خمیازہ سب کو بھگتنا ہو گا

ایک ایسے زمانے میں جب ہر طرف سے خون میں ڈوبی ہوئی خبریں آتی ہیں،


Zahida Hina December 06, 2015
[email protected]

ایک ایسے زمانے میں جب ہر طرف سے خون میں ڈوبی ہوئی خبریں آتی ہیں، کچھ ایسے لوگ سامنے آ جاتے ہیں جو حیران کر دیتے ہیں، پیرس کی سڑکوں پر جب خون کے چھینٹے تھے، ایک عمومی خیال یہ تھا کہ ہر طرف سے انتقام کی آواز اٹھے گی لیکن پیرس حملوں میں ہلاک ہونے والی ایک خاتون کے شوہر نے سوشل میڈیا پر داعش کے ان نامعلوم لوگوں کو مخاطب کیا جن کی گولیوں سے اس کی چہیتی بیوی ختم ہوئی تھی۔ اس نے لکھا کہ ''تم مجھے نفرت پر مجبور نہیں کر سکتے۔

تم نے میرے جیون کا پیار اور میرے بیٹے کی ماں کی جان لے لی ہے لیکن تم میری نفرت سے بھی محروم رہو گے، تم کون ہو میں نہیں جانتا اور میں جاننا بھی نہیں چاہتا، جس خدا کے نام پر تم قتل و غارت کر رہے ہو اگر اس خدا نے ہمیں اپنی شبیہ پر پیدا کیا ہے تو پھر جان لو کہ میری زندگی کے جسم کو چھیدنے والی ہر گولی اس کے دل میں ایک زخم کی صورت دھار چکی ہو گی! اسی لیے میں تمہیں اپنی نفرت کا تحفہ بھی نہیں دوں گا۔ تم نے مجھ سے نفرت چاہی تھی لیکن نفرت کا جواب غصے سے دینے کا مطلب ہو گا کہ میں نے اس کم عقلی کے آگے سپر ڈال دی ہے جس نے تمہیں آج اس حالت میں لا کھڑا کیا ہے! تم مجھے خوفزدہ کرنا چاہتے ہو کہ میں ہم وطنوں پر اعتبار کرنا چھوڑ دوں۔

حفاظت کی خاطر اپنی زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھوں۔ دیکھو، ہم صرف دو ہیں، میرا بیٹا اور میں لیکن ہم دنیا بھر کی افواج سے زیادہ طاقتور ہیں۔ تم پر ضایع کرنے کے لیے میرے پاس مزید وقت نہیں، مجھے واپس اپنے بیٹے کے پاس جانا ہے جو اب اپنی سہ پہر کی نیند لینے کے بعد بیدار ہو رہا ہے، وہ صرف 17 ماہ کا ہے، ہر روز کی طرح آج بھی وہ اسنیک کھائے گا پھر ہر روز کی طرح ہم کھیلنے جائینگے۔ اپنی زندگی میں ہر دن یہ بچہ اپنی خوشی اور آزادی سے تمہاری تذلیل کرتا رہے گا کیونکہ تم اس کی نفرت سے بھی محروم رہو گے!''۔

سوشل میڈیا کے ذریعے منٹوں میں یہ پیغام ساری دنیا میں پھیل گیا اور دنیا کے ہر کونے سے اس غمزدہ شوہر کے رویے کی تحسین کی گئی۔ یہ اس بات کی تحسین تھی کہ نفرت کا جواب نفرت سے نہیں دیا جا سکتا۔ انتقام کا خنجر ہمارے دشمن کو نہیں، خود ہمیں ہلاک کر دیتا ہے۔

یہ ایک مختلف رویہ ہے اور افسوس کہ ہم اس راستے پر نہیں چلتے۔ میری سمجھ میں وہ بھائی نہیں آتا جس نے 30 نومبر کو بلدیاتی انتخابات میں اپنا ووٹ ڈالنے والی بہن کو ٹیکسلا میں صرف اس لیے ہلاک کر دیا کہ ایک عورت ہو کر اس نے یہ جرأت کیسے کی۔ بہن آصفہ نورین اپنے قاتل بھائی سے 12 برس بڑی تھی۔ ایک بچی کی ماں تھی اور اپنے باپ کے قائم کیے ہوئے اسکول میں پڑھاتی تھی۔

