مودی کو وزیراعظم بھارت بنانے کی تیاریاں
مودی کو صرف اس بنا پر پارٹی میں زیادہ اہمیت نہیں مل سکتی کہ برطانیہ نے کہا ہے وہ اس کے ساتھ بزنس کرنا چاہتا ہے
بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) حالات کا جائزہ لے رہی ہے۔
اسے اس بات کا یقیناً احساس ہے کہ ابھی عام انتخابات میں بہت سے مہینے باقی ہیں لیکن وہ یہ جاننا چاہتی ہے کہ کیا ''ہندوتوا'' کا فلسفہ ووٹروں کے لیے قابل قبول ہو گا۔ گجرات کے مسلمان دشمن وزیراعلیٰ نریندر مودی کے نام کی تشہیر کا یہی مقصد ہے کہ آیا عام ہندو ووٹروں کے لیے مودی کا غیر سیکولر چہرہ قابل قبول ہے یا نہیں۔ یہ پارٹی ابھی تک پارلیمانی انتخابات میں شکست کے صدمے سے باہر نہیں نکل سکی حالانکہ اس کو گمان تھا کہ حکومتی بنچوں کی تمام نشستوں پر قبضہ کر لے گی لیکن فرقہ واریت کے دھبے کی وجہ سے اس کا بیڑا غرق ہو گیا۔ اس کے ہندوتوا کے تاثر نے کانگریس کو دوبارہ اقتدار میں پہنچا دیا جس پر وہ خود بھی حیران رہ گئی تھی۔
بی جے پی اس مرتبہ تمام امکانات کو پیش نظر رکھ رہی ہے۔ آر ایس ایس شروع ہی سے میدان میں ہے۔ اس کے سربراہ موہن بھگوت نے نہ صرف نریندر مودی کا آر ایس ایس کے ہیڈ کوارٹر، ناگپور، میں استقبال کیا بلکہ یہ اعلان بھی کیا کہ گجرات اسمبلی کے انتخابات کے بعد مودی کو بی جے پی میں اونچا عہدہ دیا جائے گا۔ اس سے بیشک اس حقیقت کی تصدیق ہوتی ہے کہ بی جے پی کی باگیں کس کے ہاتھ میں ہیں۔ تاہم پارٹی لیڈروں کی ہزیمت کچھ کم کرنے کے لیے بھگوت نے یہ بھی کہا کہ وزارت عظمیٰ کے لیے امید وار کا انتخاب پارٹی کا استحقاق ہے لیکن اس کے ساتھ ہی اس نے ان کے زخموں پر نمک چھڑکتے ہوئے اپنے بیان میں یہ اضافہ کرنا بھی ضروری خیال کیا کہ: پارٹی میں مودی ہی سب سے بہتر امید وار ہے۔
مودی کو صرف اس بنا پر پارٹی میں زیادہ اہمیت نہیں مل سکتی کہ برطانیہ نے کہا ہے وہ اس کے ساتھ بزنس کرنا چاہتا ہے اگرچہ اس کی کارروائیوں کو پسند نہیں کرتا۔ اس کے ساتھ ہی برطانیہ نے اپنا ایلچی جیمز بیون مودی کی طرف روانہ کیا ہے حالانکہ پورے دس سال تک برطانوی حکومت مودی سے گریز کرتی رہی ہے۔ عین ممکن ہے کہ اب امریکا اور دیگر ممالک بھی برطانیہ کے نقش قدم پر چلنے لگیں۔ لیکن اس کے باوجود مودی بھارت کے لیے قابل قبول نہیں جس کی مودی کو اصل میں ضرورت ہے۔ مودی نے گجرات میں صنعتی انقلاب برپا کر کے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی جیسے گجرات کے لوگ دیگر بھارتی عوام سے مختلف ہیں۔
