وہ ٹی وی کہاں گیا
ہمارا دوسرا سب سے بڑا اور اہم مسئلہ پنشن کا ہے جو اس بڑھاپے کی عمر میں ہمارے لیے آب حیات سے کم نہیں۔
ISLAMABAD:
ایک زمانہ تھا اور اس پر کچھ زیادہ وقت نہیں گزرا کہ پاکستان ٹیلی ویژن کے کئی پروگرام دیکھنے کے لیے خصوصی وقت نکالنا پڑتا تھا اور پاکستان ہی نہیں بھارت میں ہمارے دوست بھی پی ٹی وی کے کئی ڈراموں کے عاشق تھے۔ میں چند دنوں سے آرام کر رہا ہوں۔ میں نے فرصت کے ان لمحوں میں پی ٹی وی سے مدد لینے کی کوشش کی کہ اپنی فرصت کو بہلا سکوں لیکن وہاں کچھ نہیں تھا۔ میں نے ادھر ادھر سے پوچھا کہ ٹی وی کے وہ ڈرامے کہاں گئے۔ جواب خاموشی تھی۔
پھر میں نے یاد کرنے کی کوشش کی کہ ہمارے وہ ادیب اور ڈرامہ نگار ماشاء اللہ نہ صرف موجود ہیں بلکہ سرگرم بھی ہیں مگر ٹی وی والے ان سے رجوع نہیں کرتے یا وہ اب آج کے ٹی وی والوں کو اپنی توجہ کے قابل نہیں سمجھتے کہ ٹی وی کی اسکرین ان دنوں دو چار مزاحیہ پروگراموں کے سوا اور کچھ نہیں دکھاتی۔ آخر یہ سب کیوں ہے۔
کیا لکھنے والے منکر ہو گئے ہیں یا ٹی وی والے ان سے تنگ آ گئے ہیں۔ بہرکیف کچھ تو ہے کہ ہم عام ناظرین اپنے ٹی وی سے محروم یعنی اس کے شاندار ماضی سے محروم ہو گئے ہیں جب کہ ضیاء الحق کے زمانے میں بھی ٹی وی پر رومانس چلتا تھا۔ اور اسے کوئی روکتا نہیں تھا۔ اس سے قبل بھی ٹی وی بارونق تھا۔ سیکریٹری اطلاعات ایک بار بتانے لگے کہ ایک دن صدر صاحب نے مجھ سے پوچھا کہ آپ نے ٹی وی پر فلاں گانا سنا کہ نہیں۔ میں نے عرض کیا کہ سنا نہیں تو پھر سنو ان کا جواب تھا۔ میں ڈر گیا کہ نہ جانے کیا گھپلا ہو گیا ہے۔ میں نے وہ گانا سنا۔ اس میں قابل اعتراض کچھ نہیں تھا۔
دوسرے دن میں تیار ہو کر گیا۔ انھوں نے پھر پوچھا تو میں نے کہا کہ جی دیکھا ہے۔ صدر صاحب نے کہا کہ کیا پسند آیا۔ کتنا اچھا میوزک تھا اور آواز تو خوبصورت تھی ہی۔ یہ سن کر میری سانس میں سانس آئی۔ ٹی وی کے ڈراموں کو کبھی کسی حکمران نے نہیں روکا بلکہ ہمیشہ حوصلہ افزائی ہوئی مگر نہیں معلوم کہ بہتر ڈرامہ نگار موجود ہیں اور ٹی وی بھی پہلے سے زیادہ اور جدید سامان سے آراستہ ہو گیا ہے اور زیادہ بہتر ڈرامے بنا سکتا ہے۔
مجھے معلوم نہیں ٹی وی کا سربراہ کون ہے۔ جو بھی ہے اسے ٹی وی کے شعبے سے کچھ تو واقفیت ہو گی۔ اس لیے اس کا فرض ہے کہ وہ ٹی وی کو زندہ کرے اور ان لوگوں کی مدد لے ان سے مشورے لے اور اس نہایت ہی اہم ادارے کو کارآمد بنا دے۔ معلوم نہیں خوش ذوق حکمرانوں نے اس طرف کیوں توجہ نہیں دی جب کہ کسی حکومت کی مقبولیت کا ایک موثر ذریعہ ٹی وی بھی ہے اور اس سے بہت زیادہ کام لیا جا سکتا ہے۔ سمجھ سے باہر ہے کہ ہمارے حکمران اس سے کیوں بے خبر ہیں یا لاتعلق ہیں تو کیوں ہیں۔
گزشتہ دنوں میں نے ریٹائرڈ ملازمین کے بارے میں ایک کالم لکھا تھا، اس سلسلے میں ایک خط موصول ہوا ہے جو میں نقل کر رہا ہوں۔ پنشن ایک ایسا حق ہے جس کو ہر ملازم یاد رکھتا ہے اور اس کی مدد سے زندگی کے بڑے بڑے منصوبے بناتا ہے۔ بہرکیف یہ خط پیش خدمت ہے:
ریٹائرڈ ملازمین آپ کی توجہ خالصتاً انسانی مسئلے کی طرف مبذول کروانا چاہتے ہیں۔ ریٹائرمنٹ کے بعد ہماری Commutation کی رقم بھی ادا نہیں کر رہی جو کہ ہمارے بڑھاپے کا واحد بڑا سہارا ہے۔ جسے ہم پس انداز کر کے یا کسی کاروبار میں لگا کر مناسب اور جائز فوائد حاصل کر سکتے ہیں۔ افسوسناک صورت حال یہ ہے کہ 2013، 2014ء اور 2015ء میں ریٹائر ہونے والے ملازمین اپنی جائز رقوم کے حصول کے لیے ابھی تک دربدر کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہیں۔ حکومت ہماری کمیوٹیشن کی بھاری رقوم (منافع کے ساتھ) کی فی الفور ادائیگی کرے۔
ہمارا دوسرا سب سے بڑا اور اہم مسئلہ پنشن کا ہے جو اس بڑھاپے کی عمر میں ہمارے لیے آب حیات سے کم نہیں۔
ہمیں مسلسل نظرانداز کر کے اس مہنگائی کے دور میں ہماری مشکلات میں بے حد اضافہ کر رہی ہے۔ ہمارے لیے اس قلیل پنشن سے اپنا نان نفقہ پورا کرنا بھی بے حد مشکل بنتا جا رہا ہے۔ ہمارے بڑھاپے کا یہ واحد سہارا پنشن اس میں اضافہ نہ کرنا کس قدر زیادتی ہے۔
جب حکومت پاکستان ریٹائرڈ سرکاری ملازمین کی پنشنوں میں اضافہ کرتی ہے اس کا اطلاق اسی طرح خودمختار ادارہ کے پنشنروں پر بھی خودبخود ہونا چاہیے۔
ہمیں امید ہے کہ آپ بے کس، لاچار، غریب اور بوڑھے پنشنروں کا ضرور سہارا بنیں گے۔حکومت پاکستان 2012ء سے 2015ء تک پنشن میں کیا جانے والا اضافہ (بقایاجات کے ساتھ) خودمختار ادارہ کے پنشنروں کو فوراً ادا کرے۔ اللہ تعالیٰ یقینا بوڑھے بزرگوں کے ساتھ حسن سلوک کرنے پر جزا دیں گے۔ (انشاء اللہ)۔ کمیوٹیشن کی رقم سے بوڑھے پنشنرز کوئی پلاٹ، مکان، بچوں کی تعلیم و شادی، حج اور عمرہ و دیگر امور نپٹا لیتے تھے، اس سے بھی وہ اب گئے۔