سخاوتوں کے دریا
ہمیں اس قسم کے ’’نیک کاموں‘‘ پر ویسے تو کوئی اعتراض نہیں کہ ان سے کچھ مخصوص عوام کو ہی صحیح فائدہ تو ہوتا ہے
ملک آج جس انتہائی خطرناک موڑ پر کھڑا ہے۔
وہاں سیاسی عیاریوں کی بات کرنا مناسب نہیں لیکن چونکہ ان عیاریوں کے پیچھے قوم و ملک کا کوئی مفاد نظر نہیں آتا بلکہ صرف اور صرف اقتدار پر قبضہ مستحکم کرنے کی خواہش نظر آتی ہے۔ اس لیے ان سیاسی عیاروں کو بے نقاب کرنا ناگزیر ہوجاتا ہے۔ 2008 کے الیکشن کو اب لگ بھگ پانچ سال ہورہے ہیں۔ حالات کا دبائو اتنا شدید ہے کہ ہر جماعت الیکشن کی بات کررہی ہے۔ الیکشن کمیشن 2013 میں انتخابات کروانے کی تیاریوں میں مصروف ہے۔ اس صورت حال میں حزب اقتدار اور حزب اختلاف کہ وہ رہنما جو صوبوں یا مرکز میں برسرِ اقتدار ہیں وہ اتنی فراخ دلی سے عوامی بہبود کے کاموں میں کیوں بے قرار ہیں؟ یہ بے قراری سخاوت پچھلے ساڑھے چار سال سے کہاں سوئی ہوئی تھی؟ آج عوام میں ہزاروں کی تعداد میں لیپ ٹاپ، آٹو رکشا، زمینیں، چیک کیوں تقسیم کیے جارہے ہیں۔ میٹرو بس سروس، اوور ہیڈ برج، انڈر پاس کیوں بنائے جارہے ہیں۔
دانش اور غیر دانش اسکولوں کا پروپیگنڈا کیوں کیا جارہا ہے۔ ان تمام ''عوامی مفادات'' پر جو سرمایہ خرچ کیا جارہا ہے، کیا وہ ان رہنمائوں کا ذاتی سرمایہ ہے یا یہ حکومتی اور قومی سرمایہ ہے؟ اگر یہ سارے نیک کام قومی سرمائے سے کیے جارہے ہیں تو اس کا استعمال اور سماجی بہبود کے کام پچھلے ساڑھے چار برسوں کے دوران کیوں بھلا دیے گئے تھے اور اب ممکنہ انتخابات سے ذرا پہلے یہ اس تیزی سے کیوں کیے جارہے ہیں۔ کیا اس ملک کے بھوکے ننگے اٹھارہ کروڑ عوام کے مسائل چند ہزار لیپ ٹاپ رکشوں، اپنے کارکنوں میں زمین کی تقسیم، ایک شہر میں میٹرو بس سروس اور اوور ہیڈ برج سے ختم ہوسکتے ہیں؟ یا ان ساری سخاوتوں کا مقصد آنے والے الیکشن میں عوام کے ووٹوں پر ڈاکہ ڈالنا ہے۔
ہمیں اس قسم کے ''نیک کاموں'' پر ویسے تو کوئی اعتراض نہیں کہ ان سے کچھ مخصوص عوام کو ہی صحیح فائدہ تو ہوتا ہے، اعتراض یہ ہے کہ ان سخاوتی کاموں کے ذریعے عوام کو بے وقوف بنا کر اٹھارہ کروڑ عوام کے اجتماعی مسائل کو پسِ پشت ڈالنے کی مجرمانہ کوشش کی جارہی ہیں۔
جمہوری نظام میں سیاسی رہنمائوں کو سیاسی جماعتیں بنانے، سیاست کرنے، اقتدار میں آنے یا حزب اختلاف میں رہ کر حکمرانوں کی غلطیوں، غلط پالیسیوں پر تنقید کا حق ہوتا ہے لیکن جمہوری ملکوں کے کلچر میں سیاسی رہنما اہم نہیں ہوتا، سیاسی پارٹی اور اس کا منشور اہم ہوتا ہے۔ جب انتخابات کا مرحلہ سامنے آتا ہے تو ہر سیاسی پارٹی اپنی لیڈر شپ کی صفوں میں سے کسی ایسے شخص کو آگے لاتی ہے جسے وہ اقتداری ذمے داریوں کا اہل سمجھتی ہے اور اگر انتخابات جیت لیتی ہے تو اپنے نامزد امیدوار کو اقتدار سونپ دیتی ہے لیکن پارٹی کے اس نامزد مقتدر شخص کو پارٹی اور عوام کے سامنے جواب دہ ہونا پڑتا ہے۔ جب پارٹی کا نامزد یہ شخص بہ حیثیت صدر یا وزیر اعظم اپنی مدت پوری کرلیتا ہے تو پارٹی کی اجتماعی قیادت اپنے نامزد صدر یا وزیراعظم کی کارکردگی کا جائزہ اپنے منشور اور رائے عامہ کے حوالے سے لیتی ہے۔ اگر اس صدر یا وزیراعظم کی کارکردگی قابلِ اطمینان ہوتی ہے تو اسے دوبارہ اپنا نمائندہ نامزد کرتی ہے، ورنہ کسی دوسرے بہتر شخص کو سامنے لاتی ہے۔
اقتدار سے الگ ہونے والا پارٹی کا نامزد شخص خاموشی سے یا تو پچھلی صفوں میں چلا جاتا ہے یا پھر سیاست سے الگ ہو کر اپنی مرضی کے مطابق زندگی گزارتا ہے۔
ہماری سیاست یا جمہوریت کا المیہ یہ ہے کہ یہاں ایک خاندان پارٹی بناتا ہے، پارٹی پر قابض رہتا ہے، پارٹی کا ہر فیصلہ خود کرتا ہے اور اپنے یا اپنے خاندان کے کسی فرد کے علاوہ کسی کو نہ پارٹی کی قیادت میں آنے دیتا ہے نہ انتخابات میں اسے صدارت یا وزارتِ عظمیٰ کا امیدوار بناتا ہے۔ اس فراڈ سسٹم میں اقتدار میں آنے والا اگر قومی مسائل حل کرنے میں ناکام رہتا ہے اور عوام میں بدنام ہوجاتا ہے تو یہ ناکامیاں بدنامیاں اسے نہ پارٹی کی قیادت سے الگ ہونے پر مجبور کرتی ہیں نہ کسی اہل شخص کو آگے آنے کا موقع فراہم کرتی ہیں۔ خاندانی پارٹیوں، خاندانی حکمرانیوں کا یہی وہ کلچر ہے جس میں ہم 65 سال سے پھنسے ہوئے ہیں اور بار بار ان ہی خاندانی بادشاہوں کو اپنے سروں پر مسلط رکھنے پر مجبور ہیں۔ یہ خاندانی بادشاہ انتخابات سے کچھ پہلے سخاوتوں کے جو دریا بہاتے دِکھائی دیتے ہیں، یہی وہ فراڈ ہے جسے سمجھنے کی ضرورت ہے۔
آج پورا ملک معاشی بدحالی، سیاسی اور سماجی انارکی، غربت، بے کاری، بجلی، گیس کی لوڈشیڈنگ اور سب سے خطرناک دہشت گردی کی زد میں ہے۔ ان مسائل کو حل کرنا نہ کسی ایک رہنما کے بس کی بات ہے نہ کسی ایک جماعت کے بس کی بات ہے۔ اس ناقابل انکار حقیقت کو تسلیم کرنے اور انھیں حل کرنے کے لیے ایک قومی ایجنڈے پر متفق ہونے کے بجائے ہر پارٹی کا بادشاہ یہ دعویٰ کررہا ہے کہ اگر وہ اقتدار میں آیا تو چند مہینوں میں یہ سارے مسائل حل کردے گا۔ یہ چکر بازیوں کا سلسلہ تو اس وقت تک چلتا رہے گا جب تک اس پورے کرپٹ خاندانی نظام کو جڑ سے اکھاڑ کر پھینک نہیں دیا جاتا۔
لیکن ان سب کو نگل لینے والا جو طوفانِ بلا ایک عشرے سے زیادہ عرصے سے پورے خطے کو اپنی لپیٹ میں لیے ہوئے ہے، وہ سوات کی 14 سالہ لڑکی ملالہ پر بہیمانہ حملے کے بعد اپنے کلائمکس پر پہنچ گیا ہے۔ اس 14 سالہ لڑکی پر ہونے والے حملے نے نہ صرف ملک کے 18 کروڑ عوام کو معجزاتی طور پر اس طوفان کے خلاف کھڑا کردیا ہے بلکہ ساری دنیا کو بھی ہلا کر رکھ دیا ہے۔ وہ کام جو امریکا ایساف اور نیٹو جیسی طاقتیں دس سال میں نہ کرسکیں۔
ملالہ نے چند گھنٹوں میں کردیا ہے اور حالات نے اس قوم کو ایک ایسے موڑ پر لاکھڑا کیا ہے جہاں سوچنے اگر مگر چوں چرا کرنے یا نظریاتی الجھنوں میں پھنسنے کی کوئی گنجایش نہیں ہے۔ میں جس وقت یہ کالم لکھ رہا ہوں اخبارات میرے سامنے ہیں اور ان کے صفحۂ اوّل پر درّہ آدم خیل میں ہونے والے بارودی دھماکے میں مارے جانے والوں کی 17 لاشیں اور 41 زخمی پڑے ہوئے ہیں اور ان ہی اخباروں میں ایک شعبے سے متعلق اداروں اور افراد کے قتل کے فرمان بھی موجود ہیں جو لفظ اختلاف زبان پر لانے کی گستاخی کا ارتکاب کررہے ہیں۔ اگر ہم نے متحد ہو کر اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اس طوفانِ بلا سے نجات حاصل کرنے کی کوشش نہ کی تو آنے والے دنوں میں ہم درہ آدم خیل کی سرخی بنے اخبارات کے پہلے صفحات پر بکھرے پڑے نظر آئیں گے۔ ہماری ساری عیاریاں ہمارے ساتھ ہی حرفِ غلط بن جائیں گی۔