پنجاب میں اگر وزیراعظم پرکاش سنگھ بادل کوئی ایسا کام کرتے تو ساری قوم ان کے پیچھے پڑ جاتی کہ وہ سکھوں کو علیحدگی پسندی کے لیے اکسا رہے ہیں۔ مودی گجراتیوں کو گمراہ کرنے کا ذمے دار ہے جو پھر اسے منتخب کرنے کے بارے میں سوچ رہے ہیں۔ وہ پندرہ سال سے ملک کو ڈراوے میں رکھے ہوئے ہیں جیسے ان کی ریاست ان کے لیے پوری قوم سے زیادہ اہم ہے اور یوں وہ آئین کے اصولوں کی صریح خلاف ورزی کا ارتکاب کر رہے ہیں۔ حقیقت میں آئینی اصولوں سے انحراف ان کے وزیراعلیٰ نریندر مودی نے کیا ہے بلکہ اس نے ان اصولوں کی دھجیاں اڑا دی ہیں۔ یہ 2002ء میں ہی عیاں ہو گیا تھا جب 2000 مسلمانوں کوقتل کر دیا گیا تھا کیونکہ انھیں ریاست کے دیگر شہریوں کے مساوی نہیں سمجھا گیا تھا۔ انھیں مودی کی قربان گاہ کی بھینٹ چڑھا دیا گیا جو اس نے مذہب اور ریاست کو باہم خلط ملط کر کے تیار کی تھی۔
1984میں جب دہلی میں سکھوں کا قتل عام کیا گیا، اس وقت اگر مجرموں کو سزا مل جاتی تو گجرات کے ہندوئوں کو کبھی مسلمانوں کے قتل عام کی جرات نہ ہو سکتی۔ گودھرا میں ٹرین کے ڈبے میں 46 ہندوئوں کا جلایا جانا ایک اشتعال انگیزی تھی لیکن گجرات میں مسلمانوں کا قتل عام گودھرا کے وقوعے کے بغیر بھی ہو جانا تھا کیونکہ بعض بے ضمیر صحافیوں کو اپنی تحریروں کے ذریعے آگ پر تیل چھڑکنے کا کام پہلے ہی سونپا جا چکا تھا۔ گجرات کے قتل عام کے ذمے داروں کو ابھی تک انصاف کے کٹہرے میں نہیں لایا گیا۔ کئی مقدمات ابھی تک زیر التوا ہیں جن میں مودی کے نام کا ذکر بھی کیا گیا ہے۔ اس جیسے شخص کو ملک کے اگلے وزیراعظم کے طور پر پیش کرنا ملک کو ذلت کے گڑھے میں دھکیلنے کے مترادف ہے۔ آخر کوئی سیاسی پارٹی قتل عام' مجرمانہ حملوں اور لوٹ مار کے واقات سے آنکھیں بند کر کے کس طرح مودی کی نامزدگی کا سوچ سکتی ہے؟
بی جے پی کو ایک اور غیر متوقع جانب سے بھی زک پہنچی ہے۔ اس کے سربراہ نتن گڈکری نے مبینہ طور پر کچھ بوگس فرمیں بنا رکھی ہیں جن کے ذریعے اس نے مہاراشٹر میں پی ڈبلیو ڈی محکمے کے وزیر کی حیثیت سے بھاری رقوم کمائیں۔ اس کے خلاف الزامات اس قدر خطر ناک ہیں کہ آر ایس ایس کے ذرائع نے بھی مبینہ طور پر کہا ہے کہ اس سے بی جے پی کی ساکھ کو شدید نقصان پہنچا ہے۔ کانگریس کے لیے یہ معاملہ دیوتائوں کی خاص کرم نوازی کے مترادف ہے، جس نے فوری طور پر تحقیقات کرانے کا حکم بھی جاری کر دیا ہے اور اب بی جے پی کی آواز بھی گُھٹ کر رہ گئی ہے حالانکہ پارلیمنٹ کے گزشتہ اجلاس میں وہ بہت گرجی برسی تھی۔ اس کی صاف شفاف ہونے کی ساکھ تو بالکل ہی ملیا میٹ ہو گئی ہے۔
پارٹی کو اگلے انتخابات میں گڈکری کے معاملے کا بھی حساب دینا پڑے گا لہٰذا وہ صرف ہندوتوا کی متوقع حمایت کی پالیسی پر کاربند نہیں رہ سکتی جس کے لیے وہ مودی کے نام کو اجاگر کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ بہر حال اپوزیشن بعض دیگر مسائل سے فائدہ اٹھانے کی کوشش بھی کرے گی اور کرپشن جو کہ اب تک کانگریس کے ساتھ چمٹی ہوئی ہے اس کا اس پارٹی پر باقاعدہ الزام عاید کیا جائے گا جس کا کانگریس کو جواب دینا پڑے گا لیکن اس ضمن میں ووٹروں کو الجھانے کی خاطر ایک سکینڈل کا الزام دوسروں پر عاید کرنے کی کوششیں بھی جاری رہیں گی۔
جہاں تک بھارت کو ہندوتوا کا حامی ثابت کرنے کی بات ہے تو بھارت کی شناخت جمہوریت' سیکولرازم اور تمام عقاید کے لیے وسیع القلبی کے حوالے سے ہے۔ یہ بدقسمتی کی بات ہے کہ اب بھی فرقہ وارانہ فسادات ہوتے ہیں لیکن ان کا حجم اور شدت اتنی نہیں رہی جتنی کہ پچاس اور ساٹھ کی دہائیوں میں ہوا کرتی تھی۔ گو کہ اس کے بعد بھی فسادات ہوئے مگر قوم اتنی حساس ضرور ہو گئی ہے کہ مذہب فروشوں کے پاس واپس نہیں جائے گی ۔گزشتہ چھ عشروں کے دوران بھارت نے جمہوریت اور اجتماعیت کے اصولوں پر مبنی معاشرے کو اپنانے کی کوشش کی ہے۔
اور اس کے برعکس جو کچھ ہوتا ہے اس کا مقصد ملک میں عدم استحکام پیدا کرنا ہوتا ہے جس سے ملک کی بدنامی ہوتی ہے۔ ویسے جمہوریت نے اپنی جڑیں خاصی گہری کر لی ہیں۔ اب مذہبی نعرے ملک میں عدم استحکام پیدا نہیں کر سکتے۔ اصل بات یہ ہے کہ جمہوریت کے بغیر معاشرے میں اجتماعیت کا تصور ممکن نہیں ہے لیکن افسوس کی بات ہے کہ بی جے پی ابھی تک یہ بنیادی بات نہیں سمجھ سکی۔ اس کو یاد رکھنا چاہیے کہ اگر وہ مرکز میں اقتدار میں آ گئی تو اسے اپنے فرقہ وارانہ نظریات کو ترک کرنا پڑے گا اور یہ عہد کرنا پڑے گا کہ بعض دیگر ضروری اقدامات کے ساتھ کشمیر کو بھی خصوصی ریاست کا درجہ دیا جائے نیز اسے بابری مسجد کی جگہ پر مندر کی تعمیر سے باز رہنا ہو گا۔
حقیقت یہ ہے کہ مودی کو خود وزیراعظم کے منصب کی امیدواری سے دستبردار ہو جانا چاہیے کیونکہ اس کے وزیراعظم بننے کی صورت میں نہ صرف یہ کہ اس بلند منصب کی توقیر میں کمی واقع ہو گی بلکہ بی جے پی کے اقتدار میں آنے کے امکانات بھی معدوم ہو جائیں گے۔ اگر وہ معافی مانگ لے اور مسلمانوں کے ساتھ اس نے جو ظلم کیا ہے اس کی مکافات کرے تو ممکن ہے اسے اصلاح شدہ مودی کے طور پر قبول کر لیا جائے پھر اس کا اور اس کی پارٹی کا چانس بن سکتا ہے۔
(ترجمہ: مظہر منہاس)
اسے اس بات کا یقیناً احساس ہے کہ ابھی عام انتخابات میں بہت سے مہینے باقی ہیں لیکن وہ یہ جاننا چاہتی ہے کہ کیا ''ہندوتوا'' کا فلسفہ ووٹروں کے لیے قابل قبول ہو گا۔ گجرات کے مسلمان دشمن وزیراعلیٰ نریندر مودی کے نام کی تشہیر کا یہی مقصد ہے کہ آیا عام ہندو ووٹروں کے لیے مودی کا غیر سیکولر چہرہ قابل قبول ہے یا نہیں۔ یہ پارٹی ابھی تک پارلیمانی انتخابات میں شکست کے صدمے سے باہر نہیں نکل سکی حالانکہ اس کو گمان تھا کہ حکومتی بنچوں کی تمام نشستوں پر قبضہ کر لے گی لیکن فرقہ واریت کے دھبے کی وجہ سے اس کا بیڑا غرق ہو گیا۔ اس کے ہندوتوا کے تاثر نے کانگریس کو دوبارہ اقتدار میں پہنچا دیا جس پر وہ خود بھی حیران رہ گئی تھی۔
بی جے پی اس مرتبہ تمام امکانات کو پیش نظر رکھ رہی ہے۔ آر ایس ایس شروع ہی سے میدان میں ہے۔ اس کے سربراہ موہن بھگوت نے نہ صرف نریندر مودی کا آر ایس ایس کے ہیڈ کوارٹر، ناگپور، میں استقبال کیا بلکہ یہ اعلان بھی کیا کہ گجرات اسمبلی کے انتخابات کے بعد مودی کو بی جے پی میں اونچا عہدہ دیا جائے گا۔ اس سے بیشک اس حقیقت کی تصدیق ہوتی ہے کہ بی جے پی کی باگیں کس کے ہاتھ میں ہیں۔ تاہم پارٹی لیڈروں کی ہزیمت کچھ کم کرنے کے لیے بھگوت نے یہ بھی کہا کہ وزارت عظمیٰ کے لیے امید وار کا انتخاب پارٹی کا استحقاق ہے لیکن اس کے ساتھ ہی اس نے ان کے زخموں پر نمک چھڑکتے ہوئے اپنے بیان میں یہ اضافہ کرنا بھی ضروری خیال کیا کہ: پارٹی میں مودی ہی سب سے بہتر امید وار ہے۔
مودی کو صرف اس بنا پر پارٹی میں زیادہ اہمیت نہیں مل سکتی کہ برطانیہ نے کہا ہے وہ اس کے ساتھ بزنس کرنا چاہتا ہے اگرچہ اس کی کارروائیوں کو پسند نہیں کرتا۔ اس کے ساتھ ہی برطانیہ نے اپنا ایلچی جیمز بیون مودی کی طرف روانہ کیا ہے حالانکہ پورے دس سال تک برطانوی حکومت مودی سے گریز کرتی رہی ہے۔ عین ممکن ہے کہ اب امریکا اور دیگر ممالک بھی برطانیہ کے نقش قدم پر چلنے لگیں۔ لیکن اس کے باوجود مودی بھارت کے لیے قابل قبول نہیں جس کی مودی کو اصل میں ضرورت ہے۔ مودی نے گجرات میں صنعتی انقلاب برپا کر کے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی جیسے گجرات کے لوگ دیگر بھارتی عوام سے مختلف ہیں۔
پنجاب میں اگر وزیراعظم پرکاش سنگھ بادل کوئی ایسا کام کرتے تو ساری قوم ان کے پیچھے پڑ جاتی کہ وہ سکھوں کو علیحدگی پسندی کے لیے اکسا رہے ہیں۔ مودی گجراتیوں کو گمراہ کرنے کا ذمے دار ہے جو پھر اسے منتخب کرنے کے بارے میں سوچ رہے ہیں۔ وہ پندرہ سال سے ملک کو ڈراوے میں رکھے ہوئے ہیں جیسے ان کی ریاست ان کے لیے پوری قوم سے زیادہ اہم ہے اور یوں وہ آئین کے اصولوں کی صریح خلاف ورزی کا ارتکاب کر رہے ہیں۔ حقیقت میں آئینی اصولوں سے انحراف ان کے وزیراعلیٰ نریندر مودی نے کیا ہے بلکہ اس نے ان اصولوں کی دھجیاں اڑا دی ہیں۔ یہ 2002ء میں ہی عیاں ہو گیا تھا جب 2000 مسلمانوں کوقتل کر دیا گیا تھا کیونکہ انھیں ریاست کے دیگر شہریوں کے مساوی نہیں سمجھا گیا تھا۔ انھیں مودی کی قربان گاہ کی بھینٹ چڑھا دیا گیا جو اس نے مذہب اور ریاست کو باہم خلط ملط کر کے تیار کی تھی۔
1984میں جب دہلی میں سکھوں کا قتل عام کیا گیا، اس وقت اگر مجرموں کو سزا مل جاتی تو گجرات کے ہندوئوں کو کبھی مسلمانوں کے قتل عام کی جرات نہ ہو سکتی۔ گودھرا میں ٹرین کے ڈبے میں 46 ہندوئوں کا جلایا جانا ایک اشتعال انگیزی تھی لیکن گجرات میں مسلمانوں کا قتل عام گودھرا کے وقوعے کے بغیر بھی ہو جانا تھا کیونکہ بعض بے ضمیر صحافیوں کو اپنی تحریروں کے ذریعے آگ پر تیل چھڑکنے کا کام پہلے ہی سونپا جا چکا تھا۔ گجرات کے قتل عام کے ذمے داروں کو ابھی تک انصاف کے کٹہرے میں نہیں لایا گیا۔ کئی مقدمات ابھی تک زیر التوا ہیں جن میں مودی کے نام کا ذکر بھی کیا گیا ہے۔ اس جیسے شخص کو ملک کے اگلے وزیراعظم کے طور پر پیش کرنا ملک کو ذلت کے گڑھے میں دھکیلنے کے مترادف ہے۔ آخر کوئی سیاسی پارٹی قتل عام' مجرمانہ حملوں اور لوٹ مار کے واقات سے آنکھیں بند کر کے کس طرح مودی کی نامزدگی کا سوچ سکتی ہے؟
بی جے پی کو ایک اور غیر متوقع جانب سے بھی زک پہنچی ہے۔ اس کے سربراہ نتن گڈکری نے مبینہ طور پر کچھ بوگس فرمیں بنا رکھی ہیں جن کے ذریعے اس نے مہاراشٹر میں پی ڈبلیو ڈی محکمے کے وزیر کی حیثیت سے بھاری رقوم کمائیں۔ اس کے خلاف الزامات اس قدر خطر ناک ہیں کہ آر ایس ایس کے ذرائع نے بھی مبینہ طور پر کہا ہے کہ اس سے بی جے پی کی ساکھ کو شدید نقصان پہنچا ہے۔ کانگریس کے لیے یہ معاملہ دیوتائوں کی خاص کرم نوازی کے مترادف ہے، جس نے فوری طور پر تحقیقات کرانے کا حکم بھی جاری کر دیا ہے اور اب بی جے پی کی آواز بھی گُھٹ کر رہ گئی ہے حالانکہ پارلیمنٹ کے گزشتہ اجلاس میں وہ بہت گرجی برسی تھی۔ اس کی صاف شفاف ہونے کی ساکھ تو بالکل ہی ملیا میٹ ہو گئی ہے۔
پارٹی کو اگلے انتخابات میں گڈکری کے معاملے کا بھی حساب دینا پڑے گا لہٰذا وہ صرف ہندوتوا کی متوقع حمایت کی پالیسی پر کاربند نہیں رہ سکتی جس کے لیے وہ مودی کے نام کو اجاگر کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ بہر حال اپوزیشن بعض دیگر مسائل سے فائدہ اٹھانے کی کوشش بھی کرے گی اور کرپشن جو کہ اب تک کانگریس کے ساتھ چمٹی ہوئی ہے اس کا اس پارٹی پر باقاعدہ الزام عاید کیا جائے گا جس کا کانگریس کو جواب دینا پڑے گا لیکن اس ضمن میں ووٹروں کو الجھانے کی خاطر ایک سکینڈل کا الزام دوسروں پر عاید کرنے کی کوششیں بھی جاری رہیں گی۔
جہاں تک بھارت کو ہندوتوا کا حامی ثابت کرنے کی بات ہے تو بھارت کی شناخت جمہوریت' سیکولرازم اور تمام عقاید کے لیے وسیع القلبی کے حوالے سے ہے۔ یہ بدقسمتی کی بات ہے کہ اب بھی فرقہ وارانہ فسادات ہوتے ہیں لیکن ان کا حجم اور شدت اتنی نہیں رہی جتنی کہ پچاس اور ساٹھ کی دہائیوں میں ہوا کرتی تھی۔ گو کہ اس کے بعد بھی فسادات ہوئے مگر قوم اتنی حساس ضرور ہو گئی ہے کہ مذہب فروشوں کے پاس واپس نہیں جائے گی ۔گزشتہ چھ عشروں کے دوران بھارت نے جمہوریت اور اجتماعیت کے اصولوں پر مبنی معاشرے کو اپنانے کی کوشش کی ہے۔
اور اس کے برعکس جو کچھ ہوتا ہے اس کا مقصد ملک میں عدم استحکام پیدا کرنا ہوتا ہے جس سے ملک کی بدنامی ہوتی ہے۔ ویسے جمہوریت نے اپنی جڑیں خاصی گہری کر لی ہیں۔ اب مذہبی نعرے ملک میں عدم استحکام پیدا نہیں کر سکتے۔ اصل بات یہ ہے کہ جمہوریت کے بغیر معاشرے میں اجتماعیت کا تصور ممکن نہیں ہے لیکن افسوس کی بات ہے کہ بی جے پی ابھی تک یہ بنیادی بات نہیں سمجھ سکی۔ اس کو یاد رکھنا چاہیے کہ اگر وہ مرکز میں اقتدار میں آ گئی تو اسے اپنے فرقہ وارانہ نظریات کو ترک کرنا پڑے گا اور یہ عہد کرنا پڑے گا کہ بعض دیگر ضروری اقدامات کے ساتھ کشمیر کو بھی خصوصی ریاست کا درجہ دیا جائے نیز اسے بابری مسجد کی جگہ پر مندر کی تعمیر سے باز رہنا ہو گا۔
حقیقت یہ ہے کہ مودی کو خود وزیراعظم کے منصب کی امیدواری سے دستبردار ہو جانا چاہیے کیونکہ اس کے وزیراعظم بننے کی صورت میں نہ صرف یہ کہ اس بلند منصب کی توقیر میں کمی واقع ہو گی بلکہ بی جے پی کے اقتدار میں آنے کے امکانات بھی معدوم ہو جائیں گے۔ اگر وہ معافی مانگ لے اور مسلمانوں کے ساتھ اس نے جو ظلم کیا ہے اس کی مکافات کرے تو ممکن ہے اسے اصلاح شدہ مودی کے طور پر قبول کر لیا جائے پھر اس کا اور اس کی پارٹی کا چانس بن سکتا ہے۔
(ترجمہ: مظہر منہاس)