’’میں دھماکے کراتا تو ثبوت نہ چھوڑتا‘‘

ممبئی دھماکوں کی تفتیشی ٹاسک فورس کے سربراہ‘ دہلی پولیس کے سابق چیف کی کتاب کے انکشافات پر مبنی رپورٹ

ممبئی دھماکوں کی تفتیشی ٹاسک فورس کے سربراہ‘ دہلی پولیس کے سابق چیف کی کتاب کے انکشافات پر مبنی رپورٹ ۔ فوٹو : فائل

PESHAWAR:
پچھلے ماہ نئی دہلی سابق پولیس کمشنر' نیراج کمار کی کتاب ''ڈائل ڈی فار ڈان'' (Dial D for Don)شائع ہوئی ۔ یہ کتاب ان گیارہ اہم کیسوں کے بارے میں ہے جن سے دوران کیرئر موصوف کا سابقہ پڑا۔ ان میں سے ایک کیس 1993ء کے ممبئی بم دھماکوں پر ہے جس کا ذمے دار داؤد ابراہیم کوٹھہرایا جاتا ہے ۔

وہ تب ممبئی کے زیرزمین دنیا کا بے تاج بادشاہ تھا۔12 مارچ 1993ء کو ممبئی میں دوپہر ڈیڑھ بجے سے شام ساڑھے پانچ بجے کے دوران وقفے وقفے سے 13 بم دھماکے مختلف مقامات پر ہوئے۔ انہوں نے 257 افراد کی جان لی جبکہ 713 زخمی ہوئے۔تب نیراج کمار بھارتی سراغ رساں ادارے' سی بی آئی (Central Bureau of Investigation)سے بطور ڈی آئی جی وابستہ تھے۔ ممبئی بم دھماکوں کی تفتیش کے لئے سی بی آئی نے جو اسپیشل ٹاسک فورس تشکیل دی' نریش کمار اس کے سربراہ مقرر ہوئے۔

تفتیش کے دوران ان کی ملاقات منیش لالہ سے ہوئی ۔وہ داؤدابراہیم کے گینگ(ڈی کمپنی) کا قانونی مشیر تھا جسے پولیس گرفتار کر چکی تھی۔ اس کی وساطت سے نیراج کمار کی داؤد ابراہیم سے تین بار ٹیلی فونک گفتگو ہوئی۔



اس گفتگو کا احوال انہوں نے اپنی کتاب کے ایک باب ''داؤد ابراہیم سے باتیں'' میں بیان کیا ۔ یہ ثابت کرتا ہے کہ داؤد کو مسلمان ہونے کی وجہ سے پھنسایا گیا تاکہ ممبئی کی زیر زمین دنیا پر ہندو ڈان راج کرنے لگیں۔ممبئی کے پولیس افسر خصوصاً ایک تیر سے دو شکار کرنے میں طاق ہیں۔ جیسے بولی وڈ میں شاہ رخ' عامر خان اور سلمان خان کی حکومت ختم کرنے کی سازش ہوئی۔ اس باب کا بیان نیراج کمار کی زبانی پیش خدمت ہے۔

میں بے قصور ہوں
جب ممبئی بم دھماکوں کی تفتیش خصوصی ٹاسک فورس کو ملی' تو میں داؤد ابراہیم کے گرفتار ساتھیوں سے ملنے لگا۔ ان میں منیش لالہ بھی شامل تھا جسے میںنے دوسروں کے برعکس نرم مزاج اور مہذب پایا۔ ایک بار دوران ملاقات اس نے انکشاف کیا کہ داؤد ابراہیم خود کو سی بی آئی کے حوالے کر سکتا ہے۔ مگر اسے اپنے باس سے بات کرنا ہو گی۔

میںنے معاملے پر غور وفکر کیا اور پھر اسے رابطہ کرنے کی اجازت دے دی۔ تب خفیہ آپریشن انجام کے لیے منتخب افسروں کو الگ تھلگ ٹیلی فون لائن ملتی تھی۔ ایک ایسی ہی لائن مجھے بھی دی گئی۔ منیش نے اسی کے ذریعے اپنے گینگ سے رابطہ کیا۔

منیش نے پہلے سنیل ساونت عرف سوتیا کو فون کیا۔ ڈی کمپنی میں اسے ''وزیردفاع'' کی حیثیت حاصل تھی ۔اس نے منیش کا رابطہ داؤد کے چھوٹے بھائی، اقبال سے کرایا۔کانفرنسنگ آلے کے ذریعے اقبال پھر داؤد کو لائن پر لے آیا۔ یہ 10جون 1994ء کی بات ہے۔(اس زمانے میں داؤد ابراہیم بھارت سے باہر کسی نامعلوم جگہ مقیم تھا)