قاتل نے اپنی بڑی بہن سے تلخ کلامی کی اور پھر گھر کے تمام لوگوں کے سامنے بہن کو پیٹ میں گولی مار کر ہلاک کر دیا اور فرار ہو گیا۔ نورین کا مقدمہ اس کے والد کی مدعیت میں درج ہو گیا لیکن ہم نہیں جانتے کہ ووٹ ڈالنے کے جرم کا ارتکاب کرنے والی نورین کو انصاف بھی مل سکے گا یا نہیں۔ یاد رہے ہمارے یہاں جنرل ضیاء الحق کے نافذ کردہ متنازعہ قصاص اور دیت کے قوانین بھی موجود ہیں۔

عورتوں کے بارے میں عمومی طور سے ہمارے رویے کس قدر سفاکانہ ہیں، اس کا اندازہ روزانہ کے اخباروں سے ہوتا ہے جن میں کبھی تیزاب پھینک کر ان کا چہرہ مسخ کیا جاتا ہے، کبھی وہ خنجر سے، کبھی پستول کی گولی سے مار دی جاتی ہیں، کہیں وہ کاری کی جاتی ہیں، کبھی جائیداد کی خاطر قتل کی جاتی ہیں۔ جرمنی اور انگلستان جا کر بھی ہمارا یہی رویہ رہتا ہے۔ چند دنوں پہلے ہی جرمنی سے ان پاکستانی ماں باپ کی خبر آئی جنھوں نے اپنی نوجوان بیٹی کا گلا گھونٹ کر اسے جان سے مار دیا تھا اور پھر اس کے بدن کے ٹکڑے سیلوفین میں لپیٹ کر مختلف جگہوں پر پھینک دیے تھے۔

ان کا خیال تھا کہ انھوں نے جو کچھ بھی کیا وہ ان کا حق ہے لیکن جرمن تفتیش کاروں نے اس جرم کو اپنے قوانین کی نگاہ سے دیکھا۔ ماں باپ دونوں گرفتار ہوئے، مقدمہ چلا۔ قتل باپ نے کیا تھا لیکن اس جرم میں ماں برابر کی شریک تھی اس لیے دونوں کو عمر قید کی سزا ملی۔ جرمنی سے ایسی خبریں اکثر آتی ہیں اور ان میں اکثریت ترکوں اور پاکستانیوں کی ہوتی ہے۔ برطانیہ میں غیرت کے نام پر قتل صرف مسلمان نہیں، سکھ بھی کرتے ہیں اور ٹھنڈے ٹھنڈے جیل کی ہوا کھاتے ہیں۔

کوئی دن ایسا نہیں جاتا جب اسی طرح کی کوئی پریشان کردینے والی خبر نہ آتی ہو۔ امریکا سے تازہ ترین خبر یہ ہے کہ ایک پاکستانی نژاد امریکی نوجوان اور اس کی بیوی تاشفین نے معذور افراد کی ایک تقریب میں اندھا دھند فائرنگ کر کے درجنوں افراد کو ہلاک اور زخمی کر دیا۔ بعدازاں، یہ نوجوان جوڑا پولیس کے ساتھ ایک مقابلے کے بعد مارا گیا۔

یہ کیسا جنون تھا کہ معصوم اور معذور انسانوں کے خلاف اس بھیانک جرم کا ارتکاب کرنے سے پہلے دونوں نے اپنے چھ ماہ کے بچے کو دادی کے حوالے کر دیا تھا۔ گویا یہ ٹھنڈے دماغ سے سوچا سمجھا ایک اقدام تھا۔ یہ عمل کسی اضطراری کیفیت میں سرزد نہیں ہوا، اس کے لیے ہفتوں بلکہ مہینوں سے تیاری کی گئی تھی اور مختلف قسم کے خطرناک آتشیں اسلحے کا ایک بڑا ذخیرہ بھی جمع کیا گیا تھا۔ یہ نوجوان امریکی شہری تھا، اس نے امریکا کی ایک نامور یونیورسٹی سے تعلیم حاصل کی تھی اور اس کے پاس ایک معقول ملازمت بھی تھی۔ سب کچھ بہترین تھا، لیکن اس کے باوجود، جنون کی یہ کیفیت بہت کچھ سوچنے پر ضرور مجبور کر دیتی ہے۔

