بہادروں کی کہانی
آج دو بہادر نوجوانوں کا ذکر مطلوب ہے، ان میں سے ایک کا تعلق فن سپہ گری سے تو دوسرے کا فن مصوری سے ہے۔
آج دو بہادر نوجوانوں کا ذکر مطلوب ہے، ان میں سے ایک کا تعلق فن سپہ گری سے تو دوسرے کا فن مصوری سے ہے۔ ایک کے ہاتھ میں تلوار تو دوسرے کی انگلیوں میں برش اور پنسل جب کہ دونوں کا ہر کسی کے دل میں بلاتامل اتر جانا قابل فہم ہے۔ اگر تلوار کا دشمن کے دل میں اترنا جہاد ہے تو برش کا دیدہ ور کے دماغ و دل کی ضیافت کا اہتمام کرنا خوش آئند۔
ط ز کیانی کا والد گل زمان کیانی ایبٹ آباد کے ایک دور افتادہ گاؤں سے راولپنڈی آیا تھا۔ میری اس شہر میں تعیناتی پر وہ میرے پاس ملازم ہوا۔ کچن اور گھر کی دیگر ذمے داریاں اس کے سپرد تھیں۔ میرے صبح کچہری روانہ ہونے کے بعد ایک ڈیڑھ گھنٹے میں وہ کام سے فارغ ہو کر صرف میری واپسی کا منتظر ہوتا۔ محنتی، خوش اخلاق، ایماندار اور صاف ستھرا تھا، بری صحبت سے دور رہتا اور ہر کام ذمے داری سے کرتا۔ ایک روز کہنے لگا سارا دن بیکار رہ کر تنگ آ جا تا ہوں، کسی دفتر کی ملازمت مل جائے تو اضافی آمدنی سے گاؤں میں والدین اور بیوی بچوں کی بہتر خدمت ہو جائے گی۔
ان دنوں اہل سیاست کی سرکاری محکموں میں دخل اندازی کم تھی۔ میرٹ پر بھی کام ہو جاتے تھے۔ محکمہ انکم ٹیکس میں نائب قاصد کی آسامیاں نکلیں تو گل زماں کو دوسری ملازمت بھی مل گئی۔ قریب تین ماہ کے بعد مجھ سے بولا کہ وہ ملازمت چھوڑنا چاہتا ہے۔ پوچھا کیوں تو کہنے لگا دفتر میں آنیوالے بعض لوگ زبردستی مجھے پیسے دینا چاہتے ہیں جو مجھے پسند نہیں۔ مجھے اس کا جواب سن کر پہلے حیرت ہوئی پھر خوشی۔ میں نے اسے ٹیلی ویژن کارپوریشن میں نائب قاصد بھرتی کرا دیا۔ یہ نوکری اسے پسند آئی پھر ایک روز گل زماں نے کہا کہ اس کے گھرانے میں کوئی فرد تعلیم یافتہ نہیں ہے۔
کیا وہ اپنے بیٹے کیانی کو گاؤں سے راولپنڈی لا سکتا ہے تا کہ وہ تعلیم حاصل کر سکے۔ میں نے اجازت بھی دے دی اور چار سال کے بچے کو اس اسکول میں داخل کرا دیا جس میں اس کے باس کا بیٹا تعلیم حاصل کر رہا تھا۔ وہ بچہ تعلیم حاصل کرتا رہا اور اس کا والد ٹیلی ویژن کارپوریشن اور میرے پاس مصروف کار رہا۔ مہینے سالوں میں تبدیل ہوتے رہے اور بیٹا کیانی تعلیم کی منازل طے کرتے کرتے ایک روز پاک فوج میں کمیشنڈ آفیسر بن گیا۔
جس روز یہ بچہ فوجی وردی میں دیکھا، انتہائی مسرت کا دن تھا اور پھر جب مجھے گزشتہ ہفتے پتہ چلا کہ وہ خوش شکل معصوم سا بچہ لیفٹیننٹ کرنل کے عہدے پر ترقی پا گیا ہے تو میری خوشی اور فخر کی انتہا نہ رہی اور اب میں تصور میں اس کی یونیفارم کے کالر میں Red Tag بھی دیکھ رہا ہوں۔
یہ تو ذکر تھا اس بچے کا جو میرے سامنے اسکول سے نکلا اور اس پروفیشن کا حصہ بن گیا جو ان دنوں انسانوں کی شکل میں درندگی کا مظاہرہ کرنیوالے دہشتگردوں کی بیخ کنی میں مصروف عمل ہے اور اب میرے سامنے دوسرا بچہ ہے جس نے معذوری کو شکست دے کر طاقت میں بدل دیا اور سیاہی پر برش پھیر کر اسے قوس قزع کا رنگ دے دیا۔ یہ اکتیس سالہ محمد برکات مظہر ہے جس کی پینٹنگز کی نمائش کا اہتمام روٹری کلب نے 4 دسمبر 2015ء کو الحمرا آرٹ گیلری میں کیا تھا۔
چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ بننے کا خواہش مند ہونہار لڑکا کس طرح فن مصوری کی وادیٔ خوش رنگ میں جا پہنچا اس میں درد اور تسکین کا امتزاج ہے۔ بائیس سال کی عمر میں نو سال قبل وہ موٹرسائیکل چلاتے ہوئے ایک ٹریفک حادثے میں زخمی ہوا۔ اس کے سر اور جسم کے دوسرے حصوں پر شدید چوٹیں آئیں اور وہ ایک سے دوسرے اسپتال میں زیر علاج رہا۔ اس کی چھ سرجریاں ہوئیں۔ گھر لوٹا تو اس کے جسم کا دایاں حصہ مفلوج تھا۔ ہونٹ، زبان اور چہرہ فالج زدہ تھا اور وہ بولنے اور کروٹ لینے کے قابل بھی نہ تھا۔ تین ماہ کی فزیو تھراپی کے بعد وہ بستر پر چلنے کے قابل ہوا۔ دراصل حادثے کے بعد اس کے علاج میں ڈاکٹروں نے مطلوبہ توجہ نہ دی تھی۔ حادثہ ہوئے اب نو سال کا عرصہ ہو چکا لیکن اب وہ بات سن اور سمجھ تو لیتا ہے لیکن ابھی بول نہیں سکتا۔
ٹریفک حادثے نے اسے بے بس کر دیا اور اس پر مایوسی نے غلبہ پایا تو وہ زندگی سے بیزار بھی ہوا لیکن فیملی اور دوستوں نے اس کی ڈھارس بندھائی پھر ڈاکٹروں نے مشورہ دیا کہ برکات میں مصوری کی امنگ جگائی جا سکے تو اسے برش اور قلم سے تصاویر تخلیق کرنے کے دوران وہ ان سے خاموش کلام کرتے ہوئے متحرک ہو سکتا ہے۔ یہ کوشش مثبت نتائج لے آئی اور وہ کینوس اور برش کاغذ اور پنسل کے ذریعے اپنی بنائی ہوئی تصاویر اور پینٹنگز سے ہمکلام ہونے لگا۔ اس کے بائیں ہاتھ نے اس کے تخلیقی ذہن کا ساتھ دیا پھر پروفیسر اعجاز انور نے جو نامور مصور ہیں، اس کی سرپرستی و رہنمائی کا بیڑہ اٹھایا۔
اعجاز انور جو معروف کارٹونسٹ انور کے صاحبزادے اور ان کے کارٹونز ننھا کے کردار ہیں، برکات کے لیے ڈاکٹروں سے بڑے مسیحا ثابت ہوئے۔ اسے مصوری کے اسرار و رموز سمجھائے، اس کی باریکیوں کے اسباق پڑھائے تو برکات کی تخلیقات میں جان پڑنے لگی۔ وہ پنجاب یونیورسٹی کے فائن آرٹس ڈیپارٹمنٹ میں داخل ہو گیا اور بیچلرز ان فائن آرٹس (آنرز) کی ڈگری بھی حاصل کر لی۔ اب وہ نیشنل کالج آف آرٹس (NCA) میں داخلہ لے کر مزید تعلیم حاصل کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔ ٹریفک حادثہ سے پہلے برکات کی دلچسپیاں متنوع تھیں جو اب کم ہو کر مصوری تک محدود رہ گئی ہیں۔
کینوس پر اس کی آئل پینٹنگز پیغام دیتی ہیں کہ حالات اور حادثات کسی انسان کو معذور بھی کر دیں تو ہمت، حوصلہ اور کچھ کر دکھانے کی لگن جس میں خدائی تائید بھی شامل ہو اسے کامیابی اور فتح مندی، شہرت اور ہنرمندی، طاقت اور بلندی کی منازل سے محروم نہیں کر سکتی۔
4 دسمبر 2015ء کی وہ شام جب الحمرا کی آرٹ گیلری میں برکات کے مصوری کے فن پاروں کی نمائش حاضرین و شائقین کے دیدہ و دل کی ضیافت کر رہی تھی، ایک بہادر نوجوان کی ہمت و حوصلے، کامیابی و فتح یابی کی دلیل تھی جس نے حوصلہ نہیں ہارا تھا اور اپنی صلاحیت کا لوہا منوا لیا تھا۔ آرٹ گیلری میں داد دینے والوں، آرٹ کے خریداروں اور عزم و ہمت کی تحسین کرنیوالوں کا ہجوم تھا۔ دریا، سمندر و پانی زندگی او روانی کی علامت ہیں، بُزکشی اور پولو کے مردانہ کھیلوں والی منہ زور گھوڑوں کی پینٹنگز میں زندگی طاقت اور کامیابی کی منظرکشی نمایاں تھی جب کہ منصوری کی اس نمائش میں برکات کے عزم و حوصلہ کی جھلک قابل ستائش تھی۔
ط ز کیانی کا والد گل زمان کیانی ایبٹ آباد کے ایک دور افتادہ گاؤں سے راولپنڈی آیا تھا۔ میری اس شہر میں تعیناتی پر وہ میرے پاس ملازم ہوا۔ کچن اور گھر کی دیگر ذمے داریاں اس کے سپرد تھیں۔ میرے صبح کچہری روانہ ہونے کے بعد ایک ڈیڑھ گھنٹے میں وہ کام سے فارغ ہو کر صرف میری واپسی کا منتظر ہوتا۔ محنتی، خوش اخلاق، ایماندار اور صاف ستھرا تھا، بری صحبت سے دور رہتا اور ہر کام ذمے داری سے کرتا۔ ایک روز کہنے لگا سارا دن بیکار رہ کر تنگ آ جا تا ہوں، کسی دفتر کی ملازمت مل جائے تو اضافی آمدنی سے گاؤں میں والدین اور بیوی بچوں کی بہتر خدمت ہو جائے گی۔
ان دنوں اہل سیاست کی سرکاری محکموں میں دخل اندازی کم تھی۔ میرٹ پر بھی کام ہو جاتے تھے۔ محکمہ انکم ٹیکس میں نائب قاصد کی آسامیاں نکلیں تو گل زماں کو دوسری ملازمت بھی مل گئی۔ قریب تین ماہ کے بعد مجھ سے بولا کہ وہ ملازمت چھوڑنا چاہتا ہے۔ پوچھا کیوں تو کہنے لگا دفتر میں آنیوالے بعض لوگ زبردستی مجھے پیسے دینا چاہتے ہیں جو مجھے پسند نہیں۔ مجھے اس کا جواب سن کر پہلے حیرت ہوئی پھر خوشی۔ میں نے اسے ٹیلی ویژن کارپوریشن میں نائب قاصد بھرتی کرا دیا۔ یہ نوکری اسے پسند آئی پھر ایک روز گل زماں نے کہا کہ اس کے گھرانے میں کوئی فرد تعلیم یافتہ نہیں ہے۔
کیا وہ اپنے بیٹے کیانی کو گاؤں سے راولپنڈی لا سکتا ہے تا کہ وہ تعلیم حاصل کر سکے۔ میں نے اجازت بھی دے دی اور چار سال کے بچے کو اس اسکول میں داخل کرا دیا جس میں اس کے باس کا بیٹا تعلیم حاصل کر رہا تھا۔ وہ بچہ تعلیم حاصل کرتا رہا اور اس کا والد ٹیلی ویژن کارپوریشن اور میرے پاس مصروف کار رہا۔ مہینے سالوں میں تبدیل ہوتے رہے اور بیٹا کیانی تعلیم کی منازل طے کرتے کرتے ایک روز پاک فوج میں کمیشنڈ آفیسر بن گیا۔
جس روز یہ بچہ فوجی وردی میں دیکھا، انتہائی مسرت کا دن تھا اور پھر جب مجھے گزشتہ ہفتے پتہ چلا کہ وہ خوش شکل معصوم سا بچہ لیفٹیننٹ کرنل کے عہدے پر ترقی پا گیا ہے تو میری خوشی اور فخر کی انتہا نہ رہی اور اب میں تصور میں اس کی یونیفارم کے کالر میں Red Tag بھی دیکھ رہا ہوں۔
یہ تو ذکر تھا اس بچے کا جو میرے سامنے اسکول سے نکلا اور اس پروفیشن کا حصہ بن گیا جو ان دنوں انسانوں کی شکل میں درندگی کا مظاہرہ کرنیوالے دہشتگردوں کی بیخ کنی میں مصروف عمل ہے اور اب میرے سامنے دوسرا بچہ ہے جس نے معذوری کو شکست دے کر طاقت میں بدل دیا اور سیاہی پر برش پھیر کر اسے قوس قزع کا رنگ دے دیا۔ یہ اکتیس سالہ محمد برکات مظہر ہے جس کی پینٹنگز کی نمائش کا اہتمام روٹری کلب نے 4 دسمبر 2015ء کو الحمرا آرٹ گیلری میں کیا تھا۔
چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ بننے کا خواہش مند ہونہار لڑکا کس طرح فن مصوری کی وادیٔ خوش رنگ میں جا پہنچا اس میں درد اور تسکین کا امتزاج ہے۔ بائیس سال کی عمر میں نو سال قبل وہ موٹرسائیکل چلاتے ہوئے ایک ٹریفک حادثے میں زخمی ہوا۔ اس کے سر اور جسم کے دوسرے حصوں پر شدید چوٹیں آئیں اور وہ ایک سے دوسرے اسپتال میں زیر علاج رہا۔ اس کی چھ سرجریاں ہوئیں۔ گھر لوٹا تو اس کے جسم کا دایاں حصہ مفلوج تھا۔ ہونٹ، زبان اور چہرہ فالج زدہ تھا اور وہ بولنے اور کروٹ لینے کے قابل بھی نہ تھا۔ تین ماہ کی فزیو تھراپی کے بعد وہ بستر پر چلنے کے قابل ہوا۔ دراصل حادثے کے بعد اس کے علاج میں ڈاکٹروں نے مطلوبہ توجہ نہ دی تھی۔ حادثہ ہوئے اب نو سال کا عرصہ ہو چکا لیکن اب وہ بات سن اور سمجھ تو لیتا ہے لیکن ابھی بول نہیں سکتا۔
ٹریفک حادثے نے اسے بے بس کر دیا اور اس پر مایوسی نے غلبہ پایا تو وہ زندگی سے بیزار بھی ہوا لیکن فیملی اور دوستوں نے اس کی ڈھارس بندھائی پھر ڈاکٹروں نے مشورہ دیا کہ برکات میں مصوری کی امنگ جگائی جا سکے تو اسے برش اور قلم سے تصاویر تخلیق کرنے کے دوران وہ ان سے خاموش کلام کرتے ہوئے متحرک ہو سکتا ہے۔ یہ کوشش مثبت نتائج لے آئی اور وہ کینوس اور برش کاغذ اور پنسل کے ذریعے اپنی بنائی ہوئی تصاویر اور پینٹنگز سے ہمکلام ہونے لگا۔ اس کے بائیں ہاتھ نے اس کے تخلیقی ذہن کا ساتھ دیا پھر پروفیسر اعجاز انور نے جو نامور مصور ہیں، اس کی سرپرستی و رہنمائی کا بیڑہ اٹھایا۔
اعجاز انور جو معروف کارٹونسٹ انور کے صاحبزادے اور ان کے کارٹونز ننھا کے کردار ہیں، برکات کے لیے ڈاکٹروں سے بڑے مسیحا ثابت ہوئے۔ اسے مصوری کے اسرار و رموز سمجھائے، اس کی باریکیوں کے اسباق پڑھائے تو برکات کی تخلیقات میں جان پڑنے لگی۔ وہ پنجاب یونیورسٹی کے فائن آرٹس ڈیپارٹمنٹ میں داخل ہو گیا اور بیچلرز ان فائن آرٹس (آنرز) کی ڈگری بھی حاصل کر لی۔ اب وہ نیشنل کالج آف آرٹس (NCA) میں داخلہ لے کر مزید تعلیم حاصل کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔ ٹریفک حادثہ سے پہلے برکات کی دلچسپیاں متنوع تھیں جو اب کم ہو کر مصوری تک محدود رہ گئی ہیں۔
کینوس پر اس کی آئل پینٹنگز پیغام دیتی ہیں کہ حالات اور حادثات کسی انسان کو معذور بھی کر دیں تو ہمت، حوصلہ اور کچھ کر دکھانے کی لگن جس میں خدائی تائید بھی شامل ہو اسے کامیابی اور فتح مندی، شہرت اور ہنرمندی، طاقت اور بلندی کی منازل سے محروم نہیں کر سکتی۔
4 دسمبر 2015ء کی وہ شام جب الحمرا کی آرٹ گیلری میں برکات کے مصوری کے فن پاروں کی نمائش حاضرین و شائقین کے دیدہ و دل کی ضیافت کر رہی تھی، ایک بہادر نوجوان کی ہمت و حوصلے، کامیابی و فتح یابی کی دلیل تھی جس نے حوصلہ نہیں ہارا تھا اور اپنی صلاحیت کا لوہا منوا لیا تھا۔ آرٹ گیلری میں داد دینے والوں، آرٹ کے خریداروں اور عزم و ہمت کی تحسین کرنیوالوں کا ہجوم تھا۔ دریا، سمندر و پانی زندگی او روانی کی علامت ہیں، بُزکشی اور پولو کے مردانہ کھیلوں والی منہ زور گھوڑوں کی پینٹنگز میں زندگی طاقت اور کامیابی کی منظرکشی نمایاں تھی جب کہ منصوری کی اس نمائش میں برکات کے عزم و حوصلہ کی جھلک قابل ستائش تھی۔