اب منیش اور داؤد کے مابین طویل مکالمہ ہوا۔ منیش نے اس پر زور دیا کہ وہ خود کو سی بی آئی کے حوالے کر دے اور یہ کہ اگر وہ بے گناہ ہے تو اسے خوفزدہ ہونے کی کوئی ضرورت نہیں' اس کے ساتھ انصاف ہو گا۔ یہ باتیں سن کر داؤد کچھ متاثر نظر آیا۔ منیش نے پھر اس سے کہا''کیا تم سی بی آئی کی اسپیشل ٹاسک فورس کے چیف سے بات کرنا چاہو گے؟ انہوں نے مجھے بہت اچھے طریقے سے رکھا ہے۔'' داؤد نے حامی بھر لی۔

چناںچہ 10جون کے علاوہ 20اور 22جون کو بھی ممبئی کے ڈان سے میری بات چیت ہوئی۔ ہمارے مابین طویل مکالمہ ہوا۔ پہلی مرتبہ میں نے پہل کرتے ہوئے کہا: ''ہاں بتایئے' آپ مجھے کچھ بتانا چاہتے ہیں جیسے منیش نے مجھ سے کہا ہے؟''

وہ ممبئی کے مخصوص انداز میں گویا ہوا۔ اس کا لہجہ پُراعتماد تھا اور ہر قسم کے خوف سے عاری! داؤد نے مجھے رام کرنے کی بھی کوشش نہ کی۔ مجرموں کا چلن ہے کہ وہ پولیس افسروں سے باتیں کرتے ہوئے مسکین و عاجز بن جاتے ہیں۔ اس نے بس یہ کہا ''صاحب ' اس سے پہلے کہ میں کچھ بتاؤں پہلے آپ بتایئے کہ آپ کو کیا لگتا ہے کہ میں نے ممبئی میں بم دھماکے کرائے ہیں؟''

میں بولا ''سوال کا جواب آپ سوال سے دے رہے ہیں۔ مجھے کیا لگتا ہے ' یہ معنی نہیں رکھتا۔ اگر آپ کچھ کہنا چاہتے ہیں کہ تو کہیے۔'' اس ابتدائی گفتگو کے بعد داؤد بتانے لگا کہ جب میڈیا میں یہ آیا کہ وہ بھی بم دھماکوں میں ملوث ہے تو اس نے سعی کی تھی کہ ممبئی پولیس کمشنر سے بات ہو جائے۔ وہ اسے اپنی بے گناہی کے ثبوت دینا چاہتا تھا۔ مگر کمشنر پولیس نے ملنے سے انکار کر دیا۔ دوران گفتگو داؤد نے تسلیم کیا کہ داؤد ٹکلے اور ٹائیگر میمن سے اس کی ملاقات ہوئی تھی۔ (بھارتی حکومت کا دعویٰ ہے ' ان دونوں نے ممبئی بم حملے کرانے میںاہم کردار ادا کیا)

لیکن داؤد نے بتایا کہ یہ ملاقات اس لیے ہوئی تھی تاکہ وہ ٹائیگر میمن اور مقامی اسمگلروں ... حاجی احمد' سلیم سارنگ اور اسلم پٹنی کے مابین ایک تنازع ختم کرا سکے۔

داؤد کا کہنا تھا کہ ماضی میں داؤد ٹکلا ٹائیگر میمن کے لیے کام کرتا تھا۔ پھر وہ حاجی احمد کے اسمگلنگ گینگ میں شامل ہو گیا۔لیکن وفاداری بدل لینے کی وجہ سے دونوں گروہوں کے مابین مختلف مسائل پیدا ہوگئے۔ زیرزمین دنیا کے بادشاہ نے فریقین کے دلائل سنے اور پھر یہ فیصلہ دیا کہ دائود ٹکلا حسب معمول اپنے سابقہ باس، ٹائیگر کے لیے کام کرے گا۔دائود نے پھر اس فیصلے کی وجہ مجھے یہ بتائی کہ وہ (دائود ٹکلا) طویل عرصے سے ٹائیگر کے لیے کام کررہا تھا۔ لہٰذا بہتر یہی ہے کہ وہ اپنے سابقہ باس سے وابستہ رہے۔

اسی ملاقات کے دوران ٹائیگر نے دائود ابراہیم کو بتایا کہ یہ (دائود ٹکلا) بہت مذہبی ہے۔ اسلام کی خاطر کوئی بھی قدم اٹھا سکتا ہے۔ تب دائود ابراہیم نے اس کی کمر ٹھونکی اور کہا کہ وہ اپنے مذہب سے جوشیلی محبت جاری رکھے۔ تاہم دائود نے مجھے بتایا، اس کو یہ بالکل توقع نہیں تھی کہ ممبئی میں اسلحہ بھجوانے کے لیے ٹائیگر اسے (دائود ٹکلے کو) استعمال کرے گا۔

سنجے دت کو جب اسلحہ ملا
دوران گفتگو میں نے ممبئی کے ڈان سے پوچھا ''کیا یہ درست ہے کہ انیس نے سنجے دت کو اسلحہ بھجوایا تھا؟''( انیس، دائود ابراہیم کا چھوٹا بھائی ہے) ۔دائود نے اس بات کی تصدیق کی مگر یہ بھی کہا کہ سنجے دت کا ممبئی حملوں سے کوئی تعلق نہیں۔دائود نے بتایا کہ 1991ء میں جب سنجے دت دبئی میں فلم ''یلغار'' کی شوٹنگ کررہا تھا تو وہ انیس کا دوست بن گیا۔

بعد ازاں ممبئی میں فرقہ ورانہ فساد ہوا، تو سنجے دت نے اپنے دوست سے فرمائش کی کہ اسے اپنی سکیورٹی کے لیے اسلحہ درکار ہے۔ تب انیس نے اسے رائفل اور گولیاں بھجوا دیں۔دائود ابراہیم کا کہنا تھا کہ یہ ساری کارروائی اس کے پیٹھ پیچھے انجام پائی۔ وہ بتاتا ہے ''جب مجھے علم ہوا کہ انیس نے سنجے دت کو اسلحہ دیا ہے، تو میں نے اس کی ٹھکائی کردی۔'' اپنے بھائی کا جرم واضح کر کے دائود ثابت کرنا چاہتا تھا کہ وہ سچ بول رہا ہے۔

ممبئی کے ڈان نے مجھے کہا ''آپ دائود ٹکلے سے تصدیق کرلیں کہ دبئی میں ہماری میٹنگ بالکل مختلف معاملے پر ہوئی۔ اس میں بم حملوں کا منصوبہ نہیں بنا جیسا آپ دعویٰ کرتے ہیں۔'' حقیقت یہ ہے کہ دائود ٹکلا اپنے گائوں میں ایک کنواں کھدوانا چاہتا تھا۔ دائود ابراہیم نے اسے معقول رقم بطور امداد دے ڈالی۔ کنواں کھودنے کا ٹھیکہ سید منیم نامی شخص کو دیا گیا۔ مگر وہ کچھ رقم ہڑپ کرگیا۔ دائود ٹکلا اسی سلسلے میں گفتگو کرنا چاہتا تھا۔ دائود ابراہیم نے اس سے وعدہ کیا کہ سید منیم کو سزا دی جائے گی۔

بات چیت کے دوران ایک بار دائود ابراہیم کہنے لگا ''صاحب! مجھے یہ سب (بم دھماکے) کرانے ہوتے تو مجھے (ممبئی میں) اسلحہ بھیجنے کی ضرورت نہیں تھی۔ ہمارے لڑکوں کے پاس پہلے ہی بہت اسلحہ موجود تھا۔''

میں نے دریافت کیا ''آپ کے لڑکوں کے پاس کیا اتنا آرڈی ایکس (دھماکہ خیز مواد) بھی پڑا تھا کہ آپ سلسلے وار بم دھماکے کرسکیں؟''

دوسری طرف کچھ دیر خاموشی رہی۔ لگتا تھا کہ دائود بولنے کے لیے الفاظ سوچ رہا ہے۔ پھر بولا ''دیکھو صاحب! اگر مجھے یہ سب کرنا ہوتا، تو میں یہ اتنی صفائی سے انجام دیتا کہ پولیس کو میرے خلاف ایک ثبوت نہ ملتا۔ آپ یہ بات سمجھو۔ آپ تو سی بی آئی میں ہو۔ ایک بات اور ،(اگر میں نے بم دھماکے کرنے ہوتے) تو میں بھی ٹائیگر کی طرح اپنے سارے خاندان والوں کو ممبئی سے کہیں اور لے جاتا۔ میری ماں، میری بہن، سب بمبئی میں ہی بیٹھے ہیں۔''

مختصر یہ کہ دائود ابراہیم مجھے یقین دلانا چاہتا تھا کہ جب ٹائیگر میمن اور حاجی احمد کے اختلاف سنگین ہوگئے تو اول الذکر نے اس سے رابطہ کرلیا تاکہ تنازع حل ہوسکے۔ اس ملاقات کے دوران ٹائیگر چالاکی سے دائود ٹکلے کو یہ تاثر دینے میں کامیاب رہا کہ بم حملوں کی منصوبہ بندی میں وہ (دائود ابراہیم) بھی شریک ہے۔ چناںچہ دائود ٹکلے نے بعد ازاںاسلحہ اور بارودی مواد بھجوانے کی ذمے داری قبول کرلی۔ حقیقت میں دائود ابراہیم اس منصوبے سے بے خبر تھا۔

دائود ابراہیم یہ بھی کہنا چاہتا تھا کہ اگر بم حملوں کا منصوبہ وہ بناتا، تو اسے ثبوت چھوڑے بغیر بڑی مہارت سے انجام دیتا۔ اور یہ کہ حملوں سے قبل وہ اپنے خاندان والوں کو ممبئی سے کہیں اور لے جاتا جیسا کہ ٹائیگر نے کیا۔ بہرحال ہم نے دائود ابراہیم کے دلائل پر زیادہ غور نہیں کیا کیونکہ اس کے خلاف ہمارے پاس ٹھوس ثبوت موجود تھے۔

اسی دوران دیگر بھارتی اینٹلی جنس ایجنسیوں کو یہ سن گن مل گئی کہ میں خفیہ طور پر دائود ابراہیم سے رابطے میں ہوں۔ انھوں نے یہ قراردیا کہ میں اپنی حدود سے باہر نکل رہا ہوں۔ لہٰذا میری شکایت لگادی گئی۔ تب سی بی آئی کے سربراہ نے مجھے حکم دیا کہ دائود ابراہیم سے رابطہ منقطع کردوں۔ یوں ممبئی کے ڈان سے میری بات چیت ختم ہوگئی۔

آخری رابطہ
یہ جون 2013ء کے آخری ہفتے کی بات ہے، میرے ذاتی موبائل کی گھنٹی بجی۔ کسی نامعلوم نمبر سے فون آرہا تھا۔ میں نے کال اٹینڈ کی، تو آواز آئی ''کیا صاحب! آپ ریٹائر ہونے جارہے ہو۔ اب تو پیچھا چھوڑ دو۔'' اس سے پہلے کہ میں جواب دیتا، کال ختم ہوگئی۔ مجھے یقین ہے، یہ دائود ابراہیم ہی کی آواز تھی۔


یعقوب میمن بھارتیوں کے جال میں کیسے پھنسا؟
دسمبر 1992ء میں جب بابری مسجد شہید ہوئی، تو بھارت اور پاکستان کے مسلمان قدرتاً سکتے میں آگئے۔ جب بھارتی مسلمانوں نے جلسے جلوس نکال کر احتجاج کیا، تو ہندو انتہا پسند ان پر حملے کرنے لگے۔ ممبئی میں خصوصاً شیوسینا اور دیگر انتہا پسند ہندو تنظیموں کے غنڈوں نے سیکڑوں مسلمان شہید کر ڈالے۔ ایسا لگتا تھا کہ ان مسلمانوں کا کوئی والی وارث نہیں... مسلح سپاہی قریب کھڑے تماشا دیکھتے رہتے اور ہندو بلوائی مسلمانوں کو قتل کرکے باآسانی فرار ہوجاتے۔

اسی زمانے میں ممبئی کے اکثر جرائم پیشہ گروہوں کے لیڈر مسلمان تھے۔ جرائم پیشہ افراد عموماً مذہبی اختلافات سے دور رہتے ہیں، لیکن مسلمانوں پر انتہا پسندوں کے ظلم و ستم اور پولیس کی بے حسی و بے غیرتی انہیں تاؤ میں لے آئی۔ انہوں نے پھر انتہا پسندوں کو سبق سکھانے کے لیے شہر میں ایسی جگہوں پر بم دھماکے کرنے کا منصوبہ بنایا جہاں ہندو آتے جاتے تھے۔یہ ایک غیر قانونی عمل تھا،مگر یہ دیکھنا بھی ضروری ہے کہ وہ کس ردعمل میں انجام پایا۔ ان بم دھماکوں نے شیوسینا کو اتنا خوفزدہ کر دیا تھا کہ مسلمانوں کے خلاف اس کی سرگرمیاں طویل عرصہ ٹھنڈی رہیں۔



ممبئی کے زیر زمین دنیا کے بادشاہ، داؤد ابراہیم کا دعویٰ ہے کہ بم دھماکوں والا منصوبہ ٹائیگر میمن نے تیار کیا۔اس واقعے کے بعد بھارتی حکومت نے چھان بین کے لیے سپریم کورٹ کے جسٹس شری کرشن کی سربراہی میں ایک کمیشن بنایا تھا۔کمیشن کی رپورٹ میں بھی درج ہے کہ بابری مسجد کی شہادت کے بعد جو ہندو مسلم فساد ہوا،اس میں ٹائیگر میمن اور اس کے اہل خانہ کو بہت تکالیف برداشت کرنا پڑیں۔ٹائیگر بھی ممبئی کا ایک بڑا سمگلر اور داؤد ابراہیم کا ساتھی تھا۔

اصل نام ابراہیم مشتاق عبدالرزاق ندیم میمن تھا۔ 1960ء میں ایک متوسط میمن گھرانے میں پیدا ہوا۔ پڑھائی کی جانب رغبت نہیں تھی لہٰذا نوجوان ہوا تو جرائم کی دنیا میں داخل ہوگیا۔ جب وہ ڈوسا برادران کا ڈرائیور بنا تو اس کی اہمیت بڑھ گئی۔ ڈوسا برادران بمئی میں اہم جرائم پیشہ گروہ کے لیڈرتھے۔

ٹائیگر نے رفتہ رفتہ پر پرزے نکالے اور خود بھی ایک بڑا سمگلر بن گیا۔ گھرانے کے چھ بھائیوں میں یعقوب میمن سب سے زیادہ ذہین نکلا۔ اس نے پہلے ایم کام کیا پھر 1986ء میں انسٹیٹیوٹ آف چارٹرڈ اکاؤٹینٹس میں داخلہ لے لیا۔ 1990ء میں چارٹرڈ اکاؤنٹ بنا، تو اس نے ایک دوست کے ساتھ مل کر اپنی فرم، مہتہ اینڈ میمن ایسوسی ایٹس کھول لی۔دھماکوں سے دو دن قبل اقبال ٹائیگر نے والدین اور بہن بھائیوں کو دبئی منتقل کردیا۔ یعقوب میمن نے بعدازاں دعویٰ کیا کہ اس کا بم دھماکوں کی منصوبہ بندی میں کوئی ہاتھ نہیں۔ وہ دبئی صرف اس لیے گیا کہ خطرہ تھا ، اقبال ٹائیگر کا بھائی ہونے کی وجہ سے اسے بھی دھرلیا جائے گا۔

پولیس کمشنر (ر) نیراج کمار نے اپنی کتاب میں دعویٰ کیا ہے کہ میمن خاندان کو پاکستانی خفیہ ایجنسی، آئی ایس آئی نے اپنی حفاظت میں لے لیا۔ وہ پھر سبھی کو کراچی لے گئی۔ یہ شوشہ شاید اس لیے چھوڑا گیا تاکہ بمبئی بم دھماکوں سے کسی نہ کسی طرح آئی ایس آئی کا بھی تعلق جوڑ دیا جائے۔حقیقت یہ ہے کہ اسمگلر ہونے کے باعث ٹائیگر کراچی کی زیر زمین دنیا میں بھی تعلقات رکھتا تھا۔ دبئی پہنچنے کے بعد پاکستان جانا اس کے لیے کوئی مشکل نہیں تھا۔ اسے خطرہ تھا کہ بھارتی خفیہ ایجنسیاں دبئی میں اس کے خاندان والوں کو نقصان پہنچاسکتی ہیں۔ اسی لیے عین ممکن ہے ، ٹائیگر نے تب خاندان والوں کو پاکستان منتقل کردیا۔ اب وہ کہاں ہیں، کوئی نہیں جانتا۔

نیراج کمار نے کتاب میں لکھا ہے،یعقوب میمن کو کراچی پسند نہیں آیا۔ پھر وہاں وہ زیادہ تر وقت گھر میں گزارتا۔ جب چند ماہ گزرے اور دھماکوں سے جنم لینے والا شور شرابا کم ہوا تو یعقوب میمن دبئی آنے جانے لگا۔ وہ دبئی میں اپنی اکاؤنٹس فرم کھولنا چاہتا تھا۔ ٹائیگر میمن نے بھائی کو نصیحت کی کہ بھارتی خفیہ ایجنسیوں سے ہوشیار رہنا مگر نوجوان یعقوب میمن نے سنی ان سنی کردی۔ آخر وہی ہوا جس کا ٹائیگر کو ڈر تھا۔

ممبئی میں اقبال مرچی نامی سمگلر داؤد ابراہیم کا قریبی ساتھی تھا۔ وہ ٹائیگر کے بھی بہت قریب تھا۔ سی بی آئی نے کسی طرح اسے اپنا خفیہ کارندہ بنالیا تاکہ ٹائیگر میمن یا اس کے اہل خانہ تک رسائی پاسکے۔ بھارتیوں نے پتہ پھینکا اور کامیاب رہے۔ ممبئی میں اقبال مرچی اور یعقوب میمن ملنے جلنے لگے۔یعقوب کراچی چھوڑنا چاہتا تھا۔

اس کی بیوی اور دو بھائی، سلمان اور عیسی میمن بھی باہر جانے کے خواہش مند تھے۔ اقبال مرچی نے میمن بھائیوں کی اس کمزوری سے فائدہ ٹھایا اور انہیں ترغیب دی کہ وہ ''وعدہ معاف گواہ'' بن کر واپس بھارت آجائیں۔ اقبال مرچی نے میمن بھائیوں کو یقین دلایا کہ اگر انہوں نے بھارتی خفیہ ایجنسیوں کی مدد کی، تو بھارتی عدالتیں انہیں رہا کردیں گی۔ یعقوب میمن کو یہ یقین دہانی یقیناً پولیس کمشنر (ر) نیراج کمار ہی کے ذریعے ملی جو بم دھماکوں کی تفتیشی ٹیم کے انچارج تھے۔

بھارتیوں کا دعویٰ ہے کہ یعقوب میمن نے پھر کراچی میںان بنگلوں کی ویڈیو فلم بنائی جہاں وہ ٹائیگر اور داؤد ابراہیم ٹھہرے ہوئے تھے۔ نیز ان سے ملاقات کرنے آنے والے آئی ایس آئی کے افسروں کو بھی فلم میں دکھایا گیا۔ یعقوب نے اپنے بھائیوں،ساتھیوں اور پاکستانیوں کی جاسوسی کرتے ہوئے دستاویزی ثبوت بھی اکٹھے کیے۔ گویا یعقوب اپنوں سے غداری کرتے ہوئے دشمن کا جاسوس بن گیا تاکہ واپس آبائی وطن جاسکے۔

نیراج کمار نے اپنی کتاب میں تفصیل سے بتایا اور دعویٰ کیا ہے کہ دبئی میں پاکستانی میمن بھائیوں کی نگرانی کرتے رہتے تھے۔ مگر وہ ان کی آنکھوں میں دھول جھونک کر یعقوب، عیسیٰ سلیمان اور دیگر پانچ افراد کو شارجہ لے گئے۔ پاکستانی تو دبئی میں انہیں ڈھونڈتے رہے، جبکہ شارجہ سے انڈین ایئرلائنز کی ایک پرواز انہیں نئی دہلی لے آئی۔ نیراج کمار کی کوششوں سے شارجہ ایئرپورٹ پر میمن بھائیوں کا نام مسافروں میں شامل نہیں تھا، اسی لیے پاکستانی ان تک نہیں پہنچ سکے۔

قدرت الٰہی نے بھی اس غدار کو زندگی ہی میں سزا دے ڈالی۔ نئی دہلی پہنچتے ہی اسے گرفتار کر لیا گیا۔پھر عدالت میں اس پر مقدمہ چلنے لگا۔اس دوران نیراج کمار سمیت سی بی آئی اور دیگر بھارتی خفیہ ایجنسیوں کے افسروں نے آنکھیں پھیر لیں۔ یعقوب میمن کو یقین تھا کہ وہ کچھ عرصے بعد رہا ہوجائے گا۔اس سے یہی وعدہ کیا گیا تھا۔ لیکن عدالت میں اس پر یہ الزام لگ گیا کہ اسی نے بم دھماکوں کے لیے رقم فراہم کی تھی۔

یوں بھارتیوں نے یعقوب میمن کو دھوکا دیا۔ پہلے معافی دینے کا جھانسا دے کر اسے اپنے جال میں پھنسایا اور پھر اپنے وعدے سے مکر گئے۔یوں انھوں نے یعقوب میمن کو پھانسی کے پھندے تک پہنچا دیا۔غدار کا عموماً ایسا ہی بھیانک انجام ہوتا ہے۔جبکہ ہندوؤں کی اسی قسم کی عیاری کے باعث ہی ''بغل میں چھری، منہ میں رام رام'' جیسے محاورے وجود میں آئے۔

واقعہ9/11 اور بھارتی سرمایہ
بھارتی پولیس کمشنر (ر) نیراج کمار نے اپنی کتاب میں یہ اہم انکشاف کیا کہ واقعہ 9/11 انجام دینے کے لیے بھارت سے بھی رقم اکٹھی کی گئی۔ یہ راز 2001ء میں آصف رضا خان کی گرفتاری کے بعد افشا ہوا۔اس راز کی داستان سبق آموز ہے۔آصف رضا بھارتی شہر کلکتہ میں پیدا ہوا۔ اس کے والد معمولی ٹھیکے دار تھے۔

آصف بچپن سے نمازی بن گیااور تبلیغی جماعت کے مراکز آنے جانے لگا۔ 1992ء میں جنونی ہندوؤں نے بابری مسجد شہید کر ڈالی ْتب وہ بھارتی حکومت کا مخالف بن گیا ۔وہ کلکتہ میں مسلم نوجوانوں کو بھارتی حکومت کے خلاف بغاوت کرنے پر ابھارنے لگا۔ چناںچہ پولیس نے بدنام زمانہ ٹاڈا قانون کے تحت اسے نظر بند کر دیا۔

پانچ برس تک آصف رضا تہاڑ جیل (نزددہلی) میں قید رہا۔ وہیں اس کی ملاقات جیش محمد کے بانی' مولانا مسعوداظہر' عمر شیخ ' آفتاب انصاری اور دیگر جہادیوں سے ہوئی۔ یہ سبھی بھارتی حکومت کے خلاف سرگرم عمل تھے۔ ان کی مجاہدانہ کارروائیوں کامرکز مقبوضہ جموں وکشمیر تھا جہاں بھارتی فوج نہتے اور معصوم کشمیریوں پر ظلم ڈھارہی تھی ۔ ان جہادیوں کے ساتھ نے آصف رضا کو بھارتی ہندوؤں کا شدید مخالف بنا دیا۔

1999ء میں آصف رضا رہا ہوا' تو واپس کلکتہ چلا آیا۔ وہ اب خفیہ طور پر آفتاب انصاری کے گینگ کا رکن بن چکاتھا ۔ آفتاب انصاری بنارس میں پید ہوا۔ صحافت میں ایم اے کیا مگر طویل عرصہ اسے مسلمان ہونے کی وجہ سے معقول ملازمت نہ مل سکی۔ اس امر نے اسے بھارتی معاشرے کا دشمن بنا دیا۔

آفتاب انصاری نے پھر ہم نوا مسلم نوجوانوں کے ساتھ مل کر ایک گروہ بنایا اور چوریاں کرنے اور ڈاکے ڈالنے لگا۔ 1994ء میں پولیس نے اسے گرفتار کیا اور تہاڑ جیل میں ڈال دیا۔ وہیں وہ مولانا مسعود اظہر' عمر شیخ وغیرہم سے ملا اور ان کے جہادی نظریات سے متاثر ہو ا۔ ان مجاہدین نے آفتاب انصاری پر زور دیا کہ وہ اپنی جنگجویانہ صلاحیتوں کو بھارتی حکومت کے خلاف استعمال کرے۔



اوائل 1999ء میں بھارتی حکومت نے آصف رضا اور آفتاب انصاری' دونوں کو رہا کر دیا۔ آفتاب جلد دبئی چلا گیا۔اب یہ دونوں بھارتی حکومت کے خلاف جدوجہد کرنے والے کشمیری مجاہدین کا ساتھ دینا چاہتے تھے۔انہوں نے فیصلہ کیا کہ امیر ہندو سیٹھوں کو اغوا کر کے ان کے خاندان والوں سے بھاری رقم بطور تاوان وصول کی جائے۔ یہ رقم پھر مختلف جہادی تنظیموں میں تقسیم کی جانی تھی تاکہ وہ اسلحہ خرید کر بھارتی حکومت کے خلاف اپنی سرگرمیاں جاری رکھ سکیں۔