ایک بڑا المیہ یہ ہے کہ دنیا سے ٹکرانے اور اسے تباہ کرنے کی ایک سوچ اور ذہن تیار کیا گیا ہے اور یہ ذہن پیدا کرنے والے آج خود اس کا نشانہ ہیں۔ اس نوعیت کے متشدد مذہبی سوچ کو پیدا کرنے اور پروان چڑھانے میں امریکا اور مغرب کا کردار بنیادی تھا۔ یہاں یہ دہرانے کی ضرورت نہیں ہے کہ کمیونسٹ دنیا سے مقابلہ کرنے کے لیے امریکا اور یورپی ملکوں نے مذہبی جنون کو خوب ہوا دی۔ یہ مہم چلائی گئی کہ امریکا اور سوویت یونین کے درمیان جنگ محض دو ملکوں کی جنگ نہیں ہے، یہ دو نظریوں کے درمیان جنگ ہے، یہ الحاد اور مذہب کے درمیان جنگ ہے، یہ خدا کے ماننے اور اس کے نہ ماننے والوں کے درمیان جنگ ہے۔

اس جنگ میں اگر سوویت یونین کامیاب ہو جائے گا تو پوری دنیا پر ملحدوں کا قبضہ ہو جائے گا اور دنیا سے مذہب کا نام و نشان مٹا دیا جائے گا۔ اس مہم کے لیے مسلمان ملکوں کی مذہبی جماعتوں، فوجی آمروں اور ان کی ایجنسیوں کو خوب استعمال کیا گیا۔ امریکا کو یہ جاننا چاہیے تھا کہ آپس کی سیاسی اور معاشی لڑائی میں مذہب بالخصوص مسلمانوں اور اسلام کو اپنے سامراجی مفادات کے لیے استعمال کرنے کے نتائج کتنے بھیانک ہوں گے۔

سوویت یونین اور کمیونسٹ بلاک کا انہدام ہو گیا۔ اس کے اسباب الگ تھے لیکن تاثر یہ دیا گیا یہ یہ انہدام مسلمان مجاہدین کی طاقت سے ہوا ہے۔ اب کہ جب دنیا میں سوویت بلاک نہیں رہا تو یہ شدت پسند اپنی ریاستوں پر قابض ہونا چاہتے ہیں اور '' الحاد'' کے خاتمے کے بعد '' مشرکین اور کافرین'' کو بھی فنا کرنے کے درپے ہیں۔

جب کسی گروہ میں انتہا پسندی کو عروج ملتا ہے تو سماج کے کمزور ترین طبقے اور افراد اس کا سب سے آسان ہدف ثابت ہوتے ہیں۔ ان میں عورتیں ، معذور افراد، بے گناہ شہری اور اختلاف رائے کرنے والے سب ہی شامل ہوتے ہیں۔ پوری دنیا میں مذہب کے نام پر آج جو بھیانک دہشت گردی جاری ہے اس کو روکنے کے لیے سرد جنگ میں جو ذہن پیدا کیا گیا تھا اُسے ختم کرنا ہو گا۔ دنیا کے تمام حکمرانوں کو سمجھنا ہو گا کہ اپنے مفاد اور اقتدار کو بچانے کے لیے اگر مذہبی، مسلکی یا نسلی منافرت کو استعمال کیا جائے گا تو اس کا نقصان بالآخر خود انھیں ہی اٹھانا پڑے گا۔

امریکا اور مغرب کے ساتھ مسلم دنیا کے حکمرانوں کو بھی حالات سے سبق سیکھنا ہو گا۔ ماضی میں انھوں نے اپنی آمریتوں اور بادشاہتوں کو بچانے کے لیے سامراجی ملکوں کا خوب ساتھ دیا تھا اور انتہا پسند مذہبی قوتوں کی مکمل سرپرستی کی تھی جو آج خود آپ کے درپے ہیں۔ مسلمان ملکوں کے حکمرانوں نے اگر جمہوریت کو راستہ دیا ہوتا تو لوگوں کو سیاسی، معاشی ، سماجی انصاف ملتا اور انتہا پسندی کے حوالے سے ان کے دل میں کوئی نرم گوشہ پیدا نہ ہوتا۔ اب بھی وقت ہے کہ مسلمان ملکوں میں جمہوریت کو آنے دیا جائے اور اسے مستحکم کیا جائے اور جمہوری اور لبرل قوتوں کو نہ کچلا جائے۔

یاد رکھیں، امریکا اور مغرب تو یہ جنگ لڑ سکیں گے لیکن آپ کے لیے ایسا کرنا شاید ممکن نہ ہو۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں