سیلاب کی تباہ کاریوں کے چند مناظر کیلاشی بچوں میں تحائف اور سامان کی تقسیم

جولائی اور اگست میں یہاں بھرپور رش ہوتا ہے لیکن اب بچے کھچے ہوٹلوں میں ویرانی کی کیفیت ہے


جولائی اور اگست میں یہاں بھرپور رش ہوتا ہے لیکن اب بچے کھچے ہوٹلوں میں ویرانی کی کیفیت ہے:فوٹو : فائل

وادیٔ کیلاش میں رات کے سائے گہرے ہوتے ہی تاروں بھری رات روشن سے روش تر ہونے لگتی ہے۔خنک ہوا کی پراسرارسرسراہٹ کے ساتھ دریائے بھنبھوریت کے پانی کا مترنم شور آوازملا کر ایک عجیب کیفیت پیدا کرتا ہے۔

شام ہوتے ہی خنکی رگ و پے میں سرایت کرنے لگتی ہے۔ سیب، ناشپاتی اور انگور کی خوشبو فضاؤں کو ایک خوشگوار بوجھل پن عطاکرتی ہے۔ وادی کیلاش میں ''اورچال'' کا تہوار منانے کی تیاری عروج پر ہے۔ بچے، بچیاں، لڑکے، لڑکیاں، بوڑھی خواتین نئے نویلے کپڑے پہن کر، بن سنور کر ، چہرے پر نقش و نگار بنائے میلے میں جا رہی ہیں۔

اپنے ہوٹل کی بالکونی میں بیٹھے یہ سطریں سپرد قلم کررہاہوں۔ ڈھول بجانا اس کی تھاپ پر رقص کرنا اور روایتی گیت گانا کیلاش کلچر ہے۔ میلہ ساری رات جاری رہے گا جب کیلاشی تھک جائیں گے تو گھروں کو لوٹیں گے۔ ایک جانب میلے میں مقامی موسیقی کے سر بکھر رہے ہیں اور دوسری جانب جولائی اگست میں سیلاب سے ہونے والی تباہی کے نشان اپنی تمام تر ہولناکی کے ساتھ بکھرے پڑے ہیں۔

جولائی اور اگست میں یہاں بھرپور رش ہوتا ہے لیکن اب بچے کھچے ہوٹلوں میں ویرانی کی کیفیت ہے۔ بڑے بڑے تمام ہوٹل اور ریسٹ ہاؤس دریا برد ہوچکے۔ بے نظیر ہوٹل کا نام و نشاں باقی نہیں۔ PTDC کا خوبصورت موٹل بھی ویرانی اور بے بسی کی تصویر بنا کھڑا ہے۔ چند دنوں کے وقفے سے سات بار سیلاب آیا۔

پانی کا ریلہ اتنی تیزی کے ساتھ آیا کہ اس کی راہ میں جو بھی عمارت یا گھر آیا وہ پل بھر میں دریا برد ہوگیا۔ اصل میں گلیشیئر کی برف جب پگھلتی ہے تو گلیشیئر میں پھنسے بڑے بڑے پتھر بھی تیزی سے پانی کے ساتھ نشیب کی طرف آتے ہیں اور تباہی اور بربادی کی داستانیں رقم کر جاتے ہیں۔ جولائی کے شروع میں جہاں دکانیں، مکانات، مساجد اور دوسری عمارتیں تھیں، وہاں اب پتھروں کا بسیرا ہے اور پتھر بھی اتنے بڑے کہ گمان ہوتا ہے کہ انہیں کسی دیو نے اُٹھا کر اِدھر رکھ دیا ہے۔

صبح سویرے چترال سے بمبوریت ویلی جانے کے لیے نکلے۔ ساتھیوں نے بہتیرا ڈرایا۔ منع کیا کہ راستہ بہت دشوار ہے، چار پانچ گھنٹے پیدل چلنا پڑے گا۔ ذرا سی غفلت جان لیوا ثابت ہو سکتی ہے۔ بمبوریت کے دوست قاضی اسرار احمد کا کہنا تھا:'' سر! آپ چلیں اللہ خیر کرے گا، سڑک ضرور ٹوٹی ہوئی ہے، راستہ خطرناک ہے لیکن آفت زدہ لوگوں کو آپ کی مدد کی ضرورت ہے، وہ میڈیکل ایڈ اور ریلیف کے لیے آپ کے منتظر ہیں''۔

چترال سے ہی راشن خرید کر پیک کروا لیاگیا تھا۔ ادویات، بچوں کے گفٹس، بچوں کے کپڑے، چادریں اور ترپالیں ہر شے پیک ہو گئی۔ صبح سویرے نکلے، چترال کی خوبصورت وادیوں سے گزرتے ہوئے مناظر دیکھ کر انسان مبہوت ہوجاتا ہے۔ ایون ویلی کی جانب بڑھتے ہوئے ہمارے ساتھی محمود الحسن نے کہا کہ یہاں رُک کر ترچ میر کی چوٹی کا نظارہ کرنا ہے۔ دور سے بادلوں میں گھری چاندی اوڑھے، دمکتی ہوئی ترچ میر کی خوبصورت چوٹی نظر آ رہی تھی۔ 25 ہزار فٹ بلند ترچ میر کی چوٹی کے بارے میں قصہ مشہور ہے کہ اسکی چوٹی تک جانے والوں کو پریاں اپنے ساتھ لے جاتی ہیں۔

پریاںاپنے مسکن میں نئے آنے والوں کو دودھ کا گلاس اور خون کا گلاس ایک ساتھ پیش کرتی ہیں۔ جو دودھ پیتا ہے وہ پریوں کا ہو جاتا ہے جو خون کے گلاس کی طرف ہاتھ بڑھاتا ہے تو پریاں انہیں واپس چھوڑ جاتی ہیں۔ سیلاب کے دوران دریا نے ایون ویلی میں بھی اپنا رخ تبدیل کرلیا تھا۔

بڑے بڑے پتھر سیلابی ریلے کے ساتھ تیزی سے آئے اور پل بھر میں دریا کے کنارے آبادگھروں کو ملیا میٹ کردیا۔ ایون ویلی پہنچ کر یہ طے پایا کہ آدھا سامان متاثرین ایون ویلی کے سپرد کیا جائے اور باقی سامان گدھوں پہ لاد کر بمبوریت لے جایا جائے۔ ڈاکٹر طاہر بھی ایون ویلی میں ٹھہر گئے تاکہ وہاں کے متاثرین میں سامان تقسیم کریں۔

لوگوں نے بہتیرا منع کیا۔ ڈرایا، اپنے ساتھیوں نے بھی منع کیا لیکن جب بندہ عزم کر لے تو پھر راستے کشادہ اور راہیں خود بخود آسان ہو جاتی ہیں۔ 4x4 جیپ میں بیٹھ کر ایون ویلی سے روانہ ہوئے۔ تھوڑا فاصلہ طے کیا تو پاک فوج کی چیک پوسٹ آگئی۔ گاڑیوں سے اتر کر سامان اَن لوڈ کیا۔ کیونکہ یہاں سے آگے سامان لے جانے کا صدیوں پرانا ایک ہی ذریعہ ہے۔ یعنی گدھوں پہ سامان لادیں اور روانہ ہوجائیں۔ گدھوں کے مالکوں کا انتظار کرتے کرتے کافی دیر ہوگئی۔ وہ آئے، ریٹ طے ہوا اور گدھوں کی لمبی قطار کے ساتھ ہم اپنی منزل کی جانب روانہ ہوگئے۔

گدھوں کے کوچوان 10 سے 14 سال کے چھوٹے بچے ہوتے ہیں۔ جو اپنے کام میں اتنے ماہر ہیں کہ گدھے کے ساتھ کلانچیں بھرتے اونچے نیچے پہاڑوں کو آسانی سے پھلانگتے مقررہ وقت پر سامان منزل مقصود تک پہنچا دیتے ہیں۔



بمبوریت وادی کیلاش کا سب سے خوبصورت اور دلکش خطہ ہے اور یہاں سال کے 12 مہینوں میں دنیا بھر سے سیاحوں کی آمد رہتی ہے۔ مگر اس بار سیلاب نے آنے کے تمام راستے بند کر دئیے، سڑکیں مٹ گئیں، زندگی مفلوج ہو گئی۔ دروش چیک پوسٹ کے قریب FWO کی گاڑیاں بلڈوزر، کرینیں سڑک صاف کرنے اور راہوں کو بحال کرنے میں مصروف تھیں۔ ہمارے ساتھی اسرار احمد نے مشورہ دیا کہ دروش چیک پوسٹ تک پیدل جایا جائے۔

ہم یہاں تک گاڑی میں پہنچے تھے کہ دور سے سامان سے لدے پھندے گدھوں کی قطار نظر آگئی۔ دوباش چیک پوسٹ پر انٹری کروا کے آگے بڑھے۔ سامنے کچے اور ٹوٹے پھوٹے راستے تھے۔اردگرد خطرناک کھائیاں، نوکیلی چٹانیں اور مہیب نشیب منہ کھولے ہوئے تھے۔ چھڑی کے سہارے ناہموار راستوں پر چلنا شروع کیا۔ جونہی زیادہ چڑھائی آئی تو سانس پھولنا شروع ہوگئی، حلق سوکھ کر کانٹا ہوگیا۔ نبض کی رفتار 140 تک پہنچ گئی۔ ماتھے پہ پسینہ اور ٹانگیں شل ہو گئیں۔ دل میں خیال آیا کہ یہاں سے واپسی کر لی جائے۔ اسرار احمد کا ساتھ تھا۔ اسے کہا تھوڑا بیٹھ کر سستا کر پھر چلتے ہیں۔

پھر چلنا شروع کیا لیکن چند سو گز چلنے کے بعد پھر حالت غیر ہو گئی۔ اب کیا کریں؟ پھر واپسی کا خیال آیا۔ اسی اثناء میں ہمارے گدھوں کا قافلہ بھی پہنچ گیا۔ اسرار احمد نے اچھوتا آئیڈیا پیش کیا کہ ایک گدھا خالی کروالیا جائے اور اس پر سوار ہوکر اگلا راستہ طے کیا جائے۔ جی تگڑا کر کے گدھے کی پیٹھ پر سواری کر لی۔ غریب جانور پر بھی ترس آ رہا تھا لیکن بمبوریت ویلی پہنچنے کی بھی تڑپ تھی۔

اسرار احمد کے گھر پہنچتے ہی سب ساتھی بستروں پر دراز ہو گئے۔ اسرار احمد کے والد نے بتایا کہ جولائی سے اگست تک سات دفعہ سیلابی ریلے آئے اور آخری ریلہ تو کھیتوں، کھلیانوں، گھروں کو روندتا اور ہڑپ کرتا آگے بڑھا۔ تھوڑی دیر آرام کرنے کے بعد گھر سے مزیدار کھانا آگیا۔ چلنے کے باعث بھوک بھی خوب لگی ہوئی تھی اور کھانا بھی خاصا مزیدار تھا۔ ساگ، پنیر اور مکھن کی بنی ہوئی روٹی، دیسی مرغ کی یخنی اور نمکین لسی ساتھیوں نے جی بھر کے کھایا۔

اب آگے جانا تھا اس کے لیے اسرار احمد نے گھوڑے کا بندوبست کیا۔ گھوڑے پر سوار ہونا اور بھی عجیب لگا۔ گھوڑے اور گدھے کی سواری میں کوئی خاص فرق نہیں تھا لیکن لگتا تھا گدھا گھوڑے سے زیادہ بہتر راستوں سے آشنا تھا۔ چند کلو میٹر کا فاصلہ طے کیا تھا کہ اسرار احمد کا دوست مل گیا جس نے موٹر سائیکل پیش کردی۔ موٹر سائیکل چلانے میں وہ بہت مشاق ہے۔ چند منٹوں میں وادی بھنبھوریت پہنچا دیا۔ جہاں مریضوں کا جم غفیر تھا۔ اگرچہ تھکاوٹ تھی۔ مگر مریضوں کی حالت کے پیش نظر جاتے ہی کیمپ شروع کر دیا۔

کالب چھا میرا (بدن میں درد)، مہہ چھامیرا (کمر میں درد)، اندور (بخار)، جلاب (ڈائریا) کی گردانیں شروع ہوگئیں۔ وادی کیلاش کے خوبصورت بچوں اور بچیوں کی آمد شروع ہوگئی۔ اسلم مروت، عبدالرؤف اور اسرار احمد وادیوں میں گھوم کر متاثرہ گھروں میں ترپال، برتن اور ریلیف کی اشیاء پہنچانے میں لگ گئے۔ بچیوں کو گفٹس، سوٹ اور عورتوں کو چادریں ملنے لگیں تو کیلاشی مریضوں کا جم غفیر جمع ہوگیا۔

LHV حسرت گل اور زرمحمد نے ہمارے ساتھیوں کو بھی میلے میں آنے کی دعوت دے رکھی تھی۔ اگرچہ سارا دن چل کر ساتھی تھکن سے بے جان تھے۔ کیلاش کلچر سے روشناس ہونے کا اور اس کو بہتر طور پر جاننے کا یہ ایک نادر موقع تھا۔ اہل کیلاش سال میں تین تہوار مناتے ہیں۔ جن میں اورچال میلہ 22 اگست کی رات کو ہوتا ہے۔

کافرستان میں اذان:
صبح سویرے مروت کے فون نے جگا دیا۔ ابھی صبح کاذب ہے۔ تاروں بھری رات پر ویسے تو سکوت طاری ہے لیکن دریا کی روانی فضا میں گونج رہی ہے۔ موسم انتہائی خوش گوار اور ٹھنڈا ہے۔ وضو کرکے کافرستان کے اس علاقے میں اللہ اکبر کا نعرہ بلند کیا۔ فجر کی اذان دی۔ اللہ کا شکر ادا کیا کہ اس نے اس علاقے میں آ کر اپنا کلمہ بلند کرنے کی توفیق بخشی۔ فجر کی نماز باجماعت ادا کی۔ اگرچہ صبح کے پانچ بج چکے ہیں لیکن میلہ ابھی تک جاری ہے۔ ڈھول بجنے کی آوازیں رفتہ رفتہ مدھم ہوتی جا رہی ہیں۔

ابھی صبح کی روشنی پوری طرح ہویدا نہیں ہوئی تھی جب ہم اپنے ہوٹل سے باہرنکل پڑے۔ سورج پہاڑوں کی اوٹ سے سراٹھا رہا تھا۔ علاقے میں مسجد اور مدرسہ سیلاب کی نذر ہوگئے اور اب وہاں دریائے بمبوریت رواں دواں ہے۔ مکئی کی فصل کے کھیت کے مالک نے اپنی زمین مسجد کے لیے عطیہ کردی ۔ مقامی لوگ آگئے۔ تھوڑی سی جگہ کھود کر مسجد کی بنیاد کے لیے پہلا پتھر رکھا اور ساتھ ہی اللہ کا شکر ادا کیا جس نے اتنی دور دراز آ کر خدمت اور علاج کرنے کے ساتھ اللہ کے گھر کی تعمیر میں حصہ ڈالنے کی توفیق دی۔

اسرار احمد عرف زندگی کے والد نے بتایا کہ آج سے 30، 40 سال پہلے جب یہاں کوئی ہوٹل تھا نہ گیسٹ ہاؤس، تو سیاح ان کے ہاں ٹھہرتے۔ آرام کرتے، ناشتہ اور کھانا کھاتے۔ وہ مسلمانوں اور کیلاشیوں میں یکساں مقبول ہیں جہاں سے گزرتے ہیں لوگ انھیںجھک کر سلام کرتے ہیں۔ کیوں نہ کریں وہ بھی صبح سے شام تک لوگوں کی خدمت میں مصروف رہتے ہیں۔

راستے میں ''بی بی کا'' کے بارے میں بتایا کہ یہاں سو سال کی اماں اور 115 سال کا بوڑھا غلام محمد رہتے ہیں۔ وہ بیمار ہیں ان کی خدمت کریں۔ بابا کو السلام علیکم کہا اس نے بڑی محبت سے جواب دیا۔ بابا اور بی بی کو چیک کیا، دوائیں دیں، رقم بھی دی۔ بابا کے بیٹے اختر نے اپنے مکان کی مرمت کے لیے مدد طلب کی۔ اس کی بھی مدد کی۔ ''بی بی کا'' نے اپنے گھر میں لگے ہوئے سیبوں کا تحفہ پیش کیا۔ تازہ، رس بھرے سیب اتنے میٹھے اور رس دارتھے کہ کھا کر مزا آ گیا۔

دوباش کی پولیس چیک پوسٹ پر کچھ ساتھی پہلے ہی پہنچ چکے تھے۔ پولیس کے اہلکار اور دوسرے لوگ ڈاکٹر کا سن کر آگئے اور یوں یہاں ہمارا مِنی میڈیکل کیمپ شروع ہوگیا۔ چیک پوسٹ کا صوبیدار عبدالکبیر شاہ بڑا دلچسپ کردار ہے۔ 37 سال پولیس سروس میں گزار چکا ہے ترقی نہ ملنے پر نالاں تھا اور شکایت کر رہا تھا کہ میری بیوی طعنے دیتی ہے کہ تمہاری پروموشن کیوں نہ ہوئی۔ اس کا جواب اس کا محکمہ ہی دے سکتا ہے شاید یہ تحریر چھپنے کے بعد اس کو ترقی مل جائے۔ بابا گرم گرم قہوہ لے آیا جسے پی کر سفر کی تھکان دور ہوگئی۔

ہمارے دوست زندگی کو راستے میں جاتی ہر عورت اور مرد سلام کر رہے تھے اور حال احوال پوچھ رہے تھے۔ راستے میں پھر کٹی ہوئی سڑک آگئی۔ موٹر سائیکل سے اتر کر پیدل چلنا پڑا۔ اَٹے کٹے، مہیب، خطرناک منہ کھولے، نوکیلے پہاڑوں کے درمیان اَٹی کٹی تنگ سڑک سے گزرنا بہت ہی خطرناک اور مشکل لگ رہا تھا۔

یوں گمان ہوتا تھا کہ یہاں جلد ہی لینڈ سلائیڈنگ شروع ہوجائیگی اور ہم پتھروں میں دب جائیں گے۔تھوڑی دیر پیدل چل کر کل والا ڈرائیور اور اس کی گاڑی نظر آئی تو جان میں جان آئی۔ اللہ کا شکر ادا کیا جس نے زندگی کا مشکل ترین، جاں گسل، پرخطر سفر کامیابی سے طے کرایا اور پھر آفت زدہ علاقے میں اپنے بندوں کی خدمت کرنے کی توفیق دی۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں