرسکیں۔بہتر یہ ہے کہ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں ردوبدل سالانہ بجٹ میں کیا جائے ۔اس طریقے سے ملکی معیشت میں ٹھہرائو آئے گااور مہنگائی میں بھی شدت سے اضافہ نہیں ہوگا۔