چناںچہ آصف رضا نے آفتاب انصاری کے تعلقات سے فائدہ اٹھا کر اپنا ایک گروہ بنالیا۔ گروہ کی سرگرمیوں کے لیے آفتاب انصاری نے سرمایہ فراہم کیا۔ آصف رضا کا گروہ وسط 1999ء سے لے کراواخر 2001ء تک سرگرم عمل رہا۔ اس گروہ میں آصف کا چھوٹا بھائی امیر رضا بھی شامل تھا۔اس گروہ نے کلکتہ سے لے کر احمد آباد(گجرات) تک میں بستے کئی ہندو سیٹھوں' صنعت کاروں اور تاجروں کو اغوا کیا اور بطور تاون بھاری رقومات وصول کیں ۔ بھارتی حکومت کے ذرائع رقم کی مالیت 50 تا 60 کروڑ روپے بتاتے ہیں۔

بھارتی حکومت کا دعویٰ ہے کہ اس دوران القاعدہ نے امریکی معیشت کے عالمی استعارے' ورلڈ ٹریڈ سینٹر (نیویارک) پر حملے کا منصوبہ بنا لیا ۔ یہ منصوبہ انجام دینے کے لیے کثیر رقم درکار تھی۔

چناںچہ القاعدہ نے دنیا بھر میں پھیلی ہم خیال جنگجو تنظیموں سے مالی مدد مانگ لی۔ القاعدہ کے اہم رکن، عمر شیخ کی وساطت سے یہ اپیل آفتاب انصاری اور آصف رضا تک بھی پہنچی۔ جولائی 2001ء میں انہوں نے تقریباً نصف کروڑ روپے (ایک لاکھ ڈالر) عمر شیخ کو بذریعہ ہنڈی بھجوا دیئے۔ عمر شیخ کے ذریعے یہ رقم محمد عطا کو موصول ہوئی جو ورلڈ ٹریڈ سینٹر پر حملہ کرنے والی ٹیم کا اہم رکن تھا۔

اگست یا ستمبر2001ء میں نئی دہلی پولیس نے آصف رضا کو گرفتار کر لیا۔ تب نیراج کمار کی قیادت ہی میں سی بی آئی کی ایک ٹیم نے اس سے تفتیش کی۔ تبھی یہ انکشاف ہوا کہ واقعہ 9/11 بھارتی روپیہ بھی استعمال ہوا۔دسمبر 2001ء میں گجرات پولیس اغوا کے ایک کیس کے سلسلے میں آصف رضا کو احمد آباد لے گئی۔ وہاں آصف رضا نے ہندوؤں کو برا بھلا کہا' تو ہندو پولیس افسر طیش میں آگئے۔ چناںچہ آصف رضا کو جعلی پولیس مقابلے میں مار دیا گیا۔ اس غیر قانونی قتل نے آصف کے بھائی امیر کو مشتعل کر دیا ۔اس نے ساتھیوں کے ساتھ مل کر 22 جنوری 2002کو امریکن سینٹر' کلکتہ پر حملہ کیا۔ اس حملے میں پانچ بھارتی سپاہی مارے گئے۔

اس حملے کے بعد امیر رضا بھی شارجہ چلا گیا۔ بھارتی حکومت کا دعویٰ ہے کہ اب وہ کراچی میں مقیم ہے۔ اس کے سر پر بھارتی حکومت نے لاکھوں روپے کا انعام مقرر کر رکھا ہے ۔ خیال ہے کہ امیر رضا ہی نے 2005ء میں ''انڈین مجاہدین'' نامی تنظیم کی بنیاد رکھی۔ادھر 23جنوری 2001ء کو متحدہ عرب امارات پولیس نے ایک خفیہ اطلاع ملنے پر آفتاب انصاری کو گرفتار کر لیا۔ نیراج کمار کا دعویٰ ہے ' آفتاب انصاری داؤد ابراہیم سے بھی بڑا ڈان دیکھنے کے خواب دیکھنے لگا تھا۔ اسی لالچ کے باعث زیر زمین دنیا کے آقاؤں نے اس سے پیچھا چھڑانا ضروری سمجھا۔

اماراتی پولیس نے بعدازاں آفتاب انصاری کو بھارت کے حوالے کر دیا۔بھارت میں اس پر مقدمہ چلا اور جنوری 2005میں عدالت نے اسے سزائے موت سنا دی۔ آفتاب انصاری فی الوقت کلکتہ کے علی پور سینٹرل جیل میں قید ہے۔ اس کا مقدمہ بھارتی سپریم کورٹ میں زیر سماعت ہے۔
Load Next Story